نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*النّاس*

سورۃ یس پڑھنی تھی ۔ بس کتاب الله کا آخری صفحہ سامنے آگیا ۔ اور سوئی وہیں اٹک گئی ۔ 
کیا فرمان ہے میرے رب کا ؟؟
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ
اے نبی صلی الله علیہ وسلم آپ فرما دیجئے  میں  لوگوں کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ۔ 

کمال انداز ہے ۔۔۔ مخاطب تو محبوب کو کیا ۔۔ بندۂ دلنواز کو کیا اور پھر بڑے ہی دلربا انداز میں اپنی شفقت کی طرف مڑ گئے ۔ ربّ الناّس ۔۔۔ لوگوں کا رب ۔۔ یہ تو محبوب اور محب کے بیچ میرا تذکرہ ہے ۔۔۔ الله الله یہ نوازش ۔۔۔یہ کرم یہ ۔۔۔۔عطا 
محبت کی انتہا ۔۔۔ لوگوں کا رب  ، کمزوروں ،  لاچاروں  ، بے آسروں کا رب 
یتیموں ، اسیروں ، نفس کے غلاموں کا رب 
بے کاروں ، گناہگاروں ، بے زاروں کا رب 
امیروں ، بادشاہوں ، سپہ سالاروں  کا رب 
واہ میرے مالک تیری محبت کے رنگ ۔۔۔ 
اسی پر بس نہیں پھر فرمایا ۔۔۔

مَلِكِ النَّاسِ

آپ فرما دیجئے میں لوگوں کے مالک کی پناہ میں آتا ہوں ۔

مالک ہے ۔۔ بے شک مالک ہے ۔۔۔ ہر ہر سانس کا ۔۔ جسے چاہے دے جس کی چاہے روک لے 
مالک ہے ہر ہر حرکت کا ۔۔۔ جسے چاہے اختیار دے جس سے چاہے روک دے 
مالک ہے ہر ہر جز کا جسے چاہے کل بننے دے جسے چاہے روک دے 
اس کی ملک میں تو عالم ہست کی معمولی سے معمولی حقیر سے حقیر تر بھی ہے اور کمال سے کمال عظیم تر بھی ہے 
کہاں اس  کی ملکیت کی حد ختم ہوتی ہے ۔۔۔ ؟ 
کہیں نہیں ۔۔۔ کہیں نہیں 

پھر دھیرے سے کہا 

إِلَهِ النَّاسِ

اے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم فرما دیجئے میں لوگوں کے اله کی پناہ میں آتا ہوں ۔ 

یہ الہ " کیا ہے ؟ 
وہ جو بنا بیٹھا ہے ۔۔۔ اور لوگ اس کے درپہ جھکے پڑتے ہیں ۔۔۔ حالانکہ وہ ہے نہیں 
یا وہ الٰہ " ہے جو حقیقت میں قابل ہے کہ اس کے سامنے ہرشئے جھک جائے اور اسے اس کی پرواہ بھی نہیں ۔ 
کیا وہ الہ ہے کہ جس نے اندر باہر اپنے پنجے گاڑ لئے رنگ برنگ کی مورتوں میں 
یا وہ اله " ہے جس کی کوئی مورت نہیں کہ نگاہ و دل گرفت کر سکیں 
کیا وہ اله " ہے اپنی قوت سے ہر نفس کو ڈراتا ہے دھمکاتا ہے ۔ تابع بنانے کے حربے آزماتا ہے 
یا وہ الٰہ" ہے ۔ کہ جس کی قوت  انسانی سوچ پر بھی حاوی ہے پر قابض نہیں ۔
کیا وہ الہ " ہے جو نفس کو فخر و غرور کے شک میں الجھائے رکھتا ہے 
یا وہ اله"  ہے  جو ذہن و روح سے ایک پل میں ساری دھند ہٹا دیتا ہے 
لا اله ۔۔ الا ہو 
لا اله ۔۔۔ الا ہو 
لا الہ ۔۔۔ الا ہو 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...