نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تیسرے رکوع پر ایک نظر ۔۔۔۔

کافروں اور منافقوں کے حالات ابتدائی دو رکوع میں بیان کرنے کے بعد تیسرا رکوع اس مضمون سے شروع ہوا تھا کہ انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے رب کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے ادب کے ساتھ سر جھکائے ۔ اور اس کے احکام بجا لائے ۔ تاکہ اسے دونوں جہان میں زندگی کی راحتیں نصیب ہوں ۔ الله تعالی نے انسان سے سب سے پہلا مطالبہ یہی کیا ہے ۔ 
پھر ارشاد ہوا اس کے احکام معلوم کرنے کے لئے قرآن مجید کی طرف پورے طور پر متوجہ ہونا چاہئیے ۔ جس کے برابر نہ کوئی کتاب موجود ہے ۔ نہ ہو سکتی ہے ۔ اس حقیقت کو سمجھانے کے لئے ایک سیدھا سادہ سوال تعجب کے انداز میں کیا کہ تم الله تعالی کا انکار کیسے کر سکتے ہو ؟ جب کہ تمہیں اپنے یا کسی جاندار کے پیدا کرنے یا مارنے پر کچھ بھی اختیار نہیں ہے ۔ 
کلام الله کی صداقت کے بارے میں سیدھی سادی دلیل یہ پیش کی کہ اگر کسی کو شک ہو کہ یہ الله تعالی کا کلام نہیں ہے بلکہ کسی انسان کا بنایا ہوا ہے تو وہ  خود اس جیسی دس سورتیں ، دس نہیں تو تین سورتیں یا ایک ہی سورت بنا کر دکھا دے ۔ اکیلے یہ کام کرنا ممکن نہ ہو تو اپنے ساتھیوں فاضلوں ، ادیبوں کو ساتھ ملا کر کوشش کر دیکھے ۔ 
رکوع ختم اس بات پر ہوا کہ اے لوگو ! زمین پر ساری چیزیں تمہارے لئے ہی پیدا کی گئی ہیں اور آسمانوں کو بھی اسی لئے پیدا کیا گیا کہ سورج ، چاند ، ستاروں اور بارش کے ذریعہ تمہیں نفع پہنچے ۔ اس لئے تم اپنے مرتبہ کو پہچانو ۔ اور وہ کام کرو جو تمہارے شایانِ شان ہو ۔ 
اگر ہم یہ ایت سمجھ لیں اور دُنیا کی اقوام کو ذہن نشین کرا سکیں ۔ تو یہ نوع انسانی کی بہت بڑی خدمت ہو گی ۔ اگر مشرکوں اور بُت پرستوں کو اس حقیقت کا پتہ لگ جائے ۔ کہ زمین وآسمان اور کُل کائنات انسان کے لئے بنی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب چیزوں کا مالک اور تمام کائنات سے افضل انسان اپنےسے کمتر اشیاء کے سامنے سجدہ کر سکے ۔ 
جو رکوع اس کے بعد شروع ہو گا ۔ اس میں خاص طور پر بیان کیا گیا ہے کہ انسان کا مرتبہ کیا ہے ۔ اور وہ اس دُنیا میں کامیاب زندگی کس طرح گزار سکتا ہے ۔ تاکہ انسان اپنی عظمت اور شان کا صحیح اندازہ کرے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے وہ اپنے اُونچے مرتبے سے گر جائے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...