*خلیفۃ الله*

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً    ط 
اس آیت کا ترجمہ اور تشریح پچھلے سبق میں بیان ہو چکی ہے ۔ اب ہمیں یہ جاننا ہے کہ خلافت سے کیا مراد ہے اور انسان کس معنی میں الله تعالی کا نائب ہے ۔ 
 الله تبارک وتعالی اس کائنات کا خالق اور مالک ہے ۔ وہ تمام صفاتِ حسنہ کا مالک ہے ۔ ہم نہ اس کی صفتیں گن سکتے ہیں اور نہ کام ۔ اس نے انسان کے خمیر میں اپنی صفتوں میں سے تھوڑی تھوڑی خوبیاں ڈال دیں ۔ تاکہ وہ دنیا میں آ کر اس کی صفتوں کا مظاہرہ کرے ۔ اس کا نام بلند کرے اور اپنے قول اور فعل سے ثابت کرے کہ وہ صحیح معنوں میں الله تعالی کا خلیفہ اور نائب ہے ۔ 
الله جل شانہ رحم کرنے والا ہے ۔ ہر انسان کو بھی چاہئیے کہ وہ نہ صرف اپنے بھائی بندوں پر رحم کرے بلکہ تمام مخلوق پر رحم کرے ۔ اسی طرح الله تعالی صفت ہے کہ وہ عادل اور انصاف کرنے والا ہے ۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لے ۔ اپنے اور پرائے کے ساتھ انصاف کے معاملے میں کسی قسم کی رو رعایت نہ برتے ۔ بلکہ سب کے ساتھ ایک جیسا معاملہ رکھے ۔ 
 الله رب العزت کا نام حلیم بھی ہے ۔ یعنی بُرد باد ہے ۔ انسان اس کی نا فرمانی کرتا ہے اور اس سے بے شمار گناہ سرزد ہوتے ہیں لیکن الله تعالی نرمی سے کام لیتا ہے ۔اس سے درگزر کرتا ہے ۔ اور مجرم کو مہلت دیتا ہے ۔ کہ وہ توبہ کر لے اور اپنا طور طریقہ بدل لے ۔ ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم  اپنے اندر بُرد باری کی صفت پیدا کریں ۔ اپنے ساتھیوں سے حسنِ سلوک سے پیش آئیں ۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو تو انہیں اصلاح کا موقع دیں ۔ 
*غرض یہ کہ* 
انسان اپنے اندر وہ تمام اخلاق اور صفات پیدا کرنے کی کوشش کرے جو الله تعالی کا خاصہ ہیں اور دُنیا کے رہنے والوں سے اس طرح پیش آئے ۔جیسے الله تعالی اپنے بندوں سے پیش آتا ہے ۔ 
اگر ہم اپنے اندر الله تعالی کی صفات پیدا نہیں کرتے تو اس کی خلافت اور نیابت کے مستحق نہیں ٹھرتے ۔ اور کسی طرح اس اُونچے درجہ کو حاصل نہیں کر سکتے ۔ جو اس نے ہمارے لئے پسند فرمایا ہے ۔
درسِ قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

انسان کا مقام ۔۔۔۔

وَإِذْ۔         قَالَ                 رَبُّكَ       لِلْمَلَائِكَةِ                  إِنِّي      
اور جب ۔ اس نے کہا     ۔ تیرا رب   ۔ فرشتوں کو   ۔ بےشک میں 
جَاعِلٌ        فِي      الْأَرْضِ          خَلِيفَةً    ط
بنانے والا ۔     میں       ۔ زمین۔              ۔ نائب 

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً    ط
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں ۔ 

مَلٰئِکَۃ۔ ( فرشتے )  مَلک کی جمع ہے ۔ یہ لفظ الوک  سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں پیغام پہنچانا ۔  فرشتوں کو ملائکہ  اسی لئے کہا جاتا ہے کہ افضل ملائکہ کا کام پیغام پہنچانا ہے ۔ ملائکہ نوری مخلوق ہیں وہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور الله تعالی کے حکموں کی نافرمانی نہیں کرتے ۔ 
قرآن مجید میں فرشتوں کے بارے میں الله تعالی کا فرمان ہے ۔ 
لاَ یَعْصُوْنَ اللهَ مَا اَمَرَھُم وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ  
 وہ الله تعالی کے حکموں کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے ۔ 
 خلیفه  ۔ ( نائب ) خلیفۃ الله وہ ہے جو زمین پر الله تعالی کی شریعت کی حکومت قائم کرے ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ انسان کو الله تعالی کی طرف سے جو قوتیں اور طاقتیں ملیں گی وہ دنیا میں الله تعالی کی خلافت قائم کرنے کے لئے بالکل ٹھیک ہوں گی ۔ 
پروردگارِ عالم وہ ہے جس نے زمین وآسمان اور تمام کائنات کو پیدا کیا ۔ اس کائنات میں ایک طرف زمین کی تمام چیزیں آجاتی ہیں ۔ مثلاً نباتات، جمادات ، حیوانات ، پہاڑ، دریا ، نہریں ، چشمے وغیرہ ۔ دوسری طرف آسمانوں کو بھی لیجئے اور ان تمام چیزوں کو شامل کیجئے جو ان سات آسمانوں کے اندر پیدا کی گئی ہیں ۔ الله تعالی خوب جانتا ہے کہ زمین وآسمان کی تمام چیزوں کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ 
اس آیۃ میں اور اس کے بعد کی آیات میں ان سوالات کا جواب بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کیوں ہوئی ؟ اس مٹی کے پُتلے کو کس غرض سے بنایا گیا ؟ اور اس کا مقصدِ حیات کیا ہے ؟ 
 جب الله تعالی نے زمین وآسمان اور اُن کے درمیان کی تمام چیزوں کو بنایا ۔ چاند سورج ، ستارے ، دریا اور پہاڑ اپنے اپنے کام پر لگ گئے ۔ تو الله تبارک و تعالی نے فرشتوں سے خطاب فرمایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جس کے لئے یہ چیزیں بنائی گئی ہیں وہ بھی سامنے آجاۓ یعنی یہ کہ میں اس زمین پر اپنا ایک خلیفہ بنانا چاہتا ہوں جو ان تمام چیزوں کو اپنے قبضے میں لائے گا ۔ اور دُنیا میں الله تعالی کے منشا کو پورا کرے گا ۔ اس کی نیابت اور خلافت کا حق ادا کرے گا ۔ اور اس کے احکام کا نفاذ و اجراء کرے گا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تیسرے رکوع پر ایک نظر ۔۔۔۔

کافروں اور منافقوں کے حالات ابتدائی دو رکوع میں بیان کرنے کے بعد تیسرا رکوع اس مضمون سے شروع ہوا تھا کہ انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے رب کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے ادب کے ساتھ سر جھکائے ۔ اور اس کے احکام بجا لائے ۔ تاکہ اسے دونوں جہان میں زندگی کی راحتیں نصیب ہوں ۔ الله تعالی نے انسان سے سب سے پہلا مطالبہ یہی کیا ہے ۔ 
پھر ارشاد ہوا اس کے احکام معلوم کرنے کے لئے قرآن مجید کی طرف پورے طور پر متوجہ ہونا چاہئیے ۔ جس کے برابر نہ کوئی کتاب موجود ہے ۔ نہ ہو سکتی ہے ۔ اس حقیقت کو سمجھانے کے لئے ایک سیدھا سادہ سوال تعجب کے انداز میں کیا کہ تم الله تعالی کا انکار کیسے کر سکتے ہو ؟ جب کہ تمہیں اپنے یا کسی جاندار کے پیدا کرنے یا مارنے پر کچھ بھی اختیار نہیں ہے ۔ 
کلام الله کی صداقت کے بارے میں سیدھی سادی دلیل یہ پیش کی کہ اگر کسی کو شک ہو کہ یہ الله تعالی کا کلام نہیں ہے بلکہ کسی انسان کا بنایا ہوا ہے تو وہ  خود اس جیسی دس سورتیں ، دس نہیں تو تین سورتیں یا ایک ہی سورت بنا کر دکھا دے ۔ اکیلے یہ کام کرنا ممکن نہ ہو تو اپنے ساتھیوں فاضلوں ، ادیبوں کو ساتھ ملا کر کوشش کر دیکھے ۔ 
رکوع ختم اس بات پر ہوا کہ اے لوگو ! زمین پر ساری چیزیں تمہارے لئے ہی پیدا کی گئی ہیں اور آسمانوں کو بھی اسی لئے پیدا کیا گیا کہ سورج ، چاند ، ستاروں اور بارش کے ذریعہ تمہیں نفع پہنچے ۔ اس لئے تم اپنے مرتبہ کو پہچانو ۔ اور وہ کام کرو جو تمہارے شایانِ شان ہو ۔ 
اگر ہم یہ ایت سمجھ لیں اور دُنیا کی اقوام کو ذہن نشین کرا سکیں ۔ تو یہ نوع انسانی کی بہت بڑی خدمت ہو گی ۔ اگر مشرکوں اور بُت پرستوں کو اس حقیقت کا پتہ لگ جائے ۔ کہ زمین وآسمان اور کُل کائنات انسان کے لئے بنی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب چیزوں کا مالک اور تمام کائنات سے افضل انسان اپنےسے کمتر اشیاء کے سامنے سجدہ کر سکے ۔ 
جو رکوع اس کے بعد شروع ہو گا ۔ اس میں خاص طور پر بیان کیا گیا ہے کہ انسان کا مرتبہ کیا ہے ۔ اور وہ اس دُنیا میں کامیاب زندگی کس طرح گزار سکتا ہے ۔ تاکہ انسان اپنی عظمت اور شان کا صحیح اندازہ کرے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے وہ اپنے اُونچے مرتبے سے گر جائے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

الله کی نشانیاں ۔۔۔۔

هُوَ     ۔ الَّذِي          ۔ خَلَقَ        ۔ لَكُم     ۔ مَّا       ۔ فِي      ۔ الْأَرْضِ        جَمِيعًا 
وہ  ۔ وہ جس نے   ۔ پیدا کیا ۔ تمہارے لئے ۔ جو ۔       میں       ۔ زمین ۔        سارا 
ثُمَّ    ۔ اسْتَوَى    ۔ إِلَى      ۔ السَّمَاءِ     ۔ فَسَوَّا۔                  هُنَّ      سَبْعَ۔      سَمَاوَاتٍ 
پھر ۔  ارادہ کیا ۔ طرف ۔    آسمان ۔ پس اُس نے برابر کیا ۔ اُن کو ۔     سات ۔       آسمان 
وَهُوَ     ۔ بِكُلِّ      ۔ شَيْءٍ       ۔ عَلِيمٌ۔  2️⃣9️⃣
اور وہ       ۔ ہر ۔       چیز ۔                خبردار     

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ.  2️⃣9️⃣
وہی ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا پھر سات آسمان ٹھیک کر دیئے  اور الله تعالی ہر چیز سے خبر دار ہے ۔ 
فَسَوّاھُنَّ ۔ ( ٹھیک کر دیئے ) یہ لفظ تسویہ سے بنا ہے ۔جس کے معنی ہیں  کسی چیز کے مختلف حصوں اور جوڑوں کو ان کی جگہ پر ٹھیک ٹھیک بٹھا دینا ۔ درست کر دینا ۔ 
سَبْعَ سَمٰوٰت ۔ ( سات آسمان ) سمٰوٰت کا مادہ سموٌ ہے ۔ جس کے معنی بلندی کے ہیں ۔ اسی بلندی کی مناسبت سے آسمان کو آسمان کہا جاتا ہے ۔ سَبْع کے معنی ہیں سات ۔ ویسے عربی محاورے میں یہ لفظ زیادہ اور کثیر کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ 
انسان روح اور جسم کے مجموعے کا نام ہے ۔ظاہر ہے ان دونوں کی ضرورتوں کو الله تعالی ہی پورا کرتا ہے ۔جس نے اس مٹی کے پتلے  کو بنایا پھر وہی جس قدر اس کی ضرورتیں ہیں اُن کو پورا کرتا ہے تاکہ اس جسم کی ترقی اور نشو ونما ہو ۔ اور وہ پھلے پھولے ۔ جسم کی نشو ونما کے ساتھ ساتھ انسان کی روح کو بھی غذا کی ضرورت ہے ۔ 
اس آیہ کا یہی مطلب ہے کہ الله جل شانہ نے زمین کو پیدا کرنے کے بعد اس میں ایک طرف تو دریا اور سمندر بہائے  دوسری طرف اونچے اونچے پہاڑ کھڑے کر دیئے کہ آسمان سے باتیں کرتے ہیں ۔ درختوں کے جنگل کے جنگل اُگائے ۔ زمین کو معدنیات کے اَن گنت خزانوں سے بھر دیا ۔ اور یہ سب کچھ حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی اولاد کے لئے ہوا اب انسان کا یہ کام ہے کہ وہ اپنی عقل اور سمجھ سے ان بے شمار خزانوں سے مناسب فائدہ اٹھائے ۔ 
جَمِیعاً کا لفظ کہہ کر بتایا کہ یہ سب کچھ انسان کے لئے ہے ۔ وہی اس سے فائدہ اٹھانے کا حقدار ہے ۔  لیکن جسم کے ساتھ اس کی روح کی بھی پرورش ہونی چاہئیے ۔ اس مقصد کے لئے زمین اور اس کی پیداوار کافی نہیں ۔ اس لئے زمین پیدا کرنے کے بعد الله جل شانہ نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی ۔ وہاں سے انسانوں کی روح کی تربیت کے لئے مختلف زمانوں میں ہدایت کی بارشیں ہوتی رہیں ۔ انسان جس طرح زمینی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ اسے چاہئیے کہ آسمانی بارش سے بھی فائدہ اٹھائے تاکہ جسم کے ساتھ ساتھ روح کی بھی تکمیل ہو ۔ اور اس طرح مکمل آدمی بن کر الله کے دربار میں حاضر ہو ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم*

قسط ~~~~93
حلیہ مبارک ۔۔۔۔۔
ہجرت کے وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اُمِّ مَعْبد خزاعیہ رضی الله عنھا کے خیمے سے گزرے تو اس نے آپ کی روانگی کے 
بعد اپنے شوہر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا جو نقشہ کھینچا وہ یہ تھا 
🌹 
چمکتا رنگ  ، تابناک چہرہ۔ ، خوبصورت ساخت ، نہ توندے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی ، جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر  ، سرمگیں آنکھیں ، لمبی پلکیں، بھاری آواز ، لمبی گردن ، سفید وسیاہ آنکھیں ، سیاہ سرمگیں پلکیں  ، باریک اور باہم ملے ہوۓ ابرو ، چمکدار کالے بال  ، خاموش ہوں تو باوقار ، گفتگو کریں تو پُرکشش ، دور سے ( دیکھنے میں  ) سب سے تابناک و پُر جمال ، قریب سے سب سے خوبصورت اور شیریں ، گفتگو میں چاشنی ، بات واضح اور دو ٹوک ، نہ مختصر نہ فضول ، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں ، درمیانہ قد نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے ، نہ لمبا کہ ناگوار لگے ، دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ اور خوش منظر ہے ۔ رُفقا آپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے کچھ فرمائیں تو توجہ سے سُنتے ہیں ، کوئی حکم دیں تو لپک کر بجا لاتے ہیں ۔ مطاع و مکرم ، نہ تُرش رُو ، نہ لغو گو ۔۔۔۔
*حضرت علی رضی الله عنہ* آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 🌹
آپ نہ لمبے تگڑے تھے نہ ناٹے چھوٹے ، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے ۔ بال نہ زیادہ  گھنگریالے نہ بالکل کھڑے کھڑے بلکہ دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی ۔ رخسار نہ بہت زیادہ پُر گوشت تھے ، نہ ٹھوڑی چھوٹی تھی اور نہ ہی پیشانی پست ۔ چہرہ کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ رنگ گورا گلابی ، آنکھیں سُرخی مائل ، پلکیں لمبی ، جوڑوں اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی ، سینہ پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر ، باقی جسم بالوں سے خالی ، ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں پُر گوشت ، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں اُٹھاتے اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں ۔ جب کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے ۔ دونوں کندھوں کے درمیان مُہرِ نبوت تھی ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم سارے انبیاء علیھم السلام کے خاتم تھے ۔ سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر جرآت مند ، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہد وپیمان کے پابندِ وفا ، سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے زیادہ شریف ساتھی ۔ 
جو آپ صلی الله علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہو جاتا ۔ جو جان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا ۔ آپ کا وصف بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے ۔کہ
 *میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد آپ جیسا نہیں دیکھا*
🌹
حضرت علی رضی الله عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا تھا ، جوڑوں کی ہڈیاں بھاری بھاری تھیں۔ سینے پر بالوں کی لمبی لکیر تھی ۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم چلتے تو قدرے جھک کر چلتے گویا کسی ڈھلوان سے اُتر رہے ہیں ۔ 
🌹
حضرت جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا دہانہ کشادہ تھا آنکھیں ہلکی سُرخی لئے ہوئے اور ایڑیاں باریک ۔ 
🌹
حضرت ابو الطفیل رضی الله عنہ کہتے ہیں 
 کہ آپ گورے رنگ ، پُر ملاحت چہرے اور میانہ قدوقامت کے تھے ۔ 
🌹
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں ، اور رنگ چمکدار ، نہ خالص سفید، نہ گندم گوں ، وفات کے وقت تک سر اور چہرے مبارک کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے ۔ صرف کنپٹی کے بالوں میں کچھ سفیدی تھی  اور چند بال سر کے سفید تھے 
🌹
حضرت ابو جحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہونٹ کے نیچےعنفقہ ( داڑھی بچہ ) میں سفیدی دیکھی ۔ 
🌹
حضرت عبد الله بن بسر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ آپ کی عنفقہ ( داڑھی بچہ ) میں چند بال سفید تھے ۔ 
🌹
حضرت براء بن عازب رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا پیکر درمیانی تھا ۔ دونوں کندھوں کے درمیان دوری تھی ۔ بال دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے ۔ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو سُرخ جوڑا زیبِ تن کئے ہوئے دیکھا ۔ کبھی کوئی چیز آپ سے زیادہ خوبصورت نہ دیکھی ۔ پہلے آپ اھل کتاب کی موافقت کرتے اس لئے بال میں کنگھی کرتے تو مانگ نہ نکالتے ۔ لیکن بعد میں نکالا کرتے تھے ۔ 
حضرت براء کہتے ہیں :آپ کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق سب سے بہتر تھے ۔ ان سے دریافت کیا گیا کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ تلوار جیسا تھا ۔ انہوں نے کہا نہیں بلکہ چاند جیسا تھا ۔۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک گول تھا 
🌹
ربیع بنت معوّذ کہتی ہیں کہ اگر تم حضور کو دیکھتے تو لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے ۔ 
 حضرت جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ پر سُرخ جوڑا تھا۔ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھتا ، اور چاند کو دیکھتا ۔ آخر  (اس نتیجہ پر پہنچا ) آپ چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں ۔ 
 حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی ۔ لگتا تھا سورج آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر رواں دواں ہے ۔ اور میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا ۔ لگتا تھا زمین آپ کے لئے لپیٹی جا رہی ہے ۔ ہم تو اپنے آپ کو تھکا مارتے تھے ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم بالکل بے فکر ۔ 
🌹
حضرت کعب بن مالک کا بیان ہےکہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ دمک اٹھتا ۔ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے ۔ 
 ایک بار حضرت عائشہ رضی الله عنھا کے پاس تشریف فرما تھے ۔ پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں ۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہ رضی الله عنھا نے ابو کبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا:- 
 و اذا نظرت الی أسرہ وجھه 🌹
برقت کبرق العارض المتہلل 
 " جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو " 
🌹
  حضرت ابو بکر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے : ۔
🌹
آمین مصطفی بالخیر یدعو 
 کضوء البدر زایله الظلام 
 " آپ امین ہیں ، چنیدہ  و برگزیدہ ہیں ، خیر کی دعوت دیتے ہیں ، گویا ماہ کامل کی روشنی ہیں جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے  " 
🌹 
حضرت عمر رضی الله عنہ  زُہیر کا یہ شعر پڑھتے جو ہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ :- 
 لو کنت من شیئٍ سوی البشر 
 کنت المضیءَ  لیلۃ البدر 
اگر آپ صلی الله علیہ وسلم بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ ہی چودھویں کی رات کو روشن کرتے  ۔ 
 پھر فرماتے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایسے ہی تھے 
جب آپ غضب ناک ہوتے تو چہرہ سُرخ ہو جاتا گویا دونوں رُخساروں میں دانۂ انار نچوڑ دیا گیا ہے ۔ 
🌹
 حضرت جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں ۔ اور آپ ہنستے تو صرف تبسم 
فرماتے ۔ ( آنکھیں سُرمگیں تھیں )  تم دیکھتے تو کہتے کہ آپ نے آنکھوں میں سُرمہ لگا رکھا ہے  حالانکہ سُرمہ نہ لگا ہوتا ۔ 🌹حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے آگے کے دونوں دانت الگ الگ تھے ۔ جب آپ گفتگو فرماتے تو ان دانتوں کے درمیان سے نور جیسا نکلتا دکھائی دیتا ۔ 
 گردن گویا چاندی کی صفائی لئے ہوئے گڑیا کی گردن تھی ۔ پلکیں طویل ، داڑھی  گھنی ، پیشانی کشادہ ، ابرو پیوستہ اور ایک دوسرے سے الگ ، ناک اونچی  ، رخسار ہلکے ، لبہ سے ناف تک  چھڑی کی طرح دوڑا ہوا بال ، اور اس کے سوا شکم اور سینے پر کہیں بال نہیں ۔ البتہ بازوں اور مونڈھوں پر بال تھے ۔ شکم اور سینہ برابر ، سینہ مسطح اور کشادہ ، کلائیاں بڑی بڑی  ہتھیلیاں کشادہ ، قد کھڑا ، تلوے خالی ، اعضاء بڑے بڑے ۔ جب چلتے تو جھٹکے کے ساتھ چلتے ، قدرے جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے او سہل رفتار سے چلتے ۔
🌹
حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریر اور دیبا نہیں چھوا جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو ۔ اور نہ کبھی کوئی عنبر ، مُشک یا کوئی ایسی خوشبو سونگھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خوشبو سے بہتر ہو ۔ 
🌹حضرت  ابو جحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کا  ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مُشک سے زیادہ خوشبودار تھا ۔ 
🌹حضرت جابر بن سمرہ ۔۔۔ جو بچے تھے ۔۔۔ کہتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے میرے رخسار پر ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور ایسی خوشبو محسوس کی کہ گویا آپ نے اسے عطار کے عطردان سے نکالا ہے ۔ 
🌹حضرت انس کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا پسینہ گویا موتی ہوتا تھا ۔ اور حضرت اُمّ سلیم کہتی ہیں کہ یہ پسینہ ہی سب سے عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی ۔ 
 🌹حضرت جابر کہتے ہیں : آپ صلی الله علیہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتےاور آپ کے بعد کوئی اور گزرتا تو آپ کے کے جسم یا پسینے کی خوشبو کی وجہ سے  جان جاتا کہ آپ یہاں سے تشریف لے کر گئے ہیں 
🌹آپ صلی الله علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی  جو کبوتر کے انڈے جیسی اور جسم مبارک ہی کے مشابہ تھی ۔ یہ بائیں کندھے کی کری ( نرم ہڈی ) کے پاس تھی ۔ اس پر مسوں کی طرح تِلوں کا جھمگٹ تھا ۔ 
~~~~~~~~~~ جاری ہے 
سیرت مصطفی ~~~~محمد ادریس کاندھلوی 
الرحیق المختوم ~~~~ صفی الرحمن مبارک پوری 


الله کا انکار کیسے ؟

كَيْفَ         ۔ تَكْفُرُونَ           ۔       بِاللَّهِ      ۔ وَكُنتُمْ          ۔ أَمْوَاتًا
کس طرح۔     تم کفر  کرتے ہو ۔ الله تعالی کا ۔ اور تھے تم       ۔ مُردہ 
فَأَحْيَاكُمْ              ۔ ثُمَّ           ۔ يُمِيتُكُمْ            ۔ ثُمَّ                     ۔ يُحْيِيكُمْ
پس زندہ کیا  اس نے تم کو    ۔ پھر ۔     وہ مارے گا تم کو   ۔  پھر ۔ وہ زندہ کرے گا تم کو 
ثُمَّ         ۔ إِلَيْهِ            ۔ تُرْجَعُونَ.  2️⃣8️⃣
پھر      ۔ اسی کی طرف ۔ تم لوٹاۓ جاؤ گے 

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ۔    2️⃣8️⃣
کیسے تم الله تعالی سے کفر کرتے ہو  حالانکہ تُم بے جان تھے پس اس نے تمہیں زندگی  بخشی پھر تمہیں مارے گا  پھر تمہیں زندگی بخشے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔ 

تُرجَعُونَ۔ ۔۔ ( تم لوٹائے جاؤ گے ) یہ رَجْعٌ  سے بنا ہے ۔ یہاں یہ لفظ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اسے دوبارہ زندگی ملے گی ۔ اور اسے الله جل شانہ کے سامنے پیش ہونا پڑے گا ۔ 
 الله تعالی کے پیغمبر دُنیا کی تمام قوموں کی پاس آئے ۔ زمین کے ہر گوشے میں تشریف لائے ۔ ان سب کا پیغام ایک ہی تھا ۔ 
 کہ الله ایک ہے ۔ وہی سب کا اصلی معبود ہے  اور حقیقی رب ہے ۔ زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ 
وہی الله ہے جس نے زمین کو بطور بچھونے کے بنایا ۔ اس میں دریا بہائے تاکہ زمین سرسبز و شاداب ہو اور کھیتیاں لہلہا اُٹھیں ۔ اس پر پہاڑ  کھڑے کئے ۔ نبادات و جمادات کو پیدا کیا ۔ آسمان بغیر ستونوں کے کھڑا کیا ۔ سورج ، چانداور ستارے بنائے جن سے اندھیری راتوں میں راستے کا پتہ چلتا ہے ۔ وہی ہے جس نے ہمیں زندگی بخشی ۔ ہماری ترقی کے لئے ضروری سامان مہیا کر دیئے ۔ 
یہ بات بھی خوب سمجھ لیجئے کہ ایک وقت ایسا تھا جب یہاں انسان کا نام ونشان تک نہ تھا ۔ الله جل شانہ نے انسان کو زندگی بخشی ۔ سالہا سال تک یہاں انسان نے زندگی گزاری ۔ اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھایا ۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا تمام انسان ختم ہوجائیں گے ۔ اس کے بعد الله تعالی کے حکم سے یہ انسان اور ان سے پہلے کے مرے ہوئے سبھی زندہ ہوجائیں گے ۔ پھر سب کے سب الله کے حضور پیش ہوں گے ۔ 
زندگی اور موت کا اختیار صرف الله تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔ جب کسی کی زندگی کا آخری وقت آجاتا ہے تو کوئی ایک لمحہ کے لئے بھی اس کی زندگی نہیں بڑھا سکتا ۔ 
جب انسانی زندگی اور اُس کے تمام وسیلے الله تعالی ہی کے اختیار میں ہیں اور ہر سانس اسی کی رحمت پر موقوف ہے تو ہمیں چاہئیے کہ الله جل شانہ کے حکموں کے آگے سر جھکا دیں ۔ ہماری نیک بختی اور نجات اسی میں ہے  کہ اس کے حضور میں پیش ہونے اور اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لئے کوشش کرتے رہیں ۔ 
درس قر آن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

بر صغیر میں میلاد کا آغاز۔۔۔۔

برصغیر میں میلاد کا آغاز
 بر صغیر پاک وہند میں اس بدعت کا آغاز چودہویں صدی ہجری سنہ 1352ھ بمطابق بیسویں صدی عیسوی سنہ 1933ء میں ہوا ۔ اسکے بارہ میں مشہور ناول نگار " نسیم حجازی" کے اخبار "روزنامہ کوہستان"(رجسٹرڈ ایل نمبر 6005) 22 جولائی 1964ء کے شمارہ میں جناب احسان صاحب بی ۔اے لکھتے ہیں : " لاہور میں عید میلاد النبی ﷺ کا جلوس سب سے پہلے 5 جولائی سنہ 1933ء بمطابق 12ربیع الاول 1352ء کو نکلا۔ اس کے لیے انگریزی حکومت سے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیا تھا ۔ اس کا اہتمام انجمن فرزندان توحید موچی دروازہ نے کیا ۔ اس انجمن کا مقصد ہی اس جلوس کا اہتمام کرناتھا۔ انجمن کی ابتداء ایک خوبصورت جزبے سے ہوئی  ۔ موچی دروازہ لاہو کے ایک پرجوش نوجوان معراج الدین اکثر دیکھا کرتے تھے کہ ہندو اور سکھ اپنے دھرم کے بڑے آدمیوں کی یاد بڑے شاندار طریقے سے مناتے ہیں اور ان دنوں میں ایسے لمبے لمبے جلوس نکلتے ہیں کہ کئی بازار ان کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں ۔ حافظ معراج الدین کے دل میں یہ خیال آیا کہ دنیا کے لیے رحمت بن کر آنے والے نبی ﷺ کی یاد میں اس سے بھی زیادہ شاندار جلوس نکلنا چاہیے ۔ انہوں نے اپنے محلے کے بزرگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ ان میں مستری حسین بخش رنگ ساز, شیخ قمر الدین وکیل مرحوم, مستری خدا بخش مرحوم اور دیگر کئی بزرگ شامل تھے ۔ آخر ایک انجمن قائم ہوگئی جس کا مقصد عید میلاد النبی ﷺکے موقعہ پر جلوس مرتب کرنا تھا ۔اس میں مندرجہ ذیل عہدہ دار تھے : ۱۔ صدر مستری حسین بخش ۲۔ نائب صدر مہر معراج دین ۳۔ سیکرٹری حافظ معراج الدین ۴۔ پراپیگنڈہ سیکرٹری میاں خیر دین بٹ (باباخیرا) ۵۔ خزانچی حکیم غلام ربانی ۔ اشتہارات کے ذریعہ جلوس نکالنے کے ارادہ کو مشتہر کیا گا ۔ چست اور چاق وچوبند نواجوانوں کی ایک رضاکار جماعت بنائی گئی اور جگہ جگہ نعتیں پڑھنے کا انتظام کیا گیا ۔ ابو الاثر حفیظ جالندھری کے " سلام" کی مشق خاص طور بہم پہنچائی گئی ۔ اس جماعت میں حسب ذیل نوجوان شامل تھے : ۱۔ سالار فیروز الدین (حال فزیکل انسٹرکٹر گورنمنٹ کالج ) ۲۔ نائب سالار محمد عادل خان (حال پشاور یونیورسٹی) انکے علاوہ حکیم محمد عاقل خان , حافظ محمد اشرف , مستری ولایت حسین , محمد زبیر اور بابا شاکی نے بڑے جوش سے حصہ لیا ۔ موچی دروازہ کے دوسرے نوجوان بھی انکے شانہ بشانہ تھے ۔ جلوس کے لیے عرضی دی گئی تو ہندوؤں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی ۔ لیکن ملک محمد امین مرحوم کی کوششوں سے اجازت مل گئی اور انجمن لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ یہ جلوس ۱۹۴۰ء تک باقاعدہ نکلتا رہا ۔ اس سال حکومت اور خاکساروں میں تصادم ہو گیا اور جلوس بطور احتجاج بند کر دیا گیا ۔ ہندو اس جلوس کی روح رواں حافظ معراج الدین کے خلاف اکثر سازشیں کرتے رہتے تھے لیکن ان کا کوئی وار کارگر نہیں ہوتا تھا ۔ اتفاق سے ایک دفعہ رنگ محل میں دو پارٹیوں کا تصام ہوگیا جس میں ایک نوجوان جس کا نام فیروز تھاقتل ہوگیا ۔ ہندوؤں کی سازش نے اس قتل میں حافظ معراج الدین کو بھی ملوث کر لیا لیکن ہندو کی یہ چال بھی کارگر نہ ہوئی ۔ حافظ معراج الدین کی عدم موجودگی میں مہر معراج الدین ملک لال دین قیصر اور فیرز دین احمد نے جلوس کا اہتمام کیا اور جلوس اسی شان سے نکلا ۔ قیام پاکستان کے بعد حافظ صاحب سردار عبد الرب نشتر گورنر پنجاب ملے اور انہیں اس بات پر رضا مند کر لیا کہ جلوس حکومت کے اہتمام میں نکلے ۔ چانچہ اس سال سرکاری اہتمام میں انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ جلوس نکلا ۔ شاہی قلعہ لاہو میں فوج کی پریڈ ہوئی اور سلامی دی گئی ۔ اس زمانے میں جلوس کی ترتیب اس طرح کی جاتی کہ اس مہینے کا چاند دیکھنے کے بعد شہر کے ہر دروزاے پر مندرجہ ذیل لوگ لوگوں سے سلامی دیتے اور چاند کا استقبال کرتے : موچی دروازہ کے باہر ڈپٹی سعادت علی خان مرحوم , لوہاری کے باہر انجمن خادم المسلمین , موری دروزے کے باہر میاں عبد الرشید دفتری , بھاٹی کے باہر استاد گام چودھری برکت علی, اور فلمسٹار ایم اسماعیل ٹکسالی کے باہر, الطاف حسین اور عاشق حسین مستی کے باہر, حکیم نیر واسطی اور یوسف پہلوان کشمیری کے باہر, چجا ابل اور انکے احباب شیرانوالہ کے باہر, بابو ممتازیکی کے باہر , امداد علی عرف دادو مرحوم اور سرکی بند حضرات اکبری منڈی کے باہر , عبد الستار دلی دروازہ کے باہر ۔ " انتہى ۔
اس تحریر سے یہ باتیں واضح ہوتیں ہیں کہ :
 ۱۔ برصغیر میں اس جلوس کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ہوا ۔
 ۲۔ اس جلوس کا مفکر وموجد حافظ معراج الدین تھا ۔
 ۳۔ جلوس کے لیے حکومت برطانیہ کی طرف سے باقاعدہ لائسنس جاری کیا گیا ۔
 ۴۔ جلوس کے لیے اشتہار بازی کی جاتی تھی ۔
 ۵۔ قیام پاکستان کے بعد اسے حکومتی سر پرستی حاصل ہوگئی ۔
 اسی طرح مصطفى کمال پاشانے روزنامہ مشرق ۲۶ جنوری ۱۹۸۴ء کے شمارہ میں اسی حوالہ سے ایک مضمون تحریر کیا وہ لکھتے ہیں
 : آزادی سے پیشتر ہندوستان میں حکومت برطانیہ ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسى کے یوم پیدائش کو بڑے اہتمام کے ساتھ منانے کا انتظام کرتی اور اس روز کی فوقیت کو دوبالا کرنے کے لیے اس یوم کو " بڑے دن" کے نام سے منسوب کیا گیا ۔ بڑے دن کا مطلب یہ نہیں تھا کہ دن ۱۲ گھنٹے کی بجائے ۱۶ گھنٹہ کا ہوتا ہے بلکہ عوام نوجوانوں اور بچوں کے ذہنوں میں اس کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے دفتروں کارخانوں مدرسوں وغیرہ میں پندرہ روز کی رخصت دی جاتی ۔ تاکہ دنیا میں ثابت کیا جائے کہ حضرت مسیح ہی نجات دہندہ تھے ۔ حضور پاک ﷺ ۱۲ ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے اور اسی روز وفات پائی ۔ کچھ لوگ اس مقدس یوم کو بارہ وفات کے نام سے پکارتے ہیں ۔ آزادی سے پیشتر اس یوم کے تقدس کے پیش نظر مسلمانان لاہور نے اظہار مسرت وعقیدت کے طور پر جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اس ضمن میں مسلمانان لاہور کا ایک وفد جس میں خلیفہ شجاع الدین , محمد الدین , بیرسٹر چودھری فتح محمد , محمد فیاض اور میاں فیروز الدین احمد مرحوم شامل تھے , گورنر سے ملا تو اسکو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا ۔ گورنر نے مسلمانوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے جلوس نکالنے کی منظوری دے دی ۔ اسلامی جذبوں سے سرشار بزرگوں نے انجمن معین اسلام کے زیر تحت جس کے سیکرٹری جناب مفتی حمایت اللہ مرحوم ( والد بزرگوار شباب مفتی ) نے جلوس نکالنے کا پروگرام مرتب کیا ۔ ان دنوں کانگرس اپنے اجتماع موری دروازہ میں منعقد کیا کرتی تھی اور اسکے مقابلہ میں مسلمان اپنے اجتماع موچی دروازہ میں منعقد کرتے تھے ۔ لہذا موچی دروازہ کو سیاسی مرکز ہونے کے علاوہ سب سے پہلے عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس نکالنے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ علمی طور پر جلوس کی قیاد ت انجمن فرزندان توحید موچی گیٹ کے سپرد ہوئی , جس میں حافظ معراج دین , حکیم معین الدین , بابو سراج دین , شاہ الدین اسلم , مستری حسین بخش , چودھرفتح محمد , ملک محمد الدین بیرسٹر ,چودھری کلیم الدین , مہر سراج دین اور میاں فیروز الدین احمد ومسلم لیگی لیڈر جنہوں نے مسٹر جناح کو قائد اعظم کا لقب دیا اور دیگر نواجوان شامل تھے ۔" دار النذیر" موچی دروازہ میں جلوس کے پروگرام اور انتظام کے متعلق اہم فیصلے کیے جاتے ۔ انجمن کی زیر قیادت جلوس ہر سال مسلسل کامیابی وکامرانی سے نکالتا رہا ۔ جلوس کا لائسنس اور اجازت نامہ میاں فیروز الدین احمد کے نام تھا ۔ ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کے علاوہ تحریک خلافت بھی عوام میں مقبول تھی ۔ لہذا ۱۹۳۴ ء اور ۱۹۳۵ء میں لائسنس میاں فیروز الدین احمد سیکرٹری خلافت کمیٹی کے نام پر کر دیا گیا ۔ بعد کے دیگر لائسنس کے علاوہ ۱۹۴۲ء کے اجازت نامہ میں میاں فیروز الدین کو سیکرٹری مسلم لیگ کے طور پر منظوری ملی ۔ جلوس کا آغاز ۱۹۳۴ء , ۱۹۳۵ء میں موچی دروازہ سے دیگر علاقہ جات سے ہوتا ہوا رات ایک بجے شاہی مسجد پہنچا ۔ بعد میں دوسرا جلوس اندرون شہر اور بھاٹی دروازہ سے گزرنے کے بعد حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر اختتام پذیر ہوا ۔ جلوس میں گھوڑے پر سوار نواجوان ہاتھوں میں نیزے لیے ہوئے گشت کرتے ۔ سیاسی , دینی اور سماجی کارکنوں کے علاوہ جلوس کے آگے پہلوانوں کی ٹولی بھی شمولیت کرتی جسکی رہنمائی رستم زماں گاماں پہلوان اور امام بخش پہلوان وغیرہ کرتے ۔ فنکار پارٹی اور دیگر نوجوانوں کی رہنمائی ماسٹر فیروز مرحوم انسٹرکٹر فزیکل ٹریننگ گورنمنٹ کالج لاہور کے سپرد تھی ۔ اراکین خلافت کمیٹی شعبہ والنٹر کور , مجلس احرا , خاکسار, مجلس اتحات ملت , نیلی پوش اور مسلم لیگی حضرات جوق درجوق شامل ہوکر جلوس کی رونق کو دوبالا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ۔ جلوس کے اختتام پر خلیفہ شجاع الدین (سپیکر اسمبلی) نواب شاہ نواز ممدوٹ , محمد فیاض اور میاں امیر الدین و دیگر معززین لاہور اچھی کار کردگی پر انعامات تقسیم کرتے ۔ اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا ۔ مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ , مولانا محمد بخش مسلم , نور بخش توکل اور دیگر علمائے کرام نے قرار داد کے ذریعہ عید میلاد النبی ﷺ نام دیا ۔" انتہى ۔
 اس مضمون سے بھی سابقہ باتوں کے ساتھ ساتھ کچھ مزید باتیں سمجھ آتی ہیں کہ : ۱۔ 
یہ جلوس ہندوؤں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی بھی نقالی کرتا تھا ۔ ۲۔
ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ کو ۱۹۳۳ء سے قبل بارہ وفات کے نام سے جانا جاتا تھا , پھر اسکے بعد ایک قرارداد کے ذریعہ اس دن کو عید میلاد النبی ﷺ کا نام دیا گیا ۔

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-articles-660.html

*قبر کا ثواب یا عذاب*

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازہ میں گئے اور قبر تک پہنچے ,لیکن قبر ابھی تک کھودی نہیں گئی تھی ۔
 تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد ایسے بیٹھ گئے کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے ہیں , 
اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جسکے ساتھ آپ صلى اللہ علیہ وسلم زمین کرید رہے تھے , آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا "قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو" پھر فرمایا "
جب مؤمن دنیا سے رخصت اور آخرت کے سفر پر گامزن ہوتا ہے تو اسکے پاس ایسے سفید چہروں والے فرشتے آسمان سے اترتے ہیں گویا کہ انکے چہرے سورج ہیں , انکے پاس جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبو میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے , حتى کہ وہ اسکی تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں , پھر ملک الموت آتا ہے اور اسکے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے " اے پاک جان اللہ کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف نکل چل " 
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تو وہ ایسے بہہ کر نکلتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے قطرہ بہتا ہے , تو وہ اسے پکڑ لیتا ہے , اور جونہی وہ اسے پکڑتا وہ (دیگر فرشتے) پل بھر بھی اسکے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے لے لیتے ہیں اور اس کفن اور خوشبو میں ڈال دیتے ہیں۔ اور روئے ارض کی بہترین کستوری کی خوشبو کی طرح اس میں سے (مہک) نکلتی ہے ۔ تو وہ اسے لے کر اوپر کی جانت چڑھتے ہیں تو فرشتوں کے جس کسی گروہ کے پاس سے بھی گزرتے ہیں تو وہ لوگ یہ ضرور پوچھتے ہیں یہ پاکیزہ روح کیا ہے ؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے , دنیا میں جن اچھے اچھے ناموں سے اسے پکارا جاتا تھا (وہ نام یہ ذکر کرتے ہیں) حتى کہ آسمان دنیا تک اسے لے کر پہنچ جاتے ہیں تو دستک دیتے ہیں تو انکے لیے دروازہ کھول دیا جاتا ہے پھر ہر آسمان کے مقرب فرشتے اگلے آسمان تک انکے ہمنوا ہوجاتے ہیں حتى کہ اسے ساتویں آسمان تک لے جایا جاتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتے ہیں "میرے بندے کا اندراج علیین میں کر دو, اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو ,یقینا میں نے اسی سے انکو پیدا کیا ہے , اور اسی میں انکو لوٹاؤں گا , اور اسی سے انہیں دوسری مرتبہ نکالوں گا" 
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پھر اسکی روح اسکے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ,تواسکے پاس دو فرشتے آتے ہیں , اسے بیٹھاتے ہیں ,اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ تو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔ تو وہ کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے ۔ تو وہ اسے کہتے ہیں یہ شخص جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے وہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ وہ اسے کہتے ہیں تیرا علم کیا ہے ؟ (یعنی تجھے یہ سب کیسے معلوم ہوا ) تو وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا , اس پر ایمان لایا , اور تصدیق کی ۔ تو آسمان میں ایک منادی آواز لگاتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا , لہذا اسکے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو , اور اسے خلعت جنت پہنا دو , اور اسکے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو ۔ 
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اسکے پاس جنت کی ہوا اور خوشبو آتی ہے , اور اسکے لیے اسکی قبر میں تا حد نگاہ وسعت کر دی جاتی ہے ۔ اور اسکے پاس خوبصورت چہرے والا , عمدہ لباس والا , اور اچھی خوشبو والا ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے تمہیں خوشخبری مبارک ہو یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ اس سے پوچھتاے کہ تم کون ہو؟ کہ تمہارا چہرہ ہی خیر کا پتہ دیتا ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں اس پر وہ کہتا ہے کہ پروردگار! قیامت ابھی قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور مال میں واپس لوٹ جاؤں ۔
 اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت يآکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔۔
 " ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے " اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال " سجین " میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے
 پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ۔۔
 جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔ "
 پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ 
وہ جواب دیتا ہے ہائے افسوس ! مجھے کچھ پتہ نہیں ،
 وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟
 وہ پھر وہی جواب دیتا ہے 
وہ پوچھتے ہیں کہ وہ کون شخص تھا جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟
 وہ پھر وہی جواب دیتا ہے اور آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول دو چنانچہ وہاں کی گرمی اور لو اسے پہنچنے لگتی ہے اور اس پر قبر تنگ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے پاس ایک بدصورت آدمی گندے کپڑے پہن کر آتا ہے جس سے بدبو آرہی ہوتی ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تجھے خوشخبری مبارک ہویہ وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ پوچھتا ہے کہ تو کون ہے ؟
 کہ تیرے چہرے ہی سے شر کی خبر معلوم ہوتی ہے
 وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیراگندہ عمل ہوں تو اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سست اور اس کی نافرمانی کے کاموں میں چست تھا لہٰذا اللہ نے تجھے برا بدلہ دیاہے پھر اس پرا ایک ایسے فرشتے کو مسلط کردیا جاتا ہے جواندھا، گونگا اور بہرا ہو اس کے ہاتھ میں اتنا بڑا گرز ہوتا ہے کہ اگر کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے اور وہ اس گرز سے اسے ایک ضرب لگاتا ہے اور وہ ریزہ ریزہ جاتا ہے پھر اللہ اسے پہلے والی حالت پر لوٹادیتا ہے پھر وہ اسے ایک اور ضرب لگاتا ہے جس سے وہ اتنی زور سے چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ساری مخلوق اسے سنتی ہے پھر اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور آگ کا فرش بچھادیا جاتاہے۔ مسند أحمد
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ : 1. موت کے وقت روح کو قبض کر لیا جاتا ہے ۔ 2. نیک شخص کی روح کے لیے آسمانوں کے دروازے کھلتے ہیں , جبکہ فاسق کی روح کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے ۔ 3. علیین اور سجین کسی جگہ کا نام نہیں بلکہ "کتاب مرقوم" ہے جن میں نیک وبد کا اندراج کیا جاتا ہے ۔ 4. مرنے کے بعد قیامت سے قبل ہی ہر نیک وبد کی روح اسکے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ 5. قبر میں سوال وجواب ہوتے ہیں ۔ 6. قبر میں جزاء یا سزا بھی ہوتی ہے ۔ 7. قبر میں بطور جزاء جنت کی ہوائیں , لباس اور خوشبو وغیرہ میسر آتی ہے ۔یعنی قبر وبرزخ میں بھی کسی قدر جنت کی نعمتیں میسر آتی ہیں ۔ 8. قبر کے عذاب میں جہنم کی لو, لباس , بستر , اور بدبو وغیرہ شامل ہیں۔یعنی قبر میں بھی کسی قدر جہنم کا عذاب ہوتا ہے۔ 9. قبر کے سوالوں میں وہ شخص کامیاب ہوتا ہے جو کتاب اللہ کو پڑھے سمجھے اور اسکی تصدیق کرے ۔ 10. لوگوں کسی سنی سنائی باتوں پر عمل کرنیوالا , اور خود کتاب اللہ کو پڑھ کر نہ سمجھنے والا امتحان قبر میں ناکام ہوتا ہے ۔ 11. قبر کا عذاب یا ثواب اسی زمین پر موجود قبر میں ہی ہوتا ہے ۔

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-ahkam-o-msael-538.html

*سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم*

قسط نمبر ۔۔۔ 92
' جب جستجو کی آگ بجھ گئی ، تلاش کی تگ و دو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش وجذبات سرد پڑ گئے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے مدینہ کے لئے نکلنے کا عزم فرمایا ۔ عبد الله بن اریقط لَیثی سے جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا ، پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا ۔یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا لیکن قابل ِ اطمینان تھا اس لئے سواریاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں ۔ اور طے ہوا تھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غارِ ثور پہنچ جائے گا ۔  چنانچہ جب دوشنبہ کی رات آئی جو ربیع الاول 🌙یکم ہجری کی رات تھی ( بمطابق ۱۶ستمبر ۶۲۲ء ) تو عبد الله بن اریقط سواریاں لے کر آ گیا ۔ اور اسی موقع پر حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں افضل ترین اونٹنی پیش کرتے ہوئے گذارش کی کہ آپ میری ان دو سواریوں میں سے ایک قبول فرما لیں ۔  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا قیمتاً لوں گا ۔ 
ادھر اسماء بنت ابی بکر رضی الله تعالی عنھا بھی زادِ سفر لے کر آئیں ۔ مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول کئیں ۔ جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسماء نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں ہے انہوں نے اپنا پٹکا ( کمر بند ) کھولا اور دو حصوں میں چاک کر کے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا ۔ اسی وجہ سے ان کا 
 لقب " ذاتُ النِّطاقین " پڑ گیا  ۔ 
اس کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ابوبکر رضی الله عنہ نے کوچ فرمایا ۔ عامر بن فہیرہ رضی الله عنہ بھی ساتھ تھے ۔ رہنما عبد الله بن اریقط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا ۔  غار سے روانہ ہو کر اس نے سب سے پہلے یمن کے رُخ چلایا اور جنوب کی سمت خوب دور تک لے گیا ۔ پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحلِ سمندر کا رُخ کیا ۔ پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے شمال کی طرف مُڑ گیا ۔ یہ راستہ بحرِ احمر کے ساحل کے قریب ہی تھا ۔ اس پر شاذونادر ہی کوئی چلتا تھا ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس راستے میں جن مقامات سے گزرے ابنِ اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ 
آئیے اب راستے کے چند واقعات بھی سُنتے چلیں ۔۔۔   🍀
صحیح بُخاری میں حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ہم لوگ غار سے نکل کر رات بھر اور دن میں دوپہر تک چلتے رہے ۔ جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا  راستہ خالی ہو گیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی  جس کے سائے پر دھوپ نہیں آئی تھی ۔ ہم وہیں اتر پڑے ۔ میں نے اپنے ہاتھ سے نبی صلی الله علیہ وسلم کے سونے کے لئے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی کہ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم آپ سو جائیں اور میں آپ کے گردوپیش کی دیکھ بھال کئے لیتا ہوں ۔  آپ صلی الله علیہ وسلم سو گئے اور میں دیکھ بھال کے لئے نکلا ۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چرواہا  اپنی بکریاں لئے چٹان کی جانب چلا آ رہا ہے ۔ وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جو ہم نے چاہا تھا ۔  میں نے اُس سے کہا 'اے نوجوان تم کس کے آدمی ہو ؟  اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا ۔ میں نے کہا' تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے؟ اس نے کہا ' ہاں ۔ میں نے کہا ' دوہ سکتا ہوں ؟ اس نے کہا ' ہاں ! اور ایک بکری پکڑی ۔ میں نے کہا ذرا تھن کو مٹی ، بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کر لو ۔ پھر اس نے ایک قاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللهصلی الله علیہ وسلم کے پینے اور وضو وغیرہ کرنے کے لئے رکھ لیا تھا ۔ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا لیکن گوارا نہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں ۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئے تو میں آپ کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا  یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا ۔ اس کے بعد میں نے کہا " اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ! پی لیجئے ۔ آپ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا ۔
 پھر آپ نے فرمایا کیا ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ! اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے ۔
🍀
اس سفر میں ابوبکر رضی الله عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ردیف رہا کرتے تھے ۔ چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے اس لئے لوگوں کی توجہ انہیں پہ جاتی تھی ۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ ابوبکر رضی الله عنہ سے پوچھتا یہ آپ کے آگے کون ہے ؟ ( حضرت ابوبکر اس کا بڑا لطیف جواب دیتے ) فرماتے : " یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے ۔" اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ وہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں ۔  حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے ۔ 
🍀
 اسی سفر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا گذر اُمّ مَعْبَد خزاعیہ کے خیمے سے ہوا ۔ یہ ایک نمایاں اور توانا عورت تھیں ۔ ہاتھوں میں گھٹنے ڈالے راستے میں بیٹھی رہتی تھیں ۔ اور آنے جانے والوں کو کھلاتی پلاتی رہتیں ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ پاس میں کچھ ہے ؟ بولیں " بخدا ہمارے پاس کچھ ہوتا توآپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی ۔ بکریاں بھی دور دراز ہیں " یہ قحط کا زمانہ تھا ۔ 
 رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے ۔ فرمایا! " اُمّ معبد ! یہ کیسی بکری ہے ؟  بولیں " اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے " ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا  کیا اس میں کچھ دودھ ہے ؟  بولیں " وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے ۔ " آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ! " اجازت ہے کہ اسے دوہ لوں ؟ "  بولیں : ہاں میرے ماں باپ تم پر قربان  ۔ اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوہ لو ۔ اس گفتگو  کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا۔ الله کا نام لیا اور دعا کی ۔ بکری نے پاؤں پھیلا دئے ۔ تھن میں بھر پور دودھ اتر آیا ۔ آپ نے اُمّ مَعبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کر سکتا تھا ۔ اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آ گیا ۔ پھر اُمّ معبد کو پلایا ۔ وہ پی کر شکم سیر ہو گئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا ۔ وہ بھی شکم سیر ہو گئے ۔ تو خود پیا ۔ پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنا دودھ دوہا کہ برتن بھر گیا ۔ اور اسے اُمّ معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے ۔ 
 تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر ابو معبد اپنی کمزور بکریوں کو جو دُبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں ، ہانکتے ہوئے آپہنچے ۔ دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے ۔ پوچھا یہ تمھارے پاس کہاں سے آیا ؟ جبکہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی ۔ بولیں :" کچھ نہیں بخدا کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک 
با برکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی ۔ اور یہ اور یہ حال تھا ۔ ابو معبد نے کہا یہ تو وہی صاحبِ قریش معلوم ہوتا ہے جسے قریش تلاش کر رہے ہیں ۔ اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو ۔ اس پر اُمّ معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے ۔ ۔۔۔ یہ اوصاف سُن کر ابو معبد نے کہا : " و الله یہ تو وہی صاحبِ قریش ہے جس کے بارے میں لوگوں نے قسم قسم کی باتیں بیان کی ہیں ۔ میرا ارادہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت اختیار کروں اور کوئی راستہ ملا تو ایسا ضرور کروں گا ۔ " 
🍀
راستے میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو بُرَیْدَہ اَسْلَمِی ملے ۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے ۔ اور قریش نے جس زبردست انعام کا اعلان کر رکھا تھا اسی کے لالچ میں نبی صلی الله علیہ وسلم اور ابو بکر رضی الله عنہ کی تلاش میں نکلے تھے ۔ لیکن جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سامنا ہوا اور بات چیت ہوئی تو نقد دل دے بیٹھے ۔ اور اپنی قوم کے ستر آدمیوں سمیت وہیں مسلمان ہو گئے ۔ پھر اپنی پگڑی اُتار کر نیزے سے باندھ لی ۔ جس کا سفید پھریرا ہوا میں لہراتا اور بشارت سُناتا تھا کہ امن کا بادشاہ ، صلح کا حامی ، دُنیا کو عدالت و انصاف سےبھر پور کرنے والا تشریف لا رہا ہے ۔ 
🍀
جب آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ کے قریب پہنچے تو حضرت زبیر بن عوام رضی الله عنہ مسلمانوں کے ایک کاروانِ تجارت کے ساتھ شام سے واپس ہوتے ہوئے آپ کو ملے ۔ حضرت زبیر رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم  اور حضرت ابو بکر  رضی الله عنہ کو سفید پارچہ جات پیش کئے ۔ ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے بھی دونوں حضرات کی خدمت میں لباس پیش کیا ۔ 
اس دن  نبی صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک بغیر کسی کمی بیشی کے ٹھیک ترپن سال ہوئی تھی  اور جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز ۹ ربیع الاول ۴۱ عام الفیل مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق اپ کی نبوت پر ٹھیک تیرہ سال پورے ہوئے تھے ۔ ۔
البتہ جو لوگ آپ کی نبوت کا آغاز رمضان  ۴۱  عام الفیل مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق بارہ سال ، پانچ مہینے اٹھارہ دن یا بائیس  دن ہوئے تھے ۔ 
~~~~~~~~~~~~~جاری ہے 
الرحیق المختوم ۔۔۔۔ صفی الرحمٰن مبارک پوری 
سیرتِ مصطفٰی ۔۔۔۔ محمد ادریس کاندھلوی 

گمراہ کون ہوتے ہیں ۔۔۔۔

الَّذِينَ       ۔ يَنقُضُونَ       ۔ عَهْدَ        ۔ اللَّهِ      ۔ مِن       ۔ بَعْدِ                   ۔  مِيثَاقِهِ
وہ لوگ ۔      وہ توڑتے ہیں ۔ اقرار  ۔ الله تعالی  ۔ سے ۔      بعد ۔ اس کی مضبوطی کے 
وَيَقْطَعُونَ      ۔ مَا            ۔ أَمَرَ                    ۔ اللَّهُ       ۔ بِهِ     ۔ أَن                ۔ يُوصَلَ
اور وہ کاٹتے ہیں ۔ جو ۔   اس نے  حکم دیا    ۔ الله تعالی     ۔ اس کا ۔ یہ کہ ۔ وہ جوڑا جائے ۔ 
وَيُفْسِدُونَ      ۔ فِي      ۔ الْأَرْضِ      ۔ أُولَئِكَ      ۔ هُمُ       ۔ الْخَاسِرُونَ.     2️⃣7⃣
اور وہ فساد کرتے ہیں۔      میں      ۔ زمین ۔    یہی لوگ۔    ۔ وہ ۔ نقصان اٹھانے والے۔      ۔      

الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ۔     2⃣7⃣
جو الله تعالی سے اپنے اقرار کو پختہ ہو جانے کے بعد توڑتے ہیں اور جس چیز کو الله تعالی نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا تھا اُسے توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ۔ یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں ۔ 
عَھْدَ ۔۔۔ ( اقرار ) اس قول واقرار کو کہتے ہیں جس کے کرنے کے بعد اس کی پابندی ضروری ہو جاتی ہے ۔ *عھد الله* سے مراد ہے الله تعالی کو رب ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کا اقرار ۔ 
الله جل شانہ نے دُنیا میں بھیجنے سے پہلے تمام انسانوں سے پوچھا تھا۔ "  آلَسْتُ بِرَبِّکُم " کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟
سب نے اقرار کیا تھا کہ " ہاں ۔ تو ہی ہمارا رب ہے " ۔ تو الله جل شانہ نے فرمایا میں اس اقرار پر زمین وآسمان کو گواہ کرتا ہوں ۔ اور اس اقرار کی یاد دھانی کے لئے اپنے رسول بھیجتا رہوں گا ۔ 
حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ فرماتے ہیں ۔ یہاں  "عھد الله " سے یہی اقرار مراد ہے ۔
روز اول کے عھد کے علاوہ ایک عھد وہ بھی ہے جو انسان کی فطرت میں موجود ہے ۔ پھر وہ عھد بھی ہیں جو انبیاء علیھم السلام پر ایمان لا کر کئے گئے ۔ اور وہ عھد بھی جو الله جل شانہ کے نام پر لوگوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں ۔ 
پچھلی آیت سے یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ فاسق اور نافرمان لوگ گمراہی کا شکار ہوتے ہیں ۔ اب ان کی اس گمراہی کے اسباب بیان کئے جا رہے ہیں ۔
پہلا سبب یہ ہے کہ الله تعالی کے ساتھ جو اقرار کر چکے ہیں اُسے توڑ دیتے ہیں ۔ الله تعالی کو اپنا مالک معبود اور پالنے والا ماننا اور اس کا اقرار کرنا ایک ایسی سیدھی اور سچی بات ہے کہ خود انسان کی عقل چاہتی ہے کہ وہ الله تعالی کے سوا کسی کو اپنا رب نہ مانے ۔ 
دوسری نشانی یہ ہے کہ" فاسق " ہر اس رشتے اور تعلق کو کاٹ دیتا ہے ۔ جس کو جوڑے رکھنے کا الله تعالی نے حکم دیا ہے ۔ مراد یہ ہےکہ انسان کو چاہئیے کہ الله تعالی کے اور بندوں کے سارے حق جو رشتوں کی وجہ سے اس پر لازم آتے ہیں پورے پورے ادا کرے ۔ لیکن فاسق الله جل شانہ اور اس کے بندوں کے حق مارتا اور حق تلفی کرتا ہے ۔ 
تیسری نشانی یہ کہ فاسد ملک میں فساد پھیلاتا ہے ۔ وہ اپنے بُرے اعمال سے دُنیا کے امن میں خرابی پیدا کرتا ہے  ۔ 
۔  " فاسق" کی تین نشانیاں بیان کر کے الله تعالی نے ان کا انجام بتایا ہے کہ یہی لوگ دین اور دُنیا دونوں کے لحاظ سے گھاٹے میں رہیں گے ۔ الله تعالی ہم سب کو ان شر سے بچائے اور سیدھی راہ پر چلائے ۔ 

❤️💚❤️💚. رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دُعا. ❤️💚❤️💚❤️

جہالت بہت بڑی خرابی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔ لیکن علم بھی اس وقت تک نفع نہیں دیتا جب تک الله جل شانہ ھدایت کی توفیق نہ عطا فرما دیں ۔ اسی لئے میرے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم ( میری جان آپ پر قربان ) نے اپنی امت کو دُعا سکھائی ۔
*اللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلَکَ عِلْماً نَافِعاً وَّ عَمَلاً مُّتَقَبَّلاً وَّ شِفَاءً مِّنْ کُلِّ دَاءٍ*
*ترجمہ*:-اے میرے الله میں تجھ سے نفع پہنچانے والے علم کا سوال کرتا/ کرتی ہوں ۔ اور قبول ہونے والے اعمال اور ہر بیماری سے شفا مانگتا/مانگتی ہوں ۔ 
علم بغیر عمل کے نقصان نہیں پہنچاتا  لیکن اصل فائدہ اور مقصد عمل ہی ہے ۔ اس فانی دُنیا میں بھی اور ہمیشہ رہنے والی اُخرٰی میں بھی ۔

ہدایت اور گمراہی ۔۔۔

 يُضِلُّ        ۔ بِهِ      ۔ كَثِيرًا      ۔ وَيَهْدِي                 بِهِ۔             كَثِيرًا     
 وہ گمراہ کرتا ہے ۔ اس سے ۔ بہت ۔ اور وہ ہدایت دیتا ہے ۔ اس سے ۔       بہت    
وَمَا۔      يُضِلُّ           بِهِ          إِلَّا         الْفَاسِقِينَ۔   2️⃣6️⃣لا 
اور نہیں ۔ وہ گمراہ کرتا ۔ اس سے   ۔ مگر         ۔ نا فرمان۔            ۔         

 يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ۔  2️⃣6️⃣لا 
اور وہ اس ( مثال ) سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور اسی سے بہتوں کو ہدایت دیتا ہے ۔ اور وہ اس ( مثال ) سے سوائے بدکاروں کے کسی کو گمراہ نہیں کرتا ۔ 

فَاسِقِیْنَ ۔۔۔ ( بد کار ) فاسق کی جمع ہے ۔ جس کے معنی ہیں نکلنا ۔ شریعت میں اس سے مراد  الله تعالی کی فرمانبرداری سے نکل جانا  ۔ نافرمانی اور گناہ کرنا ہے 
الله تعالی لوگوں کو سمجھانے کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرماتا ہے ۔ بعض لوگ ان مثالوں پر غور کرتے ہیں ۔ ان سے سبق حاصل کرکے ہدایت پالیتے ہیں ۔ اور بعض ان پر فضول اعتراض اور کٹ حجتی کرتے ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں ۔ ہدایت پانے والے وہ ایمان دار لوگ ہیں جو اپنی دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں سے صحیح کام لیتے ہیں ۔ 
دنیا میں راہیں بے شمار ہیں مگر ان میں سیدھی راہ ایک ہی ہو سکتی ہے ۔ الله تعالی نے انسان کو عقل دی اور سمجھ بوجھ عطا کی ۔ صرف یہی نہیں نبیوں اور رسولوں کے ذریعے راہِ ہدایت کے پیغام بھیجے ۔ اس کے بعد انسان کو اختیار ہے کہ جو راہ چاہے اختیار کرے ۔ اب اگر انسان اپنی اس آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر غلط راہ اختیار کرتا ہے تو وہ بُرائی میں پڑ جاتا ہے ۔ اور جب اپنی مرضی سے گمراہی اختیار کر لیتا ہے ۔ تو اس بُرے راستے کے باقی سامان بھی مہیا ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھ جل جاتا ہے اسی طرح جب کوئی آدمی غلط راستہ اختیار کر لیتا ہےتو اس راستے کی برائیاں اور نقصان بڑھتے ہی جاتے ہیں ۔ 
اس آیت میں جو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کی بیان کی ہوئی مثالوں سے بہت سے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں تو اس کی وجہ ان کی اپنی کٹ حجتی اور فضول بحث ہوتی ہے ۔ وہ ان مثالوں پر غور نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنی سوچنے کی ساری قوت  ان پر اعتراض کرنے میں لگا دیتے ہیں ۔ فاسق یعنی بدکار لوگ جو نفس کی بُری خواہشات کے پیچھے ہی لگے رہتے ہیں آسانی سے ایسی کوئی بات سُننے کے لئے تیار نہیں ہوتے جو ان کو ان کی بُری عادتوں سے روکے ۔ 
ایت کے آخر میں الله تعالی نے اس بات کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے ۔ یعنی یہ کہ گمراہی تو انہی پر آتی ہے جو خود گمراہ رہنا چاہتے ہیں ۔ الله جل شانہ کسی پر گمراہی چسپاں نہیں کرتا ۔ بلکہ بار بار کی جانی بوجھی نا فرمانیوں سے دل بجھ کر رہ جاتا ہے ۔ اور طبیعت میں حق کی طلب اور سچائی باقی نہیں رہتی ۔ باطل اور جھوٹ جم جاتا ہے ۔ گویا گمراہی ان کے فِسق  ( نافرمانی اور مسلسل گناہ ) کا نتیجہ ہوتی ہے ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

انیس سو اناسی میں جب کنگ فیصل فاؤنڈیشن نے سائنس، مذہب، فلسفے اور خدمات کے شعبوں میں اسلامی دنیا کے نوبیل پرائز کنگ فیصل ایوارڈ کا اجرا کیا تو خدمتِ اسلام کے شعبے میں پہلا فیصل ایوارڈ ( چوبیس قیراط دو سو گرام کا طلائی تمغہ مع دو لاکھ ڈالر ) مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو دیا گیا۔اگر آپ کنگ فیصل فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کھولیں تو آج بھی مولانا مودودی کا تعارف کچھ یوں ہے ۔

’وہ معروف مذہبی سکالر اور مبلغِ اسلام تھے۔ان کا شمار بیسویں صدی کے صفِ اول کے موثر اسلامی فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ان کی زندگی اور نظریات کو دنیا بھر میں مسلمان اور غیر مسلم محققین نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ۔وہ ایک وسیع العلم شخصیت تھے جن کی تحریروں نے عالمِ اسلام میں اسلامی اقدار اور روحِ اسلام کو اجاگر کیا۔ انھیں کنگ فیصل ایوارڈ اسلامی صحافت کے فروغ اور برصغیر میں اسلامی نظریات کے احیا کے اعتراف میں عطا کیا گیا۔‘

مولانا مودودی کے بعد خدمت ِ اسلام کے شعبے میں کنگ فیصل ایوارڈ شاہ خالد اور پھر شاہ فہد بن عبدالعزیز کو بھی دیا گیا اور یہی ایوارڈ مولانا مودودی کو ملنے کے گیارہ برس بعد (1990) ان کے شاگرد پروفیسر خورشید احمد کو بھی عطا ہوا۔

اور پھر دو دسمبر 2015 کو سعودی اخبار عرب نیوز میں یہ خبر شائع ہوئی کہ سعودی وزارتِ تعلیم نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا، سئید محمد قطب، قطر کے عالم یوسف القرادوی اور مولانا مودودی کی تصنیفات سمیت 80 کتابوں پر پابندی عائد کردی ہے۔

تمام سعودی سکولوں، لائبریریوں اور ریسورس سینٹرز کو حکم دیا گیا ہے کہ دو ہفتے کے اندر ان مصنفین کی کتابیں وزراتِ تعلیم میں جمع کرا دیں ورنہ تادیبی کاروائی ہوگی۔ نیز خبردار کیا گیا کہ آئندہ کوئی سکول، لائبریری اور ریسورس سینٹر سوائے وزارتِ تعلیم کسی اور سے کتابوں کا عطیہ یا تحائف قبول نہ کرے۔

گو ان تصنیفات کو ممنوع قرار دینے کی سرکاری وجہ تو نہیں بتائی گئی البتہ وزارتِ تعلیم کے اندرونی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ سعودی عرب میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ابھارنے والے لٹریچر کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔

مولانا مودودی کی جن 20 کتابوں اور کتابچوں کو ممنوع قرار دیا گیا ان میں پردہ، اسلام اور جاہلیت، تفسیر سورہِ نور، شہادتِ حق، اسلامی دستور کی تدوین، اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، مبادیِ اسلام، معاشیاتِ اسلام، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں اور قرآن فہمی کے بنیادی اصول نامی کتابیں بھی شامل ہے 

عرب سے پہلے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت نے جولائی 2010 میں مولانا مودودی کی تفسیر القران سمیت تمام تصنیفات کو بلیک لسٹ قرار دے کر ملک کی 27 ہزار مکتب لائبریریوں سے اٹھانے کا حکم دیا۔ ان لائبریریوں کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے۔

چلیے بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت کے بارے میں تو طے ہے کہ اس نے ہمیشہ جماعتِ اسلامی اور اس کے بانی کو نظریاتی دشمن سمجھا اور ان سے اسی طرح نپٹا بھی۔ لیکن سعودی عرب تو ایسا نہ تھا۔

جس زمانے میں جمال ناصر کی عرب قوم پرستی ہر جانب چھا رہی تھی اس دور میں سعودی اسٹیبشلمنٹ اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھتی تھی۔ جب افغانستان میں روسی فوج اتری تو سعودی عرب، پاکستانی اسٹیبشلمنٹ اور جماعتِ اسلامی یک جان دو قالب تھے۔

مگر یہ دن بھی آ گیا کہ سعودی عرب نے گذشتہ برس ( مارچ 2014 ) اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور اب اخوانی مصنفین کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی تصانیف بھی سعودی مملکت کے لیے نظریاتی خطرہ ٹھہریں۔ لیکن حسن البنا، سئید قطب اور یوسف القرداوی کے برعکس مولانا کو تو اعلیٰ ترین علمی ایوارڈ عطا ہوا تھا۔ تو پھر یہ کیا ہوا کہ

فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا

وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا۔

دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ جس غیر معمولی اسلامی سکالر کو غیر معمولی خدمتِ اسلام پر 36 برس پہلے کنگ فیصل ایوارڈ ملا ۔اسی سکالر کی وہی تحریریں ممنوع ہونے کے بعد کنگ فیصل ایوارڈ بھی واپس لیا جاتا ہے کہ نہیں۔

یا تو وہ کور چشم فیصلہ تھا یا پھر تازہ فیصلہ غلط ہے۔ مگر وہ بادشاہ ہی کیا جس کا کوئی فیصلہ کبھی غلط ہو ۔اسی لیے تو سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کی اگاڑی سے بھی بچو اور پچھاڑی سے بھی۔

اس کی نگاہ بدلنے سے پہلے کی بات تھی 

میں آسمان پر تھا اور ستارہ زمین پر 

Bbc urdu . Com 

قرآن مجید کی مثالیں ۔۔۔۔۔

،إِنَّ           ۔ اللَّهَ          ۔لَا       ۔ يَسْتَحْيِي   ۔     أَن۔       يَضْرِبَ       ۔ مَثَلًا      ۔ مَّا       ۔ بَعُوضَةً 
بے شک ۔  الله تعالی۔ ۔ نہیں۔ ۔ وہ شرماتا ہے ۔   یہ کہ  ۔ وہ بیان کرے۔ ۔ مثال ۔    جو ۔ کوئی مچھر 

فَمَا        ۔ فَوْقَهَا         ۔ فَأَمَّا     ۔ الَّذِينَ     ۔ آمَنُوا            ۔ فَيَعْلَمُونَ          ۔ أَنَّهُ         ۔ الْحَقُّ     ۔ مِن         ۔ رَّبِّهِمْ 
پس جو ۔ اوپر ہو اس کے ۔ لیکن جو ۔    لوگ  ۔ ایمان لائے ۔ پس وہ جانتے ہیں ۔ بےشک وہ ۔ سچ ہے     ۔ سے ۔ اُن کے رب 

وَأَمَّا    ۔ الَّذِينَ    ۔ كَفَرُوا       ۔ فَيَقُولُونَ         ۔ مَاذَا ۔  أَرَادَ  ۔       اللَّهُ          ۔ بِهَذَا     ۔ مَثَلًا  
اور  جو    ۔ لوگ   ۔ کافر ہوئے ۔ پس وہ کہتے ہیں ۔ کیا ۔   ارادہ ہے ۔ الله تعالی ۔ اس سے ۔  مثال 

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا 
بیشک الله تعالی نہیں شرماتا ۔ کہ وہ کوئی مثال بیان کرے خواہ مچھر کی یا اس کی جو اس سے بڑھ کر ہو ۔ پس جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہے اُن کے رب کی طرف سے ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں الله تعالی کا اس مثال سے کیا مطلب تھا ؟ 

فَوْقَھَا ۔۔ ( اس سے بڑھ کر ) فوق کے لفظی معنی اُوپر کے ہیں ۔ اور اس سے مراد ہے اس سے بھی زیادہ حقیر اور ادنٰی چیز 
اس سے پچھلی آیتوں میں الله تعالی نے قرآن مجید کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کافروں اور انکار کرنے والوں کو دعوت دی تھی کہ اگر وہ اس کو نعوذ بالله الله تعالی کا کلام نہیں سمجھتے ۔ تو وہ اس جیسا کلام بنا کر پیش کریں ۔ لیکن وہ لوگ آج تک اس کا جواب نہیں دےسکے اور نہ قیامت تک دے سکیں گے ۔ ایسی بے بسی کی حالت میں ان سے اور تو کچھ نہ بن پڑا ۔البتہ قرآن مجید میں عیب نکالنے لگے اور کہا یہ تو بڑی حیرت کی بات ہے کہ الله تعالی اتنی بڑی شان اور عظمت والا ہو کر اپنے کلام میں نہایت حقیر اور ذلیل چیزوں کا ذکر کرتا ہے 
 حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر بڑی سے بڑی مخلوق کا ذکر بھی آیا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی کا بھی ۔ جانورں میں ایک طرف ہاتھی ، گھوڑے اور اُونٹ وغیرہ کا اور دوسری طرف چیونٹی ، مکھی ، مچھر وغیرہ کا ۔ لوگوں کو سمجھانے کے لئے الله تعالی نے ان جانوروں کی مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ مثلا کسی جگہ یہ کہ کافروں کے بُت اس قدر کمزور اور بےبس ہیں کہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اگر اُن کے منہ پر مکھی مچھر بیٹھ جائے تو اسے اُڑا بھی نہیں سکتے ۔ کسی جگہ یہ کہ کافروں کا دین مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہے ۔ ایسی باتیں سُن کر بعض کافر کہنے لگے کہ مسلمانوں کا رب بھی ( نعوذ بالله) عجیب باتیں کرتا ہے ۔ کہ وہ ایسی حقیر چیزوں کا نام لینے سے بھی نہیں جھجھکتا ۔ ان کے اس اعتراض کا جواب الله تعالی نے اس آیہ میں دیا ہے ۔ مثال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بات جس کے لئے مثال دی گئی ہے ۔ خوب واضح اور روشن کر کے ذہن نشین کر دی جائے ۔ اب یہ مطلب جس مثال سے پورا ہو سکے وہ مثال سب سے اچھی کہلائے گی ۔ خواہ وہ چیز جو مثال میں پیش کی گئی ہے خود کتنی معمولی ہو ۔ مچھر ایک بہت ادنٰی اور بے حقیقت سی مخلوق ہے ۔ اب جہاں بتّوں یا کسی مخلوق کی کم تری بیان کرنی ہوگی وہاں مناسب مثال مچھر ہی کی ہو گی ۔ اس پر اعتراض کرنا بے وقوفی اور نادانی کی دلیل ہے ۔ 
لوگوں کو سمجھانے کے لئے الله تعالی مثالیں بیان کرتا ہے ۔ ان مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ الله تعالی کی باتیں لوگ اچھی طرح سمجھ لیں نہ یہ کہ ان مثالوں کا مذاق اڑائیں اور ان پر اُلٹے سیدھے اعتراض کرنے لگیں ۔ 
ایمان والے لوگ اس مثال کو سچی اور مطلب کے بیان کرنے کے لئے مناسب اور اپنے رب کی طرف سے درست سمجھتے ہیں ۔ ایمان والے الله تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر پختہ یقین رکھتے ہیں ، الله تعالی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حکموں کو ماننا اور ان پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ اور جب  الله تعالی کوئی مثال بیان فرمائے تو کوشش کرتے ہیں کہ اس مثال کا اصلی مطلب سمجھ لیں ۔ وہ اس چیز کی بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ مثال بذاتِ خود کیسی ہے ۔ معمولی ہے یا شاندار ۔ اس میں کسی اعلٰی چیز کا ذکر کیا گیا ہے یا گھٹیا چیز کا بلکہ اس مثال کا جو مطلب اور مقصد ہوتا ہے وہ صرف اس پر غور کرتے ہیں ۔ اور سبق حاصل کرتے ہیں ۔ 
اس کے مقابلے میں کافر الله تعالی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں ۔ اُن کے دل میں حق کی تلاش بالکل 
نہیں ہوتی ۔  مخالفت کی وجہ سے اسی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ الله تعالی کے کلام میں عیب ڈھونڈیں اور بے تُکے اعتراض کریں ۔
اس لئے الله تعالی جب ان کو سمجھانے کے لئے کوئی مثال بیان فرماتا ہے تو وہ لوگ اس کے بجائے کہ اس مثال کا اصلی مطلب سمجھنے کی کوشش کریں  اس پر اعتراض کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور طنز کے طور پر ایمان والوں سے پوچھتے ہیں کہ الله تعالی کا اس قسم کی مثال بیان کرنے سے مطلب کیا ہے ؟  
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ صاحبِ ایمان اور مضبوط کردار وہ لوگ ہیں جو الله تعالی کی بیان کی ہوئی مثالوں پر غور کرتےہیں انہیں سمجھتے ہیں اور ان پر اُلٹی سیدھی بحث نہیں کرتے 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

💚🌷💚*احساس*

*مثبت سوچ مثبت نتائج پیدا کرتی ہے*
زمانہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے جس میں خیر کا عنصر کم اور شر زیادہ ہے ۔ اندھیرا جتنا گہرا ہوتا ہے امید کی کرن اتنی ہی روشن  ہوتی ہے ۔ اندھیرا کیا ہے ؟ روشنی کا نہ ہونا ۔ 
شر کیا ہے ؟ خیر کا کم ہو جانا ۔ خود ان کی کوئی حقیقت اور وجود نہیں ۔ 
جیسے جیسے نیکی ، بھلائی اور امید بڑھتی رہے گی  کفر ، شرک اور ظلم کے اندھیرے کم ہوتے جائیں گے ۔
بچپن ۔۔۔ زمانے سے بے پرواہ اور بے نیاز ہوتا ہے 
جوانی ۔۔۔ زمانے کو لگامیں ڈالنے اور اس پر سوار ہونے کی مشقت میں پڑی رہتی ہے 
بڑھاپا ۔۔۔ بے بس ہو جانے کا نام ہے ۔ اس لئے اسے زمانہ ہی بُرالگتا ہے ۔ 
حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ  حالات اور خیالات بدلتے ہیں زمانہ نہیں بدلتا۔ 

جنّت کی نعمتیں ۔۔۔۔

كُلَّمَا                ۔ رُزِقُوا  ۔              مِنْهَا ۔       مِن ۔     ثَمَرَةٍ  ۔    رِّزْقًا  
جب کبھی ۔ کھانے کو دیا جائے گا ۔ اس میں سے ۔ سے    ۔ پھل ۔    رزق ۔ 
۔ قَالُوا ۔       هَذَا ۔  الَّذِي     ۔ رُزِقْنَا ۔       مِن      ۔ قَبْلُ ۔
 وہ کہیں گے    ۔ یہ ۔   وہ ہے ۔ ہم دے گئے   ۔ سے     ۔ پہلے 
وَأُتُوا                ۔ بِهِ        ۔ مُتَشَابِهًا        ۔ وَلَهُمْ             ۔  فِيهَا      
اور وہ دیے جائیں گے ۔ اس سے     ۔ ملتے جلتے ۔ اور ان کے لئے ۔ اس میں 
أَزْوَاجٌ       ۔ مُّطَهَّرَةٌ            ۔ وَهُمْ      ۔ فِيهَا۔            ۔  خَالِدُونَ۔     2️⃣5⃣
جوڑے ہوں گے ۔        پاکیزہ     ۔ اور وہ   ۔ اس میں ۔                 ہمیشہ رہیں گے    

كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ.     2⃣5⃣
انہیں جب کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا ۔ وہ کہیں گے ۔ یہ تو وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے مل چکا ہے ۔ اور انہیں دیا جائے گا ملتا جلتا ہوا اور ان کے لئے اس میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی  اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ 

مُطَھَّرَۃٌ ۔۔۔ ( پاک ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بیویاں ہر لحاظ سے پاک صاف ہوں گی ۔ وہ جسم اور روح کی ہر گندگی سے دور ہوں گی ۔ 
 خٰلِدُونَ ۔۔۔ ( ہمیشہ رہیں گے ) ۔ یہ لفظ خلود سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں ہمیشہ رہنا ۔ یعنی جنت میں سے کبھی نہیں نکالے جائیں گے ۔ چنانچہ جنت کا ایک نام ہی جنت خلد ہے ۔ 
 اس آیت میں الله تعالی نے ایماندار اور نیک لوگوں کے اجر کو اور زیادہ وضاحت سے بیان کیا ہے ۔ عام طور پر انسان کو اچھی زندگی گزارنے کے لئے ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کہ اس کے پاس عمدہ اور خوبصورت مکان ہو ۔کھانے پینے کے لئے لذیذ اور خوش ذائقہ چیزیں موجود ہوں ۔ نیک اور پاک ساتھی ہو ۔ آرام اور عیش ہو جو ہمیشہ رہے ۔ یعنی جو نعمتیں اس کے پاس ہوں ان کے فنا اور ختم ہونے کا خوف نہ ہو ۔ بلکہ اسے یقین ہو کہ وہ ہمیشہ اُن سے فائدہ اٹھاتا رہے گا ۔ 
الله تعالی نے ایسی ہی چیزوں کا ایمان داروں سے وعدہ فرمایا ہے ۔ یعنی جو دُنیا میں الله تعالی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور اُن کے حکموں کے مطابق عمل کریں گے ۔ انہیں اس دنیا کی زندگی کے بعد ایسی جنت میں داخل کیا جائے گا جہاں وہ نہایت خوبصورت باغوں میں رہیں گے ۔ کھانے کے لئے انہیں ایسے پھل دیے جائیں گے جو اگرچہ ظاہری شکل وصورت کے لحاظ سے دُنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے ۔ لیکن لذت ذائقہ اور خوشبو کے لحاظ سے وہ دُنیا کے پھلوں سے بہت بڑھ کر ہوں گے ۔ 
جنت چونکہ مادی اور روحانی ہر قسم کی خوشیوں اور راحتوں کا گھر ہے اس لئے وہاں انہیں پاک صاف اور سُتھری بیویاں نصیب ہوں گی ۔ وہاں انہیں یہ خطرہ بھی ہرگز نہ ہو گا کہ اُن کی خوشی اور آرام میں ذرّہ بھر بھی کمی ہو گی ۔ نہ ان کے ختم ہونے کا ڈر ہو گا ۔ بلکہ الله جل شانہ کی طرف سے انہیں یقین دلایا جائے گا کہ یہ تمام نعمتیں پائیدار ، مستقل اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں ۔ مبارک ہیں وہ جو اس جنت کے حقدار ہیں ۔ 
اللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُم بِفَضْلِکَ الْعَمِیْم ۔۔۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

نیکو کار مؤمنوں کو خوشخبری ۔۔۔

وَبَشِّرِ         ۔ الَّذِينَ      ۔ آمَنُوا         ۔ وَعَمِلُوا۔    الصَّالِحَاتِ      
اور خوشخبری دیجئے ۔ وہ لوگ ۔  ایمان لائے ۔ اور عمل کئے ۔       نیک 
أَنَّ         ۔   لَهُمْ       ۔ جَنَّاتٍ       ۔ تَجْرِي     ۔ مِن        ۔ تَحْتِهَا      ۔ الْأَنْهَارُ 
بے شک ۔    اُن کے لئے ۔ باغات ۔ بہتی ہوں گی ۔ سے ۔    ان کے نیچے  ۔ نہریں 

 وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ 
اور ان لوگوں کو خوشخبری دے دیں  جو ایمان لائے اور نیک عمل کئےان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ 

اٰمَنُوْا ۔۔۔( وہ ایمان لائے )  جنہیں الله کے معبود ہونے  ،  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن مجید کی سچائی میں کوئی شبہ نہ رہا ۔ 
عَمِلُوا الصَّلِحَات ۔۔۔ ( نیک عمل کئے ) اس سے مراد ایسے کام ہیں جو قرآن مجید اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہوں خرابی اور ٹیڑھ پن سے پاک ہوں ۔ 
 پچھلی آیات میں قرآن کریم کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کافروں اور منکروں کو چیلنج کیا گیا تھا کہ اگر وہ قرآن مجید کو نعوذ بالله کسی انسان کا کلام سمجھتے ہیں تو وہ اس جیسا کلام بنا کر دکھائیں ۔ جس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوں جو قرآن مجید میں ہیں ۔ لیکن اُس وقت سے لے کر آج تک ساری دُنیا کے انسان اس کا جواب پیش نہیں کر سکے ۔ اور جیسا کہ الله تعالی نے خود ہی فرما دیا یہ لوگ ہرگز نہیں بنا سکیں گے ۔ اس لئے انہیں اس کے انکار اور تکذیب کی سزاء بتا دی گئی ۔ یعنی یہ کہ وہ ایسے دوزخ میں پھینکے جائیں گے جس کا ایندھن انسان اور پتھر دونوں ہیں ۔ 
اس آیت میں کافروں کے مقابلے میں ایمان لانے والوں اور نیک لوگوں کو اس بات کی خوشخبری دی گئی ہے کہ وہ ایسے باغات میں داخل کئے جائیں گے جن میں اُن کے آرام اور سکون کے لئے سب کچھ موجود ہو گا ۔ ان میں ٹھنڈے اور خوش ذائقہ پانی کے دریا بہتے ہوں گے ۔ 
اس آیت میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنت کا حقدار بننے اور اس میں داخل ہونے کے لئے انسان میں دو صفتیں موجود ہونی چاہئیں ۔ اوّل یہ کہ اس کے دل میں الله تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں کوئی شک نہ ہو ۔ یعنی وہ الله جل شانہ کو اپنا معبود سمجھتا ہو ۔ اسے اپنا رب اور آقا مانتا ہو ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سچا ہونے کا اقرار کرتا ہو ۔ قرآن مجید کو الله تعالی کا کلام سمجھتا ہو ۔ اور آخرت پر یقین رکھتا ہو ۔ 
 دوسرے یہ کہ اس کے تمام کام قرآن مجید کے حکموں کے مطابق ہوں ۔ الله جل شانہ نے جن جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں کبھی ، کسی حال میں نہ چھوڑتا ہو ۔ اور جن جن کاموں کے کرنے سے منع کیا ہے ُان کے پاس سے بھی نہ گزرتا ہو ۔ 
 اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ محض اچھے کاموں سے جنت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ جب تک اس کے ساتھ دل میں ایمان اور یقین نہ ہو ۔ اسی طرح صرف ایمان لانا کافی نہیں جب تک ایمان کے ساتھ اعمال درست نہ ہوں 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

مُخالفین کی بے بسی ۔۔۔

فَإِن      ۔ لَّمْ      ۔ تَفْعَلُوا              ۔وَلَن         تَفْعَلُوا   ۔        فَاتَّقُوا         ۔ النَّارَ 
پس اگر ۔ نہ ۔    تم کر سکو ۔ اور ہرگز نہیں ۔ تم کر سکو گے ۔ تو تم ڈرو۔ آگ سے 
الَّتِي      ۔ وَقُودُهَا      ۔ النَّاسُ      ۔ وَالْحِجَارَةُ         ۔ أُعِدَّتْ     ۔ لِلْكَافِرِينَ۔  2️⃣4️⃣
وہ جو ۔ اس کا ایندھن ۔     لوگ ۔     اور پتھر ۔ وہ تیار کی گئی ہے ۔  کافروں کے لئے 

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ.   2⃣4️⃣
پھر اگر تم یہ نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو تم اس آگ سے ڈرو 
جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ 

وَقُودُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ۔۔۔ ( اس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں  ) ۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جہنم کی آگ بہت شدید ہو گی ۔ وہ انسانوں کے علاوہ پتھروں کو بھی جلا ڈالے گی ۔ گویا پتھر کے بت بھی اس کا ایندھن ہوں گے ۔ الحجارہ سے اشارہ سنگدل انسانوں کی طرف بھی ہو سکتا ہے ۔ 
پچھلے سبق میں مُخالفین کو قرآن کے مقابلے کی دعوت دی گئی تھی ۔ اب انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ تم اس کا مقابلہ نہ کر سکو گے اور ہم بتا رہے ہیں ہرگز نہ کر سکو گے ۔ تو یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ الله تعالی کا کلام ہے ۔ اور ظاہر ہو گیا کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم سچے رسول ہیں ۔ اب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نہ ماننا اور قرآنی احکام کی تعمیل نہ کرنا جہنم کے عذاب کا باعث ہو گا ۔ اس لئے اس سے بچنے کا انتظام کرنا چاہئیے ۔ کیونکہ جہنم کی آگ معمولی آگ نہیں بلکہ ایسی آگ ہے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ اور یہ آگ اُن لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اسلام کے احکام ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ، قرآن مجید کے حق ہونے اور شرع کی سچائی سے انکار کرتے ہیں ۔ 
اس آیت سے چند اور باتیں بھی واضح ہو گئیں 
 اول ۔۔۔ جس بات کا اسلام کے مخالفوں خصوصاً قریش کو بڑا دعوٰی تھا یعنی الفاظ کی پاکیزگی اور مطلب کو آسانی سے سمجھا دینا ۔ اسی میں عاجز بنا کر  اس کا الله تعالی کی طرف سے ہونا ثابت کر دیا ۔ 
 دوم ۔۔۔ الله تعالی کے سوا جتنے جھوٹے معبود لوگوں نے بنا رکھے تھے اور اُن سے مرادیں مانگتے تھے ۔ ان سب کی تردید کر دی ۔ 
سوم ۔۔ کفر کی سزا دوزخ کو قرار دیا ۔ 
ہمیں چاہئیے کہ قرآن مجید کی حقانیت ، اسلام کی صداقت اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سچائی میں شک وشبہ نہ کریں ۔ کیونکہ اگر تمام دُنیا کے انسان جمع ہو جائیں ۔ تو وہ سب مل کر بھی ایک چھوٹی سی سورت بھی ایسی نہیں بنا سکتے کہ جس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوں جو قرآن مجید میں موجود ہیں 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

رسالت محمدی کا اثبات ۔۔۔۔ بذریعہ اعجازِ قرآن


قرآن مجید جس ہدایت کا عالمِ انسانی کو سبق دے رہا ہے اس کی بنیاد دو باتیں ہیں : توحید اور رسالت 
سورۃ بقرہ کی آیہ اکیس اور بائیس میں حق تعالی کی ایسی صفات ذکر کی گئیں جو الله تعالی کے لئے خاص ہیں مثلاً زمین اور آسمان کا پیدا کرنا ، آسمان سے پانی اُتارنا ، پانی سے پھل پھول پیدا کرنا ۔ مقصد اس دلیل کا یہ تھا کہ جب یہ کام الله تعالی کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا تو عبادت کا مستحق بھی اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ 
ایہ تیئیس اور چوبیس میں قرآن مجید کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اعلٰی معجزہ بتا کر آپ کی رسالت اور سچائی کا ثبوت پیش کیا ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے معجزات تو ہزاروں ہیں اور بڑے بڑے حیرت انگیز ہیں ۔لیکن اس جگہ اُن سب میں سے عظیم علمی معجزے قرآن مجید کا ذکر فرمایا ۔اور بتا دیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے اور اس معجزے کو انبیاء علیھم السلام کے معجزات پر فضیلت حاصل ہے ۔ کیونکہ عام طریقہ یہ ہے کہ ہر نبی اور رسول کے ساتھ الله تعالی نے اپنی قدرتِ کاملہ سے کچھ معجزات ظاہر فرمائے جو انہیں کے ساتھ مخصوص تھے اور انہیں کے ساتھ ختم ہو گئے ۔ مگر قرآن حکیم ایک ایسا معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے ۔ آج بھی ایک ادنٰی مسلمان ساری دنیا کے اہل ِ علم و دانش کو للکار کر دعوٰی کر سکتا ہے کہ اس کی مثال نہ کوئی پہلے لاسکا نہ آج لا سکتا ہے اور جس میں ہمت ہے پیش کر کے دکھا دے ۔ 
قرآن کریم کو کس وجہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا گیا اور اس کا اعجاز کن وجہوں سے ہے اور کیوں ساری دُنیا اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی ؟ 
دوسرایہ کہ مسلمانوں کا یہ دعوٰی "  قرآن مجید کے اس زبردست چیلنج کے باوجود کوئی اس کی یا اس کے ایک ٹکڑے کی مثال پیش نہیں کر سکا " تاریخی حیثیت سے کیا وزن رکھتا ہے ؟ 
*وجوہِ اعجاز قرآن*
💐 ۔ پہلی وجہ  💐
سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید کس جگہ ، کس ماحول میں اور کس پر نازل ہوا ۔ 
جس سر زمین پر یہ مقدس کتاب نازل ہوئی اس کو " بطحا ء مکہ " کہتے ہیں ۔ جو ایک ریگستا نی خشک اور گرم علاقہ ہے ۔ جہاں نہ تو کھیتی باڑی ہوتی ہے نہ ہی کسی قسم کی کوئی صنعت ۔ اس ملک کی آب وہوا بھی ایسی خوشگوار نہیں کہ لوگ وہاں سیر وتفریح کے لئے آئیں ۔ راستے بھی دشوار گزار ہیں ۔ دنیا سے الگ تھلگ ایک جزیرہ نما ہے جہاں خشک پہاڑ اور گرم ریت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ اس اتنے بڑے ملک میں بڑے بڑے شہر بھی نہیں ہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں ۔لوگ اونٹ اور بکریاں پال کر گزارا کرتے ہیں ۔ گاؤں تو کیا شہروں میں بھی علم اور تعلیم کا کوئی چرچا نہیں نہ کوئی درس گاہ نہ دارالعلوم ۔۔ وہاں کے رہنے والوں کو الله تعالی نے پیدائشی طور پر فصاحت و بلاغت کے ہنر سے نوازا ہوا ہے جس میں وہ ساری دنیا سے بڑھ کر ہیں ۔ وہ نظم اور نثر کہنے میں ایسے ماہر ہیں کہ بولتے ہیں تو بجلی کی طرح کڑکتے اور بادل کی طرح برستے ہیں ان کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی ایسے زبردست اشعار کہتی ہیں کہ بڑے بڑے ادیب حیران رہ جاتے ہیں ۔ لیکن یہ سب ان کا فطری فن ہے جو کسی مکتب یا مدرسہ سے حاصل نہیں کیا جاتا چنانچہ نہ تو وہاں پڑھنے لکھنے کا سامان ہے نہ اس سے کوئی دلچسپی ۔البتہ کچھ لوگ تجارت پیشہ ہیں ۔
اس ملک کے قدیم شہر مکہ کے ایک شریف اور عزت دار گھرانے میں نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم نے آنکھ کھولی ۔جن پر قرآن مجید نازل ہوا ۔۔ اب اس ذاتِ مقدس کا حال سنیے ۔۔
 ولادت سے پہلے ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اُٹھ چکا ہے ۔ سات سال کی عمر میں ماں کی گود سے محروم ہوگئے ۔ نہایت غربت کی زندگی ، ماں باپ کا سایہ سر پر نہیں ان حالات میں پرورش پائی ۔ تعلیم و تعلم کا کوئی سوال ہی نہیں کیونکہ وہاں پڑھنے لکھنے سے کسی کو دلچسپی ہی نہیں تھی پوری قوم عرب " امیّین " کہلاتے تھے ۔ عربوں کا مخصوص فن شعر وسخن تھا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو الله جل شانہ نے ایسی فطرت عطا فرمائی کہ ان چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔ نہ کبھی کوئی شعر یا قصیدہ کہا نہ ایسی مجلس میں شریک ہوئے ۔ 
 اس سب کے باوجود آپ بچپن سے سمجھدار ، عقل مند ، سچے ، امانت دار اور غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے ۔ آپ کے انہیں اخلاق حسنہ کا نتیجہ تھا عرب کے بڑے بڑے مغرور اور متکبر سردار آپ کی عزت کرتے تھے اور سارے مکہ میں آپ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے چالیس سال مکہ میں اپنی برادری میں اس طرح گزارے کہ کبھی کسی کتاب یا قلم کو ہاتھ نہیں لگایا نہ کبھی کسی دوسرے ملک کا سفر کیا ، نہ کسی مجلس میں کوئی نظم یا قصیدہ پڑھا ۔ ٹھیک چالیس سال بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک پر وہ کلام آنے لگا جس کا نام قرآن ہے ۔ جو اپنی لفظی فصاحت اور بلاغت کے لحاظ سے اور معنوی علوم وفنون کے لحاظ سے انتہائی حیران کُن کلام ہے ۔ صرف یہی بات ایک بہت بڑے معجزے کی حیثیت رکھتی ہے پھر اس پر دعوٰی یہ ہے کہ اگر کسی کو شک وشبہ ہے کہ یہ کلام الله نہیں ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ ۔ 
💐۔  دوسری وجہ۔   ۔  💐
اگرچہ قرآن کے احکام ساری دنیا کے لئے آئے لیکن اس کے پہلے مخاطب عرب تھے ۔ عرب سرداروں نے قرآن اور اسلام کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ ہر طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں دیں ۔ خوشامد کا پہلو اختیار کیا ، عرب کی پوری دولت وحکومت ، بہترین حسین وجمیل لڑکیوں کی پیشکش کی ۔ کہ آپ اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں ۔ جب کوئی تدبیر کامیاب نہ ہوئی تو جنگ اور مقابلے کے لئے تیار ہو کر ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد  قریشِ عرب نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سر دھڑ کی بازی لگائی جان ، مال ، آبرو سب کچھ اس مقابلے میں خرچ کرنے کےلئے تیار ہوئے یہ سب کچھ کیا لیکن یہ کسی سے نہ ہو سکا کہ قرآن مجید کے چیلنج کو قبول کرتا اور چند سطریں مقابلے پر پیش کر دیتا ۔ 
ان حالات میں پورے عرب کی خاموشی اور عاجزی اس بات کی کھلی شھادت ہے کہ یہ انسان کا کلام نہیں بلکہ الله جل شانہ کا کلام ہے جس کی مثال لانا انسان کیا ساری مخلوق کی قدرت سے باہر ہے ۔ 
صرف اتنا ہی نہیں کہ عرب اس چیلنج کے جواب میں خاموش رہے بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں قرآن مجید کے کلام الله ہونے کا اعتراف بھی کیا ۔ قریشِ عرب کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پورے عرب نے اس کلام کے بے مثل اور بے نظیر ہونے کو تسلیم کر لیا تھا اور اس کی مثال پیش کرنے کو اپنی رُسوائی کے خیال سے چھوڑ دیا تھا ۔ 
💐۔  تیسری وجہ۔  💐 
 تیسری وجہ قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی یہ ہے کہ اس میں غیب کی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بہت سی خبریں دی گئی ہیں ۔ جو ہو بہو اسی طرح پیش آئے جس طرح قرآن مجید نے اطلاع دی تھی ۔ مثلاً قرآن مجید میں خبر دی گئی کہ روم اور فارس کی جنگ میں پہلے اہل فارس کی فتح ہو گی اور رومی ہار جائیں گے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ خبر بھی دی کہ تقریباً دس سال بعد رومیوں کو اہل فارس پر غلبہ حاصل ہو گا ۔ اس طرح اور بہت سے واقعات اور خبریں ہیں جو غیبی اُمور کے متعلق قرآن مجید میں دی گئیں ۔ اور سچی ثابت ہوئیں ۔ 
💐۔ چوتھی وجہ  💐
قرآن مجید میں پہلی امتوں کے تاریخی حالات و واقعات کا ایساصاف اور واضح بیان ہے کہ اُس زمانے کے بڑے بڑے علماء یہود و نصارٰی جو پہلی کتابوں کے ماہر تھے اُن کو بھی اتنی معلومات نہیں تھیں ۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تو نہ کسی مکتب میں قدم رکھا اورنہ کسی عالم کی مجلس میں بیٹھے ، نہ کسی کتاب کو ہاتھ لگایا ۔ تو پھر یہ دنیا کی ابتداء سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے تک کے سچے واقعات ، تاریخی حالات اور ان کی شریعتوں کی تفصیلات کا علم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہاں سے ہوا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ الله جل شانہ کا ہی کلام ہے اور الله تعالی ہی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو تمام خبریں دی ہیں ۔ 
💐۔ پانچویں وجہ۔ ۔  💐
قرآن مجید کی بہت سی آیات میں لوگوں کے دلوں کی چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دی گئ ۔ پھر اُن کے اقرار سے ثابت ہو گیا کہ وہ باتیں صحیح اور سچی تھیں ۔ یہ کام بھی عالم الغیب  و الشھادہ ہی کر سکتا ہے کسی انسان سے ہونا ممکن نہیں ۔ 
مثلاً ۔۔ اِذْ ھَمَّتْ طَآءِفَتٰنِ مِنْکُم اَنْ تَفْشَلاَ  ۔۔۔۔ جب تمھاری دو جماعتوں نے دل میں ارادہ کیا کہ شکست اختیار کر لیں ( ۱۲۲:۳) ۔ 
اور یہ ارشاد کہ ۔۔۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۔۔۔۔۔ اور وہ لوگ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے انکار کی وجہ سے الله تعالی ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ۔ ۔۔ ( ۸:۵۸ ) ۔ 
یہ سب وہ باتیں ہیں جنہیں انہوں نے کسی پر ظاہر نہیں کیا ۔ قرآن کریم نے ہی ان کا انکشاف کیا ہے ۔ 
 💐 چھٹی وجہ۔  💐 
قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن میں الله تعالی نے کسی قوم یا فرد کے متعلق یہ پیش گوئی کی کہ وہ فلاں کام نہ کر سکیں گے ۔ پھر وہ لوگ باوجود ظاہری طاقت و قدرت کے وہ کام نہ کر سکے ۔ 
جیسے یہودیوں کے متعلق قرآن مجید نےاعلان کیا کہ اگر وہ واقعی اپنے آپ کو الله کا دوست سمجھتے ہیں تو موت کی آرزو کر کے دکھائیں ۔ ۔۔۔۔ وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَداً ۔۔۔۔ وہ ہرگز موت کی تمنّا نہ کریں گے ۔۔۔ ( ۹۵:۲) ۔ 
 موت کی آرزو کرنا کسی کے لئے مشکل نہ تھا ۔ اور یہودیوں کے لئے تو مسلمانوں کو شکست دینے کا اچھا موقع تھا کہ فورًا ہر جگہ موت کی تمنّا کا اعلان کر دیتے ۔ لیکن یہودی اور مشرکین زبان سے کتنا جھٹلائیں ان کے دل جانتے تھے کہ قرآن الله تعالی کی سچی کتاب ہے ۔ اس لئے کسی یہودی کو ہمت نہ ہوئی کہ ایک مرتبہ زبان سے موت کی تمنّا کا اظہار کر دے ۔ اگر کر دیتا تو اسی وقت مر جاتا ۔۔ 
💐 ساتویں وجہ۔ 💐
 وہ خاص کیفیت ہے جو قرآن مجید سننے سے ہر خاص وعام  اور مؤمن وکافر پر طاری ہوتی ہے ۔ جیسے حضرت جبیر بن مطعم رضی الله تعالی عنہ کو اسلام لانے سے پہلے پیش آیا ۔ اتفاق سے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سورۃ طور پڑھتے ہوئے سُنا ۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم آخری آیۃ پر پہنچے تو جبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ گویا میرا دل اُڑنے لگا وہ آیات یہ ہیں۔۔۔أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ
أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَّا يُوقِنُونَ
أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُسَيْطِرُونَ
" کیا وہ بن گئے ہیں آپ ہی آپ ، یا وہی ہیں بنانے والے ۔ یا انہوں نے بنائے ہیں آسمان اور زمین ؟ کوئی نہیں ، پر یقین نہیں کرتے ۔ کیا اُن کے پاس ہیں خزانے تیرے رب کے یا وہی داروغہ ہیں ۔" ۔ 
( ۳۵_۳۶_۳۷:۵۲ ) 
💐 آٹھویں وجہ۔ 💐
قرآن مجید کو بار بار پڑھنے سے کوئی اکتاتا نہیں ، بلکہ جتنا زیادہ پڑھا جاتا ہے اس کا شوق اور زیادہ بڑھتا ہے ۔ دنیا کی کوئی بہتر سے بہتر ، عمدہ سے عمدہ کتاب لے لیجئے اس کو دو چار بار پڑھا جائے تو انسان کی طبیعت اُکتا جاتی ہے ۔ پھر نہ پڑھنے کو دل چاھتا ہے نہ سننے کو ۔ یہ صرف قرآن مجید کی خاصیت ہے کہ جتنا کوئی اس کو زیادہ پڑھتا ہے اتنا ہی اس کا شوق بڑھتا ہے ۔ یہ کلام الٰہی ہونے کا اثر ہے ۔
💐 نویں وجہ 💐
قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ خود الله تعالی نے لیا ہے اس لئے قیامت تک بغیر کسی معمولی سی ترمیم کے باقی رہے گا ۔ ہر زمانے اورہر وقت میں لاکھوں انسان ایسے موجود رہے ہیں جن کے سینوں میں قرآن مجید محفوظ ہے ۔ بڑے سے بڑا عالم اگر کہیں زیر زبر کی غلطی کر جائے تو ذرا ذرا سے بچے وہیں غلطی پکڑ لیں گے ۔ دنیا میں کسی مذہب کی کوئی کتاب اتنی تعداد میں شائع نہیں ہوئی جتنا قرآن مجید شائع ہوا ہے ۔ جس طرح الله تعالی کی ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اس پر کس مخلوق کا کوئی زور نہیں چل سکتا اسی طرح اس کا کلام بھی ہمیشہ تمام مخلوقات کے تصرف اور اختیار سے بالاتر ہو کر ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا ۔ اس کُھلے معجزے کے بعد قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک وشبہ ہی نہیں رہتا ۔ 
💐 دسویں وجہ  💐
قرآن مجید میں ایسے ایسے علوم اور معارف ہیں جو کسی اور کتاب میں نہیں ۔  نہ ہی اتنی مختصر کتاب میں اور اتنے کم کلمات میں اتنے علوم و فنون جمع کئے جا سکیں گے ۔ جو پوری کائنات کی ہمیشہ کی ضروریات اور انسانی زندگی کے ہر شعبے ، ہر حال کے بارے میں مکمل ، مرتب اور بہترین نظام پیش کر سکیں  ۔  بلکہ عملی طور پر نافذ بھی ہو سکے ۔ جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انتہائی مختصر عرصے میں نافذ کر کے دکھا دیا ۔ 
نزول قرآن کے شروع کے چند سال تو اس حالت میں گزرے کہ قرآنی تعلیمات کو کھلے عام پیش کرنا بھی ممکن نہ تھا ۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم خفیہ طور پر لوگوں کو اصول قرآنی کی طرف دعوت دیتے تھے قرآن مجید کے قوانین کو نافذ کرنے کا کوئی امکان نہ تھا ۔ 
 ہجرتِ مدینہ کے بعد صرف دس سال ایسے ملے جن کو مسلمانوں کے لئے آزادی کا زمانہ کہا جا سکتا ہے ۔ اس کے بھی شروع کے چھ سال مکہ والوں سے جنگ ، مدینہ کے منافقوں کی سازشوں او یہود ونصارٰی سے لڑائیوں میں گزر گئے ۔ ظاہر اسباب میں صرف دو ، چار سال ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس کام کے لئے ملے کہ قرآن مجید کی دعوت کو عام کر سکیں اور اس کے نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کر سکیں ۔ اب اس قلیل مدت کو دیکھیے اور قرآن مجید کے اثر ونفوذ پر نظر ڈالئے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے وصال کے وقت پورے جزیرۃ العرب پر قرآن کریم کی حکومت تھی ۔ یہ اثر و نفوذ اور روحانی تاثیر صرف اور صرف کلام الٰہی ہونے کی وجہ سے تھی 
ماخذ ۔۔۔معارف القرآن 
مفتی محمد شفیع صاحب رحمه الله تعالی 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں