نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الفاظ

یہ جو الفاظ ہوتے ہیں نا یہ بھی آئینہ ہوتے ہیں ۔ جن میں سے انسان کا کردار اس کی فطرت جھانکتی ہے ۔ اس مصنوعی دنیا میں بھی کب تک انسان اپنی اصلیت چھپا سکتا ہے ۔ رفتہ رفتہ اوپر چڑھا نقاب اترنا شروع ہو جاتا ہے ۔ اور لفظوں کے آئینوں سے اصلی صورتیں جھانکنے لگتی ہیں ۔
الفاظ میں اور حروف میں اگر طاقت نہ ہوتی تو رب سوہنا کبھی نہ اپنی کتاب کو لکھ کر رکھتا ۔
وہ کہتا ہے نا میرا فرمان لوح محفوظ پر لکھا ہوا محفوظ ہے ۔
اور پھر وہ قسم بھی تو کھاتا ہے ۔ قلم کی اور اس کی جو تحریر کرتے ہیں ۔
کون تحریر کرتے ہیں یہ تو نہیں بتایا انسان پہ چھوڑ دیا کہ غور کر اور سمجھ لے ۔
لکھنا ایسا ہی ہے گویا اپنے سینے کو چیر دینا ۔ اپنے خیالات کو ننگا کر دینا ۔
جو کسی کی تحریر کاپی کرتے ہیں ان کی تحریر بھی اس وقت تک اثر نہیں کر سکتی جب تک وہ خود اس سے پوری طرح متفق نہ ہوں ۔

کچھ لوگوں کی باتیں اور کچھ لوگوں کی تحریریں زندگی کا سبق دیتی ہیں ۔ اور زندگی میں سبق سیکھنے کی تو ہر لمحہ ضرورت رہتی ہے ۔ تبھی تو رب سوہنا پانچ وقت کہتا ہے میرے بندے مجھ سے صراط مستقیم کی مانگ کرتا رہ ۔
پتہ نہیں انسان کی بخشش کس وجہ سے ہونی ہے ۔ کیا چیز کس بندی کی اس مالک کی بارگاہ میں قبول ہونا ہے اور کس بات نے دھتکارا جانا ہے ۔

ایک عابد ستر سال تک عبادت کرتا رہا ۔ پھر اسے ایک عورت ملی ۔ اور اس کے ساتھ اس نے سات دن گزارے ۔ پھر اسے احساس گناہ ہوا ۔ توبہ کی بھٹی میں سلگنے لگا ۔
توبہ قبول ہونے کی بھی ایک نشانی ہوتی ہے ۔ دل کا اطمینان ۔ جو اسے حاصل نہ ہو سکا تڑپ بڑھتی گئی ۔ پر توبہ قبول نہ ہوئی ۔ آخر ایک دن جنگل کی طرف نکل گیا ۔ رات سر پہ آئی تو دور روشنی ٹمٹماتی نظر آئی ۔ جا کر دیکھا تو وہاں ایک کمرے میں مسکین لوگ رہ رہے تھے ۔
بارہ آدمی تھے ایک شخص آتا اور روز ان کو بارہ روٹیاں دے جاتا ۔ اب یہ شخص بھی بھوکا تھا ۔ وہاں بیٹھ گیا ۔
وہ شخص بارہ روٹیاں لایا اور تقسیم کر دیں ۔ اس نے اسے نہیں دیکھا ۔ ایک روٹی اسے مل گئی ۔ تو اب جو مسکین بچا اس نے کہا مجھے آج روٹی نہیں ملی ۔ اور مجھے بھوک بھی بہت لگی ہے ۔ اب اس شخص نے بہت بھوک ہونے کے باوجود روٹی اسے دے دی

الله سوہنے نے فرمایا ۔۔۔ تیری ستر سال کی عبادت سات دن کا گناہ نہ بخشوا سکی ۔ ہاں یہ روٹی کام آگئی ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...