ہدایت اور گمراہی ۔۔۔

 يُضِلُّ        ۔ بِهِ      ۔ كَثِيرًا      ۔ وَيَهْدِي                 بِهِ۔             كَثِيرًا     
 وہ گمراہ کرتا ہے ۔ اس سے ۔ بہت ۔ اور وہ ہدایت دیتا ہے ۔ اس سے ۔       بہت    
وَمَا۔      يُضِلُّ           بِهِ          إِلَّا         الْفَاسِقِينَ۔   2️⃣6️⃣لا 
اور نہیں ۔ وہ گمراہ کرتا ۔ اس سے   ۔ مگر         ۔ نا فرمان۔            ۔         

 يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ۔  2️⃣6️⃣لا 
اور وہ اس ( مثال ) سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور اسی سے بہتوں کو ہدایت دیتا ہے ۔ اور وہ اس ( مثال ) سے سوائے بدکاروں کے کسی کو گمراہ نہیں کرتا ۔ 

فَاسِقِیْنَ ۔۔۔ ( بد کار ) فاسق کی جمع ہے ۔ جس کے معنی ہیں نکلنا ۔ شریعت میں اس سے مراد  الله تعالی کی فرمانبرداری سے نکل جانا  ۔ نافرمانی اور گناہ کرنا ہے 
الله تعالی لوگوں کو سمجھانے کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرماتا ہے ۔ بعض لوگ ان مثالوں پر غور کرتے ہیں ۔ ان سے سبق حاصل کرکے ہدایت پالیتے ہیں ۔ اور بعض ان پر فضول اعتراض اور کٹ حجتی کرتے ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں ۔ ہدایت پانے والے وہ ایمان دار لوگ ہیں جو اپنی دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں سے صحیح کام لیتے ہیں ۔ 
دنیا میں راہیں بے شمار ہیں مگر ان میں سیدھی راہ ایک ہی ہو سکتی ہے ۔ الله تعالی نے انسان کو عقل دی اور سمجھ بوجھ عطا کی ۔ صرف یہی نہیں نبیوں اور رسولوں کے ذریعے راہِ ہدایت کے پیغام بھیجے ۔ اس کے بعد انسان کو اختیار ہے کہ جو راہ چاہے اختیار کرے ۔ اب اگر انسان اپنی اس آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر غلط راہ اختیار کرتا ہے تو وہ بُرائی میں پڑ جاتا ہے ۔ اور جب اپنی مرضی سے گمراہی اختیار کر لیتا ہے ۔ تو اس بُرے راستے کے باقی سامان بھی مہیا ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھ جل جاتا ہے اسی طرح جب کوئی آدمی غلط راستہ اختیار کر لیتا ہےتو اس راستے کی برائیاں اور نقصان بڑھتے ہی جاتے ہیں ۔ 
اس آیت میں جو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کی بیان کی ہوئی مثالوں سے بہت سے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں تو اس کی وجہ ان کی اپنی کٹ حجتی اور فضول بحث ہوتی ہے ۔ وہ ان مثالوں پر غور نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنی سوچنے کی ساری قوت  ان پر اعتراض کرنے میں لگا دیتے ہیں ۔ فاسق یعنی بدکار لوگ جو نفس کی بُری خواہشات کے پیچھے ہی لگے رہتے ہیں آسانی سے ایسی کوئی بات سُننے کے لئے تیار نہیں ہوتے جو ان کو ان کی بُری عادتوں سے روکے ۔ 
ایت کے آخر میں الله تعالی نے اس بات کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے ۔ یعنی یہ کہ گمراہی تو انہی پر آتی ہے جو خود گمراہ رہنا چاہتے ہیں ۔ الله جل شانہ کسی پر گمراہی چسپاں نہیں کرتا ۔ بلکہ بار بار کی جانی بوجھی نا فرمانیوں سے دل بجھ کر رہ جاتا ہے ۔ اور طبیعت میں حق کی طلب اور سچائی باقی نہیں رہتی ۔ باطل اور جھوٹ جم جاتا ہے ۔ گویا گمراہی ان کے فِسق  ( نافرمانی اور مسلسل گناہ ) کا نتیجہ ہوتی ہے ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں