🌺۔۔۔۔کلام الله کا چیلنج ۔۔۔🌺

قرآن مجید اپنی صداقت کی خود دلیل ہے ۔ کلام الله کا دعوٰی ہے ۔ اگر انکار کرنے والے منکر اسے الله جل شانہ کا کلام نہیں سمجھتے تو اس جیسا کلام بنا کر پیش کریں ۔ اگر قرآن مجید کسی انسان کا بنایا ہوا ہے ۔ یا نعوذ بالله رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے ۔ تو یقیناً۔ وہ بھی ایسا کلام بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے ۔ 
 الله تعالی نے ایک جگہ فرمایا ۔ تم قرآن مجید جیسی دس  سورتیں بنا لاؤ ۔ دوسری جگہ فرمایا تین ہی لکھ لاؤ ۔ یہاں فرمایا اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک آیۃ ہی بنا کر پیش کر دو ۔ بے شک اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کرکے کوشش کر دیکھو ۔  شرط صرف ایک ہے کہ تمھارے کلام میں وہ تمام لفظی اور معنوی خوبیاں ہوں ۔ جو الله تعالی کے کلام میں موجود ہیں اور تمھارا کلام انسانی زندگی پر ایسا ہی اثر کرنے والا ہو ۔ جیسے قرآن مجید کی سورتیں ہیں ۔ 
 اسلام سے پہلے عرب قوم دُنیا کی دوسری قوموں سے اکثر باتوں میں پیچھے تھی ۔ اخلاقی اعتبار سے وہ انسانیت کا جوھر کھو چکی تھی ۔ معاشرتی اور معاشی زندگی میں عرب بہت زیادہ پیچھے تھے ۔ سیاسی شعور انیہں بالکل حاصل نہ تھا ۔ مذھب اور دین کے تصور سے وہ فارغ تھے ۔ وہ بہادر ضرور تھے لیکن جہالت اور تعصب نے انہیں اُجڈ اور ظالم بنا دیا تھا ۔ 
الله تعالی نے اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کو یہ کلام دیا اور اس کے ذریعے یہی قوم دنیا کی پیشواء بن گئی ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم خود کسی استاد سے نہ پڑھے تھے ۔ وہ لکھنے پڑھنے سے قطعاً نا آشنا تھے ۔ انہیں دنیا کے کسی بیرونی خطّے کے حالات بھی معلوم نہ تھے ۔ اُن کے ملک کے باشندے بھی اَن پڑھ تھے ۔ اور اُن لوگوں کو اپنے اُمّی ہونے پر ناز تھا ۔ 
کلام الله کو لے کر امّی نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی اَن پڑھ اور جاھل قوم کو ترقی اور کمال کی جن بُلندیوں پر پہنچایا ۔ تاریخِ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ یہی عرب اس کلام کے ذریعے اخلاق ، روحانیت ، معاشرت ، معیشت ، سیاست ، حکومت ، مذھب غرض زندگی کے ہر شعبے میں دُنیا کی قوموں کے امام بن گئے ۔ 
قرآن مجید نے ساری دُنیا کو اپنی مثال لانے کا چیلنج دیا تھا اور کوئی نہ لاسکا  نہ لاسکے گا ۔ آج بھی ہر مسلمان دنیا کے ماہر ین ِ علم وسیاست کو چیلنج کرکے کہہ سکتا ہے کہ پوری دُنیا کی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا دکھا دو کہ ایک بڑے سے بڑا ماہر ِ معاشیات و سیاسیات فلسفی کھڑا ہو اور ساری دنیا کے عقائد و نظریات اور رسم و عادات کے خلاف ایک نیا نظام پیش کرے اور پھر اسے نافذ کر کے بھی دکھائے اور اس کو قوم کی شدید مخالفت کے ساتھ  کامیاب بھی کرے ۔ ایساکرنا اور ہونا ناممکن ہے ۔ دُنیا کی پہلی تاریخ میں اگر اس کی کوئی مثال نہیں ملتی تو آج تو بڑی روشنی ، روشن خیالی اور ترقی اور تیزرفتاری کا زمانہ ہے ۔ آج کوئی کر کے دکھا دے ۔ اکیلا نہ کر سکے تو اپنی قوم بلکہ پوری دنیا کی اقوام کو ساتھ ملا کر اس کی مثال پیدا کر لے ۔ یہ قطعاً نا ممکن ہے کیونکہ یہ الله ربُّ العلمین کا وعدہ ہے ۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

. کلام الله کی سچائی کا دعوٰی.

   وَإِن   ۔ كُنتُمْ    ۔ فِي     ۔ رَيْبٍ        ۔ مِّمَّا           ۔ نَزَّلْنَا    ۔ عَلَى      ۔ عَبْدِنَا 
اور اگر ۔ تم ہو ۔     میں     ۔ شک ۔ اس میں جو ۔ اتارا  ہم نے ۔    پر۔ ۔ ہمارا بندہ ۔ 
فَأْتُوا۔        بِسُورَةٍ       ۔ مِّن         ۔ مِّثْلِهِ۔    ۔  وَادْعُوا۔         شُهَدَاءَكُم 
پس تم لے آؤ ۔ ایک سورۃ ۔ سے ۔ اس جیسی  ۔ اور تم بلاؤ ۔ اپنے مددگار 
مِّن      ۔ دُونِ      ۔ اللَّهِ         ۔ إِن    ۔ كُنتُمْ     ۔ صَادِقِينَ   2️⃣3️⃣
سے ۔    علاوہ   ۔ الله تعالی   ۔ اگر    ۔ تم ہو ۔      سچے            ۔ 
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔ 2⃣3️⃣
 اور اگر تم کو شک ہے اس کلام پر جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو تم اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ اور الله تعالی کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بھی بُلا لو اگر تم سچے ہو ۔ 

نَزَّلْنَا ۔ ( ہم نے اُتارا ) تنزیل سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں کسی چیز کا اوپر سے اُتارنا ۔ اس جگہ قُرآن مجید مراد ہے ۔ جو جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے الله تعالی کی طرف سے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم پر رفتہ رفتہ اُتارا گیا ۔ 
مِثْلِه ۔ ( اس جیسا ) اس میں قرآن مجید کی لفظی اور معنوی دونوں خوبیوں کی طرف اشارہ ہے ۔
 عبارت ایسی ہے کہ جسے ہر ایک سمجھ لے اور مطلب پورا پورا اور صاف صاف خوبصورتی سے بیان ہوا ہے ۔ قرآن مجید کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مرد اور عورت کو زندگی بسر کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے۔ جس پر چل کر وہ اس دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہو ۔ اگر قرآن مجید کے منکر کو شک ہے کہ یہ الله تعالی کا کلام نہیں ۔ انسانی زبان ہے تو کوئی ایک سورۃ ہی ایسی بنا لائے  جس میں یہ دونوں خوبیاں ہوں ۔ ۔ نہیں تو اسے ماننا پڑے گا کہ قرآن مجید الله تعالی کا کلام ہے ۔ اور کوئی آدمی بلکہ سارے آدمی مل کر ایسی کتاب نہیں بنا سکتے ۔ 
شُھَدَاءَکُمْ۔ ( اپنے مددگار ) ۔ یہ لفظ شھید کی جمع ہے ۔ اس کے معنی ہیں باخبر ۔ یہاں اس سے مراد ہے قرآن مجید جیسی سورۃ بنانے میں مدد کرنے والا ۔ اس کے دوسرے مشہور معنی  گواہ  ہیں ۔ اگر یہاں گواہ مراد لیا جائے ۔ تو معنی یہ ہوں گے کہ کہ اُن لوگوں کو بلا لو جو تمہارے اس دعویٰ کی کہ تم نے کسی قرآنی سورۃ کا جواب لکھ لیا ہے ۔ تصدیق کر دیں  
 پچھلی ایتوں میں الله تعالی نے یہ بات بتائی تھی کہ تمام انسانوں کو پیدا کرنے والا اور قائم رکھنے والا وہی ہے اس لئے عبادت کے لائق وہی ہے ۔ اس کو ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کو  دلیل سے ثابت کر دیا جائے تاکہ لوگوں پر یہ ظاہر ہو جائے کہ قرآن مجید جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو عطا ہوا ۔ وہ  الله جل شانہ کی طرف سے ہے ۔ اسی وجہ سے توحید کے اعلان کے بعد رسالت کے اقرار کی دعوت دی گئی  ۔ اور لوگوں سے کہا گیا کہ اگر وہ نبی صلی الله علیہ وسم کی سچائی میں شک کرتے ہیں اور اگر انہیں یہ گمان ہے کہ یہ قرآن نعوذ بالله۔ الله تعالی کی طرف سے نہیں ہے تو اس جیسا کلام پیش کر کے دکھائیں ۔ اسلام کی ساری مخالف قوتیں اور ان کے علماء آج تک ایسا نہیں کر سکے ۔ نہ آئندہ کر سکیں گے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

شرک کی ممانعت ۔۔۔

الَّذِي     ۔جَعَلَ             ۔لَكُمُ     ۔ الْأَرْضَ    ۔ فِرَاشًا      ۔وَالسَّمَاءَ              بِنَاءً
 وہ ۔ اس نے بنایا ۔ تمہارے لئے ۔  زمین ۔      فرش ۔     اور آسمان       ۔ چھت 
 وَأَنزَلَ     ۔ مِنَ           ۔ السَّمَاءِ        ۔ مَاءً           ۔ فَأَخْرَجَ۔           ۔ بِهِ     مِنَ        الثَّمَرَاتِ    
اور اس نے اتارا  ۔ سے       ۔ آسمان    ۔ پانی  ۔ پھر نکالا اس نے ۔  اس سے ۔ سے ۔         پھل  
رِزْقًا                    ۔ لَّكُمْ۔        ۔   
روزی                  ۔ تمہارے لئے ۔ 
فَلَا     ۔    تَجْعَلُوا              ۔  لِلَّهِ         أَندَادًا۔     وَأَنتُمْ         تَعْلَمُونَ۔       2⃣2⃣    
پس نہ ۔ تم بناؤ   ۔ الله تعالی کے لئے ۔ مقابل  ۔ اور تم     ۔ تم جانتے ہو ۔          ۔
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ 
فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔  2️⃣2️⃣
جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنا دیا اور آسمان سے پانی اتارا ۔ پھر اس سےتمہارے رزق کے لئے مختلف پھل نکالے ۔ پس نہ مقرر کرو الله کے لئے شریک اور تم جانتے ہو ۔ 

فِرَاشاً ۔۔۔ ( فرش ) وہ چیز جو بچھا دی گئی ہو ۔ یا ایسی ٹھوس اور ہموار چیز جس پر ہم قدم رکھ سکتے ہوں  اور چل پھر سکتے ہوں ۔ ہموار ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مستطیل یا مربع ہو بلکہ ایک بڑی گول شکل بھی فرش کا کام دے دیتی ہے ۔
اَنْدَاداً ۔۔ ( مقابل ) یہ لفظ  نِدّ کی جمع ہے ۔ جو عربی میں مثل اور مشابہ کے معنوں میں بھی آتا ہے ،  مخالف اور مدِّ مقابل کے معنوں میں بھی چنانچہ انداداً کے معنی مخالف اور موافق دونوں ہو سکتے ہیں 
پہلی آیت میں رب کی یہ پہچان بتائی گئی کہ اس کو اپنا اور اپنے سے پہلوں کا پیدا کرنے والا مانا جائے ۔ اس آیت میں کچھ اور نشانیاں بیان کی گئی ہیں ۔ چونکہ الله جل شانہ کی پیدا کرنے والی صفت زمین کے اندر یا ماں کے پیٹ کے اندر کام کرتی ہے ۔ اور آدمی کو نظر نہیں آتی اس لئے دوسری صفات جو بہت واضح ہیں بیان کی جاتی ہیں تاکہ اُن پر ہر چھوٹا بڑا آدمی غور کر سکے۔ انسان کی زندگی کو باقی اور قائم رکھنا اس کے اسباب مہیا کرنا اور انسان کی زندگی کو آہستہ آہستہ اس کی ترقی کے آخری درجے تک پہنچا دینا صرف اس کے رب کا کام ہے ۔  اس سے پہلی آیت میں اُن نعمتوں کا ذکر ہے جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں  یعنی  " انفسی " اور اس آیت میں ان نعمتوں کا بیان ہے جو انسان کے گردو پیش کی چیزوں سے متعلق ہیں یعنی " آفاقی " ۔ 
سب سے پہلی نعمت زمین ہے جس پر ہم رہتے اور چلتے پھرتے ہیں ۔ یہ الله تعالی بچھایا ہوا فرش ہے جو نہ تو اتنا نرم ہے کہ اس پر قرار نہ پکڑا جا سکے اور نہ اتنا سخت کہ ہم اپنی ضرورت کے مطابق اسے استعمال نہ کر سکیں ۔ 
 دوسری نعمت ہے آسمان جس کو الله تعالی نے خیمے کی طرح چھت بنا کر انسان کے سر پر کھڑا کر دیا ۔ اور اسے سجا سنوار دیا ۔ جس سے روشنی کا انتظام بھی خوب ہو رہا ہے ۔ 
تیسری نعمت یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسایا ۔ اور انسان کے روز مرہ کے کھانے کا بندوبست کیا ۔ بارش جس سے رنگا رنگ کے پھل وہی پیدا کرتا ہے جس کو انسان کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے ۔ اور اپنے مصرف میں لاتا ہے جس طرح زمین اور آسمان کی پیدائش اور بادل و بارش کے منظم طریقہ کار میں انسان کی کوشش اور محنت کا کوئی دخل نہیں ، اس طرح کھیتی اور درختوں کے پیدا ہونے اور ان سے پھل پھول نکلنے اور ان سے انسان کی غذا تیار ہونے میں بھی انسان کا کوئی حصہ نہیں ۔ دراصل یہ تمام کاروبار حق تعالی کی کامل قدرت کا نتیجہ ہے 
پس ثابت ہوا کہ انسان موجود ہونے میں بھی اور اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے بھی رب ہی کا محتاج ہے ۔ اس لئے چاہئیے کہ وہ اپنا معبود بھی اسی کو سمجھے اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس رب کا نام جس میں یہ تمام صفات موجود ہیں " الله " ہے ۔انسان کو چاہئیے کہ وہ الله تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائے ۔۔ الله تعالی نے خوب سمجھا کر اپنی نعمتوں اور بخششوں کو بیان کر کے اپنی عبادت کا حکم دیا ہے اور اپنی پہچان کا راستہ بھی بتا دیا ۔ تاکہ عبادت اس کو پہچان کر کی جائے ۔ بغیر پہچانے عبادت کرتے رہنے سے تقوٰی حاصل نہیں ہوتا ۔ 
 چنانچہ جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ انسان کو پیدا کرنا اور پھر اس کو باقی رکھنے اور ترقی دینے کے لئے تمام تر اسباب زمین ، آسمان ، بارش اور پھل و پھول مہیا کرنا صرف الله جل شانہ کا کام ہے تو اس بات پر یقین کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں کے عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے ۔ اور اس میں اس کے ساتھ کوئی شامل اور شریک نہیں ۔ الله تعالی نے انسان کو اپنی تمام مخلوق کا سردار  اس لئے بنایا کہ ساری کائنات اس کی خدمت کرے اور یہ صرف ربّ کائنات کی خدمت اور عبادت میں مشغول رہے اور کسی کی طرف نظر نہ کرے ۔ لیکن انسان کی بے وقوفی اور حماقت دیکھیئے کہ ایک الله کو چھوڑ کر ہزاروں معبود بنا لئے ۔ اسے غیروں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے اس آیت کے آخر میں الله تعالی نے فرمایا کہ  " تم اس الله کا شریک کسی کو نہ ٹھراؤ اور تم خوب جانتے ہو " ۔ 
*عقیدہ توحید*
 ان دونوں آیتوں میں اس چیز کی دعوت دی گئی ہے جو تمام آسمانی کتابوں کے اور تمام انبیاء علیھم السلام کے بھیجے جانے کا اصل مقصد ہے ۔ یعنی صرف ایک الله کی عبادت و بندگی کرنا جس کا نام توحید ہے ۔ 
اور یہ وہ انقلابی نظریہ ہے جو انسان کے تمام اعمال ، اسکے حالات ، اسکے اخلاق اور اس کے رہنے سہنے کے انداز پر اثر رکھتا ہے ۔ کیونکہ جو شخص یہ یقین کر لے کہ تمام عالم کا خالق و مالک اور ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا صرف اور صرف الله تعالی ہے اس کے حکم اور ارادے کے بغیر کوئی ذرّہ بھی حرکت نہیں کر سکتا اور نہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ تو اس کی پوری توجہ ہر مصیبت و آرام میں اور ہر تنگی اور فراخی میں صرف الله تعالی کی ذات کی طرف ہو جائے گی ۔ 
 عقیدہ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے یہ صرف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے ۔ جو انسان کی تمام مشکلات کاحل ، اور ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ اور ہر غم اور فکر میں اس کا غم خوار ہے ۔ جب یہ یقین کسی کے دل و دماغ پر  چھا جائے تو دنیا اس کے لئے جنت بن جائے گی ۔ سب جھگڑے ، فساد اور فساد کی جڑیں ختم ہو جائیں گی ۔ اس عقیدے کا مالک دنیا سے بے نیاز ، ہر خوف اور خطرے سے آزاد ہو کر زندگی گزارتا ہے 
کلمہ  *لَا اِلٰہَ اِلاَّ الله* جو کلمہ توحید ہے اس کا یہی مفہوم ہے ۔ اس کلمہ کے پڑھنے والے آج دنیا میں کڑوڑوں کی تعداد میں ہیں او ر اتنے اور کسی زمانے میں نہیں ہوئے ۔ لیکن عام طور پر یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے ۔ توحید کا رنگ ان میں رچا نہیں اور نہ ان کا بھی وہی حال ہوتا ہے جو پہلے بزرگوں کا تھا کہ بڑی سے بڑی قوت اور طاقت انہیں ڈرا نہیں سکتی تھی ۔ نہ کس قوم کی اکثریت اُن کو دھمکا سکتی تھی ۔ نہ کوئی بڑی سے بڑی دولت و سلطنت ان کے دلوں کو حق کے خلاف اپنی طرف جھکا سکتی تھی ۔ 
ایک پیغمبر علیہ السلام  کھڑا ہو کر ساری دنیا کو للکار کر کہہ دیتا تھا ۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ انبیاء علیھم السلام کے بعد صحابہ و تابعین جو تھوڑی سی مدت میں دنیا پر چھا گئے ان کی طاقت اور قوت اسی حقیقی توحید میں پوشیدہ تھی ۔ الله تعالی ہمیں اور سب مسلمانوں کو یہ دولت نصیب فر مائے ۔ 
مأخذ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

کون کون سے رشتے حرام ہیں ۔۔۔۔


شریعت مطہرہ نے نکاح کے بارے میں بہت سے احکام بتائے ہیں ۔ ان احکامات میں یہ تفصیل بھی ہے کہ کون سی عورت کس مرد کے لئے حلال ہے اور کون سا مرد کس  عورت کے لئے حلال ہے ۔ ہر مسلمان کے لئے ان تفصیلات کا جاننا ضروری ہے ۔ قرآن مجید میں سورۃ نساء کے چوتھے رکوع میں یہ احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ اور پیارے نبی  حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے بھی ان احکامات کی تشریح فرمائی ہے ۔ اور تفصیلات بتائی ہیں ۔ 
 اسلام نے انسان کو حلال اور حرام کا پابند بنایا ہے ۔ جیسے کھانے پینے میں ہر چیز کھانے پینے کی اجازت نہیں دی جاتی ایسے ہی شادی کرنے میں آزادی نہیں بلکہ اس کے بارے میں قوانین کا پابند بنایا ہے ۔ بعض لوگوں کو یہ قوانین ناگوار معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ روک ٹوک شرافت کی دلیل ہے ۔ جانور عقل سے عاری ہیں جہاں چاہتے ہیں منہ مارتے ہیں جیسے چاہیں خواہش پوری کر لیتے ہیں ۔ اگر انسان کو بھی کُھلی چُھٹی مل جائے تو وہ انسان کہاں رہے گا ۔ وہ تو جانور بلکہ جانور سے بھی بدتر ہو جائے گا 
الله جل شانہ کا ارشاد ہے ۔۔۔ 

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
سورۃ نساء آیۃ۔ -23 
تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئ ہیں اور جن عورتوں سے تم خلوت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے خلوت نہ کی ہو تو ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی۔ اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی حرام ہے مگر جو ہو چکا سو ہو چکا بے شک اللہ بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔
تفسیر مکی: 
جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسبی، اور سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ 
سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، (مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکیاں)، بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے ان کے علاوہ باب کی منکوحہ (جس کا ذکر اس سے پہلی آیات میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے 
محرمات نسبی کی تفصیل امھات (مائیں) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک) شامل ہیں بنات (بیٹیاں) میں پوتیاں نواسیاں اور پوتیوں، نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں
اخوات (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی و علاتی، عمات (پھوپھیاں) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ 
خالات (خالائیں) اس میں ماں کی سب مؤنث اصول (یعنی نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔
 بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فرعی) شامل ہیں۔ بھانجیاں اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ و بلاواسطہ یاصلبی و فرعی) شامل ہیں۔ 

قسم دوم، محرمات رضاعیہ:رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (یعنی ڈھائی سال) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جسے تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا یا تم سے پہلے یا بعد میں تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یا جس عورت کی حقیقی ماں نے تمہیں دودھ پلایا،چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جائیں گے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ 
اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی و رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا، تایا بن جائیں گے اور اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہونگے۔
قسم سوم سسرالی محرمات:بیوی کی ماں یعنی ساس (اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے)، اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو تب بھی اس کی ماں (ساس) سے نکاح حرام ہوگا۔ التبہ کسی عورت سے نکاح کر کے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ (فتح القدیر) 
ربیبۃ:بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اسکی حرمت مشروط ہے۔ یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کر لی گئی ہوگی تو ربیبہ سے نکاح حرام بصورت دیگر حلال ہوگا۔ فی حجورکم (وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے بطور شرط کے نہیں ہے اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہوگی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہوگا۔ حلائل یہ حلیلۃ کی جمع ہے یہ حل یحل (اترنا) ہے فعیلۃ کے وزن پر بمعنی فاعلۃ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا محل (جائے قیام) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے، بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی انکی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہوگا، اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے، 
من اصلابکم (تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں) کی قید سے یہ واضح ہوگیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے، دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ 
اسی طرح چاربیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہو جائے۔
ماخذ ۔۔۔۔ تحفۃ المسلمین 
مفتی محمد عاشق الٰہی بُلند شہری رحمہ الله علیہ 

🌺🍀🌺حدیث ِ جبرائیل علیہ السلا 🌺🍀🌺

💐 حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد ایک دن آنحضرت صحابہؓ  کرام کے درمیان مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے ،  حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ اچانک ایک اجنبی حاضر ہوا ،  اس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بے حد سیاہ تھے ،  لباس سے خوشبو کی مہک آرہی تھی ،  اجنبی ہونے کے باوجود اس پر سفر کے کچھ آثار نہ تھے ،  ہم میں سے کوئی اس نووارد کو جانتا نہیں تھا،  وہ آپ کے قریب نہایت ادب سے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور گھٹنے حضورکے گھٹنوں سے ملا دئیے ،اس شخص نے دریافت کیا …  ائے محمد !  اسلام کیا ہے ؟ 

حضور نے فرمایا : 

  اسلام یہ ہے کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کر و ،  زکوٰۃ ادا کرو،  رمضان کے روزے رکھو اور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت ہے تو حج کرو،   نووارد نے جواب سن کر کہا ،   آپ نے سچ کہا ،اس نے پھر پوچھا …   مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ 

فرمایا : 

ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو ‘ اس کے فرشتوں کو ‘ اس کی کتاب کو ‘ اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو ،  یہ سن کر بھی اس نے کہا کہ آپ نے سچ کہا،   

حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور خود ہی اس کی تصدیق کرتا ہے،   پھر اس نے پوچھا …  احسان کس چیز کا نام ہے ؟ 

فرمایا : احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسی دل لگاکر کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ خیال رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ،اس نے سوال کیا …  قیامت کب آئے گی  ؟فرمایا :  جس سے یہ بات پوچھی جا رہی ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ، عرض کیا:   تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے ، فرمایا :   میں تمہیں اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں ،

(۱)  جب لونڈی اپنے آقا اور مالک کو جنے گی

(۲)  تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے،  

صحیح بخاری کے بموجب قیامت غیب کی ان پانچ باتوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،  پھر آنحضرت  نے سورۂ لقمان کی آیت نمبر ۳۴ تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے : 

 اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی (حاملہ کے ) پیٹ کی چیز وں جانتا ہے (نر ہے یا مادہ ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس سر زمین میں اُسے موت آئے گی،  بے شک اللہ ہی جاننے والا ہے،  خبر دار ہے 

 (سورۂ لقمان :  ۳۴ )

پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا ،  رسول اللہ  نے فرمایا!   اس کو پھر لے آؤ ،  لوگوں نے جاکر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا ،  

حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کو کچھ عرصہ بیت گیا،  ایک دن حضورنے فرمایا:  ائے عمر…  کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ شخص جو سوالات کر رہا تھا کون تھا ؟ 

حضرت عمرؓ نے عرض کیا : اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ،  فرمایا:وہ جبرئیل ؑ تھے تمہاری مجلس میں اس لئے آئے تھے کہ تمہیں تمہارا دین سکھائیں ،یہ بہت مشہور حدیث ہے جو عام طور پر حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور  ہے ،  اسے اُم الاحادیث  بھی کہا جاتا ہے ،  اسے حیات طیبہ کی ۲۳ سالہ جد وجہد کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے ،  یہ واقعہ تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد اس وقت ہوا جبکہ اس دنیا میں آپ کی عمر مبارک میں صرف تین دن باقی رہ گئے تھے،  

حضور نے فرمایا کہ میں جبرئیل کو ہر شکل میں پہچان لیتا ہوں لیکن اس دفعہ نہ پہچان سکا کیونکہ وہ ایک بدو سائل کے بھیس میں آئے تھے،  امین وحی نہیں بلکہ ملائکہ کے نمائندہ بن کر آئے تھے،  میں نے انھیں افق اور سدرۃالمنتہیٰ پر ہیت اصلی میں بھی دیکھا،  یہ موقع عینی مخلوق کی نمائندگی کا تھا لہٰذا پردہ بعد میں اٹھا ،  دین مکمل ہوگیا ،  اب قیامت تک اس میں نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ بیشی ،  زمین وآسمان کی مخلوق نے گواہی دی.

عبادت کا مطالبہ ۔۔۔

يَا أَيُّهَا۔      النَّاسُ   ۔     اعْبُدُوا             رَبَّكُمُ       الَّذِي      ۔     خَلَقَ                ۔  كُمْ 
اے ۔           لوگو ۔      عبادت کرو ۔ اپنے رب کی    ۔ وہ    ۔ پیدا کیا  اس نے      ۔ تم کو 
وَالَّذِينَ        مِن          قَبْلِكُمْ۔      لَعَلَّكُمْ           تَتَّقُونَ.   2⃣1️⃣لا
اور ان لوگوں کو      ۔ سے ۔ تم سے پہلے  ۔ تاکہ تم     ۔ پرہیزگار بن جاؤ ۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔  2️⃣1️⃣لا

اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا  اور اُن کو جو تم سے پہلے تھے ۔ تاکہ تم پرھیز گار بن جاؤ ۔ 

لَعَلَّکُم ۔۔ ( تاکہ تم )  عربی زبان میں لَعَلَّ اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں کسی کام کا نتیجہ پیدا ہونا یقینی ہو ۔ 
تَتَّقُوْنَ ۔۔۔ ( تاکہ تم متقی بن جاؤ ) متقی اور تقوٰی اور تتَّقُون ایک ہی لفظ سے بنے ہیں ۔ اس کی تشریح پچھلے سبقوں میں گزر چکی ہے ۔ مختصر یہ کہ تم میں الله تعالی سے ڈرنے اور احتیاط سے زندگی بسر کرنے کی عادت پُختہ ہو جائے ۔ اس کو پرہیزگاری کہتے ہیں ۔ 
اَلنَّاسُ ۔۔ ( لوگو ) قرآن پاک میں اس آیۃ مبارکہ میں   پہلی بار الله تعالی نے ایک مطالبہ کیا ہے ۔ اور انسانوں کو *یٰاَیُّھَا النَّاسُ* کہہ کر مخاطب کیا ہے ۔ گویا الله تعالی نے عبادت گزار بننے کا مطالبہ ہر انسان سے کیا ہے  ۔ 

اُعْبُدُوا ۔۔۔ ( عبادت کرو ) یہ لفظ عبادت سے بنا ہے ۔ جس کی اصل عبد ہے ۔ عبادت کے معنی ہیں اپنی پوری طاقت۔ مکمل فرمانبرداری میں لگا دینا اور الله تعالی کے خوف اور اسکی عظمت کی وجہ سے نافرمانی سے دُور رہنا  ( روح البیان ) ، جسے اطاعت اور فرمانبرداری بھی کہتے ہیں ۔ نماز ، روزہ ، زکٰوۃ ، حج  اہم عبادتیں ہیں ۔ لیکن عبادت انہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ پوری زندگی سے تعلق رکھتی ہے ۔ 
سورۃ بقرہ کی دوسری آیۃ میں اُس دعا اور درخواست کا جواب تھا جو سورۃ فاتحہ میں آئی ہے ۔ یعنی  *اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم* یعنی جس صراطِ مستقیم کی تمہیں تلاش ہے وہ اس کتاب میں ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید شروع سے لے کر آخر تک  صراط ِ مستقیم ہی کی تشریح ہے ۔ ۔ اس کے بعد قرآن مجید کی ہدایات قبول کرنے اور ہدایت قبول نہ کرنے کے لحاظ سے انسان کے تین گروہوں کا بیان ہے  ۔ پہلی تین آیات میں مؤمنین ، متقین کا ذکر ہے جنہوں نے الله جل شانہ کے احکام پر سر جھکایا اور عمل کرنا اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا ۔ اس سے اگلی دو آیتوں میں اس گروہ کا ذکر ہے جس نے کھلم کھلا ہدایت کا انکار کیا اور کافر کہلائے ۔ اس کے بعد تیرہ آیتوں میں اس خطرناک گروہ کے حالات بیان کئے جو حقیقت میں تو الله تعالی کے احکام کی مخالفت کرتے تھے لیکن دنیا کا فائدہ حاصل کرنے کےلئے یا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنے کفر اور مخالفت کو چھپا کر مسلمانوں میں شامل ہو جاتے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں ۔ 
اس بات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی اصل تقسیم خاندان ، وطن یا زبان اور رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ صحیح تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہے ۔
 یہاں تمام لوگوں کو پکار کر یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام کے تمام عقیدوں اور حُکموں کی اصل  بنیاد اپنے ربّ کو پہچاننا ہے ۔ انسان کو پیدا کرنے کا سب سے پہلا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو ڈھونڈے ۔ اس کی کُھلی نشانیوں سے اسے پہچانے اور اسی کی عبادت کرے ۔ دُنیا اور آخرت کی کامیابی اسی سے مانگے ۔  اسی نے انسان کو پیدا کیا اور وہی ہے جو عبادت کا مستحق ہے کیونکہ عبادت اسی کی کی جاتی ہے جو انسان کی پرورش کا ذمہ دار ہے ۔ جو اس کو ایک قطرہ سے اہستہ آہستہ ایک عمدہ ، عقل اور سمجھ رکھنے والا دیکھنے اور سننے والا ماہر انسان بنا دیتا ہے ۔ جو اس کی بقاء اور ترقی کے تمام وسائل مہیا کرتا ہے ۔ اور انسان خواہ کتنا ہی جاہل کیوں نہ ہو ذرا سا غور کرنے سے اسے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ الله تعالی کے علاوہ شانِ ربوبیت کسی میں نہیں ۔ تمام مخلوق پیدا ہونے اور قائم رہنے کے لئے اُس کی محتاج ہے ۔ وہ ہی ہر وقت اور ہر زمانے میں مخلوق کی پرورش کرتا ہے ۔ اس کو اس کی قابلیت کے مطابق ترقی کے راستے بتاتا ہے ۔ اس رب کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ اس نے تم کو اور ان سب کو جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں پیدا کیا ۔ اسی معرفت سے تقوٰی حاصل کرنے کی راہ کُھلتی ہے ۔ الله تعالی کی عبادت کرنے سے الله تعالی کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں بلکہ اس میں مکمل طور پر انسان کا فائدہ ہے ۔ عبادت کرنے سے انسان کے خیالات کی پریشانی دور ہوتی ہے ۔ اور اصل باتوں پر توجہ دینے کا موقع ملتا ہے ۔ 

اس جگہ انسانوں کے تینوں گروہوں سے خطاب ہے ۔ اور ہر گروہ سے خطاب کے لئے اس جملے کا مطلب الگ ہے ۔ 
جب کہا گیا کہ اپنے رب کی عبادت کرو تو کفّار کے گروہ کے لئے اس خطاب کے معنی یہ ہوئے کہ مخلوق کی عبادت چھوڑ کر الله جل شانہ کی عبادت کرو ۔ اور منافقین کے گروہ کے لئے اس کے معنی یہ ہوئے کہ منافقت چھوڑ کر اخلاص پیدا کرو ۔ اور گناہگار مسلمانوں کے لئے اس کے معنی یہ ہوئے کہ گناہ سے باز آجاؤ اور مکمل فرمانبرداری اختیار کرو ۔ اور متقی مسلمانوں کے لئے اس خطاب کے معنی یہ ہوئے کہ اپنی اطاعت و عبادت پر ہمیشہ قائم رہو اور اس میں ترقی کی کوشش کرو ۔۔ 
 ( روح البیان ) 
اس آیۃ میں "خَلَقَکُم "  ( اس نے تمہیں پیدا کیا ) کے ساتھ الَّذِینَ مِن قَبْلِکُم  ( اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ) کا اضافہ کر کے یہ بات واضح کر دی کہ تم اور تمہارے آباء و اجداد یعنی تمام نوع انسانی کا خالق صرف الله تعالی ہی ہے ۔ صرف تم سے پہلے لوگوں کا ذکر فرمایا ۔ بعد میں پیدا ہونے والے لوگوں کا ذکر نہیں کیا ۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امت محمدیہ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسری امت یا ملت نہیں ہو گی ۔ کیونکہ " خاتم النبیین " کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور نہ ہی کوئی نئی امت ہو گی ۔ 
آخر میں فرما دیا کہ دنیا میں گُمراہی اور آخرت میں عذاب سے نجات پانے کی امید صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ توحید کو اختیار کرو اور  شرک سے باز آ جاؤ ۔۔
مأخذ ۔۔۔ معارف القرآن 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*علامہ اقبال رحمہ الله تعالی*

مَرد کی عورت پر برتری کو اسی طرح تسلیم کرتے ہیں جس طرح اسلام میں مرد کو عورت پر برتری دی گئی ہے ۔ کیونکہ عورت کے فرائض مَرد سے مختلف ہیں مرد کی برتری درحقیقت عورت کی طاقت ہے کہ اسے بہت سی تکلیفوں سے بچالیتی ہے ۔ اور اس کی حفاظت کرتی ہے ۔ اور یہی فطرت کا قانون ہے ۔ فطرت کے خلاف جانے سے معاشرے انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں 
فرماتے ہیں درحقیت عورت کی حفاظت نہ تو پردہ کر سکتا ہے ۔ اور نہ شعور خواہ وہ کیسی بھی جدید تعلیم حاصل کر لے، یا پرانی اقدار اختیار کرے ۔عورت کی حفاظت فقط ایک غیرت مند مرد ہی کر سکتا ہے ۔ اور جو قوم اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے گی ۔ وہ خواہ کتنے عروج پر ہو بہت جلد زوال کا شکار ہو جائے گی 

مُنافقوں کا تذ بذ ب اور منافقوں کو وعید ۔۔۔

يَكَادُ  ۔ الْبَرْقُ  ۔   يَخْطَفُ  ۔     أَبْصَارَهُمْ  ۔      كُلَّمَا ۔        أَضَاءَ            ۔ لَهُم
قریب ہے ۔ بجلی ۔    اُچک لے ۔ اُن کی بینائی ۔ جب بھی ۔ چمکتی ہے ۔ اُن کے لئے 
    مَّشَوْا        ۔ فِيهِ      ۔ وَإِذَا ۔      أَظْلَمَ ۔    عَلَيْهِمْ                    ۔ قَامُوا
وہ چلتے ہیں ۔ اس میں ۔ اور جب ۔ اندھیرا ہو ۔ اُن پر ۔ وہ کھڑے ہو جاتے ہیں 
 وَلَوْ       ۔ شَاءَ ۔         اللَّهُ         ۔ لَذَهَبَ                  ۔ بِسَمْعِهِمْ               ۔  وَأَبْصَارِهِمْ 
اور اگر ۔ وہ چاہے ۔ الله تعالی ۔ البتہ لے جائے ۔ اُن کی سماعت  ( کان ) ۔ اور اُن کی آنکھیں 
إِنَّ  ۔ اللَّهَ ۔  عَلَى  ۔ كُلِّ  ۔ شَيْءٍ ۔  قَدِيرٌ۔ 2️⃣0️⃣ع
بے شک ۔ الله تعالی ۔ پر ۔ ہر ۔ چیز ۔ قدرت رکھتا ہے 
يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ 2️⃣0️⃣ع 

قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائی کو اُچک لے وہ جب اُن پر چمکتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چلتے ہیں  اور جب ان پر اندھیرا ہو وہ کھڑے رہ جاتے ہیں ۔ اور اگر الله تعالی چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں لے جائے  بے شک الله جل شانہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ 

 یَخْطَفُ ۔ اُچک لے جائے ۔ ۔۔ اس سے مراد ہے آنکھوں کا چندھیا جانا ۔ یعنی اسلام کا غلبہ ، طاقت اور شوکت منافقوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے اور ان کے دلوں میں رُعب ڈالنے کے لئے کافی ہے ۔ 
اس آیت میں دوسری قسم کے منافقوں کا حال مزید تشریح اور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ پہلی آیت میں بارش کی مثال دے کر ان کے بارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ فائدوں کی طرف لپکتے ہیں ۔ لیکن فائدے حاصل کرنے کے لئے کچھ مشقت یا نقصان اٹھانا پڑے تو پیچھا دکھا جاتے ہیں ۔ 
بارش نوع ِ انسان کے لئے بہت سے فائدوں کا سبب بنتی ہے ۔ لیکن جب اس میں بادل کی کڑک اور بجلی کی چمک دیکھتے ہیں تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں ۔ اور اس سے بچنا چاہتے ہیں ۔ اور بارش کے فائدوں کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ اور یہ نہیں سمجھتے کہ فلاح اور بہتری کے لئے اگر کچھ قربانی دینی پڑے یا آزمائش میں مبتلا ہونا پڑے تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ 
منافقین اسلام کی کامیابیاں اور فتحمندیاں دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بڑھنے لگتے ہیں دراصل ان کے دل میں حق کی تلاش نہیں ہوتی ۔ صرف اسلام کے رعب اور شان وشوکت کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ اہل ایمان کو آزمائشیں اور مصیبتیں  پیش آنے لگی ہیں تو یہ انکار اور بے یقینی کی وجہ سے ٹھٹک کر رہ جاتے ہیں ۔ اور اسلام کیطرف اُن کے بڑھتے ہوئے قدم رُک جاتے ہیں ۔ گویا بجلی کے چمکنے کی طرح جب اسلام کی روشنی ان پر واضح ہو جاتی ہے تو مسلمان ہو جاتے ہیں ۔ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ۔ اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں ۔ لیکن جوں ہی اندھیرا ہو جاتا ہے یعنی انہیں تکلیفیں اور مصیبتیں پیش آنے لگتی ہیں تو پھر ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔ اور واپس کفر کی طرف لَوٹ جاتے ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ سکھ اور دُکھ ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں ۔ اگر ہم الله تعالی کی راہ میں جان مال اور اولاد کی قربانی کریں تو یقینا اس کے بدلے میں کامیابی اور فلاح نصیب ہو گی ۔ یہ طریقہ ہرگز درست نہیں کہ فائدے کی طرف تو ہم دوڑیں ۔ مگر آزمائش کے وقت ہم پیچھے ہٹ جائیں ۔ الله تعالی کو یہ بات پسند نہیں 
 اس رکوع کی ابتداء سے منافقوں کا بیان شروع ہوا تھا جو یہاں ختم ہو جاتا ہے ۔ الله تعالی نے انسان کو دیکھنے اور سننے کی قوتیں بخشی ہیں ۔ لیکن منافقوں نے یہ قوتیں صرف دنیا کے عارضی فائدے جمع کرنے اور نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے میں استعمال کر دیں ۔ حق کی آواز سننے اور الله تعالی کی نشانیاں دیکھنے سے اپنے کانوں اور آنکھوں کو بالکل بند کر لیا ۔ انہوں نے اپنی قوتو ں کو غلط جگہ خرچ کیا  ۔ 
اب الله تعالی انہیں خبردار کرتا ہے کہ اگر وہ اس غلط روش سے باز نہ آئے تو ان سے یہ قوتیں چھین لی جائیں گی ۔ منافق اگرچہ موت کے خوف سے بجلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔ وہ کڑک اور گرج کی آواز سُن کر کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں کہ کہیں مر نہ جائیں ۔ الله تعالی ان کی آنکھوں کی بینائی اور کانوں کی سننے کی قوت چھین بھی سکتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بچانے کی کوشش کریں ۔ 
انسان کو تمام قوتیں الله تعالی نے عطا کی ہیں ۔ لیکن جب وہ انہیں اسُ کے حکم کے مطابق استعمال نہیں کرتا تو اسے ڈرتے رہنا چاہئے کہ الله تعالی کہیں چھین نہ لے ۔ اگر وہ چھیننے میں کچھ دیر کرے تو نڈر نہ ہو جانا چاہئیے کیونکہ سزاء ملنے میں دیر بھی ہو سکتی ہے ۔ ممکن ہے یہ دیر ڈھیل دینے کے لئے ہو یا اُس کی رحمت کی وجہ سے ہو ۔ 
انسان کی آنکھیں اور کان موجود ہوتے ہوئے بھی الله تعالی کی مرضی اور حکم کے بغیر کام نہیں کر سکتے ۔ اگر وہ چاہے تو انسان کو اعضاء سے کام لینے کی قوتوں سے محروم کر سکتا ہے ۔ کہ آنکھ کے ہوتے ہوئے بھی نہ دیکھ سکے اور کان ہوتے ہوئے بھی نہ سُن سکے ۔ اور یہ بات اُس کی قدرت سے باہر نہیں ۔ اس نے عالم کے انتظام کے لئے قائدے ، وقت اور سبب مقرر کر رکھے ہیں ۔ وہ دُنیا کے تمام کافروں منکروں اور منافقوں کو فوراً ہلاک کر سکتا ہے ۔ لیکن مقررہ قاعدوں کے مطابق انہیں ڈھیل مل جاتی ہے ۔ تاکہ وہ باز آ جائیں ۔ اگر وہ باز نہ آئیں تو اس کا غضب ان پر یوں آ پڑتا ہے کہ انہیں اس کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ۔ چنانچہ اکثر منافقوں کا حال عبرت ناک ہی ہوا ۔ 
الله جل شانہ اپنی رحمت کریمہ سے ہمیں کفر ، شرک اور منافقت سے محفوظ رکھے 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


*حضرت علامہ اقبال رحمہ الله تعالی*

دائمی غفلت اور حد سے بڑھ جانے والو ں  کو الله تعالی کبھی ھدایت نہیں دیتا ۔
الله تعالی گمراہوں کو ھدایت دینے کے لئے اسباب مہیا کرتا رہتا ہے ۔ کہ شاید وہ راہِ ہدایت اختیار کر لیں ۔ لیکن سرکش اور نادان انسانوں کو تو نفس کی خواہشوں اور دنیا کی چاہتوں نے دیوانہ بنا رکھاہے ۔ وہ ان اسباب سے فائدہ اٹھانا تو دور اُن کی طرف نگاہ بھی نہیں کرتے ۔ ایسے لوگ بوڑھے بھی ہو جاتے ہیں تو دُنیا کی طلب اور نفس کے عیش وعشرت میں پڑے رہتے ہیں ۔ اور اُن کا ضمیر انہیں الله تعالی کی بغاوت پر ملامت نہیں کرتا ۔ انہیں موت یاد نہیں آتی ۔ یا ایسے بے حس ہوجاتے ہیں کہ اس بات کا احساس ہی نہیں کر پاتے کہ ان کی تمام بیماریوں اور بد حالی کی وجہ صرف اور صرف الله تعالی کی نافرمانی اور اُس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے سے رُوگردانی ہے ۔ ان کی یہ غفلت اس قدر شدید ہوتی ہے کہ اسی بےکسی میں ان کا دم نکل جاتا ہے 
علامہ اقبال رحمہ الله تعالی نے اپنے اس شعر میں ایسے لوگوں کی موت کا منظر یوں پیش کیا ہے ۔کہ جب موت کا فرشتہ الله تعالی کے باغیوں کی جان قبض کرنے آتا ہے ۔ تو وہ الله تعالی سے اس بات کی شکایت کرتا ہے کہ الٰہی مجھے ان لوگوں کی جان نکالتے ہوئی سخت ندامت محسوس ہوتی ہے کہ موت کے وقت ان کا اعمال نامہ نیکیوں سے خالی ہوتا ہے ۔ 
استغفر الله ربی من کل ذنب و اتوب الیہ ۔۔۔۔
الله جل شانہ ہمیں اپنی  زندگی کی اصلاح کرنے اور اپنے نامۂ اعمال کو نیکیوں سے بھرنے کی توفیق عطا فرمائے 



منافقوں کی دوسری مثال ۔۔ منافقوں کی بے بسی

   أَوْ  ۔  كَ ۔     صَيِّبٍ  ۔ مِّنَ  ۔ السَّمَاءِ  ۔     فِيهِ ۔      ظُلُمَاتٌ  ۔     وَرَعْدٌ       ۔ وَبَرْقٌ 
یا   ۔  جیسے۔   بارش ۔   سے ۔ آسمان ۔    اس میں ۔ اندھیرے ۔ اور گرج ۔ اور بجلی ۔ 

يَجْعَلُونَ  ۔       أَصَابِعَهُمْ ۔  فِي  ۔  آذَانِهِم  ۔ مِّنَ  ۔ الصَّوَاعِقِ  ۔ حَذَرَ  ۔ الْمَوْتِ ط 
وہ ڈالتے ہیں ۔   اپنی انگلیاں ۔  میں ۔ اپنے کان ۔ سے ۔    کڑک ۔       ڈر ۔      موت 

وَاللَّهُ ۔  مُحِيطٌ  ۔ بِالْكَافِرِينَ۔  1⃣9️⃣
اور الله تعالی ۔ احاطہ کرنے والا ہے ۔ کافروں کا 


أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ۔  1⃣9️⃣
یا ان کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہو ۔ اس میں اندھیرے گرج اور بجلی ہے ۔ وہ اپنے کانوں میں انگلیں ڈال لیتے ہیں کڑک کی وجہ سے موت کے ڈر سے اور الله تعالی کافروں کو ہر طرف سے گھرے ہوئے ہے ۔ 

صَیَّبٍ ۔ مینہ ۔ یہ لفظ صوب سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بادل یا بارش کا نازل ہونا ۔
السَّماء ۔ آسمان ۔ یہ لفظ سمو سے ہے ۔ اس کے معنی بلندی کے ہیں ۔ ہر بلندی والی چیز خواہ بادل ہو یا آسمان اسے سماء کہا جاتا ہے 
 مُحِیْطٌ ۔ احاطہ کئے ہوئے ۔ یہ لفظ احاطہ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چاروں طرف سے کسی چیز کو گھیر لینا ۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے ۔ کہ الله تعالی کافروں پر اپنی ذات ، علم اور قدرت ہر لحاظ سے محیط ( چھایا ہوا ) ہے ۔ 
 ہم پڑھ چکے ہیں کہ منافقوں کی دو قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو دل سے اسلام کے پکے دشمن ہیں ۔ لیکن ظاہری طور پر اپنے مسلمان ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں ۔ 
اس آیت میں دوسری قسم کے منافقوں کا ذکر ہے ۔ وہ اپنی طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے نہ تو پوری طرح اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور نہ اسے چھوڑتے ہیں ۔ بلکہ شک اور تذبذب میں غرق رہتے ہیں اور قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ اس قسم کے منافقوں کی مثال زور دار بارش سے دی گئی ہے ۔ اس میں بے شمار فائدے ہیں ۔ مُردہ زمین زندہ ہوتی ہے ۔ کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں ۔ ندی نالے بہنے لگتے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی دل کو لرزانے والی بادلوں کی کڑک اور آنکھوں کو چندھیانے والی بجلی کی چمک بھی ہوتی ہے ۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا بھی چھا جاتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود کوئی بارش کا دشمن نہیں ہوتا ۔ 
اسلام بھی بارش کی طرح سراسر رحمت بن کر آیا ۔ لیکن اس میں نماز ، روزہ ، حج ، زکٰوۃ ، جہاد اور احکامِ  خداوندی کی دوسری پابندیاں اور دشواریاں بھی ہیں ۔ منافق ان پابندیوں اور دشواریوں سے گھبراتے اور جی کتراتے ہیں ۔ اسلام کے فائدے دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑتے ہیں ۔ مگر جب قربانی کا وقت آتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ 
مسلمانوں کے ساتھ بیٹھیں اُن کے وعظ اور دعوت سُنیں ، اُن کی شان اور فتحمندی دیکھیں تو مرعُوب ہو کر اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن جب آزمائش اور امتحان سے واسطہ پڑتا ہے تو پھر کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ وہ مشقت اور موت سے ڈرتے ہیں ۔ 
ایت کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ الله تعالی ان منافقوں پر ہر طرح سے حاوی ہے ۔ وہ محض مشقت اور موت سے بچنے کی خاطر اسلام سے بھاگتے ہیں لیکن الله تعالی ان پر ہر قسم کا اختیار رکھتا ہے ۔ اس لئے موت سے کیسے بچ سکتے ہیں ۔ وہ تو انہیں گھروں میں بھی آ لے گی ۔ اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جھوٹی خواہشات اور نفسانی لذتوں کو چھوڑ دیں ۔ الله تعالی کے راستے میں جان ومال پیش کریں ۔ تکلیفیں اور مصیبتیں بھی جھیلیں ۔ 
وہ عذاب کی آیتیں سننا نہیں چاہتے ۔ اور کان دبا کر نکل جاتے ہیں لیکن وہ الله تعالی کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے ۔ قادرِمطلق کی گرفت سے اپنے آپ کو اس طرح بچانے کی کوشش محض حماقت اور کم عقلی کی دلیل ہے ۔ الله تعالی صرف انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اُن کے لئے سمجھنے کے موقعے پیدا کرتا ہے ۔ جب ان کی مہلت ختم ہو جائے گی تو پھر دُنیا کی کوئی طاقت اور اُن کا کوئی دوست انہیں الله تعالی کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا ۔ وہ ان کی تمام حرکات بلکہ سینوں کے بھیدوں کو بھی خوب جانتا ہے ۔ اور وہ ان پر قدرت کے لحاظ سے بھی حاوی ہے ۔ جس طرح کی بھی سزاء دینا چاہے ۔ اسے اس پر قدرت ہے ۔ 
 جس طرح بارش میں گرج چمک اور کڑک سب کچھ ہوتا ہے اسی طرح اسلام میں آزمائش کے طور پر محنت ، سختی ، غُربت اور تکلیف سب ہی کچھ ہو سکتا ہے ۔ مگر بدلے میں دونوں جہان کی کامیابی ہے ۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ ان عارضی مصیبتوں سے گھبرا کر اسلام سے دور نہ ہو جائے بلکہ پوری قوت اور طاقت سے اس پر جم جائے ۔ اور اپنی زندگی اسلام کے ساتھ وابستہ کر دے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

منافقوں کا انجام ۔۔۔۔

صُمٌّ  ۔ بُكْمٌ  ۔   عُمْيٌ  ۔   فَهُمْ  ۔   لَا    ۔ يَرْجِعُونَ.  1⃣8️⃣
بہرے ۔ گونگے ۔ اندھے ۔ پس وہ ۔ نہیں ۔          لوٹیں گے 
صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ. 1⃣8️⃣
وہ بہرے گونگے ، اندھے ہیں وہ نہیں لوٹیں گے  ۔ 

صُمٌّ ۔ بہرے ۔ اس کا واحد اصم ہے ۔ جس کے معنی ہیں بہرہ ۔  منافق اگرچہ ظاہری طور پر بہرے نہیں ہیں ۔ لیکن انہیں بہرہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اسلام کی حق باتیں سنتے اور ٹال دیتے ہیں ۔ اور سُنی بات کو اَن سُنی کر دیتے ہیں ۔ گویا وہ بہرے ہیں کچھ سُنتے ہی نہیں 
بُکْمٌ ۔ گونگے ۔ یہ ابکم کی جمع ہے جس کے معنٰی ہیں گونگا ۔ اگرچہ ان لوگوں کی زبانیں تو موجود ہیں ۔ لیکن سچی بات پوچھنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اور حق بات کا اقرار نہیں کرتے ۔ گویا ان کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے ۔ 
عُمْیٌ ۔ اندھے ۔ یہ اعمی کی جمع ہے ۔ جس سے مراد ہے اندھا آدمی ۔ انہیں اندھا اس لئے کہا گیا ہے کہ آنکھیں رکھنے کے باوجود الله تعالی کی نشانیاں دیکھ کر قبول نہیں کرتے ۔ 
اس آیہ میں منافقوں کے اعمال کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے ۔ وہ لوگ اسلام کی روشنی ظاہر ہو جانے کے باوجود کفر کے اندھیروں میں پڑے رھے ۔ دُنیاوی فائدوں ، ذاتی غرضوں ، نفسانی خواہشوں کی پیروی میں انہوں نے اچھے اور بُرے کی تمیز نہ کی ۔ جس طرح قدرتی قاعدے کے تحت آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھ جل جاتا ہے ۔ اسی ان لوگوں کی ضد اور جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرنے کی وجہ سے حق کو پہچاننے کی تمام قوتیں ضائع ہو گئیں ۔ کُفر ان پر غالب آ گیا ۔ وہ اسلام کی روشنی سے محروم ہو گئے ۔ الله تعالی نے ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے روشنی کو سلب کر لیا ۔ اور وہ اندھیروں میں بھٹکنے لگے ۔ 
نیکی اور بدی کی تمیز اُٹھ جانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حق کی آواز سننے کے قابل نہ رہے ۔ اُن کی زبانیں گونگی ہو گئیں وہ کسی سے راہ حق دریافت نہ کر سکے ۔ اُن کی آنکھیں اندھی ہو گئیں کہ اسلام کی روشنی انہیں نظر نہ آئی ۔ اور الله تعالی کی نشانیاں ان پر کوئی اثر نہیں کرتیں ۔ 
علم حاصل کرنے کے تین ظاہری ذریعے ہوتے ہیں ۔ کان زبان اور آنکھ ۔ کبھی انسان دوسروں کی باتیں سُن کر بعض چیزوں کا علم حاصل کرتا ہے ۔ کبھی زبان سے پوچھ کر معلوم کرتا ہے ۔ اور کبھی آنکھ سے دوسری چیزوں کو دیکھتا ہے ۔ لیکن منافق اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ تینوں ذریعے کھو بیٹھتا ہے ۔ اس لئے اب اس بات کی کوئی امید نہیں کہ وہ کفر سے اسلام کی طرف یا اندھیرے سے روشنی کی طرف واپس آئے گا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

منافقوں کی پہلی مثال ۔۔۔

مَثَلُهُمْ        ۔ كَ      ۔ مَثَلِ       ۔ الَّذِي        ۔  اسْتَوْقَدَ  ۔ نَارًا ۔      فَلَمَّا ۔        
اُن کی مثال ۔ جیسے ۔ مثال ۔ وہ شخص ۔ اُس نے جلائی ۔ آگ    ۔ پس جب
    أَضَاءَتْ          ۔ مَا ۔               حَوْلَهُ 
 ۔ اس نے روشن کر دیا ۔ جو ۔ اس کے اردگرد ۔ 
ذَهَبَ      ۔ اللَّهُ ۔             بِنُورِهِمْ                   ۔ وَتَرَكَ               ۔ هُمْ  
لے گیا ۔ الله تعالی ۔ اُن کی روشنی ۔ اور چھوڑ دیا اس نے ۔ اُن کو 
۔ فِي  ۔ ظُلُمَاتٍ  ۔  لَّا  ۔   يُبْصِرُونَ 1⃣7⃣
۔ میں ۔ اندھیرے ۔ نہیں      ۔ وہ دیکھتے ۔ 
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ
وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ۔ 1⃣7⃣
اُن کی مثال تو اس شخص جیسی ہے جس نے آگ جلائی  پس جب آگ نے اس کے اردگرد کو روشن کر دیا الله تعالی نے اُن کی روشنی لے لی اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا وہ نہیں دیکھ پاتے ۔ 

مَثَلُھُمْ ۔ اُن کی مثال ۔ مثل کسی ایسے پرانے مشہور واقعے کو کہتے ہیں ۔ جو موجودہ کسی واقعہ سے ملتا جلتا ہو اور مشہور ہونے کی وجہ سے لوگوں کی سمجھ میں بہت جلد آسکتا ہو ۔ اس کے علاوہ موجودہ واقعہ کی تشریح کرنے کے لئے اس کے بیان سے مدد ملتی ہو ۔ 
 ظُلُمَات ۔ اندھیرے ۔ یہ لفظ ظلمت کی جمع ہے ۔ جس کا مطلب ہے اندھیرا اور تاریکی ۔ 
 رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں منافق دو قسم کے تھے ۔ ایک وہ جو دل سے اسلام کے پکے دشمن تھے ۔ مگر زبان سے مسلمانوں کے دوست اور ہمدرد ہونے کا دعوٰی کرتے تھے ۔ دوسرے وہ جو کمزور طبیعت کے تھے ۔ اور یقینی طور پر نہ تو اسلام کے حامی تھے اور نہ مخالف ۔ جس طرف اپنا فائدہ دیکھتے اسی طرف ہو جاتے تھے ۔ قرآن مجید میں الله تعالی نے ان دونوں قسموں کے منافقوں کی مثالیں دی ہیں ۔ اس آیہ میں پہلی قسم کے منافقوں کی مثال بیان کی گئی ہے ۔ 
ان لوگوں کی مثال ایسی ہے ۔ جیسے کسی شخص نے اندھیرے میں آگ جلائی ۔ اس کی روشنی سے اردگرد کی تمام چیزیں روشن ہو گئیں اور وہ اس قابل ہو گیا کہ نقصان پہنچانے والی اور فائدہ دینے والی چیزوں میں فرق کر سکے ۔ مگر اچانک الله تعالی نے آنکھوں کی روشنی چھین لی ۔ اور اب اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ روشنی کے باوجود اندھوں کی طرح ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے ۔ 
 یہ مثال منافقوں پر ٹھیک ٹھیک ثابت  آتی ہے ۔ وہ پہلے کفر کی تاریکی میں پڑے ہوئے تھے ۔ نیک وبد میں کوئی فرق نہ کرتے تھے ۔ پھر اسلام کی شمع روشن ہوئی اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے لگے ۔ کہ اچانک اُن سے اسلام سے فائدہ اٹھانے کے تمام مواقع چھین لئے گئے ۔ اُن کی اصلی صورت مسلمانوں  کے سامنے آگئی ۔ اور وہ اس قابل نہ رہے کہ مسلمانوں کو دھوکا دے سکیں ۔ کچھ منافق خود ہی حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف جھک گئے ۔ کچھ اپنی اغراض کی وجہ سے اس روشنی سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہو گئے ۔ ان تمام صورتوں میں اُن کے لئے اسلام کی روشنی بے کار ہو گئ ۔ اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

گُمراہی اور خسارہ ۔۔۔۔

أُولَئِكَ  ۔        الَّذِينَ       ۔ اشْتَرَوُا  ۔       الضَّلَالَةَ  ۔         بِالْهُدَى ۔ 
یہی لوگ ۔ وہ لوگ ۔ خریدا انہوں نے ۔ گمراہی کو ۔ بدلے ہدایت کے 
 فَمَا  ۔      رَبِحَت  ۔       تِّجَارَتُهُمْ  ۔      وَمَا  ۔    كَانُوا     ۔  مُهْتَدِينَ۔  1️⃣6️⃣
پس نہ ۔ سود مند ہوئی ۔ تجارت ان کی ۔ اور نہ ۔ ہوئے وہ ۔ ہدایت پانے والے ۔     
أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ۔  1️⃣6️⃣
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی مول لی ہدایت کے بدلے ۔ پس نہ تو اُن کی تجارت فائدہ مند ہوئی اور نہ ہی وہ ہدایت پانے والے ہوئے  ۔ 

اِشْتَرَوْا ۔ ۔۔ انہوں نے خرید لی ۔ ایک چیز کے بدلے دوسری چیز لے لینا ۔ یہ لفظ خریدنے اور بیچنے دونوں کے لئے آتا ہے ۔ ایمان کا قبول کر لینا منافقین کے اختیار میں تھا ۔ لیکن اس کے بجائے انہوں نے کفر اور منافقت کی روش اختیار کی ۔ 
مَا رَبِحَتْ ۔۔۔ سود مند نہ ہوئی ۔ یہ لفظ ربح سے بنا ہے جس کے معنی ہیں نفع ۔ فائدہ ۔ 
اس سبق میں نفاق کا انجام بتایا گیا ہے ۔ کہ ان لوگوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کر لی ۔ یعنی انسانیت کی جو خوبی ہر شخص کے لئے الله تعالی کی طرف سے ہدایت کا ذریعہ ہے ۔ جس کی وجہ سے ہر انسان نیکی اور ہمیشہ کا آرام حاصل کر سکتا ہے ۔ ان منافقوں نے اس نورِ انسانیت کو بجھا دیا ۔ اور جو ہدایت انہیں حاصل کرنا چاہیے تھی ۔ اس کو نظر انداز کر کے اپنے اندر بُرے اخلاق اور غلط عادتیں پیدا کر لیں ۔ اور اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ ہم نے یہ سودا بڑا اچھا کیا ہے ۔ منہ سے توحید کا کلمہ کہہ دیا اور دل میں کفر رکھا ۔ اورخوش ہوتے رہے کہ اس سے زیادہ نفع والی تجارت اور کیا ہو سکتی ہے 
الله تعالی فرماتا ہے کہ اس تجارت میں انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ انہوں نے اپنی ساری عمر لگا کر صرف دُنیا کے ضائع ہو جانے والے عارضی اور نفسانی فائدے حاصل کر لئے ۔ تجارت یہ تھی کہ اپنی جان ومال کو الله تعالی کی راہ میں خرچ کر کے ہمیشہ رہنے والی زندگی کا آرام حاصل کرتے ۔ لیکن انہوں نے اصل سرمائے کو بھی ضائع کر دیا ۔ 
منافقین کی یہ گمراہی اور گھاٹا اُن کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ جن کا ذکر اس سے پہلی آیات میں گزر چکا ہے  کہ وہ وہ زبان سے الله تعالی اور آخرت پر ایمان لاتے ہیں ۔ دل سے نہیں مانتے ۔ مومنوں اور الله تعالی کو دھوکا دینا چاہتے ہیں ۔ اُن کے دل میں کفر و نفاق کا مرض ہے ۔ وہ اصلاح کے نام سے فساد برپا کرتے ہیں ۔ مخلص اور صاحبِ ایمان لوگوں کو بے وقوف سمجھتے ہیں ۔ انہیں ایمان اور تعاون کا یقین دلاتے ہیں ۔ لیکن جب اپنے بدکردار ساتھیوں اور سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو اُن کے ساتھ ہو جاتے ہیں ۔
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

مُنافقوں کا ہنسی اُڑانا ۔۔۔

وَإِذَا  ۔        لَقُوا ۔        الَّذِينَ  ۔     آمَنُوا ۔           قَالُوا         ۔ آمَنَّا ۔         وَإِذَا ۔         خَلَوْا ۔           إِلَى  ۔
اور جب ۔ وہ ملتے ہیں ۔ وہ لوگ ۔ ایمان لائے ۔ وہ کہتے ہیں ۔ ہم ایمان لائے ۔ اور جب ۔ وہ اکیلے ہوتے ہیں ۔ طرف ۔ 
شَيَاطِينِهِمْ  ۔        قَالُوا  ۔        إِنَّا ۔                    مَعَكُمْ  ۔      إِنَّمَا ۔    نَحْنُ  ۔      مُسْتَهْزِئُونَ۔  1️⃣4️⃣
ان کے شیطان ۔ وہ کہتے ہیں ۔ بے شک ہم ۔   تمھارے ساتھ ہیں ۔ بے شک ۔   ہم ۔        مذاق کرنے والے ہیں 

اللَّهُ  ۔          يَسْتَهْزِئُ  ۔           بِهِمْ  ۔         وَيَمُدُّ ۔                هُمْ  ۔     فِي  ۔     طُغْيَانِهِمْ ۔         يَعْمَهُونَ.   1️⃣5️⃣
الله تعالی ۔ وہ مذاق کرتا ہے ۔ ان کے ساتھ ۔ اور وہ ڈھیل دیتا ہے ۔ اُن کو ۔ میں ۔   اُن کی سرکشی ۔ اندھے ہو رھے ہیں 

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ۔    1️⃣4️⃣
اور جب وہ ایمان والے لوگوں  سے ملتے ہیں ۔ تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ۔ اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو بس مذاق کر رہے تھے ۔ 

اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ۔  1️⃣5️⃣
الله تعالی اُن سے مذاق کرتا ہے ۔ اور انہیں ڈھیل دیتا ہے ۔ وہ اپنی سرکشی میں اندھے ہو رہے ہیں ۔ 

شَیَا طِیْنِھِمْ ۔۔۔ اُن کے شیطان ۔ شیطا ن کا لفظ عربی زبان میں بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ سرکش اور بھڑکانے والے کو شیطان کہتے ہیں ۔ انسانوں اور جنوں سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ یہاں  " شَیٰطِیْنِھِمْ  " سے مراد منافقین کے سردار ہیں ۔ جو اپنی سرکشی کی وجہ سے شیطان بنے ہوئے ہیں ۔ 
مُسْتَھْزِءُوْنَ ۔۔۔ مذاق کرتے ہیں ۔ یہ لفظ استھزاء سے بنا ہے ۔ جس کے معنی تمسخر کرنے اور ہنسی اُڑانے کے ہیں ۔ 
طُغْیَانِھِمْ ۔۔۔ اپنی سرکشی میں ۔ یہ لفظ طغٰی سے بنا ہے ۔ لفظ طغیانی کا ماخذ بھی یہی ہے ۔ اس کے معنی ہیں ایک مقررہ حد سے بڑھ جانا ۔ یہاں اس سے مراد سرکشی میں حد سے بڑھ جانا ہے ۔ 
یَعْمَھُوْنَ ۔۔۔ اندھے ہو رہے ہیں ۔ یہ لفظ عمه سے بنا ہے جس کے معنی ہیں اندھا پن ۔ یہاں ایسی کیفیت مراد ہے کہ انسان کو راستے کی سمجھ نہ آ رھی ہو اور وہ ادھر اُدھر اندھوں کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا پھرے ۔ 

اس آیہ میں مُنافقین کے طرز عمل کی ایک اور خرابی بیان کی گئی ہے ۔ یعنی یہ کہ وہ دو رُخی چال چلتے ہیں ۔ جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو انہیں دھوکا دینے اور خوش کرنے کے لئے کہتے کہ ہم بھی مسلمان ہیں ۔ لیکن جب وہ اپنے سرداروں کے پاس تنہائی میں جاتے تو کہتے ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں ۔ ہم تو مسلمانوں کو بے وقوف بناتے ہیں ۔ یہ مسلمان سیدھے سادے لوگ ہیں ۔ ہماری اس بات کو سچ مان کر ہمیں اپنے پوشیدہ راز بتا دیتے ہیں ۔ اور اپنے ارادوں اور تدبیروں سے مطلع کر دیتے ہیں ۔ اس کے جواب میں الله تعالی نے ان کے مذاق کو انہیں پر پلٹ دیا ۔ سزا اور بدلہ کے موقع پر عربی زبان میں یہ محاورہ عام ہے ۔ جیسے ہم کہتے ہیں ۔ بُرائی کا بدلہ بُرائی ہے ۔ 
الله تعالی نے انہیں ایسی خراب حالت میں چھوڑ رکھا ہے ۔ کہ وہ اپنی سرکشی اور حماقت میں سرگرداں پھر رھے ہیں ۔ اور قرآن مجید کی روشنی سے محروم اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارتے ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

منافقوں کی بے عقلی ۔۔۔

وَإِذَا ۔         قِيلَ  ۔       لَهُمْ     ۔  آمِنُوا ۔       كَمَا  ۔      آمَنَ    ۔ النَّاسُ     ۔ قَالُوا      ۔ أَ ۔             نُؤْمِنُ  ۔ 
اور جب ۔ کہا جاتا ہے ۔ ان سے ۔ ایمان لاؤ ۔ جیسے ۔ ایمان لائے ۔ لوگ ۔ وہ کہتے ہیں ۔ کیا ۔ ہم ایمان لائیں ۔

كَمَا       ۔ آمَنَ  ۔    السُّفَهَاءُ    ۔ أَلَا       ۔ إِنَّهُمْ      ۔ هُمُ  ۔   السُّفَهَاءُ ۔     وَلَكِن  ۔  لَّا  ۔     يَعْلَمُونَ 1️⃣3️⃣
جیسے ۔ ایمان لائے ۔ بے وقوف ۔ خبردار ۔ بے شک وہ ۔ وہ ہی ۔ بےوقوف ۔ اور لیکن ۔ نہیں ۔ وہ علم رکھتے ۔ 

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِن لَّا يَعْلَمُونَ.  1️⃣3️⃣
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے ۔ کہ ایمان لے آؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں ۔تو کہتے ہیں کہ کیا ہم ایمان لے آئیں جیسے بےوقوف ایمان لائے ہیں ۔ سُن رکھو کہ خود وہی لوگ بے وقوف ہیں ۔ لیکن وہ نہیں جانتے ۔ 

اَلنَّاس : لوگ ۔ الف لام کے لگنے سے یہ لفظ خاص انسانوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ یعنی وہ لوگ جو دل سے صحیح معنوں میں ایمان لائے ۔ اور دو رُخی چال نہ چلے ۔ 
اس  آیۃ میں منافقین کے سامنے صحیح ایمان کا ایک معیار رکھا گیا ہے ۔ " اٰمِنُوا کَمَا اٰمَنَ النَّاسُ " یعنی ایمان لاؤ جیسے ایمان لائے اور لوگ ۔ مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  اس میں لفظ ناس سے مراد صحابہ کرام ہیں ۔ کیونکہ وہی حضرات ہیں جو قرآن مجید نازل ہونے کے وقت ایمان لائے تھے ۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ الله تعالی کے نزدیک وہی ایمان معتبر ہے جو صحابہ کرام کے ایمان کی طرح ہو ۔ جن چیزوں میں جس کیفیت کے ساتھ ان کا ایمان ہے ۔ اسی طرح کا ایمان دوسروں کا ہو گا تو اسے ایمان کہا جائے گا ورنہ نہیں ۔ صحابہ کرام رضوان الله علیھم کا ایمان ایک کسوٹی ہے ۔ ایک پیمانہ ہے ۔ جس پر باقی ساری امت کے ایمان کو پرکھا جائے گا ۔ جو اس پیمانے پر پورا نہ اُترے اسے شرعاً مومن نہ کہا جائے گا ۔ اس بات کے خلاف کوئی عقیدہ اور عمل اگرچہ وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو  اور کتنی ہی نیک نیتی سے کیا جائے الله تعالی کے نزدیک قابل اعتبار نہ ہو گا ۔ 
 ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے والے یعنی صحابہ کرام کو بے وقوف کہا ۔ اور یہی ہر زمانے کے گمراہوں کا طریقہ ہے ۔ کہ جو ان کو سیدھی راہ دکھلائے اسے بے وقوف اور جاہل قرار دے دیتے ہیں ۔ لیکن قرآن مجید میں الله تعالی نے بتا دیا کہ حقیقت میں یہ خود بے وقوف ہیں کہ اتنی کُھلی اور واضح نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے 
السُّفَھَآءُ ۔ بے وقوف لوگ ۔ یہ سفیه کی جمع ہے ۔ جو لفظ سفه سے نکلا ہے اس کے معنی ہیں ہلکا پن  چونکہ بے وقوفی عقل میں ہلکا پن اور کمی ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس لئے لفظ کا استعمال بے وقوفی اور حماقت کے لئے ہوتا ہے 
اس آیہ میں منافقوں کی ایک اور عادت کا ذکر ہے ۔ ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اسلام پر صدق وخلوص کے ساتھ سچے مسلمانوں کی طرح سے ایمان لاؤ ۔ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں ۔ گویا اُن کے خیال میں ایمان لانے والے بے وقوف ہیں ۔ کہ وہ کفر کے ایک طاقتور گروہ کے مقابلے میں حق بات کو غالب کرنا چاہتے ہیں ۔ جو منافقوں کے نزدیک بالکل نا ممکن ہے ۔ مدینہ منورہ کے کافر اپنی قوت اور طاقت کے بل بوتے پر بہت مغرور تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ ان کے مقابلے میں اجنبی اور غریب الوطن مسلمان نہیں ٹھر سکیں گے ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اسلام چند روز کا کھیل ہے ۔جو خود بخود ختم ہو جائے گا ۔ اس لئے جو لوگ اس میں داخل ہورھے ہیں ۔ وہ انجام سے غافل اور اپنے نفع سے لاپرواہ ہیں ۔ 
اُن کے اس قول کے جواب میں الله تعالی فرماتا ہے کہ یہی لوگ احمق اور بے وقوف ہیں ۔ کیونکہ راستبازی اور سچائی آخر غالب آکر رہتی ہے ۔ اور دھوکا دینے والے منافق ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ منافقین کا آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ۔ اس لئے کہ آخرت پر ایمان رکھنے کے لئے بہت زیادہ دور اندیشی کی ضرورت ہے ۔ آخرت کو ماننے سے اس دنیا کے عیش وعشرت کو ہمیشہ کی زندگی کے آرام کے لئے کسی قدر چھوڑنا پڑتا ہے ۔ منافق عاقبت کا خیال نہیں کرتے ۔ وہ اپنے ابدی نفع ونقصان سے غافل رہتے ہیں ۔ اس لئے وہی بے وقوف اور  احمق ہیں ۔ 
مأخذ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

منافقوں کی مفسدانہ چالیں ۔۔۔۔

وَإِذَا ۔       قِيلَ  ۔      لَهُمْ      ۔ لَا       ۔ تُفْسِدُوا     ۔ فِي  ۔ الْأَرْضِ    ۔ قَالُوا ۔       إِنَّمَا ۔     نَحْنُ  ۔     مُصْلِحُونَ 1️⃣1️⃣
اور جب ۔ کہا جاتا ہے ۔ اُن سے ۔ نہ ۔ تم فساد پھیلاؤ ۔ میں ۔ زمین ۔ وہ کہتے ہیں ۔ بے شک  ۔ ہم ۔ اصلاح کرنے والے ہیں ۔ 
أَلَا        ۔ إِنَّهُمْ ۔  هُمُ     ۔ الْمُفْسِدُونَ ۔             وَلَكِن ۔  لَّا     ۔ يَشْعُرُونَ.  1️⃣2️⃣
خبر دار ۔ یہی لوگ ۔ وہ ۔ فساد کرنے والے ہیں ۔ ۔ اور لیکن ۔ نہیں ۔       سمجھ رکھتے     

   وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ۔  1️⃣1️⃣

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ۔     1️⃣2️⃣
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے ۔ کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ  تو کہتے ہیں بلا شبہ ہم اصلاح کر رہے ہیں ۔ سُن رکھو یہی لوگ فسادی ہیں لیکن وہ احساس نہیں رکھتے ۔ 

لا تُفْسِدُوْا ۔۔۔ مت فساد پھیلاؤ ۔ یہ لفظ فساد سے بنا ہے ۔ اس کا معنی ہے مزاج کا بگڑ جانا ۔ یہاں فساد سے مراد  اسلامی نظام میں خلل ڈالنے والے گناہ ہیں ۔ جب یہ حالات عام ہو جاتے ہیں تو دُنیا کے امن اور کائنات کے نظام میں رُکاوٹ آجاتی ہے ۔ اسلام کی رُو سے فساد بہت بڑا جرم ہے ۔ 
 مُصْلِحُوْنَ ۔۔۔ اصلاح کرنے والے ۔ یہ لفظ صلاح سے نکلا ہے ۔ یہ فساد کا اُلٹ ہے ۔ فساد میں اسلامی نظام بگڑتا ہے ۔ اصلاح سے اسلامی  نظام سنورتا ہے ۔ 
 اس آیہ میں منافقوں کی ایک اور بدترین چال کو واضح کیا گیا ہے ۔ قانونِ الٰہی کے علاوہ کسی اور غلط طریقے پر قائم رہنا  اور اس کو پھیلانا کون سا کم جرم تھا کہ یہ منافق بد نظمی پیدا کرنے اور فساد پھیلانے میں بھی لگ گئے ۔ چھپ چھپ کر سازشیں کرنا ، دوست بن کر دشمنی کرنا اُن کی عادت ہوگئ ۔ منافقوں پر دلی بیماری اس قدر غالب آگئی کہ ان کو نیک اور بد میں تمیز نہ رہی ۔  جب ان سے کہا جاتا ہے اپنے ان طور طریقوں سے ملک میں فساد نہ پھیلاؤ ۔ تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح اور بھلائی کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ حقیقتاً مفسد ہیں ۔ بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا فساد ہو سکتا ہے کہ ان کے منافقانہ طور طریقوں سے کافر تو یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسلام میں کوئی خوبی نہیں ۔ کہ یہ منافق اسلام میں داخل ہو کر بھی گناہوں میں مبتلا ہیں ۔ دوسری طرف مسلمانوں کو دھوکا دے کر ورغلاتے ہیں ۔ اسلام کا دعوٰی کرتے ہوئے الله تعالی کاخوف دل میں نہیں رکھتے ۔ ان کی اس روش سے دوسروں کے دلوں سے بھی خوف مٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔  ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان کا فساد اصلاح ہے اور خود یہ مصلح ہیں ۔ الله تعالی صاف صاف فرما رہا ہے کہ فساد اور اصلاح زبانی دعووں سے نہیں ثابت ہوتے ۔ بلکہ اس کا دارومدار اس کام پر ہے جو کیا جا رہا ہے ۔ فساد کرنے والے کو فسادی ہی کہیں گے اگرچہ اس کی نیت فساد کی نہ ہو ۔ ورنہ تو چور ڈاکو بھی اپنے آپ کو فسادی کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ 
خلاصہ یہ ہوا کہ سچائی سے لوگوں میں آپس میں سلوک پیدا ہوتا ہے جو دُنیا میں اصلاح کی وجہ بنتا ہے ۔ اور منافقت سے دنیا کے انتظام میں خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ جب انسان اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے ۔ اور اپنی کمزوری کو نہیں سمجھتا تو تباہ ہو جاتا ہے اور اس کا شعور اور احساس ختم ہو جاتا ہے ۔ 
مأخذ 
 درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

منافقوں کا روگ ۔۔۔

فِي  ۔ قُلُوبِهِم      ۔ مَّرَضٌ  ۔         فَزَادَ ۔           هُمُ      ۔ اللَّهُ  ۔  مَرَضًا  ۔         وَلَهُمْ  ۔      عَذَابٌ  ۔ 
میں ۔ اُن کے دل ۔ بیماری ۔ پس زیادہ کر دیا ۔ اُن کو ۔ الله تعالی ۔  بیماری ۔ اور ان کے لئے ۔ عذاب ۔ 
أَلِيمٌ  ۔ بِمَا  ۔ كَانُوا  ۔ يَكْذِبُونَ.   1️⃣0️⃣
درد ناک ۔  کیونکہ ۔ وہ تھے    ۔ جھوٹ بولتے  ۔ 

فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ۔   1️⃣0️⃣
اُن کے دلوں میں بیماری ہے ۔ سو الله تعالی نے اُن کی بیماری بڑھا دی ۔ اور اُن کے لئے درد ناک عذاب ہے کیونکہ وہ جھوٹ کہتے ہیں ۔ 

مَرَضٌ ۔۔۔ بیماری ۔ بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ جسمانی اور روحانی ۔ جسمانی بیماری سے بدن میں نقص ، خرابی یا درد پیدا ہوتا ہے ۔ اور روحانی بیماری سے اخلاق بگڑتے ہیں ۔ اور روح کو روگ لگ جاتا ہے ۔ یہاں کفر ونفاق کی روحانی بیماریوں کا ذکر ہے ۔ کیونکہ یہ انسان کے نیک کاموں اور اُخروی زندگی کے سنوارنے میں رُکاوٹ ڈالتی ہیں ۔ یہاں مرض کے معنی نفس کے ایسے روگ ہیں جو اس کے کمالات حاصل کرنے میں رُکاوٹ ڈالے ۔ مثلاً جہالت ، حسد ، کینہ ، دُنیا کی محبت اور جھوٹ وغیرہ ۔ 
فَ ۔۔۔  سو ۔ یہ حرف اشارہ کرتا ہے کہ آگے جو ذکر ہوگا ۔ وہ ان بیماریوں کا نتیجہ یا پھل ہوگا ۔ 
 زَادَ ۔۔۔ بڑھا دیا ۔ یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اور زیادہ ترقی اور فتح دے کر ان کے حسد کو بڑھا دیا ۔ اُن کے دل میں اسلام سے دشمنی کا  روگ اور زیادہ بڑھ گیا ۔ 
اَلِیْمٌ ۔۔۔ دردناک ۔ یہ لفظ  الم۔ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں درد ۔ کافروں کے لئے " عذابِ عظیم " کی سزا ہو گی ۔ لیکن مُنافق چونکہ کافر ہونے کے ساتھ ساتھ دھوکے باز اور جھوٹے  بھی ہیں اس لئے اُن پر " عذاب ِ الیم " کی سزا ہو گی ۔ 
یَکْذِبُوْنَ ۔۔۔ جھوٹ کہتے ہیں ۔ یہ لفظ کذب سے بنا ہے ۔ اس کے معنی جھوٹ کے ہیں ۔ جھوٹ اس خبر کو کہتے ہیں جو حقیقت کے خلاف اور لوگوں کے لئے نقصان دہ ہو ۔ 
 اس آیہ میں منافقوں کے طور طریقوں کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ ان کے اندر کفر اور نفاق کی بیماری ہے ۔ جو انھوں نے خود اپنے ہاتھوں پیدا کر رکھی ہے ۔ اور جیسے جیسے اسلام اور مسلمانوں کو کامیابی اور ترقی حاصل ہوتی جاتی ہے ۔ ان کے حسد اور کینے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ 
فَزَادَھُمُ اللهُ مَرَضاً ۔۔۔ ( سو الله نے ان کے مرض میں اضافہ کر دیا ) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ الله تعالی نے ازخود ان کے کفر و نفاق کو بڑھا دیا ۔ بلکہ اس سے مراد یہی ہے کہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے جلتے ہیں ۔اور الله تعالی یہ ترقی دیتا  جاتا ہے ۔ ہر وقت اس کا مشاہدہ ہوتا ہے  ۔ اور دن رات اس فکر میں بھی رہتے ہیں کہ ان کی جلن لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے ۔ اور اس جلن کا لازمی نتیجہ حسد ہے اور وہ اس حسد اور جلن کو ظاہر بھی نہیں کرسکتے اس وجہ سے جسمانی مرض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح جسمانی بیماریوں کا نتیجہ جسمانی قوت کا کم ہو جانا ہے ۔ اسی طرح روحانی بیماریوں کا نتیجہ دوسرے جہان میں دردناک عذاب ہے ۔ 
الله تعالی ہمیں ہرطرح کی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھے ۔ 
درس قرآن  ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں