قرآن مجید کی مثالیں ۔۔۔۔۔

،إِنَّ           ۔ اللَّهَ          ۔لَا       ۔ يَسْتَحْيِي   ۔     أَن۔       يَضْرِبَ       ۔ مَثَلًا      ۔ مَّا       ۔ بَعُوضَةً 
بے شک ۔  الله تعالی۔ ۔ نہیں۔ ۔ وہ شرماتا ہے ۔   یہ کہ  ۔ وہ بیان کرے۔ ۔ مثال ۔    جو ۔ کوئی مچھر 

فَمَا        ۔ فَوْقَهَا         ۔ فَأَمَّا     ۔ الَّذِينَ     ۔ آمَنُوا            ۔ فَيَعْلَمُونَ          ۔ أَنَّهُ         ۔ الْحَقُّ     ۔ مِن         ۔ رَّبِّهِمْ 
پس جو ۔ اوپر ہو اس کے ۔ لیکن جو ۔    لوگ  ۔ ایمان لائے ۔ پس وہ جانتے ہیں ۔ بےشک وہ ۔ سچ ہے     ۔ سے ۔ اُن کے رب 

وَأَمَّا    ۔ الَّذِينَ    ۔ كَفَرُوا       ۔ فَيَقُولُونَ         ۔ مَاذَا ۔  أَرَادَ  ۔       اللَّهُ          ۔ بِهَذَا     ۔ مَثَلًا  
اور  جو    ۔ لوگ   ۔ کافر ہوئے ۔ پس وہ کہتے ہیں ۔ کیا ۔   ارادہ ہے ۔ الله تعالی ۔ اس سے ۔  مثال 

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا 
بیشک الله تعالی نہیں شرماتا ۔ کہ وہ کوئی مثال بیان کرے خواہ مچھر کی یا اس کی جو اس سے بڑھ کر ہو ۔ پس جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہے اُن کے رب کی طرف سے ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں الله تعالی کا اس مثال سے کیا مطلب تھا ؟ 

فَوْقَھَا ۔۔ ( اس سے بڑھ کر ) فوق کے لفظی معنی اُوپر کے ہیں ۔ اور اس سے مراد ہے اس سے بھی زیادہ حقیر اور ادنٰی چیز 
اس سے پچھلی آیتوں میں الله تعالی نے قرآن مجید کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کافروں اور انکار کرنے والوں کو دعوت دی تھی کہ اگر وہ اس کو نعوذ بالله الله تعالی کا کلام نہیں سمجھتے ۔ تو وہ اس جیسا کلام بنا کر پیش کریں ۔ لیکن وہ لوگ آج تک اس کا جواب نہیں دےسکے اور نہ قیامت تک دے سکیں گے ۔ ایسی بے بسی کی حالت میں ان سے اور تو کچھ نہ بن پڑا ۔البتہ قرآن مجید میں عیب نکالنے لگے اور کہا یہ تو بڑی حیرت کی بات ہے کہ الله تعالی اتنی بڑی شان اور عظمت والا ہو کر اپنے کلام میں نہایت حقیر اور ذلیل چیزوں کا ذکر کرتا ہے 
 حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر بڑی سے بڑی مخلوق کا ذکر بھی آیا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی کا بھی ۔ جانورں میں ایک طرف ہاتھی ، گھوڑے اور اُونٹ وغیرہ کا اور دوسری طرف چیونٹی ، مکھی ، مچھر وغیرہ کا ۔ لوگوں کو سمجھانے کے لئے الله تعالی نے ان جانوروں کی مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ مثلا کسی جگہ یہ کہ کافروں کے بُت اس قدر کمزور اور بےبس ہیں کہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اگر اُن کے منہ پر مکھی مچھر بیٹھ جائے تو اسے اُڑا بھی نہیں سکتے ۔ کسی جگہ یہ کہ کافروں کا دین مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہے ۔ ایسی باتیں سُن کر بعض کافر کہنے لگے کہ مسلمانوں کا رب بھی ( نعوذ بالله) عجیب باتیں کرتا ہے ۔ کہ وہ ایسی حقیر چیزوں کا نام لینے سے بھی نہیں جھجھکتا ۔ ان کے اس اعتراض کا جواب الله تعالی نے اس آیہ میں دیا ہے ۔ مثال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بات جس کے لئے مثال دی گئی ہے ۔ خوب واضح اور روشن کر کے ذہن نشین کر دی جائے ۔ اب یہ مطلب جس مثال سے پورا ہو سکے وہ مثال سب سے اچھی کہلائے گی ۔ خواہ وہ چیز جو مثال میں پیش کی گئی ہے خود کتنی معمولی ہو ۔ مچھر ایک بہت ادنٰی اور بے حقیقت سی مخلوق ہے ۔ اب جہاں بتّوں یا کسی مخلوق کی کم تری بیان کرنی ہوگی وہاں مناسب مثال مچھر ہی کی ہو گی ۔ اس پر اعتراض کرنا بے وقوفی اور نادانی کی دلیل ہے ۔ 
لوگوں کو سمجھانے کے لئے الله تعالی مثالیں بیان کرتا ہے ۔ ان مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ الله تعالی کی باتیں لوگ اچھی طرح سمجھ لیں نہ یہ کہ ان مثالوں کا مذاق اڑائیں اور ان پر اُلٹے سیدھے اعتراض کرنے لگیں ۔ 
ایمان والے لوگ اس مثال کو سچی اور مطلب کے بیان کرنے کے لئے مناسب اور اپنے رب کی طرف سے درست سمجھتے ہیں ۔ ایمان والے الله تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر پختہ یقین رکھتے ہیں ، الله تعالی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حکموں کو ماننا اور ان پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ اور جب  الله تعالی کوئی مثال بیان فرمائے تو کوشش کرتے ہیں کہ اس مثال کا اصلی مطلب سمجھ لیں ۔ وہ اس چیز کی بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ مثال بذاتِ خود کیسی ہے ۔ معمولی ہے یا شاندار ۔ اس میں کسی اعلٰی چیز کا ذکر کیا گیا ہے یا گھٹیا چیز کا بلکہ اس مثال کا جو مطلب اور مقصد ہوتا ہے وہ صرف اس پر غور کرتے ہیں ۔ اور سبق حاصل کرتے ہیں ۔ 
اس کے مقابلے میں کافر الله تعالی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں ۔ اُن کے دل میں حق کی تلاش بالکل 
نہیں ہوتی ۔  مخالفت کی وجہ سے اسی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ الله تعالی کے کلام میں عیب ڈھونڈیں اور بے تُکے اعتراض کریں ۔
اس لئے الله تعالی جب ان کو سمجھانے کے لئے کوئی مثال بیان فرماتا ہے تو وہ لوگ اس کے بجائے کہ اس مثال کا اصلی مطلب سمجھنے کی کوشش کریں  اس پر اعتراض کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور طنز کے طور پر ایمان والوں سے پوچھتے ہیں کہ الله تعالی کا اس قسم کی مثال بیان کرنے سے مطلب کیا ہے ؟  
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ صاحبِ ایمان اور مضبوط کردار وہ لوگ ہیں جو الله تعالی کی بیان کی ہوئی مثالوں پر غور کرتےہیں انہیں سمجھتے ہیں اور ان پر اُلٹی سیدھی بحث نہیں کرتے 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں