نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*خلیفۃ الله*

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً    ط 
اس آیت کا ترجمہ اور تشریح پچھلے سبق میں بیان ہو چکی ہے ۔ اب ہمیں یہ جاننا ہے کہ خلافت سے کیا مراد ہے اور انسان کس معنی میں الله تعالی کا نائب ہے ۔ 
 الله تبارک وتعالی اس کائنات کا خالق اور مالک ہے ۔ وہ تمام صفاتِ حسنہ کا مالک ہے ۔ ہم نہ اس کی صفتیں گن سکتے ہیں اور نہ کام ۔ اس نے انسان کے خمیر میں اپنی صفتوں میں سے تھوڑی تھوڑی خوبیاں ڈال دیں ۔ تاکہ وہ دنیا میں آ کر اس کی صفتوں کا مظاہرہ کرے ۔ اس کا نام بلند کرے اور اپنے قول اور فعل سے ثابت کرے کہ وہ صحیح معنوں میں الله تعالی کا خلیفہ اور نائب ہے ۔ 
الله جل شانہ رحم کرنے والا ہے ۔ ہر انسان کو بھی چاہئیے کہ وہ نہ صرف اپنے بھائی بندوں پر رحم کرے بلکہ تمام مخلوق پر رحم کرے ۔ اسی طرح الله تعالی صفت ہے کہ وہ عادل اور انصاف کرنے والا ہے ۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لے ۔ اپنے اور پرائے کے ساتھ انصاف کے معاملے میں کسی قسم کی رو رعایت نہ برتے ۔ بلکہ سب کے ساتھ ایک جیسا معاملہ رکھے ۔ 
 الله رب العزت کا نام حلیم بھی ہے ۔ یعنی بُرد باد ہے ۔ انسان اس کی نا فرمانی کرتا ہے اور اس سے بے شمار گناہ سرزد ہوتے ہیں لیکن الله تعالی نرمی سے کام لیتا ہے ۔اس سے درگزر کرتا ہے ۔ اور مجرم کو مہلت دیتا ہے ۔ کہ وہ توبہ کر لے اور اپنا طور طریقہ بدل لے ۔ ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم  اپنے اندر بُرد باری کی صفت پیدا کریں ۔ اپنے ساتھیوں سے حسنِ سلوک سے پیش آئیں ۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو تو انہیں اصلاح کا موقع دیں ۔ 
*غرض یہ کہ* 
انسان اپنے اندر وہ تمام اخلاق اور صفات پیدا کرنے کی کوشش کرے جو الله تعالی کا خاصہ ہیں اور دُنیا کے رہنے والوں سے اس طرح پیش آئے ۔جیسے الله تعالی اپنے بندوں سے پیش آتا ہے ۔ 
اگر ہم اپنے اندر الله تعالی کی صفات پیدا نہیں کرتے تو اس کی خلافت اور نیابت کے مستحق نہیں ٹھرتے ۔ اور کسی طرح اس اُونچے درجہ کو حاصل نہیں کر سکتے ۔ جو اس نے ہمارے لئے پسند فرمایا ہے ۔
درسِ قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...