نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*مؤمن کی زندگی میں استغفار کی فضیلت و اہمیت*


اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی خیر کا ہر کام ہوتا ہے…

وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیبْ

انسان جاہل ہے۔۔۔۔   بلکہ جہول ہے۔۔۔  اللہ تعالیٰ اسے جو علم سکھائے  بس وہی حقیقی علم ہے

سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیمْ

علم کے ساتھ اگر اس علم پر یقین…یعنی شرح صدر بھی نصیب ہو جائے تو ایسا علم ’’دعوت‘‘ بن کر صدقہ جاریہ ہو جاتا ہے ۔۔۔  شرح صدر بھی اللہ تعالیٰ عطاء فرماتے ہیں اور دعوت کے لئے زبان و قلم بھی…

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ ، وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّن لِّسَانِیْ یَفْقَہُو قَوْلِی

بارش چلتی رہے تو دریا اور ندی  نالے آباد رہتے ہیں…بارش رک جائے تو دریا بھی سوکھ جاتے ہیں…مرتے دم تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ملتا رہے تو علم و دعوت کا گلشن آباد رہتا ہے، اور علم میں اضافہ اللہ تعالیٰ ہی عطاء فرماتے ہیں…

رَبِّ زِدْنِی عِلْمَا

مقبول دعوت وہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف امید بھی…اللہ تعالیٰ مغفرت والے بھی ہیں اور عذاب والے بھی …اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلاتے ہیں

اور اللہ تعالیٰ کے ان مقبول بندوں نے بھی…لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی طرف بلایا…جن کی دعوت کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے

وَاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلٰی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارْ

مغفرت اور امید کی طرف دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ…اللہ تعالیٰ کے بندوں کو توبہ اور استغفار کی طرف بلایا جائے…ان گناہوں سے بھی جن کو معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے…اور ان گناہوں سے بھی جو بہت خطرناک ہیں مگر ان کو گناہ نہیں سمجھا جاتا…اور ان پر توبہ نہیں کی جاتی…

رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ

(الرعد:۳۰)

وہی ( اللہ تعالیٰ) میرا رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں،اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے…

حکم دیا گیا کہ…آپ کہہ دیجئے…

ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ  عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ

اپنے لئے، والدین کیلئے اور  سب ایمان والوں کے لئے استغفار

رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ

(ابراہیم:۴۱)

اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور ایمان والوں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے…

یہ دعاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مانگی …یہ بہت جامع اور نافع استغفار ہے…

اسم اعظم والا استغفار

لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ  اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن

(الانبیاء:۸۷)

ترجمہ: آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ بے عیب ہیں بے شک میں گناہگاروں میں سے تھا…

یہ حضرت یونس علیہ السلام کی تسبیح ہے…اس میں تہلیل بھی ہے یعنی لا الہ الا انت اور تسبیح بھی ہے ’’سبحانک ‘‘ اور استغفار بھی ہے…اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِین…

اس استغفار کے بہت فضائل احادیث و روایات میں آئے ہیں… یہ ہر غم ، مصیبت، مشکل اور پریشانی کا حل ہے…امت مسلمہ نے ہمیشہ اس تسبیح و استغفار سے بڑے بڑے منافع حاصل کئے ہیں…

مقبولین کا استغفار

رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْن

 (المؤمنون:۱۰۹)

 اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے، تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو بہت بڑا رحم فرمانے والا ہے…

دنیا میں کافر اور منافق خود کو عقلمند سمجھتے ہیں … اور ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ (نعوذ باللہ ) بیوقوف لوگ ہیں…ان کو دنیا کی سمجھ ہی نہیں …قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کافروں کے سامنے ان ایمان والوں کی کامیابی کا اعلان فرمائیں گے…اور ساتھ ان کے اِس استغفار کا بھی تذکرہ فرمائیں گے…کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ کہتے تھے

رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ

تو تم کفار ان کا مذاق اڑاتے تھے…

آج دیکھنا کہ میں ان کو کیسی کامیابی، بدلہ اور مقام دیتا ہوں…

مغفرت اور رحمت مانگو

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ

(المؤمنون:۱۱۸)

ترجمہ: اے میرے رب معاف فرما اور رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے…یہ بہت مؤثر اور میٹھا استغفار ہے…اور قرآن مجید میں حکم فرمایا گیا ہے کہ

کہو! 

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ

وہ جو کچھ دینا چاہتے ہیں اسی کو مانگنے کا حکم  فرماتے ہیں…مغفرت اور رحمت مل جائے تو اور کیا چاہیے…

 مقبول اور سعادتمند بندوں کا استغفار

رَبِّ اَوْ زِعْنِی اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ

وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ۔ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ

 (الاحقاف : ۱۵)

ترجمہ: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں… جسے تو پسند کرے اور میرے لئے میری اولاد میں اصلاح کر بے شک میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبرداروں میں ہوں…

یہ سعادتمند اور مقبول انسان بننے کا ایک قرآنی نصاب ہے…

(۱) اللہ تعالیٰ سے شکر کی توفیق مانگنا…ان نعمتوں پر جو اپنے اوپر اور اپنے والدین پر ہوں…

(۲) اللہ تعالیٰ سے نیک اور مقبول اعمال کی توفیق مانگنا

(۳) اپنی اولاد کی اصلاح اور نیکی کی دعاء مانگنا

(۴) اللہ تعالیٰ سے توبہ،استغفار کرنا…

(۵) اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا اقرار کرنا…



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...