یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ(33)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(34)
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ(33)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(34)
دجال
مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.
"مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط..
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی نامہ "جریج بن متی" (یہ نام علامہ منصور پوری نے "رحمۃ للعالمین" ۱/۱۷۸ میں ذکر فرمایا ہے.. ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا نام "بنیامین" بتلایا ہے.. دیکھئے "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی" ، ص ۱۴۱) کے نام روانہ فرمایا جس کا لقب "مقوقس" تھا اور جو مصر و اسکندریہ کا بادشاہ تھا.. نامۂ گرامی یہ ہے..
بسم اللہ الرحمن الرحیم..
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قِبط کی جانب..
اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے.. اما بعد ! میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں.. اسلام لاؤ سلامت رہوگے اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا.. لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پر اہل ِ قبط کا بھی گناہ ہوگا.. اے اہل ِ قبط ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں.. پس اگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں..
(زاد المعاد لابن قیم , ۳/۶۱.. ماضی قریب میں یہ خط دستیاب ہوا ہے.. ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے اس کا جو فوٹو شائع کیا ہے اس میں اور زاد المعاد کی عبارت میں صرف دو حرف کا فرق ہے.. زاد المعاد میں ہے اسلم تسلم اسلم یوتک اللہ...الخ اور خط میں ہے فاسلم تسلم یوتک اللہ.. اسی طرح زاد المعاد میں ہے اثم اہل القبط اور خط میں ہے اثم القبط.. دیکھئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی ص ۱۳۶، ۱۳۷)
اس خط کو پہنچانے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا گیا.. وہ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا.. "(اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا.. اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنا دیا.. پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا , پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا.. لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو.. ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں.."
مقوقس نے کہا.. "ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے.."
حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. "ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنادیا ہے.. دیکھو ! اس نبی نے لوگوں کو (اسلام کی ) دعوت دی تو اس کیخلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے.. یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے.. میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بشارت دی تھی , اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بشارت دی ہے اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو.. جو نبی جس قوم کو پا جاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے اور اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے اور تم نے اس نبی کا عہد پا لیا ہے اور پھر ہم تمہیں دین ِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں.."
مقوقس نے کہا.. "میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے.. وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں.. میں مزید غور کروں گا.."
مقوقس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط لے کر (احترام کے ساتھ ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیہ میں رکھ دیا اور مہر لگا کر اپنی ایک لونڈی کے حوالے کردیا.. پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا..
بسم اللہ الرحمن الرحیم..
محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے..
آپ پر سلام ! اما بعد ! میں نے آپ کا خط پڑھا اور اس میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا.. مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے.. میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہوگا.. میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز واکرام کیا اور آپ کی خدمت میں دو لونڈیاں بھیج رہا ہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے اور کپڑے بھیج رہا ہوں اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ کررہا ہوں اور آپ پر سلام..''
مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا اور اسلام نہیں لایا.. دونوں لونڈیاں "ماریہ" اور "سیرین" تھیں.. خچر کا نام دُلدل تھا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے تک باقی رہا.. (زاد المعاد ۳/۶۱)
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماریہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پاس رکھا اور انہی کے بطن سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے..
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا مصر سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئی تھیں , اس لیے وہ ان سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھیں.. حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس انس سے فائدہ اُٹھا کر اُن کے سامنے اسلام پیش کیا.. حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور اُن کی بہن حضرت سیرین رضی اللہ عنہا نے تو اسلام قبول کرلیا لیکن اُن کے بھائی مابور اپنے قدیم دین عیسائیت پرقائم رہے..
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا گو بطور کنیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آئی تھیں لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ ازواجِ مطہرات ہی کے ایسا سلوک کرتے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اعزاز واحترام کو باقی رکھا اور ہمیشہ ان کے نان ونفقہ کا خیال کرتے رہے.. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے ساتھ یہی سلوک مرعی رکھا..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے بیحد محبت تھی اور اس وجہ سے اُن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدو رفت بہت زیادہ رہتی تھی.. گو وہ کنیز تھیں (جاربات یعنی کنیزوں کے لیے پردہ کی ضرورت نہیں) لیکن ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھم کی طرح اُن کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ میں رہنے کا حکم دیا تھا.. (اصابہ ، وابن سعد) اُن کے فضل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک کافی ہے کہ.....
"قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسنِ سلوک کرو.. اس لیے کہ اُن سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے.. اُن سے نسب کا تعلق تو یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت ہاجرہ علیہ السلام) اور میرے لڑکے ابراہیم (رضی اللہ عنہ) دونوں کی ماں اسی قوم سے ہیں (اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ اُن سے معاہدہ ہوچکا ہے)..
(الطبقات الكبرى،ابن سعد:۸/۲۱۴، شاملہ،المؤلف: محمد بن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر:دارصادر،بيروت)
.
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
عامر عبداللہ
پرزما اور اب اور بہت کچھ
استخارہ کب اور کیسے کریں ؟
استخارہ کیوں کرنا چاہیے؟
بندہ مؤمن کی زندگی کا ہر اصول ، ہر طریقہ الله سبحانہ و تعالی نے خوب واضح فرما دیا ہے ۔
جب حقوق الله میں کو تاہی کی جائے ۔۔۔ یعنی الله جل جلالہ کے بتائے گئے طریقے پر چلنے میں لا پرواہی برتی جائے تو خود بخود حقوق العباد میں کمی اور کوتاہی نمایاں ہونے لگتی ہے ۔
جب بھی کوئی کام شروع کرنے کا ارادہ کیا جائے تو سب سے پہلے الله تعالٰی سے مشورہ کر لینا چاہئیے ۔ اور اس کا طریقہ " استخارہ " کرنا ہے ۔
اگر آپ کے ساتھ کام میں دوسرے لوگ بھی کسی نہ کسی طریقہ سے مددگار ہیں تو ان سے مشورہ کرکے کام کو آگے بڑھانا چاہئیے ۔ اگر کام اجتماعی نوعیت کا ہو مثلا جماعت ، گروہ یا کمیونٹی کی اصلاح و تربیت کا ۔ اور اس میں کچھ لوگ آپ کے معاون و مدد گار ہوں کسی بھی سطح پر تو دو باتوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہو جاتا ہے
ایک تو یہ کہ نیت خالص الله جل شانہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی ہو ۔۔
دوسرے یہ کہ ہر کام میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کو اوّلیت دی جائے ۔
الله سبحانہ و تعالی نے " مشورہ "کو اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا ہے ۔
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
سورۃ شورٰی ۔۔ آیہ ۳۸
اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے انکو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
الله سبحانہ و تعالی کے حکم پر عمل کرنے سے ایسے تمام کاموں میں الله کی مدد شامل حال رہتی ہے ۔ اور شر ، فتنہ و فساد اور انتشار پھیلنے کا خطرہ نہیں رہتا ۔۔۔ اور نہ ہی دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی پیدا ہوتی ہے ۔
جب انتظامیہ میں شامل تمام لوگ آپس میں مشورہ کرکے کام کو آگے بڑھائیں تو پھر بعد میں کسی کو اعتراض کرنے کا حق بھی نہیں رہتا ۔ اور ذہن میں بدگمانی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی دوسرے افراد پر شک و شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ پھر ایک گروہ میں دوسرا گروہ پیدا ہونے کے امکانوت بھی ختم ہوجاتے ہیں ۔
نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم نے مشورہ کی اہمیت کے پیش نظر انتظامی معاملات میں مشورہ کرکے عملی طور پر امت کی تربیت کی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم ہر کام میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ فرماتے پھر کام کو آگے بڑھاتے ۔۔۔ سوائے ان کاموں کے جن میں الله رب العزت کا قطعی حکم آ جاتا
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہمیں بھی اپنے ہر کام میں مشورہ کرنے کو اہمیت دینی چاہئیے ۔ اپنے معاملات کو نیت خالص کرتے ہوئے الله سبحانہ و تعالی کے حکم کے مطابق اور نبی محترم صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش میں انجام دینا چاہئیے ۔ تاکہ الله تعالی کی مدد شامل حال رہے اور کام کا مقصد فوت نہ ہو ۔۔۔۔
استخارہ کیسے کریں
استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ ہو کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، استخارہ کی مسنون دعا:
'' اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاقْدِرْهُ لِیْ ، وَ یَسِّرْهُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْهِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاصْرِفْهُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْهُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِهٖ ۔''
دعاکرتے وقت جب”هذا الامر “پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”هذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلاً: ”هذا السفر “یا ”هذا النکاح “ یا ”هذه التجارة “یا ”هذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”هذا الأمر “کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ۔
استخارے کے بعد جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔ اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یکسوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے، لیکن خواب آنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اصل بات قلبی رجحان اور اطمینان ہے۔
فقط واللہ اعلم
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں تمام معاملات میں قرآنی سورت کی طرح استخارے کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو رکعتیں پڑھے، اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ ہمت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کے ذریعے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ بلاشبہ تو ہی قدرت رکھنے والا ہے میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ اور تو تمام تر پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔۔۔۔۔ یا دعا میں الفاظ کہے: فی عاجل أمری وآجله۔۔۔۔۔ تو پھر اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے دین کے لیے، میری زندگی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)
[صحيح بخاري، حديث نمبر:6382]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس دعا میں ''هذا الأمر'' کے بعد درپیش ضرورت کا نام لے، مثلاً:
''هذا الأمر من السفر، هذا الأمر من التجارة، هذا الأمر من الزواج'' وغیرہ۔
استخارے کی دو رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھی جا سکتی ہے۔
انسان کو چاہیے کہ استخارہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو صاف کر لے، یعنی خاص رجحانات اور کسی ایک طرف اپنا میلان چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے خیر و برکت کا طالب ہو اور پورے خلوص کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنی گزارشات پیش کرے۔
استخارہ کے آداب حسب ذیل ہیں:
٭ ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کیا جائے، اپنے کپڑے، بدن اور جگہ کو پاک و صاف رکھا جائے۔
٭ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ استخارہ ایک عبادت ہے جو نیت کے بغیر بے سود ہے، نیت صرف دل سے ہو گی۔
٭ یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ میں اپنے رب سے بھلائی کا طالب ہوں، لہذا پوری یکسوئی اور توجہ سے استخارہ کرے۔
٭ اگر کسی گناہ کا عادی ہے تو اسے فوراً ترک کرے، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے، پھر درپیش مسئلہ کے متعلق استخارہ کرے۔
٭ استخارہ ایک دعا ہے، اس لیے دعا کے آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے، یعنی دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام پڑھا جائے۔
درود کے وہی الفاظ ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمایا ہے۔
٭ رزق حلال کا اہتمام بھی انتہائی ضروری ہے۔
حرام روزی کھانے سے کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی تو استخارہ کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
٭ استخارہ کرنے والا یقین کامل رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، جو کام اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اس میں ہی دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔
٭ استخارہ کے بعد وہ باوضو ہو کر قبلہ رخ لیٹ جائے بشرطیکہ استخارہ سونے سے پہلے کیا ہو اگرچہ نیند کے ساتھ استخارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
(2)
استخارہ کرنے کا طریقہ حسب ذیل ہے:
٭ جب انسان کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو فوراً استخارہ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔
٭ نماز کے وضو کی طرح مکمل وضو کرے۔
٭ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل ادا کرے۔
٭ نماز سے فراغت کے بعد استخارہ کی مذکورہ بالا دعا پڑھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے، اس لیے انسان کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ استخارے کا اہتمام کر سکتا ہے۔
اگر ایک دفعہ استخارہ کرنے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے کہ تین بار اس کا اہتمام کرے کیونکہ استخارہ ایک دعا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم تین بار دعا کیا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4649 (1794) (3)
درج ذیل امور میں استخارہ مشروع نہیں ہے:
(ا)
جن امور پر عمل واجب ہے، مثلاً:
نماز، روزہ وغیرہ ان کی بجا آوری کے لیے استخارہ کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان پر عمل کرنا استخارہ کرنے کے بغیر ہی واجب ہے۔
(ب)
جن امور پر عمل جائز نہیں، مثلاً:
جوا اور شراب نوشی وغیرہ، ان میں بھی استخارہ جائز نہیں کیونکہ ان سے دور رہنا انسان کی ذمے داری ہے۔
اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ہے۔
(ج)
جو امور شریعت کی نظر میں انتہائی پسندیدہ ہیں، مثلاً:
تہجد اور تلاوت قرآن وغیرہ ایسے امور میں استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی تعمیل اور بجا آوری کو شریعت پہلے ہی پسند کر چکی ہے۔
(د)
وہ امور جو شریعت کی نظر میں مکروہ ہیں، ان کا ارتکاب شارع علیہ السلام نے اچھا خیال نہیں کیا، ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں۔
(ہ)
وہ امور جن کا تعلق گزشتہ واقعات سے ہے، مثلاً:
چور کو تلاش کرنا، اس کے لیے استخارے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ استخارہ آئندہ پیش آمدہ ضروریات کے متعلق کیا جاتا ہے۔
صرف ان جائز امور میں استخارہ کیا جا سکتا ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کس کام کو اختیار کروں، ان میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے یا کسی جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام اگر اس کے لیے فائدہ مند ہے تو کرے اور اگر بے فائدہ ہے تو اسے نظر انداز کر دے۔
(4)
انسان کی زندگی میں شادی ایک اہم ترین مرحلہ ہے۔
انسان کو اپنی شریک حیات کا انتخاب انتہائی سوچ بچار کے بعد کرنا چاہیے۔
اگر میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہو تو زندگی آرام اور سکون سے گزرتی ہے بصورت دیگر دنیا میں ہی سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ شادی کے سلسلے میں ہم اس معیار کو برقرار نہیں رکھتے جسے شریعت نے پسند کیا ہے۔
مال و دولت اور حسب و نسب کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔
شریعت کی نظر میں اس قسم کے غیر معیاری رشتوں کے لیے استخارے کا سہارا لینا کسی صورت میں جائز نہیں۔
شادی کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارے کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے استخارے کے متعلق فرمایا:
تم بہترین طریقے سے وضو کرو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو نماز مقدر کی ہے اسے ادا کرو، پھر اللہ کی تعریف اور بزرگی بیان کرتے ہوئے درج ذیل دعا پڑھو:
(اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ أَنْتَ عَلَّامُ [ص: 567] الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةَ، تُسَمِّيهَا بِاسْمِهَا، خَيْرًا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرًا لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، فَاقْضِ لِي بِهَا " أَوْ قَالَ:
«فَاقْدِرْهَا لِي») (مسند أحمد: 423/5)
”اے اللہ! تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔
تو پوشیدہ معاملات کو خوب جاننے والا ہے، اگر فلاں عورت (اس کا نام لے)
کے متعلق جانتا ہے کہ وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین و دنیا اور آخرت کے اعتبار سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا کہا:
اسے میرے مقدر میں کر دے۔
“ (5)
اس حدیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے کسی رشتے کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں لیکن استخارے سے پہلے شرعی معیار کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔
(6)
ہمارے ہاں غیر شرعی استخارے کی کئی صورتیں رائج ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ استخارہ سنٹر:
کچھ شعبدہ باز اور چرب زبان حضرات نے استخارہ سنٹر کھول رکھے ہیں۔
یہ دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جان، عزت و آبرو اور مال و دولت پر شب خون مارتے ہیں۔
ان کے ہاں استخارے کی فیس مقرر ہے۔
سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی طرح استخارہ سپیشلسٹ کی فیس قدرے زیادہ ہے۔
اس کام کے لیے ٹی وی پر باقاعدہ چینل کا اہتمام کیا گیا ہے۔
لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت استخارہ کر کے بتائیے کہ میرا فلاں کام ہوگا یا نہیں۔
یہ حضرت کچھ وقت مراقبہ کرنے کے بعد کام کے ہونے یا نہ ہونے کا بتاتا ہے۔
یہ دین فروشی کی انتہائی افسوسناک مثال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے، کسی دوسرے سے استخارہ کرانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، ہاں اس شرط پر دوسرے کے لیے استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس معاملے میں استخارہ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح کوئی دوسرا بھی اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، مثلاً:
کوئی والد اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی بیٹی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے کہ آیا اس کی شادی اس جگہ مناسب ہے یا نہیں، اس لیے انسان کو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے خود ہی استخارہ کرنا چاہیے کیونکہ جس خلوص کے ساتھ وہ خود اپنے لیے خیر و برکت طلب کر سکتا ہے کوئی دوسرا اس انداز سے نہیں کر سکتا۔
بہرحال دور حاضر میں جو ”استخارہ سنٹر“ جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں ان کی شرعی حالت انتہائی مخدوش ہے۔
واللہ أعلم۔
٭ تسبیح اور استخارہ:
کچھ لوگ کوئی بھی تسبیح پکڑ کر ایک دانے پر ہاں اور دوسرے پر نہ بولتے ہیں۔
جو بات آخری دانے کے مطابق ہو، اس پر عمل کرنا استخارہ کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔
شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
٭ قرآن کریم اور استخارہ:
کچھ لوگ قرآن مجید کا کوئی صفحہ کھول کر پہلی آیت کریمہ پڑھتے ہیں پھر اس کے مفہوم سے خود ساختہ نتائج کشید کرتے ہیں۔
یہ طریقہ بھی باطل اور غیر شرعی ہے۔
٭ تیر اور استخارہ:
بعض لوگ تیر پھینک کر استخارہ کرتے ہیں۔
اس کے دائیں یا بائیں گرنے سے نتیجہ اخذ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
یہ طریقہ اسلام سے پہلے رائج تھا جسے اسلام نے باطل قرار دیا ہے۔
(7)
ہمارے ہاں استخارے کے متعلق ایک زبردست غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب میں کچھ نہ کچھ نظر آنا ضروری ہے تاکہ استخارے کا نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہو۔
یہ نظریہ بھی صحیح نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث میں اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔
اصل بات یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کسی بھی طریقے سے اللہ تعالیٰ انسان کا دل مطمئن کر دیتا ہے، خواہ وہ خواب کی صورت میں ہو یا دلی تسلی کی شکل میں ہو۔
اگر استخارہ کرنے کے بعد انسان کا دل کسی خاص سمت مائل ہو جائے تو انسان کو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اسے اختیار کر لینا چاہیے اور اگر اس کا دل اس کام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو جائے تو اسے وہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔
(8)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے استخارہ کرنے کے متعلق درج ذیل بنیادی اور اہم حقائق معلوم ہوتے ہیں:
٭ استخارہ ایک دعا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآنی سورتوں کی طرح سکھائی تاکہ وہ اپنے معاملات کے بہتر انجام کے لیے اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کیونکہ ہر کام کے انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
٭ استخارہ کرنے والا شخص موحد، متبع سنت، مخلص اور دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ کبائر کا ارتکاب کرنے والا نہ ہو اور صغائر پر اصرار کا عادی بھی نہ ہو۔
٭ استخارے کی دعا کرنے سے پہلے وہ دو رکعت نفل ادا کرے، پھر سنت کے مطابق مذکورہ دعا پڑھے۔
٭ استخارے کے الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استخارہ کرنے والے کو خود یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
استخارے کی دعا مانگنے سے پہلے اس دعا کو اچھی طرح یاد کرنا چاہیے اور اس کے معانی و مطالب کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔
٭ کسی شخص کو بھی کسی دوسرے شخص کی طرف سے استخارہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فریق ثانی کو کوئی مجبوری اور تکلیف نہیں، پھر وہ استخارے کا عمل کیوں کرے۔
٭ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا امتحان لیتا ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔
٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔
قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔
٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔
قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس لیے انسان کو شعبدہ بازوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
٭ اہل علم حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو استخارے کی دعا اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بتائیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔
(9)
آخر میں ہم یہ بات پھر دہراتے ہیں کہ دور حاضر میں قسمت کا حال بتانے والے نجومی، شعبدہ باز جو عوام کو ان کی گم شدہ چیزوں کا پتا دیتے ہیں اور ان کی مشکلات کا حل بتاتے ہیں، پھر استخارے کے ذریعے سے ان کی ”بگڑی“ بناتے ہیں وہ کھلے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔
آئے دن اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اور جھوٹی کہانیاں شائع ہوتی ہیں، ان سے بچنا ایک موحد مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔
اس غیر شرعی پیشے سے اظہار بےزاری کرنا ایک غیرت مند مسلمان کا اولین فرض ہے۔
ڈاکٹر حمید الله سے چند سوالات اور ان کے جوابات : تاریخ قرآن مجید
سوال ٢ مع جواب:
گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی سنتیں
جوتا پہننے کی سنتیں
گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی سنتیں
٭۔ گھر میں داخل ہونے کی دعا پڑھنا
گھر والوں کو سلام کہنا:
٭۔ گھر سے نکلنے کی دعا پڑھنا :
آداب معاشرت کے سنتیں
مسواک کرنا
حالیہ اشاعتیں
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...
پسندیدہ تحریریں
-
اَعُوْذُ ۔ بِاللهِ ۔ ُ مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔ الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ ...
-
سورة مائدہ وجہ تسمیہ سورة مائدہ إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا ...
-
مفعول لہ ۔۔ وہ مفعول ہے جو کام کرنے کی وجہ بتائے ۔ مفعول لہ کا معنی بنتا ہے " اس کے لئے " یا " اس کی وجہ سے " ۔ جیسے ع...
-
يَا۔۔۔۔۔۔ بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔ اذْكُرُوا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ الَّتِي اے ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یا...