*سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم*

قسط ~~~~93
حلیہ مبارک ۔۔۔۔۔
ہجرت کے وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اُمِّ مَعْبد خزاعیہ رضی الله عنھا کے خیمے سے گزرے تو اس نے آپ کی روانگی کے 
بعد اپنے شوہر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا جو نقشہ کھینچا وہ یہ تھا 
🌹 
چمکتا رنگ  ، تابناک چہرہ۔ ، خوبصورت ساخت ، نہ توندے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی ، جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر  ، سرمگیں آنکھیں ، لمبی پلکیں، بھاری آواز ، لمبی گردن ، سفید وسیاہ آنکھیں ، سیاہ سرمگیں پلکیں  ، باریک اور باہم ملے ہوۓ ابرو ، چمکدار کالے بال  ، خاموش ہوں تو باوقار ، گفتگو کریں تو پُرکشش ، دور سے ( دیکھنے میں  ) سب سے تابناک و پُر جمال ، قریب سے سب سے خوبصورت اور شیریں ، گفتگو میں چاشنی ، بات واضح اور دو ٹوک ، نہ مختصر نہ فضول ، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں ، درمیانہ قد نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے ، نہ لمبا کہ ناگوار لگے ، دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ اور خوش منظر ہے ۔ رُفقا آپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے کچھ فرمائیں تو توجہ سے سُنتے ہیں ، کوئی حکم دیں تو لپک کر بجا لاتے ہیں ۔ مطاع و مکرم ، نہ تُرش رُو ، نہ لغو گو ۔۔۔۔
*حضرت علی رضی الله عنہ* آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 🌹
آپ نہ لمبے تگڑے تھے نہ ناٹے چھوٹے ، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے ۔ بال نہ زیادہ  گھنگریالے نہ بالکل کھڑے کھڑے بلکہ دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی ۔ رخسار نہ بہت زیادہ پُر گوشت تھے ، نہ ٹھوڑی چھوٹی تھی اور نہ ہی پیشانی پست ۔ چہرہ کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ رنگ گورا گلابی ، آنکھیں سُرخی مائل ، پلکیں لمبی ، جوڑوں اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی ، سینہ پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر ، باقی جسم بالوں سے خالی ، ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں پُر گوشت ، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں اُٹھاتے اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں ۔ جب کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے ۔ دونوں کندھوں کے درمیان مُہرِ نبوت تھی ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم سارے انبیاء علیھم السلام کے خاتم تھے ۔ سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر جرآت مند ، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہد وپیمان کے پابندِ وفا ، سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے زیادہ شریف ساتھی ۔ 
جو آپ صلی الله علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہو جاتا ۔ جو جان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا ۔ آپ کا وصف بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے ۔کہ
 *میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد آپ جیسا نہیں دیکھا*
🌹
حضرت علی رضی الله عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا تھا ، جوڑوں کی ہڈیاں بھاری بھاری تھیں۔ سینے پر بالوں کی لمبی لکیر تھی ۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم چلتے تو قدرے جھک کر چلتے گویا کسی ڈھلوان سے اُتر رہے ہیں ۔ 
🌹
حضرت جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا دہانہ کشادہ تھا آنکھیں ہلکی سُرخی لئے ہوئے اور ایڑیاں باریک ۔ 
🌹
حضرت ابو الطفیل رضی الله عنہ کہتے ہیں 
 کہ آپ گورے رنگ ، پُر ملاحت چہرے اور میانہ قدوقامت کے تھے ۔ 
🌹
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں ، اور رنگ چمکدار ، نہ خالص سفید، نہ گندم گوں ، وفات کے وقت تک سر اور چہرے مبارک کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے ۔ صرف کنپٹی کے بالوں میں کچھ سفیدی تھی  اور چند بال سر کے سفید تھے 
🌹
حضرت ابو جحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہونٹ کے نیچےعنفقہ ( داڑھی بچہ ) میں سفیدی دیکھی ۔ 
🌹
حضرت عبد الله بن بسر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ آپ کی عنفقہ ( داڑھی بچہ ) میں چند بال سفید تھے ۔ 
🌹
حضرت براء بن عازب رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا پیکر درمیانی تھا ۔ دونوں کندھوں کے درمیان دوری تھی ۔ بال دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے ۔ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو سُرخ جوڑا زیبِ تن کئے ہوئے دیکھا ۔ کبھی کوئی چیز آپ سے زیادہ خوبصورت نہ دیکھی ۔ پہلے آپ اھل کتاب کی موافقت کرتے اس لئے بال میں کنگھی کرتے تو مانگ نہ نکالتے ۔ لیکن بعد میں نکالا کرتے تھے ۔ 
حضرت براء کہتے ہیں :آپ کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق سب سے بہتر تھے ۔ ان سے دریافت کیا گیا کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ تلوار جیسا تھا ۔ انہوں نے کہا نہیں بلکہ چاند جیسا تھا ۔۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک گول تھا 
🌹
ربیع بنت معوّذ کہتی ہیں کہ اگر تم حضور کو دیکھتے تو لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے ۔ 
 حضرت جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ پر سُرخ جوڑا تھا۔ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھتا ، اور چاند کو دیکھتا ۔ آخر  (اس نتیجہ پر پہنچا ) آپ چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں ۔ 
 حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی ۔ لگتا تھا سورج آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر رواں دواں ہے ۔ اور میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا ۔ لگتا تھا زمین آپ کے لئے لپیٹی جا رہی ہے ۔ ہم تو اپنے آپ کو تھکا مارتے تھے ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم بالکل بے فکر ۔ 
🌹
حضرت کعب بن مالک کا بیان ہےکہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ دمک اٹھتا ۔ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے ۔ 
 ایک بار حضرت عائشہ رضی الله عنھا کے پاس تشریف فرما تھے ۔ پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں ۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہ رضی الله عنھا نے ابو کبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا:- 
 و اذا نظرت الی أسرہ وجھه 🌹
برقت کبرق العارض المتہلل 
 " جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو " 
🌹
  حضرت ابو بکر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے : ۔
🌹
آمین مصطفی بالخیر یدعو 
 کضوء البدر زایله الظلام 
 " آپ امین ہیں ، چنیدہ  و برگزیدہ ہیں ، خیر کی دعوت دیتے ہیں ، گویا ماہ کامل کی روشنی ہیں جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے  " 
🌹 
حضرت عمر رضی الله عنہ  زُہیر کا یہ شعر پڑھتے جو ہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ :- 
 لو کنت من شیئٍ سوی البشر 
 کنت المضیءَ  لیلۃ البدر 
اگر آپ صلی الله علیہ وسلم بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ ہی چودھویں کی رات کو روشن کرتے  ۔ 
 پھر فرماتے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایسے ہی تھے 
جب آپ غضب ناک ہوتے تو چہرہ سُرخ ہو جاتا گویا دونوں رُخساروں میں دانۂ انار نچوڑ دیا گیا ہے ۔ 
🌹
 حضرت جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں ۔ اور آپ ہنستے تو صرف تبسم 
فرماتے ۔ ( آنکھیں سُرمگیں تھیں )  تم دیکھتے تو کہتے کہ آپ نے آنکھوں میں سُرمہ لگا رکھا ہے  حالانکہ سُرمہ نہ لگا ہوتا ۔ 🌹حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے آگے کے دونوں دانت الگ الگ تھے ۔ جب آپ گفتگو فرماتے تو ان دانتوں کے درمیان سے نور جیسا نکلتا دکھائی دیتا ۔ 
 گردن گویا چاندی کی صفائی لئے ہوئے گڑیا کی گردن تھی ۔ پلکیں طویل ، داڑھی  گھنی ، پیشانی کشادہ ، ابرو پیوستہ اور ایک دوسرے سے الگ ، ناک اونچی  ، رخسار ہلکے ، لبہ سے ناف تک  چھڑی کی طرح دوڑا ہوا بال ، اور اس کے سوا شکم اور سینے پر کہیں بال نہیں ۔ البتہ بازوں اور مونڈھوں پر بال تھے ۔ شکم اور سینہ برابر ، سینہ مسطح اور کشادہ ، کلائیاں بڑی بڑی  ہتھیلیاں کشادہ ، قد کھڑا ، تلوے خالی ، اعضاء بڑے بڑے ۔ جب چلتے تو جھٹکے کے ساتھ چلتے ، قدرے جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے او سہل رفتار سے چلتے ۔
🌹
حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریر اور دیبا نہیں چھوا جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو ۔ اور نہ کبھی کوئی عنبر ، مُشک یا کوئی ایسی خوشبو سونگھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خوشبو سے بہتر ہو ۔ 
🌹حضرت  ابو جحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کا  ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مُشک سے زیادہ خوشبودار تھا ۔ 
🌹حضرت جابر بن سمرہ ۔۔۔ جو بچے تھے ۔۔۔ کہتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے میرے رخسار پر ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور ایسی خوشبو محسوس کی کہ گویا آپ نے اسے عطار کے عطردان سے نکالا ہے ۔ 
🌹حضرت انس کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا پسینہ گویا موتی ہوتا تھا ۔ اور حضرت اُمّ سلیم کہتی ہیں کہ یہ پسینہ ہی سب سے عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی ۔ 
 🌹حضرت جابر کہتے ہیں : آپ صلی الله علیہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتےاور آپ کے بعد کوئی اور گزرتا تو آپ کے کے جسم یا پسینے کی خوشبو کی وجہ سے  جان جاتا کہ آپ یہاں سے تشریف لے کر گئے ہیں 
🌹آپ صلی الله علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی  جو کبوتر کے انڈے جیسی اور جسم مبارک ہی کے مشابہ تھی ۔ یہ بائیں کندھے کی کری ( نرم ہڈی ) کے پاس تھی ۔ اس پر مسوں کی طرح تِلوں کا جھمگٹ تھا ۔ 
~~~~~~~~~~ جاری ہے 
سیرت مصطفی ~~~~محمد ادریس کاندھلوی 
الرحیق المختوم ~~~~ صفی الرحمن مبارک پوری 


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں