رسالت محمدی کا اثبات ۔۔۔۔ بذریعہ اعجازِ قرآن


قرآن مجید جس ہدایت کا عالمِ انسانی کو سبق دے رہا ہے اس کی بنیاد دو باتیں ہیں : توحید اور رسالت 
سورۃ بقرہ کی آیہ اکیس اور بائیس میں حق تعالی کی ایسی صفات ذکر کی گئیں جو الله تعالی کے لئے خاص ہیں مثلاً زمین اور آسمان کا پیدا کرنا ، آسمان سے پانی اُتارنا ، پانی سے پھل پھول پیدا کرنا ۔ مقصد اس دلیل کا یہ تھا کہ جب یہ کام الله تعالی کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا تو عبادت کا مستحق بھی اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ 
ایہ تیئیس اور چوبیس میں قرآن مجید کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اعلٰی معجزہ بتا کر آپ کی رسالت اور سچائی کا ثبوت پیش کیا ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے معجزات تو ہزاروں ہیں اور بڑے بڑے حیرت انگیز ہیں ۔لیکن اس جگہ اُن سب میں سے عظیم علمی معجزے قرآن مجید کا ذکر فرمایا ۔اور بتا دیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے اور اس معجزے کو انبیاء علیھم السلام کے معجزات پر فضیلت حاصل ہے ۔ کیونکہ عام طریقہ یہ ہے کہ ہر نبی اور رسول کے ساتھ الله تعالی نے اپنی قدرتِ کاملہ سے کچھ معجزات ظاہر فرمائے جو انہیں کے ساتھ مخصوص تھے اور انہیں کے ساتھ ختم ہو گئے ۔ مگر قرآن حکیم ایک ایسا معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے ۔ آج بھی ایک ادنٰی مسلمان ساری دنیا کے اہل ِ علم و دانش کو للکار کر دعوٰی کر سکتا ہے کہ اس کی مثال نہ کوئی پہلے لاسکا نہ آج لا سکتا ہے اور جس میں ہمت ہے پیش کر کے دکھا دے ۔ 
قرآن کریم کو کس وجہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا گیا اور اس کا اعجاز کن وجہوں سے ہے اور کیوں ساری دُنیا اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی ؟ 
دوسرایہ کہ مسلمانوں کا یہ دعوٰی "  قرآن مجید کے اس زبردست چیلنج کے باوجود کوئی اس کی یا اس کے ایک ٹکڑے کی مثال پیش نہیں کر سکا " تاریخی حیثیت سے کیا وزن رکھتا ہے ؟ 
*وجوہِ اعجاز قرآن*
💐 ۔ پہلی وجہ  💐
سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید کس جگہ ، کس ماحول میں اور کس پر نازل ہوا ۔ 
جس سر زمین پر یہ مقدس کتاب نازل ہوئی اس کو " بطحا ء مکہ " کہتے ہیں ۔ جو ایک ریگستا نی خشک اور گرم علاقہ ہے ۔ جہاں نہ تو کھیتی باڑی ہوتی ہے نہ ہی کسی قسم کی کوئی صنعت ۔ اس ملک کی آب وہوا بھی ایسی خوشگوار نہیں کہ لوگ وہاں سیر وتفریح کے لئے آئیں ۔ راستے بھی دشوار گزار ہیں ۔ دنیا سے الگ تھلگ ایک جزیرہ نما ہے جہاں خشک پہاڑ اور گرم ریت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ اس اتنے بڑے ملک میں بڑے بڑے شہر بھی نہیں ہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں ۔لوگ اونٹ اور بکریاں پال کر گزارا کرتے ہیں ۔ گاؤں تو کیا شہروں میں بھی علم اور تعلیم کا کوئی چرچا نہیں نہ کوئی درس گاہ نہ دارالعلوم ۔۔ وہاں کے رہنے والوں کو الله تعالی نے پیدائشی طور پر فصاحت و بلاغت کے ہنر سے نوازا ہوا ہے جس میں وہ ساری دنیا سے بڑھ کر ہیں ۔ وہ نظم اور نثر کہنے میں ایسے ماہر ہیں کہ بولتے ہیں تو بجلی کی طرح کڑکتے اور بادل کی طرح برستے ہیں ان کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی ایسے زبردست اشعار کہتی ہیں کہ بڑے بڑے ادیب حیران رہ جاتے ہیں ۔ لیکن یہ سب ان کا فطری فن ہے جو کسی مکتب یا مدرسہ سے حاصل نہیں کیا جاتا چنانچہ نہ تو وہاں پڑھنے لکھنے کا سامان ہے نہ اس سے کوئی دلچسپی ۔البتہ کچھ لوگ تجارت پیشہ ہیں ۔
اس ملک کے قدیم شہر مکہ کے ایک شریف اور عزت دار گھرانے میں نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم نے آنکھ کھولی ۔جن پر قرآن مجید نازل ہوا ۔۔ اب اس ذاتِ مقدس کا حال سنیے ۔۔
 ولادت سے پہلے ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اُٹھ چکا ہے ۔ سات سال کی عمر میں ماں کی گود سے محروم ہوگئے ۔ نہایت غربت کی زندگی ، ماں باپ کا سایہ سر پر نہیں ان حالات میں پرورش پائی ۔ تعلیم و تعلم کا کوئی سوال ہی نہیں کیونکہ وہاں پڑھنے لکھنے سے کسی کو دلچسپی ہی نہیں تھی پوری قوم عرب " امیّین " کہلاتے تھے ۔ عربوں کا مخصوص فن شعر وسخن تھا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو الله جل شانہ نے ایسی فطرت عطا فرمائی کہ ان چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔ نہ کبھی کوئی شعر یا قصیدہ کہا نہ ایسی مجلس میں شریک ہوئے ۔ 
 اس سب کے باوجود آپ بچپن سے سمجھدار ، عقل مند ، سچے ، امانت دار اور غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے ۔ آپ کے انہیں اخلاق حسنہ کا نتیجہ تھا عرب کے بڑے بڑے مغرور اور متکبر سردار آپ کی عزت کرتے تھے اور سارے مکہ میں آپ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے چالیس سال مکہ میں اپنی برادری میں اس طرح گزارے کہ کبھی کسی کتاب یا قلم کو ہاتھ نہیں لگایا نہ کبھی کسی دوسرے ملک کا سفر کیا ، نہ کسی مجلس میں کوئی نظم یا قصیدہ پڑھا ۔ ٹھیک چالیس سال بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک پر وہ کلام آنے لگا جس کا نام قرآن ہے ۔ جو اپنی لفظی فصاحت اور بلاغت کے لحاظ سے اور معنوی علوم وفنون کے لحاظ سے انتہائی حیران کُن کلام ہے ۔ صرف یہی بات ایک بہت بڑے معجزے کی حیثیت رکھتی ہے پھر اس پر دعوٰی یہ ہے کہ اگر کسی کو شک وشبہ ہے کہ یہ کلام الله نہیں ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ ۔ 
💐۔  دوسری وجہ۔   ۔  💐
اگرچہ قرآن کے احکام ساری دنیا کے لئے آئے لیکن اس کے پہلے مخاطب عرب تھے ۔ عرب سرداروں نے قرآن اور اسلام کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ ہر طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں دیں ۔ خوشامد کا پہلو اختیار کیا ، عرب کی پوری دولت وحکومت ، بہترین حسین وجمیل لڑکیوں کی پیشکش کی ۔ کہ آپ اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں ۔ جب کوئی تدبیر کامیاب نہ ہوئی تو جنگ اور مقابلے کے لئے تیار ہو کر ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد  قریشِ عرب نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سر دھڑ کی بازی لگائی جان ، مال ، آبرو سب کچھ اس مقابلے میں خرچ کرنے کےلئے تیار ہوئے یہ سب کچھ کیا لیکن یہ کسی سے نہ ہو سکا کہ قرآن مجید کے چیلنج کو قبول کرتا اور چند سطریں مقابلے پر پیش کر دیتا ۔ 
ان حالات میں پورے عرب کی خاموشی اور عاجزی اس بات کی کھلی شھادت ہے کہ یہ انسان کا کلام نہیں بلکہ الله جل شانہ کا کلام ہے جس کی مثال لانا انسان کیا ساری مخلوق کی قدرت سے باہر ہے ۔ 
صرف اتنا ہی نہیں کہ عرب اس چیلنج کے جواب میں خاموش رہے بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں قرآن مجید کے کلام الله ہونے کا اعتراف بھی کیا ۔ قریشِ عرب کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پورے عرب نے اس کلام کے بے مثل اور بے نظیر ہونے کو تسلیم کر لیا تھا اور اس کی مثال پیش کرنے کو اپنی رُسوائی کے خیال سے چھوڑ دیا تھا ۔ 
💐۔  تیسری وجہ۔  💐 
 تیسری وجہ قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی یہ ہے کہ اس میں غیب کی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بہت سی خبریں دی گئی ہیں ۔ جو ہو بہو اسی طرح پیش آئے جس طرح قرآن مجید نے اطلاع دی تھی ۔ مثلاً قرآن مجید میں خبر دی گئی کہ روم اور فارس کی جنگ میں پہلے اہل فارس کی فتح ہو گی اور رومی ہار جائیں گے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ خبر بھی دی کہ تقریباً دس سال بعد رومیوں کو اہل فارس پر غلبہ حاصل ہو گا ۔ اس طرح اور بہت سے واقعات اور خبریں ہیں جو غیبی اُمور کے متعلق قرآن مجید میں دی گئیں ۔ اور سچی ثابت ہوئیں ۔ 
💐۔ چوتھی وجہ  💐
قرآن مجید میں پہلی امتوں کے تاریخی حالات و واقعات کا ایساصاف اور واضح بیان ہے کہ اُس زمانے کے بڑے بڑے علماء یہود و نصارٰی جو پہلی کتابوں کے ماہر تھے اُن کو بھی اتنی معلومات نہیں تھیں ۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تو نہ کسی مکتب میں قدم رکھا اورنہ کسی عالم کی مجلس میں بیٹھے ، نہ کسی کتاب کو ہاتھ لگایا ۔ تو پھر یہ دنیا کی ابتداء سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے تک کے سچے واقعات ، تاریخی حالات اور ان کی شریعتوں کی تفصیلات کا علم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہاں سے ہوا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ الله جل شانہ کا ہی کلام ہے اور الله تعالی ہی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو تمام خبریں دی ہیں ۔ 
💐۔ پانچویں وجہ۔ ۔  💐
قرآن مجید کی بہت سی آیات میں لوگوں کے دلوں کی چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دی گئ ۔ پھر اُن کے اقرار سے ثابت ہو گیا کہ وہ باتیں صحیح اور سچی تھیں ۔ یہ کام بھی عالم الغیب  و الشھادہ ہی کر سکتا ہے کسی انسان سے ہونا ممکن نہیں ۔ 
مثلاً ۔۔ اِذْ ھَمَّتْ طَآءِفَتٰنِ مِنْکُم اَنْ تَفْشَلاَ  ۔۔۔۔ جب تمھاری دو جماعتوں نے دل میں ارادہ کیا کہ شکست اختیار کر لیں ( ۱۲۲:۳) ۔ 
اور یہ ارشاد کہ ۔۔۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۔۔۔۔۔ اور وہ لوگ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے انکار کی وجہ سے الله تعالی ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ۔ ۔۔ ( ۸:۵۸ ) ۔ 
یہ سب وہ باتیں ہیں جنہیں انہوں نے کسی پر ظاہر نہیں کیا ۔ قرآن کریم نے ہی ان کا انکشاف کیا ہے ۔ 
 💐 چھٹی وجہ۔  💐 
قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن میں الله تعالی نے کسی قوم یا فرد کے متعلق یہ پیش گوئی کی کہ وہ فلاں کام نہ کر سکیں گے ۔ پھر وہ لوگ باوجود ظاہری طاقت و قدرت کے وہ کام نہ کر سکے ۔ 
جیسے یہودیوں کے متعلق قرآن مجید نےاعلان کیا کہ اگر وہ واقعی اپنے آپ کو الله کا دوست سمجھتے ہیں تو موت کی آرزو کر کے دکھائیں ۔ ۔۔۔۔ وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَداً ۔۔۔۔ وہ ہرگز موت کی تمنّا نہ کریں گے ۔۔۔ ( ۹۵:۲) ۔ 
 موت کی آرزو کرنا کسی کے لئے مشکل نہ تھا ۔ اور یہودیوں کے لئے تو مسلمانوں کو شکست دینے کا اچھا موقع تھا کہ فورًا ہر جگہ موت کی تمنّا کا اعلان کر دیتے ۔ لیکن یہودی اور مشرکین زبان سے کتنا جھٹلائیں ان کے دل جانتے تھے کہ قرآن الله تعالی کی سچی کتاب ہے ۔ اس لئے کسی یہودی کو ہمت نہ ہوئی کہ ایک مرتبہ زبان سے موت کی تمنّا کا اظہار کر دے ۔ اگر کر دیتا تو اسی وقت مر جاتا ۔۔ 
💐 ساتویں وجہ۔ 💐
 وہ خاص کیفیت ہے جو قرآن مجید سننے سے ہر خاص وعام  اور مؤمن وکافر پر طاری ہوتی ہے ۔ جیسے حضرت جبیر بن مطعم رضی الله تعالی عنہ کو اسلام لانے سے پہلے پیش آیا ۔ اتفاق سے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سورۃ طور پڑھتے ہوئے سُنا ۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم آخری آیۃ پر پہنچے تو جبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ گویا میرا دل اُڑنے لگا وہ آیات یہ ہیں۔۔۔أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ
أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَّا يُوقِنُونَ
أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُسَيْطِرُونَ
" کیا وہ بن گئے ہیں آپ ہی آپ ، یا وہی ہیں بنانے والے ۔ یا انہوں نے بنائے ہیں آسمان اور زمین ؟ کوئی نہیں ، پر یقین نہیں کرتے ۔ کیا اُن کے پاس ہیں خزانے تیرے رب کے یا وہی داروغہ ہیں ۔" ۔ 
( ۳۵_۳۶_۳۷:۵۲ ) 
💐 آٹھویں وجہ۔ 💐
قرآن مجید کو بار بار پڑھنے سے کوئی اکتاتا نہیں ، بلکہ جتنا زیادہ پڑھا جاتا ہے اس کا شوق اور زیادہ بڑھتا ہے ۔ دنیا کی کوئی بہتر سے بہتر ، عمدہ سے عمدہ کتاب لے لیجئے اس کو دو چار بار پڑھا جائے تو انسان کی طبیعت اُکتا جاتی ہے ۔ پھر نہ پڑھنے کو دل چاھتا ہے نہ سننے کو ۔ یہ صرف قرآن مجید کی خاصیت ہے کہ جتنا کوئی اس کو زیادہ پڑھتا ہے اتنا ہی اس کا شوق بڑھتا ہے ۔ یہ کلام الٰہی ہونے کا اثر ہے ۔
💐 نویں وجہ 💐
قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ خود الله تعالی نے لیا ہے اس لئے قیامت تک بغیر کسی معمولی سی ترمیم کے باقی رہے گا ۔ ہر زمانے اورہر وقت میں لاکھوں انسان ایسے موجود رہے ہیں جن کے سینوں میں قرآن مجید محفوظ ہے ۔ بڑے سے بڑا عالم اگر کہیں زیر زبر کی غلطی کر جائے تو ذرا ذرا سے بچے وہیں غلطی پکڑ لیں گے ۔ دنیا میں کسی مذہب کی کوئی کتاب اتنی تعداد میں شائع نہیں ہوئی جتنا قرآن مجید شائع ہوا ہے ۔ جس طرح الله تعالی کی ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اس پر کس مخلوق کا کوئی زور نہیں چل سکتا اسی طرح اس کا کلام بھی ہمیشہ تمام مخلوقات کے تصرف اور اختیار سے بالاتر ہو کر ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا ۔ اس کُھلے معجزے کے بعد قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک وشبہ ہی نہیں رہتا ۔ 
💐 دسویں وجہ  💐
قرآن مجید میں ایسے ایسے علوم اور معارف ہیں جو کسی اور کتاب میں نہیں ۔  نہ ہی اتنی مختصر کتاب میں اور اتنے کم کلمات میں اتنے علوم و فنون جمع کئے جا سکیں گے ۔ جو پوری کائنات کی ہمیشہ کی ضروریات اور انسانی زندگی کے ہر شعبے ، ہر حال کے بارے میں مکمل ، مرتب اور بہترین نظام پیش کر سکیں  ۔  بلکہ عملی طور پر نافذ بھی ہو سکے ۔ جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انتہائی مختصر عرصے میں نافذ کر کے دکھا دیا ۔ 
نزول قرآن کے شروع کے چند سال تو اس حالت میں گزرے کہ قرآنی تعلیمات کو کھلے عام پیش کرنا بھی ممکن نہ تھا ۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم خفیہ طور پر لوگوں کو اصول قرآنی کی طرف دعوت دیتے تھے قرآن مجید کے قوانین کو نافذ کرنے کا کوئی امکان نہ تھا ۔ 
 ہجرتِ مدینہ کے بعد صرف دس سال ایسے ملے جن کو مسلمانوں کے لئے آزادی کا زمانہ کہا جا سکتا ہے ۔ اس کے بھی شروع کے چھ سال مکہ والوں سے جنگ ، مدینہ کے منافقوں کی سازشوں او یہود ونصارٰی سے لڑائیوں میں گزر گئے ۔ ظاہر اسباب میں صرف دو ، چار سال ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس کام کے لئے ملے کہ قرآن مجید کی دعوت کو عام کر سکیں اور اس کے نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کر سکیں ۔ اب اس قلیل مدت کو دیکھیے اور قرآن مجید کے اثر ونفوذ پر نظر ڈالئے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے وصال کے وقت پورے جزیرۃ العرب پر قرآن کریم کی حکومت تھی ۔ یہ اثر و نفوذ اور روحانی تاثیر صرف اور صرف کلام الٰہی ہونے کی وجہ سے تھی 
ماخذ ۔۔۔معارف القرآن 
مفتی محمد شفیع صاحب رحمه الله تعالی 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں