نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الله کی نشانیاں ۔۔۔۔

هُوَ     ۔ الَّذِي          ۔ خَلَقَ        ۔ لَكُم     ۔ مَّا       ۔ فِي      ۔ الْأَرْضِ        جَمِيعًا 
وہ  ۔ وہ جس نے   ۔ پیدا کیا ۔ تمہارے لئے ۔ جو ۔       میں       ۔ زمین ۔        سارا 
ثُمَّ    ۔ اسْتَوَى    ۔ إِلَى      ۔ السَّمَاءِ     ۔ فَسَوَّا۔                  هُنَّ      سَبْعَ۔      سَمَاوَاتٍ 
پھر ۔  ارادہ کیا ۔ طرف ۔    آسمان ۔ پس اُس نے برابر کیا ۔ اُن کو ۔     سات ۔       آسمان 
وَهُوَ     ۔ بِكُلِّ      ۔ شَيْءٍ       ۔ عَلِيمٌ۔  2️⃣9️⃣
اور وہ       ۔ ہر ۔       چیز ۔                خبردار     

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ.  2️⃣9️⃣
وہی ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا پھر سات آسمان ٹھیک کر دیئے  اور الله تعالی ہر چیز سے خبر دار ہے ۔ 
فَسَوّاھُنَّ ۔ ( ٹھیک کر دیئے ) یہ لفظ تسویہ سے بنا ہے ۔جس کے معنی ہیں  کسی چیز کے مختلف حصوں اور جوڑوں کو ان کی جگہ پر ٹھیک ٹھیک بٹھا دینا ۔ درست کر دینا ۔ 
سَبْعَ سَمٰوٰت ۔ ( سات آسمان ) سمٰوٰت کا مادہ سموٌ ہے ۔ جس کے معنی بلندی کے ہیں ۔ اسی بلندی کی مناسبت سے آسمان کو آسمان کہا جاتا ہے ۔ سَبْع کے معنی ہیں سات ۔ ویسے عربی محاورے میں یہ لفظ زیادہ اور کثیر کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ 
انسان روح اور جسم کے مجموعے کا نام ہے ۔ظاہر ہے ان دونوں کی ضرورتوں کو الله تعالی ہی پورا کرتا ہے ۔جس نے اس مٹی کے پتلے  کو بنایا پھر وہی جس قدر اس کی ضرورتیں ہیں اُن کو پورا کرتا ہے تاکہ اس جسم کی ترقی اور نشو ونما ہو ۔ اور وہ پھلے پھولے ۔ جسم کی نشو ونما کے ساتھ ساتھ انسان کی روح کو بھی غذا کی ضرورت ہے ۔ 
اس آیہ کا یہی مطلب ہے کہ الله جل شانہ نے زمین کو پیدا کرنے کے بعد اس میں ایک طرف تو دریا اور سمندر بہائے  دوسری طرف اونچے اونچے پہاڑ کھڑے کر دیئے کہ آسمان سے باتیں کرتے ہیں ۔ درختوں کے جنگل کے جنگل اُگائے ۔ زمین کو معدنیات کے اَن گنت خزانوں سے بھر دیا ۔ اور یہ سب کچھ حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی اولاد کے لئے ہوا اب انسان کا یہ کام ہے کہ وہ اپنی عقل اور سمجھ سے ان بے شمار خزانوں سے مناسب فائدہ اٹھائے ۔ 
جَمِیعاً کا لفظ کہہ کر بتایا کہ یہ سب کچھ انسان کے لئے ہے ۔ وہی اس سے فائدہ اٹھانے کا حقدار ہے ۔  لیکن جسم کے ساتھ اس کی روح کی بھی پرورش ہونی چاہئیے ۔ اس مقصد کے لئے زمین اور اس کی پیداوار کافی نہیں ۔ اس لئے زمین پیدا کرنے کے بعد الله جل شانہ نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی ۔ وہاں سے انسانوں کی روح کی تربیت کے لئے مختلف زمانوں میں ہدایت کی بارشیں ہوتی رہیں ۔ انسان جس طرح زمینی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ اسے چاہئیے کہ آسمانی بارش سے بھی فائدہ اٹھائے تاکہ جسم کے ساتھ ساتھ روح کی بھی تکمیل ہو ۔ اور اس طرح مکمل آدمی بن کر الله کے دربار میں حاضر ہو ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...