نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نیکو کار مؤمنوں کو خوشخبری ۔۔۔

وَبَشِّرِ         ۔ الَّذِينَ      ۔ آمَنُوا         ۔ وَعَمِلُوا۔    الصَّالِحَاتِ      
اور خوشخبری دیجئے ۔ وہ لوگ ۔  ایمان لائے ۔ اور عمل کئے ۔       نیک 
أَنَّ         ۔   لَهُمْ       ۔ جَنَّاتٍ       ۔ تَجْرِي     ۔ مِن        ۔ تَحْتِهَا      ۔ الْأَنْهَارُ 
بے شک ۔    اُن کے لئے ۔ باغات ۔ بہتی ہوں گی ۔ سے ۔    ان کے نیچے  ۔ نہریں 

 وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ 
اور ان لوگوں کو خوشخبری دے دیں  جو ایمان لائے اور نیک عمل کئےان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ 

اٰمَنُوْا ۔۔۔( وہ ایمان لائے )  جنہیں الله کے معبود ہونے  ،  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن مجید کی سچائی میں کوئی شبہ نہ رہا ۔ 
عَمِلُوا الصَّلِحَات ۔۔۔ ( نیک عمل کئے ) اس سے مراد ایسے کام ہیں جو قرآن مجید اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہوں خرابی اور ٹیڑھ پن سے پاک ہوں ۔ 
 پچھلی آیات میں قرآن کریم کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کافروں اور منکروں کو چیلنج کیا گیا تھا کہ اگر وہ قرآن مجید کو نعوذ بالله کسی انسان کا کلام سمجھتے ہیں تو وہ اس جیسا کلام بنا کر دکھائیں ۔ جس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوں جو قرآن مجید میں ہیں ۔ لیکن اُس وقت سے لے کر آج تک ساری دُنیا کے انسان اس کا جواب پیش نہیں کر سکے ۔ اور جیسا کہ الله تعالی نے خود ہی فرما دیا یہ لوگ ہرگز نہیں بنا سکیں گے ۔ اس لئے انہیں اس کے انکار اور تکذیب کی سزاء بتا دی گئی ۔ یعنی یہ کہ وہ ایسے دوزخ میں پھینکے جائیں گے جس کا ایندھن انسان اور پتھر دونوں ہیں ۔ 
اس آیت میں کافروں کے مقابلے میں ایمان لانے والوں اور نیک لوگوں کو اس بات کی خوشخبری دی گئی ہے کہ وہ ایسے باغات میں داخل کئے جائیں گے جن میں اُن کے آرام اور سکون کے لئے سب کچھ موجود ہو گا ۔ ان میں ٹھنڈے اور خوش ذائقہ پانی کے دریا بہتے ہوں گے ۔ 
اس آیت میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنت کا حقدار بننے اور اس میں داخل ہونے کے لئے انسان میں دو صفتیں موجود ہونی چاہئیں ۔ اوّل یہ کہ اس کے دل میں الله تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں کوئی شک نہ ہو ۔ یعنی وہ الله جل شانہ کو اپنا معبود سمجھتا ہو ۔ اسے اپنا رب اور آقا مانتا ہو ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سچا ہونے کا اقرار کرتا ہو ۔ قرآن مجید کو الله تعالی کا کلام سمجھتا ہو ۔ اور آخرت پر یقین رکھتا ہو ۔ 
 دوسرے یہ کہ اس کے تمام کام قرآن مجید کے حکموں کے مطابق ہوں ۔ الله جل شانہ نے جن جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں کبھی ، کسی حال میں نہ چھوڑتا ہو ۔ اور جن جن کاموں کے کرنے سے منع کیا ہے ُان کے پاس سے بھی نہ گزرتا ہو ۔ 
 اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ محض اچھے کاموں سے جنت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ جب تک اس کے ساتھ دل میں ایمان اور یقین نہ ہو ۔ اسی طرح صرف ایمان لانا کافی نہیں جب تک ایمان کے ساتھ اعمال درست نہ ہوں 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...