نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*علم النحو*

ایسا علم جس کے ذریعے کلمہ (اسم فعل حرف) کے آخری حرف کی حالت معرب اور مبنی کے اعتبار سے پہچاننے اور انکو آپس میں جوڑنے کا طریقہ معلوم ہو

نحو کا لغوی معنی تو کسی طرف رخ کرنا یا قصد کرنا یا کنارہ وغیرہ کے آتے ہیں
 البتہ اصطلاحی طور پر اس علم کو کہتے ہیں جن کا تعلق ایسے قواعد سے ہوتا ہے جو کلمہ کی آخری حرف کی حالت اور کلموں کو جوڑنے کے بارے ہوتے ہیں اب آخری حرف چونکہ کنارہ پر ہوتا ہے شاید اس لئے اسکو علم النحو کہتے ہیں یا پھر چونکہ اس میں جملہ کے درست مطلب کو خاص قواعد کے تحت تحریر کرنے کا ارادہ ہوتا ہے اسلئے اسکو علم النحو کہتے ہیں واللہ اعلم
نحو کا علم رکھنے والے کو ناحی کہتے ہیں جسکی جمع نحاۃ ہے اور اسکی طرف منسوب کو نحوی کہتے ہیں جسکی جمع نحویوں ہے

غرض یا مقصد
اسکے سیکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم عربی عبارت (جملہ) کا ترجمہ کرنے یا بولنے میں غلطی سے بچ سکیں

موضوع 
اسکا موضوع کلام یا جملہ ہے کیونکہ ہم نے جملہ کے بارے ہی بحث کرنی ہوتی ہے البتہ اسکے اندر مفرد کلمۃ بھی آ جاتا ہے

اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم نحو میں کیا پڑھیں گے اس کو سمجھنے سے پہلے کلمہ کی اقسام کی تھوڑی وضاحت پڑھتے ہیں تاکہ اس کو دیکھ کر اس بات کا پتہ کیا جا سکے کہ نحو میں ہمیں کیا پڑھنا ہو گا

ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ کلمہ کی تین اقسام ہیں یعنی 
اسم ۔ فعل اور حرف
ان میں سے جب کوئی اکیلا پڑا ہو تو اسکو مفرد کہتے ہیں- اور جب دو کلموں کو آپس میں ملاتے ہیں تو وہ مرکب بن جاتا ہے

1-مفرد
جب کلمۃ (اسم ، فعل یا حرف) اکیلا ہو تو وہ مفرد کہلاتا ہے مثلا زید، مِن وغیرہ

2-مرکب
جب دو کلمے آپس میں مل جائیں تو وہ مرکب بن جاتا ہے
مرکب کی پھر دو قسمیں ہو سکتی ہیں

 مرکب ناقص

مرکب تام یا جملہ
یعنی اس طرح دو یا زیادہ کلموں کو ملانا جس سے جملہ پورا ہو جائے اور مخاطب کو بات سمجھ آ جائے 
مثلا ھذا کتابُ اللہ 
مرکب تام یا جملہ کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں 

 نحو کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب الفاظ کو آپس میں جوڑنا ہوتا ہے اور اوپر نحو کے موضؤع میں یہ پڑھا ہے کہ نحو کے استعمال کا اصل مقصد پورے جملے کی درستگی کے لئے ہوتا ہے تو یہ سوال  پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہم نحو میں صرف مرکب تام یعنی جملہ کو ہی پڑھیں گے اور مرکب ناقص اور مفرد کو نہیں پڑھیں گے تو ایسا نہیں ہے 
کیونکہ مرکب تام مفرد اور مرکب ناقص سے مل کر ہی بنتا ہے تو جب تک انکے قواعد کا علم نہیں ہو گا ہم جملہ کو درست نہیں کر سکتے
پس ہم نحو میں جملہ کی اقسام و قواعد کے ساتھ ساتھ مفرد (اسم، فعل، حرف) کی اقسام و قواعد بھی پڑھیں گے اور مرکب ناقص کی اقسام و قواعد بھی پڑھیں گے


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...