نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مُخالفین کی بے بسی ۔۔۔

فَإِن      ۔ لَّمْ      ۔ تَفْعَلُوا              ۔وَلَن         تَفْعَلُوا   ۔        فَاتَّقُوا         ۔ النَّارَ 
پس اگر ۔ نہ ۔    تم کر سکو ۔ اور ہرگز نہیں ۔ تم کر سکو گے ۔ تو تم ڈرو۔ آگ سے 
الَّتِي      ۔ وَقُودُهَا      ۔ النَّاسُ      ۔ وَالْحِجَارَةُ         ۔ أُعِدَّتْ     ۔ لِلْكَافِرِينَ۔  2️⃣4️⃣
وہ جو ۔ اس کا ایندھن ۔     لوگ ۔     اور پتھر ۔ وہ تیار کی گئی ہے ۔  کافروں کے لئے 

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ.   2⃣4️⃣
پھر اگر تم یہ نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو تم اس آگ سے ڈرو 
جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ 

وَقُودُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ۔۔۔ ( اس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں  ) ۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جہنم کی آگ بہت شدید ہو گی ۔ وہ انسانوں کے علاوہ پتھروں کو بھی جلا ڈالے گی ۔ گویا پتھر کے بت بھی اس کا ایندھن ہوں گے ۔ الحجارہ سے اشارہ سنگدل انسانوں کی طرف بھی ہو سکتا ہے ۔ 
پچھلے سبق میں مُخالفین کو قرآن کے مقابلے کی دعوت دی گئی تھی ۔ اب انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ تم اس کا مقابلہ نہ کر سکو گے اور ہم بتا رہے ہیں ہرگز نہ کر سکو گے ۔ تو یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ الله تعالی کا کلام ہے ۔ اور ظاہر ہو گیا کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم سچے رسول ہیں ۔ اب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نہ ماننا اور قرآنی احکام کی تعمیل نہ کرنا جہنم کے عذاب کا باعث ہو گا ۔ اس لئے اس سے بچنے کا انتظام کرنا چاہئیے ۔ کیونکہ جہنم کی آگ معمولی آگ نہیں بلکہ ایسی آگ ہے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ اور یہ آگ اُن لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اسلام کے احکام ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ، قرآن مجید کے حق ہونے اور شرع کی سچائی سے انکار کرتے ہیں ۔ 
اس آیت سے چند اور باتیں بھی واضح ہو گئیں 
 اول ۔۔۔ جس بات کا اسلام کے مخالفوں خصوصاً قریش کو بڑا دعوٰی تھا یعنی الفاظ کی پاکیزگی اور مطلب کو آسانی سے سمجھا دینا ۔ اسی میں عاجز بنا کر  اس کا الله تعالی کی طرف سے ہونا ثابت کر دیا ۔ 
 دوم ۔۔۔ الله تعالی کے سوا جتنے جھوٹے معبود لوگوں نے بنا رکھے تھے اور اُن سے مرادیں مانگتے تھے ۔ ان سب کی تردید کر دی ۔ 
سوم ۔۔ کفر کی سزا دوزخ کو قرار دیا ۔ 
ہمیں چاہئیے کہ قرآن مجید کی حقانیت ، اسلام کی صداقت اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سچائی میں شک وشبہ نہ کریں ۔ کیونکہ اگر تمام دُنیا کے انسان جمع ہو جائیں ۔ تو وہ سب مل کر بھی ایک چھوٹی سی سورت بھی ایسی نہیں بنا سکتے کہ جس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوں جو قرآن مجید میں موجود ہیں 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...