نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

منافقوں کا روگ ۔۔۔

فِي  ۔ قُلُوبِهِم      ۔ مَّرَضٌ  ۔         فَزَادَ ۔           هُمُ      ۔ اللَّهُ  ۔  مَرَضًا  ۔         وَلَهُمْ  ۔      عَذَابٌ  ۔ 
میں ۔ اُن کے دل ۔ بیماری ۔ پس زیادہ کر دیا ۔ اُن کو ۔ الله تعالی ۔  بیماری ۔ اور ان کے لئے ۔ عذاب ۔ 
أَلِيمٌ  ۔ بِمَا  ۔ كَانُوا  ۔ يَكْذِبُونَ.   1️⃣0️⃣
درد ناک ۔  کیونکہ ۔ وہ تھے    ۔ جھوٹ بولتے  ۔ 

فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ۔   1️⃣0️⃣
اُن کے دلوں میں بیماری ہے ۔ سو الله تعالی نے اُن کی بیماری بڑھا دی ۔ اور اُن کے لئے درد ناک عذاب ہے کیونکہ وہ جھوٹ کہتے ہیں ۔ 

مَرَضٌ ۔۔۔ بیماری ۔ بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ جسمانی اور روحانی ۔ جسمانی بیماری سے بدن میں نقص ، خرابی یا درد پیدا ہوتا ہے ۔ اور روحانی بیماری سے اخلاق بگڑتے ہیں ۔ اور روح کو روگ لگ جاتا ہے ۔ یہاں کفر ونفاق کی روحانی بیماریوں کا ذکر ہے ۔ کیونکہ یہ انسان کے نیک کاموں اور اُخروی زندگی کے سنوارنے میں رُکاوٹ ڈالتی ہیں ۔ یہاں مرض کے معنی نفس کے ایسے روگ ہیں جو اس کے کمالات حاصل کرنے میں رُکاوٹ ڈالے ۔ مثلاً جہالت ، حسد ، کینہ ، دُنیا کی محبت اور جھوٹ وغیرہ ۔ 
فَ ۔۔۔  سو ۔ یہ حرف اشارہ کرتا ہے کہ آگے جو ذکر ہوگا ۔ وہ ان بیماریوں کا نتیجہ یا پھل ہوگا ۔ 
 زَادَ ۔۔۔ بڑھا دیا ۔ یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اور زیادہ ترقی اور فتح دے کر ان کے حسد کو بڑھا دیا ۔ اُن کے دل میں اسلام سے دشمنی کا  روگ اور زیادہ بڑھ گیا ۔ 
اَلِیْمٌ ۔۔۔ دردناک ۔ یہ لفظ  الم۔ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں درد ۔ کافروں کے لئے " عذابِ عظیم " کی سزا ہو گی ۔ لیکن مُنافق چونکہ کافر ہونے کے ساتھ ساتھ دھوکے باز اور جھوٹے  بھی ہیں اس لئے اُن پر " عذاب ِ الیم " کی سزا ہو گی ۔ 
یَکْذِبُوْنَ ۔۔۔ جھوٹ کہتے ہیں ۔ یہ لفظ کذب سے بنا ہے ۔ اس کے معنی جھوٹ کے ہیں ۔ جھوٹ اس خبر کو کہتے ہیں جو حقیقت کے خلاف اور لوگوں کے لئے نقصان دہ ہو ۔ 
 اس آیہ میں منافقوں کے طور طریقوں کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ ان کے اندر کفر اور نفاق کی بیماری ہے ۔ جو انھوں نے خود اپنے ہاتھوں پیدا کر رکھی ہے ۔ اور جیسے جیسے اسلام اور مسلمانوں کو کامیابی اور ترقی حاصل ہوتی جاتی ہے ۔ ان کے حسد اور کینے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ 
فَزَادَھُمُ اللهُ مَرَضاً ۔۔۔ ( سو الله نے ان کے مرض میں اضافہ کر دیا ) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ الله تعالی نے ازخود ان کے کفر و نفاق کو بڑھا دیا ۔ بلکہ اس سے مراد یہی ہے کہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے جلتے ہیں ۔اور الله تعالی یہ ترقی دیتا  جاتا ہے ۔ ہر وقت اس کا مشاہدہ ہوتا ہے  ۔ اور دن رات اس فکر میں بھی رہتے ہیں کہ ان کی جلن لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے ۔ اور اس جلن کا لازمی نتیجہ حسد ہے اور وہ اس حسد اور جلن کو ظاہر بھی نہیں کرسکتے اس وجہ سے جسمانی مرض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح جسمانی بیماریوں کا نتیجہ جسمانی قوت کا کم ہو جانا ہے ۔ اسی طرح روحانی بیماریوں کا نتیجہ دوسرے جہان میں دردناک عذاب ہے ۔ 
الله تعالی ہمیں ہرطرح کی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھے ۔ 
درس قرآن  ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...