نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آیت الحجاب

 آیۃ الحجاب سورۂ احزاب کی آیت نمبر 53 آیتِ حجاب کہلاتی ہے۔  اس کا آغاز  ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّاۤ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ﴾  سے ہوتا ہے۔ اس میں ازواجِ مطہرات سے پردے کے پیچھے سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔  سورۂ احزاب کی آیت: 55 اور آیت:    59میں پردے کے مزید احکام نازل ہوئے۔  یاد رہے کہ پردے کے حکم کا نزول سیدنا عمررضی الله تعالی عنہ کی خواہش پر ہوا تھا۔ انھوں نے اللّٰہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللّٰہ کے رسول! آپ کی ازواجِ مطہرات کے پاس نیک اور برے ہر طرح کے لوگ آتے رہتے ہیں۔ آپ اُنھیں پردے کا حکم دیجیے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم حجاب نازل فرمادیا۔  صحیح بخاری۔ 4483- سیدنا انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حجاب کا حکم نازل ہوا۔ اس کے بعد جب آپ صلی الله علیہ وسلم واپس تشریف لائے۔ اپنا قدم مبارک کاشانۂ نبوت کے اندر رکھا، دوسرا قدم ابھی باہر تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم  نے میرے اور اپنے (گھر والوں کے) درمیان پردہ لٹکالیا۔  اس وقت سیدنا انس رضی الله ...

کہدو کہ اگر سمندر ۔۔۔۔

کہدو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے روشنائی ہو تو قبل اسکے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہو جائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور اسکی مدد کولے آئیں ۔ کہدو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ البتہ میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود وہی ایک معبود ہے تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ سورۃ کہف آیۃ 109-110

والدین سے حسنِ سلوک۔۔۔۔۔

اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اُس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو ۔ اور والدین سے اچھا سلوک کرو ۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو ۔ نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ۔ بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو  اور محبت و عاجزی کے ساتھ اُن کے لیے اپنے بازو پھیلا دو اور کہو ، " اے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جسطرح انہوں نے رحمت اور شفقت سے مجھے بچپن میں پالا تھا ۔" سورۃ بنی اسرائیل آیہ ۔23-24

التحیات لله

اور بیان  کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب معراج کی رات سدرۃ المنتھٰی سے گزر گئے ۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم کو ایک رنگ و نور کے بادل نے ڈھانپ لیا ۔ جس قدر الله تعالی نے چاہا ۔  پھر جبرائیل رک گئے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نہ چلے ۔  نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔ کیا تم مجھے اکیلا جانے کے لئے کہہ رہے ہو ؟  جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی ۔ ہمیں الله تعالی جل شانہ کے مقام معلوم سے آگے بڑھنے کا حق نہیں ۔  پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم میرے ساتھ چند قدم ہی چلو ۔  پس وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ چند قدم چلے ۔ اور قریب تھا کہ وہ جل کر راکھ ہوجاتے الله جل شانہ کے نور ، جلال اور ہیبت کی تجلی سے ۔ اور وہ چھوٹے ہوگئے اور ذب ہوئے یہاں تک کہ وہ عصفور جتنے ہوگئے  پھر انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اشارہ کیا کہ اپنے رب کی خدمت میں سلام پیش کریں جب ملیں اور  گفتگوکے مقام پر ہوں ۔  پس جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اپنے رب سے وصل ہوا ۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے  عرض کی  التحیاتُ لله ...

رشتہ ، تعلق

رشتے ناطے اور خاندان الله کریم نے انسانوں کی پہچان کے لئے بنائے ہیں ۔ لیکن کیا چیز ہے جو ان تعلقات کو مضبوطی سے باندھ دیتی ہے ۔ کیوں جب کوئی تعلق ٹوٹتا نظر آئے تو اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ روح تک کانپ اٹھتی ہے ؟  شاید یہ روحوں کا تعلق ہے ۔  وہ روحیں کہ جن کو اکٹھا کرکے ان کے سامنے اُس مالک الملک نے خطاب فرماتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔  اَلَسْتُ بِرَبِّکُم  کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟  کیا ہمیں وہ وعدہ یاد ہے ؟  کہیں ہم نے وہاں کچھ اور وعدے تو نہیں کئے تھے ؟  کوئی تو بات ہے ۔۔۔ کچھ تو راز ہے ۔ جس کا بھید ہم پانہیں سکے ۔  یونہی تو نہیں الله کریم نے صلہ کو اپنے عرش کے نیچے جگہ دے دی ۔  آخر ایسی کیا خاص بات ہے اس کے جوڑے رکھنے میں ۔  کہ وہ مالک حقیقی خود فرما رہا ہے ۔  جس نے اسے جوڑا اُس نے مجھے جوڑا ۔۔۔ اور جس نے اسے توڑا اس نے مجھ سے ناطہ توڑا ۔  یہ صلہ ، یہ رشتہ ، یہ تعلق آخر ہے کیا ؟  ماں ، باپ ، بہن بھائی ، شوہر بیوی اور اولاد ۔۔ انہیں کے رنگ ہیں نا سارے ۔۔ پر نہیں ایک اور تعلق بھی ہے ۔ انسانیت کا ، مذہب کا ،  امّت کا ، امر ب...

*حبّ ۔۔۔ محبت ۔۔۔ الله تعالی کی اپنے بندوں سے محبت*

بسم الله الرحمن الرحیم  الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے  تو جو رحیم اور کریم ہے اس کی رحمت اور محبت میں کس کو شک ہو سکتا ہے ۔ اس نے انسان کی تخلیق ہی محبت کی بنیاد پر کی ۔ اسے عبادت سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ لیکن محبت سے ضرور پڑتا ہے ۔ اسی لئے تو الله جل شانہ  کی محبت کے ساتھ اطاعت اور فرمانبرداری کرنے پر اس کی رضا اور چاہت نصیب ہوتی ہے ۔  وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِين اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو۔ مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ بقرہ ۔ ۱۹۰  لیکن جو زیادتی نہیں کرتے الله کریم ان سے محبت کرتا ہے ۔  وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو۔ بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ بقرہ ۔ ۱۹۵  یعنی محبت کرتا ہے ۔۔۔ ...

ملازموں کے معاملے میں الله جل شانہ کا ڈر

الله کے پیارے  رسول صلی الله علیہ وسلم نے غلاموں کے معاملے میں بہت نرمی کرنے کا حکم فرمایا ۔۔۔  اگرچہ ہمارے ہاں غلاموں کا رواج نہیں بلکہ یہ عرب معاشرے کا رواج تھا لیکن یہی اصول ملازموں کے لئے ہے  خاص طور پر گھروں میں جو ملازم رکھے جاتے ہیں ان کے معاملے میں الله جل شانہ سے ڈرنا چاہئیے ۔  سب سے بڑا مسئلہ ان کو اجرت یا تنخواہ دینے کا ہے ۔  ہمارے معاشرے میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ الله کے نام پر دینے کے لئے فورا تیار ہو جاتے ہیں ۔ لیکن دوسرے کا جائز حق اسے نہیں دیں گے اس میں سو بہانے اور دلیلیں گھڑی جاتی ہیں ۔  سب سے بہتر اور پسندیدہ طریقہ وقت کے حساب سے پیسے طے کرنا ہے ۔ گھروں میں کام کرنے والی عورتوں سے فی گھنٹہ معاوضہ طے کرنا چاہئیے ۔ اور ماہانہ معاوضہ مقرر کرتے وقت ایک لمحہ رُک کر اس کی ایک گھنٹے کی مزدوری کا حساب ضرور کر لینا چاہئیے ۔ کہ وہ ایک دن  میں کتنے گھنٹے کام کرے گی اور ہر گھنٹے کے کام کے بدلے اسے کم از کم کتنی رقم ملے گی ؟ اور روز آنے جانے کا کرایہ اس کی اجرت میں شامل ہوگا یا نہیں ؟ اگر کھانے کے اوقات میں وہ اپ کے گھر موجود ہو تو اس کا کھ...

درود شریف صحیح احادیث کی روشنی میں ۔۔۔۔📌

📌درود شريف صحيح احاديث كي روشني ميں.. 🌴 ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو مالک بن انس نے خبر دی ۔ انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم نے ‘ انہیں ان کے والد نے ‘ انہیں عمرو بن سلیم زرقی نے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو  ” اے اللہ ! رحمت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تو نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر ۔ بیشک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے ۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْ...

درود شریف

 اللھھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید  اللھم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انک حمید مجید 

*نماز میں نیت کی اہمیت*

نماز ادا کرنے سے پہلے اس کی نیت کرنی ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى  (صحیح البخاری کتاب البدء الوحی، حدیث نمبر1) "اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی" امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے “روضۃ الطالبین” میں لکھا ہے کہ" نیت کا مطلب ارادہ کرنا ہے۔ نماز کی نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے یعنی نمازی اس وقت اپنے ذہن میں خیال کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کرنے جا رہا ہے ، مثلا یہ کہ نماز کی رکعات کتنی ہیں اور وہ ظہر کی نماز ہے یانفل نماز ہے وغیرہ" زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلًا “نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف” وغیرہ ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ انہوں نےاس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلا ف کیا ہے۔  *نماز میں نیت کے ظاہری و باطنی آداب* نماز میں نیت کا ظاہری ادب یہ ہے کہ نمازی جہاں کہیں نماز ادا کرنا چاہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپ...

*افلحت الوجوہ*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آقا علیہ السلام اپنے جانثار صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے، چودھویں کے روشن چاندکے گرداگرد ستاروں کی حسین محفل۔۔۔ ایک قتل کا مقدمہ درپیش تھا، ایک باندی کو کسی نے قتل کردیا تھا اور قاتل کا کچھ پتہ نہ تھا، مقدمہ کی صورت حال پیچیدہ ہورہی تھی، جب کسی طرح قاتل کا نشان معلوم نہ ہوا تو آقا علیہ السلام نے اہل مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا: "انشد اللہ رجلا لی علیہ حق فعل ما فعل الا قام" "جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے، اور میرا اس پر حق ہے تو اسے میں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے" آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ایک نابینا شخص اس حالت میں کھڑا ہوگیا کہ اس کا بدن کانپ رہا تھا، اور کہنے لگا کہ:  "یارسول اللہ میں اس کا قاتل ہوں، یہ میری ام ولد تھی اور اس کی میرے ساتھ بہت محبت اور رفاقت تھی، اس سے میرے دو موتیوں جیسے خوبصورت بچے بھی تھے، لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کیا کرتی اور آپ کو برا بھلا کہا کرتی تھی، میں اسے روکتا مگر یہ نہ رکتی، میں اسے دھمکاتا پریہ باز نہ آتی۔ کل رات اس نے آپ کا ذکر کیا اور آپ کی ...

*سنت مؤکدہ کا اہتمام بھی ضروری ہے*

حضرت ام حبیبہ رضی الله تعالی عنھا سے روایت ہے ۔ کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ! مفہوم ۔۔۔  جو شخص دن رات میں بارہ رکعت نماز پڑھے گا جنت میں اس کے لئے ایک گھر بنایا جائے گا ۔  وہ بارہ رکعات یہ ہیں ۔۔۔  چار رکعات ظہر سے پہلے اور دو رکعات ظہر کے بعد  دو رکعات مغرب کے بعد  دو رکعات عشاء کے بعد  اور دو رکعات نماز فجر یعنی صبح کی نماز سے پہلے ۔  ترمذی ۔ ص۸۱ ۔ج-۱  فرض نمازوں کے بعد جو سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ پڑھی جاتی ہیں ان کی بھی بڑی فضیلت آئی ہی ۔  خاص کر مؤکدہ ( جن کی تاکید کی گئی ہو ) ۔ سنتوں کا خوب اہتمام کرنا چاہئیے ۔  اس حدیث کوروایت کرنے والی نبی آخر الزماں رسول الله صلی الله وسلم کی بیوی ہیں ۔ انہوں نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ۔

ولو کنتم فی بروج

ا یک دن سلیمان علیہ السلام چاشت کے وقت ایک مجلس میں بیٹھے تھے ۔ آپ کے پاس آپ کا وزیر بھی بیٹھا تھا   ایک آدمی آیا ۔ سلام کیا اور سلیمان علیہ السلام سے باتیں کرنے لگا  اس نے وزیر کی طرف بڑے غصے سے دیکھا ۔ وزیر ڈر گیا  وہ آدمی چلا گیا تو وزیر کھڑا ہو گیا اور سلیمان علیہ السلام سے پوچھنے لگا ‘‘ اے اللہ کے نبی ! یہ آدمی جو ابھی گیا ہے ، کون تھا ؟ اللہ کی قسم اس کی نگاہ نے مجھے خوفزدہ کر دیا ہے  ’’ سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ یہ ملک الموت تھا اور آدمی کی شکل میں میرے پاس آیا تھا ۔  وزیر بہت سراسیمہ ہوا ۔ وہ رو پڑا اور کہنے لگا : ‘‘ اے اللہ کے رسول ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں اور آپ سے التجا کرتا ہوں کہ ہوا کو حکم دیں کو وہ مجھے ایک دور دراز جگہ ملک ہند میں پہنچا دے ۔  ‘‘ سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا تو ہوا نے اسے اٹھا لیا ۔  دوسرے دن ملک الموت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پھر آیا ۔ اس نے انھیں اسی طرح سلام کیا جس طرح پہلے کرتا تھا ۔سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہا :  ‘‘ کل تم نے میرے وزیر کو ڈرا دیا ۔ تم نے اس کی طرف تی...

جشن نو روز

جشن نو روز ۔۔۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے اس سے مراد نئے دن کا جشن ہے ۔ یہ شیعہ حضرات کا مخصوص تہوار ہے وہ یہ تہوار کیوں مناتے ہیں اس کی اصل کیا ہے ؟  شیعوں کا عقیدہ ہے کہ جس دن حضرت علی نے خلافت کی باگ دوڑ سنبھالی ان کے الفاظ میں وہ تخت نشین ہوئے وہ ایک انتہائی مبارک ساعت تھی ۔ اس وقت تمام کائنات تھم گئی گویا ختم ہوگئی اور مولا علی ( ان کے الفاظ ) کے تخت نشیں ہونے سے کائنات دوبارہ وجود میں آئی ۔   اگرچہ وہ اس اس دن کے بارے میں عام مسلمانوں سے یہ کہتے ہیں کہ اس دن آدم کی تخلیق ہوئی یا سات آسمانوں کو پیدا کیا گیا ۔  پھر انکا یقین ہے کہ جشن نوروز جو ہر سال اکیس مارچ کو منایا جاتا ہے اس دن کے چوبیس گھنٹوں میں ایک گھڑی ، ایک ساعت ایسی ہے جب تمام کائنات تھم جاتی ہے ۔ اور ایک پل رُکی رہنے کے بعد دوبارہ کائنات کی ہر چیز واپس اپنی اصل حالت میں آ جاتی ہے ۔  اس کو ثابت کرنے کے لئے  ان کے اہل علم و عقیدہ باقاعدہ ایک برتن لے کر اس میں پانی بھر دیتے ہیں ۔ اور اس میں ایک گلاب کا کِھلا ہوا پھول ڈال دیتے ہیں جو پانی میں ٹہر جاتا ہے ۔ اور اس کا مشاھدہ کرتے ہیں ۔ ان کے حسا...

*علم النحو*

ایسا علم جس کے ذریعے کلمہ (اسم فعل حرف) کے آخری حرف کی حالت معرب اور مبنی کے اعتبار سے پہچاننے اور انکو آپس میں جوڑنے کا طریقہ معلوم ہو نحو کا لغوی معنی تو کسی طرف رخ کرنا یا قصد کرنا یا کنارہ وغیرہ کے آتے ہیں  البتہ اصطلاحی طور پر اس علم کو کہتے ہیں جن کا تعلق ایسے قواعد سے ہوتا ہے جو کلمہ کی آخری حرف کی حالت اور کلموں کو جوڑنے کے بارے ہوتے ہیں اب آخری حرف چونکہ کنارہ پر ہوتا ہے شاید اس لئے اسکو علم النحو کہتے ہیں یا پھر چونکہ اس میں جملہ کے درست مطلب کو خاص قواعد کے تحت تحریر کرنے کا ارادہ ہوتا ہے اسلئے اسکو علم النحو کہتے ہیں واللہ اعلم نحو کا علم رکھنے والے کو ناحی کہتے ہیں جسکی جمع نحاۃ ہے اور اسکی طرف منسوب کو نحوی کہتے ہیں جسکی جمع نحویوں ہے غرض یا مقصد اسکے سیکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم عربی عبارت (جملہ) کا ترجمہ کرنے یا بولنے میں غلطی سے بچ سکیں موضوع  اسکا موضوع کلام یا جملہ ہے کیونکہ ہم نے جملہ کے بارے ہی بحث کرنی ہوتی ہے البتہ اسکے اندر مفرد کلمۃ بھی آ جاتا ہے اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم نحو میں کیا پڑھیں گے اس کو سمجھنے سے پہلے کلمہ کی اقسام کی تھوڑی وضاحت پڑھتے...

الفاظ

یہ جو الفاظ ہوتے ہیں نا یہ بھی آئینہ ہوتے ہیں ۔ جن میں سے انسان کا کردار اس کی فطرت جھانکتی ہے ۔ اس مصنوعی دنیا میں بھی کب تک انسان اپنی اصلیت چھپا سکتا ہے ۔ رفتہ رفتہ اوپر چڑھا نقاب اترنا شروع ہو جاتا ہے ۔ اور لفظوں کے آئینوں سے اصلی صورتیں جھانکنے لگتی ہیں ۔ الفاظ میں اور حروف میں اگر طاقت نہ ہوتی تو رب سوہنا کبھی نہ اپنی کتاب کو لکھ کر رکھتا ۔ وہ کہتا ہے نا میرا فرمان لوح محفوظ پر لکھا ہوا محفوظ ہے ۔ اور پھر وہ قسم بھی تو کھاتا ہے ۔ قلم کی اور اس کی جو تحریر کرتے ہیں ۔ کون تحریر کرتے ہیں یہ تو نہیں بتایا انسان پہ چھوڑ دیا کہ غور کر اور سمجھ لے ۔ لکھنا ایسا ہی ہے گویا اپنے سینے کو چیر دینا ۔ اپنے خیالات کو ننگا کر دینا ۔ جو کسی کی تحریر کاپی کرتے ہیں ان کی تحریر بھی اس وقت تک اثر نہیں کر سکتی جب تک وہ خود اس سے پوری طرح متفق نہ ہوں ۔ کچھ لوگوں کی باتیں اور کچھ لوگوں کی تحریریں زندگی کا سبق دیتی ہیں ۔ اور زندگی میں سبق سیکھنے کی تو ہر لمحہ ضرورت رہتی ہے ۔ تبھی تو رب سوہنا پانچ وقت کہتا ہے میرے بندے مجھ سے صراط مستقیم کی مانگ کرتا رہ ۔ پتہ نہیں انسان کی بخشش کس وجہ سے ہونی ہے ۔ کیا چیز...

پاکستان

ہم نے پاکستان اس لئے بنایا تاکہ اسلام کو روز مرہ کی زندگی میں حقیقت بنا دیں  ہم نے پاکستان اس لئے بنایا تاکہ ہر مرد و عورت سچی اسلامی زندگی گزار سکے  اور جب تک پورا معاشرہ اسلام کو ملک کا قانون و دستور نہ بنائے  اور کتاب و سنت کے احکام پر سچے دل سے عمل نہ کرے  کسی اکیلے شخص کے لئے الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے  طریقے کے مطابق زندگی گزارنا مشکل ہے 

*وحدت و جمع*

تعداد ظاہر کرنے کے لحاظ سے عربی میں اسم تین قسم کا ہوتا ہے ۔ واحد ۔۔۔ تَثْنِیَهْ ۔۔۔ جمع  واحد یا مفرد جو ایک چیز کو ظاہر کرے ۔ جیسے  رَجُلٌ ۔۔ ایک آدمی  ۔۔۔ کِتَابٌ ۔۔۔ ایک کتاب  تَثْنِیَه ۔۔ جو دو پر دلالت کرے ۔جیسے  رَجُلاَنِ ۔۔ دو آدمی ۔۔۔ کِتَابَانِ ۔۔۔ دو کتابیں  اُردو میں تثنیہ نہیں ہوتی ۔ بلکہ واحد ۔۔ ایک چیز ۔۔۔ اور جمع ۔۔ زیادہ  جبکہ عربی میں دو چیزوں کو تثنیہ کہا جاتا ہے ۔  جو واحد کے آخر میں الف"   نون" یا   ی"   "نون بڑھانے سے بنتا ہے ۔  اور  تین یا تین سے زیادہ چیزوں کو جمع کہا جاتا ہے ۔  جیسے ۔۔  رِجَالٌ ۔۔ زیادہ آدمی ۔۔ کتابوُنَ ۔۔ زیادہ کتابیں  فاعل چاہے واحد ہو ۔۔ تثنیہ ہو یا جمع ہو ۔۔ فعل ہمیشہ واحدآئے گا 

*امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ*

  اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مرتبہ  بہت بلند ہے۔ آپ کا اصل نام نعمان بن ثابت بن زوطا رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ 80 ہجری بمطابق 699ء میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے فقہ کی تعلیم اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان سے حاصل کی۔  آپ کے اساتذہ کا سب سے پہلا طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں آپ اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ آپ تابعی ہیں۔  آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے علمِ حدیث حاصل کیا۔ آپ کے علاوہ امام مالک سمیت ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ میں کوئی امام بھی تابعی نہیں آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی براہِ راست زیارت کی اور ان سے احادیث نبوی کا سماع کیا۔ امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لئے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں ۔ اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا...

مولوی ۔۔ اوریا مقبول جان

شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش۔ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سرزمین کا مولوی۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔ انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو...