نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

. کلام الله کی سچائی کا دعوٰی.

   وَإِن   ۔ كُنتُمْ    ۔ فِي     ۔ رَيْبٍ        ۔ مِّمَّا           ۔ نَزَّلْنَا    ۔ عَلَى      ۔ عَبْدِنَا 
اور اگر ۔ تم ہو ۔     میں     ۔ شک ۔ اس میں جو ۔ اتارا  ہم نے ۔    پر۔ ۔ ہمارا بندہ ۔ 
فَأْتُوا۔        بِسُورَةٍ       ۔ مِّن         ۔ مِّثْلِهِ۔    ۔  وَادْعُوا۔         شُهَدَاءَكُم 
پس تم لے آؤ ۔ ایک سورۃ ۔ سے ۔ اس جیسی  ۔ اور تم بلاؤ ۔ اپنے مددگار 
مِّن      ۔ دُونِ      ۔ اللَّهِ         ۔ إِن    ۔ كُنتُمْ     ۔ صَادِقِينَ   2️⃣3️⃣
سے ۔    علاوہ   ۔ الله تعالی   ۔ اگر    ۔ تم ہو ۔      سچے            ۔ 
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔ 2⃣3️⃣
 اور اگر تم کو شک ہے اس کلام پر جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو تم اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ اور الله تعالی کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بھی بُلا لو اگر تم سچے ہو ۔ 

نَزَّلْنَا ۔ ( ہم نے اُتارا ) تنزیل سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں کسی چیز کا اوپر سے اُتارنا ۔ اس جگہ قُرآن مجید مراد ہے ۔ جو جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے الله تعالی کی طرف سے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم پر رفتہ رفتہ اُتارا گیا ۔ 
مِثْلِه ۔ ( اس جیسا ) اس میں قرآن مجید کی لفظی اور معنوی دونوں خوبیوں کی طرف اشارہ ہے ۔
 عبارت ایسی ہے کہ جسے ہر ایک سمجھ لے اور مطلب پورا پورا اور صاف صاف خوبصورتی سے بیان ہوا ہے ۔ قرآن مجید کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مرد اور عورت کو زندگی بسر کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے۔ جس پر چل کر وہ اس دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہو ۔ اگر قرآن مجید کے منکر کو شک ہے کہ یہ الله تعالی کا کلام نہیں ۔ انسانی زبان ہے تو کوئی ایک سورۃ ہی ایسی بنا لائے  جس میں یہ دونوں خوبیاں ہوں ۔ ۔ نہیں تو اسے ماننا پڑے گا کہ قرآن مجید الله تعالی کا کلام ہے ۔ اور کوئی آدمی بلکہ سارے آدمی مل کر ایسی کتاب نہیں بنا سکتے ۔ 
شُھَدَاءَکُمْ۔ ( اپنے مددگار ) ۔ یہ لفظ شھید کی جمع ہے ۔ اس کے معنی ہیں باخبر ۔ یہاں اس سے مراد ہے قرآن مجید جیسی سورۃ بنانے میں مدد کرنے والا ۔ اس کے دوسرے مشہور معنی  گواہ  ہیں ۔ اگر یہاں گواہ مراد لیا جائے ۔ تو معنی یہ ہوں گے کہ کہ اُن لوگوں کو بلا لو جو تمہارے اس دعویٰ کی کہ تم نے کسی قرآنی سورۃ کا جواب لکھ لیا ہے ۔ تصدیق کر دیں  
 پچھلی ایتوں میں الله تعالی نے یہ بات بتائی تھی کہ تمام انسانوں کو پیدا کرنے والا اور قائم رکھنے والا وہی ہے اس لئے عبادت کے لائق وہی ہے ۔ اس کو ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کو  دلیل سے ثابت کر دیا جائے تاکہ لوگوں پر یہ ظاہر ہو جائے کہ قرآن مجید جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو عطا ہوا ۔ وہ  الله جل شانہ کی طرف سے ہے ۔ اسی وجہ سے توحید کے اعلان کے بعد رسالت کے اقرار کی دعوت دی گئی  ۔ اور لوگوں سے کہا گیا کہ اگر وہ نبی صلی الله علیہ وسم کی سچائی میں شک کرتے ہیں اور اگر انہیں یہ گمان ہے کہ یہ قرآن نعوذ بالله۔ الله تعالی کی طرف سے نہیں ہے تو اس جیسا کلام پیش کر کے دکھائیں ۔ اسلام کی ساری مخالف قوتیں اور ان کے علماء آج تک ایسا نہیں کر سکے ۔ نہ آئندہ کر سکیں گے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...