نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آیت الحجاب

 آیۃ الحجاب

سورۂ احزاب کی آیت نمبر 53 آیتِ حجاب کہلاتی ہے۔ 
اس کا آغاز ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّاۤ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ﴾ سے ہوتا ہے۔ اس میں ازواجِ مطہرات سے پردے کے پیچھے سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
 سورۂ احزاب کی آیت: 55 اور آیت:    59میں پردے کے مزید احکام نازل ہوئے۔ 
یاد رہے کہ پردے کے حکم کا نزول سیدنا عمررضی الله تعالی عنہ کی خواہش پر ہوا تھا۔ انھوں نے اللّٰہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللّٰہ کے رسول! آپ کی ازواجِ مطہرات کے پاس نیک اور برے ہر طرح کے لوگ آتے رہتے ہیں۔ آپ اُنھیں پردے کا حکم دیجیے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم حجاب نازل فرمادیا۔
 صحیح بخاری۔ 4483-
سیدنا انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حجاب کا حکم نازل ہوا۔ اس کے بعد جب آپ صلی الله علیہ وسلم واپس تشریف لائے۔ اپنا قدم مبارک کاشانۂ نبوت کے اندر رکھا، دوسرا قدم ابھی باہر تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم  نے میرے اور اپنے (گھر والوں کے) درمیان پردہ لٹکالیا۔  اس وقت سیدنا انس رضی الله عنہ  کی عمر 15 سال کے لگ بھگ تھی۔
پردے کا حکم کب نازل ہوا؟... سیدہ زینب بنت جحش ؓ کا نبی صلی الله علیہ وسلم سے نکاح ذی قعدہ 5 ہجری میں ہوا۔ اور ولیمے کی تقریب کے دوران ہی حکم حجاب نازل ہوا۔ اس سے واضح ہوا کہ پردے کا حکم5 ہجری میں نازل ہوا۔ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد پردے میں ایک واضح فرق آگیا۔ اس فرق کو آپ اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ ؓ کے حسب ذیل واقعے سے جان سکتے ہیں۔ وہ واقعہ افک بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی۔ اتنے میں صفوان بن معطل  رضی الله تعالی عنہ  نے مجھے دیکھا اور پہچان لیا۔ انھوں نے مجھے (حکمِ) حجاب سے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ اُنھوں نے مجھے دیکھ کر اناللّٰہ پڑھا تو مجھے جاگ آگئی تو میں نے فوراً اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپا ۔
 صحیح بخاری -4750 
   بہرحال حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلم خواتین اپنے چہرے کو بھی ڈھانپنے لگیں۔ اور حجاب کا حکم نازل ہونے کا مطلب بھی یہی تھا بقیہ جسم تو پہلے ہی ڈھانپا جاتا تھا۔
 اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم ونصب فرمائے۔ آمین!

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...