عبادت کا مطالبہ ۔۔۔

يَا أَيُّهَا۔      النَّاسُ   ۔     اعْبُدُوا             رَبَّكُمُ       الَّذِي      ۔     خَلَقَ                ۔  كُمْ 
اے ۔           لوگو ۔      عبادت کرو ۔ اپنے رب کی    ۔ وہ    ۔ پیدا کیا  اس نے      ۔ تم کو 
وَالَّذِينَ        مِن          قَبْلِكُمْ۔      لَعَلَّكُمْ           تَتَّقُونَ.   2⃣1️⃣لا
اور ان لوگوں کو      ۔ سے ۔ تم سے پہلے  ۔ تاکہ تم     ۔ پرہیزگار بن جاؤ ۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔  2️⃣1️⃣لا

اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا  اور اُن کو جو تم سے پہلے تھے ۔ تاکہ تم پرھیز گار بن جاؤ ۔ 

لَعَلَّکُم ۔۔ ( تاکہ تم )  عربی زبان میں لَعَلَّ اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں کسی کام کا نتیجہ پیدا ہونا یقینی ہو ۔ 
تَتَّقُوْنَ ۔۔۔ ( تاکہ تم متقی بن جاؤ ) متقی اور تقوٰی اور تتَّقُون ایک ہی لفظ سے بنے ہیں ۔ اس کی تشریح پچھلے سبقوں میں گزر چکی ہے ۔ مختصر یہ کہ تم میں الله تعالی سے ڈرنے اور احتیاط سے زندگی بسر کرنے کی عادت پُختہ ہو جائے ۔ اس کو پرہیزگاری کہتے ہیں ۔ 
اَلنَّاسُ ۔۔ ( لوگو ) قرآن پاک میں اس آیۃ مبارکہ میں   پہلی بار الله تعالی نے ایک مطالبہ کیا ہے ۔ اور انسانوں کو *یٰاَیُّھَا النَّاسُ* کہہ کر مخاطب کیا ہے ۔ گویا الله تعالی نے عبادت گزار بننے کا مطالبہ ہر انسان سے کیا ہے  ۔ 

اُعْبُدُوا ۔۔۔ ( عبادت کرو ) یہ لفظ عبادت سے بنا ہے ۔ جس کی اصل عبد ہے ۔ عبادت کے معنی ہیں اپنی پوری طاقت۔ مکمل فرمانبرداری میں لگا دینا اور الله تعالی کے خوف اور اسکی عظمت کی وجہ سے نافرمانی سے دُور رہنا  ( روح البیان ) ، جسے اطاعت اور فرمانبرداری بھی کہتے ہیں ۔ نماز ، روزہ ، زکٰوۃ ، حج  اہم عبادتیں ہیں ۔ لیکن عبادت انہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ پوری زندگی سے تعلق رکھتی ہے ۔ 
سورۃ بقرہ کی دوسری آیۃ میں اُس دعا اور درخواست کا جواب تھا جو سورۃ فاتحہ میں آئی ہے ۔ یعنی  *اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم* یعنی جس صراطِ مستقیم کی تمہیں تلاش ہے وہ اس کتاب میں ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید شروع سے لے کر آخر تک  صراط ِ مستقیم ہی کی تشریح ہے ۔ ۔ اس کے بعد قرآن مجید کی ہدایات قبول کرنے اور ہدایت قبول نہ کرنے کے لحاظ سے انسان کے تین گروہوں کا بیان ہے  ۔ پہلی تین آیات میں مؤمنین ، متقین کا ذکر ہے جنہوں نے الله جل شانہ کے احکام پر سر جھکایا اور عمل کرنا اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا ۔ اس سے اگلی دو آیتوں میں اس گروہ کا ذکر ہے جس نے کھلم کھلا ہدایت کا انکار کیا اور کافر کہلائے ۔ اس کے بعد تیرہ آیتوں میں اس خطرناک گروہ کے حالات بیان کئے جو حقیقت میں تو الله تعالی کے احکام کی مخالفت کرتے تھے لیکن دنیا کا فائدہ حاصل کرنے کےلئے یا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنے کفر اور مخالفت کو چھپا کر مسلمانوں میں شامل ہو جاتے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں ۔ 
اس بات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی اصل تقسیم خاندان ، وطن یا زبان اور رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ صحیح تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہے ۔
 یہاں تمام لوگوں کو پکار کر یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام کے تمام عقیدوں اور حُکموں کی اصل  بنیاد اپنے ربّ کو پہچاننا ہے ۔ انسان کو پیدا کرنے کا سب سے پہلا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو ڈھونڈے ۔ اس کی کُھلی نشانیوں سے اسے پہچانے اور اسی کی عبادت کرے ۔ دُنیا اور آخرت کی کامیابی اسی سے مانگے ۔  اسی نے انسان کو پیدا کیا اور وہی ہے جو عبادت کا مستحق ہے کیونکہ عبادت اسی کی کی جاتی ہے جو انسان کی پرورش کا ذمہ دار ہے ۔ جو اس کو ایک قطرہ سے اہستہ آہستہ ایک عمدہ ، عقل اور سمجھ رکھنے والا دیکھنے اور سننے والا ماہر انسان بنا دیتا ہے ۔ جو اس کی بقاء اور ترقی کے تمام وسائل مہیا کرتا ہے ۔ اور انسان خواہ کتنا ہی جاہل کیوں نہ ہو ذرا سا غور کرنے سے اسے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ الله تعالی کے علاوہ شانِ ربوبیت کسی میں نہیں ۔ تمام مخلوق پیدا ہونے اور قائم رہنے کے لئے اُس کی محتاج ہے ۔ وہ ہی ہر وقت اور ہر زمانے میں مخلوق کی پرورش کرتا ہے ۔ اس کو اس کی قابلیت کے مطابق ترقی کے راستے بتاتا ہے ۔ اس رب کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ اس نے تم کو اور ان سب کو جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں پیدا کیا ۔ اسی معرفت سے تقوٰی حاصل کرنے کی راہ کُھلتی ہے ۔ الله تعالی کی عبادت کرنے سے الله تعالی کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں بلکہ اس میں مکمل طور پر انسان کا فائدہ ہے ۔ عبادت کرنے سے انسان کے خیالات کی پریشانی دور ہوتی ہے ۔ اور اصل باتوں پر توجہ دینے کا موقع ملتا ہے ۔ 

اس جگہ انسانوں کے تینوں گروہوں سے خطاب ہے ۔ اور ہر گروہ سے خطاب کے لئے اس جملے کا مطلب الگ ہے ۔ 
جب کہا گیا کہ اپنے رب کی عبادت کرو تو کفّار کے گروہ کے لئے اس خطاب کے معنی یہ ہوئے کہ مخلوق کی عبادت چھوڑ کر الله جل شانہ کی عبادت کرو ۔ اور منافقین کے گروہ کے لئے اس کے معنی یہ ہوئے کہ منافقت چھوڑ کر اخلاص پیدا کرو ۔ اور گناہگار مسلمانوں کے لئے اس کے معنی یہ ہوئے کہ گناہ سے باز آجاؤ اور مکمل فرمانبرداری اختیار کرو ۔ اور متقی مسلمانوں کے لئے اس خطاب کے معنی یہ ہوئے کہ اپنی اطاعت و عبادت پر ہمیشہ قائم رہو اور اس میں ترقی کی کوشش کرو ۔۔ 
 ( روح البیان ) 
اس آیۃ میں "خَلَقَکُم "  ( اس نے تمہیں پیدا کیا ) کے ساتھ الَّذِینَ مِن قَبْلِکُم  ( اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ) کا اضافہ کر کے یہ بات واضح کر دی کہ تم اور تمہارے آباء و اجداد یعنی تمام نوع انسانی کا خالق صرف الله تعالی ہی ہے ۔ صرف تم سے پہلے لوگوں کا ذکر فرمایا ۔ بعد میں پیدا ہونے والے لوگوں کا ذکر نہیں کیا ۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امت محمدیہ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسری امت یا ملت نہیں ہو گی ۔ کیونکہ " خاتم النبیین " کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور نہ ہی کوئی نئی امت ہو گی ۔ 
آخر میں فرما دیا کہ دنیا میں گُمراہی اور آخرت میں عذاب سے نجات پانے کی امید صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ توحید کو اختیار کرو اور  شرک سے باز آ جاؤ ۔۔
مأخذ ۔۔۔ معارف القرآن 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں