نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

🌺🍀🌺حدیث ِ جبرائیل علیہ السلا 🌺🍀🌺

💐 حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد ایک دن آنحضرت صحابہؓ  کرام کے درمیان مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے ،  حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ اچانک ایک اجنبی حاضر ہوا ،  اس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بے حد سیاہ تھے ،  لباس سے خوشبو کی مہک آرہی تھی ،  اجنبی ہونے کے باوجود اس پر سفر کے کچھ آثار نہ تھے ،  ہم میں سے کوئی اس نووارد کو جانتا نہیں تھا،  وہ آپ کے قریب نہایت ادب سے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور گھٹنے حضورکے گھٹنوں سے ملا دئیے ،اس شخص نے دریافت کیا …  ائے محمد !  اسلام کیا ہے ؟ 

حضور نے فرمایا : 

  اسلام یہ ہے کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کر و ،  زکوٰۃ ادا کرو،  رمضان کے روزے رکھو اور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت ہے تو حج کرو،   نووارد نے جواب سن کر کہا ،   آپ نے سچ کہا ،اس نے پھر پوچھا …   مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ 

فرمایا : 

ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو ‘ اس کے فرشتوں کو ‘ اس کی کتاب کو ‘ اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو ،  یہ سن کر بھی اس نے کہا کہ آپ نے سچ کہا،   

حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور خود ہی اس کی تصدیق کرتا ہے،   پھر اس نے پوچھا …  احسان کس چیز کا نام ہے ؟ 

فرمایا : احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسی دل لگاکر کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ خیال رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ،اس نے سوال کیا …  قیامت کب آئے گی  ؟فرمایا :  جس سے یہ بات پوچھی جا رہی ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ، عرض کیا:   تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے ، فرمایا :   میں تمہیں اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں ،

(۱)  جب لونڈی اپنے آقا اور مالک کو جنے گی

(۲)  تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے،  

صحیح بخاری کے بموجب قیامت غیب کی ان پانچ باتوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،  پھر آنحضرت  نے سورۂ لقمان کی آیت نمبر ۳۴ تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے : 

 اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی (حاملہ کے ) پیٹ کی چیز وں جانتا ہے (نر ہے یا مادہ ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس سر زمین میں اُسے موت آئے گی،  بے شک اللہ ہی جاننے والا ہے،  خبر دار ہے 

 (سورۂ لقمان :  ۳۴ )

پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا ،  رسول اللہ  نے فرمایا!   اس کو پھر لے آؤ ،  لوگوں نے جاکر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا ،  

حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کو کچھ عرصہ بیت گیا،  ایک دن حضورنے فرمایا:  ائے عمر…  کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ شخص جو سوالات کر رہا تھا کون تھا ؟ 

حضرت عمرؓ نے عرض کیا : اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ،  فرمایا:وہ جبرئیل ؑ تھے تمہاری مجلس میں اس لئے آئے تھے کہ تمہیں تمہارا دین سکھائیں ،یہ بہت مشہور حدیث ہے جو عام طور پر حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور  ہے ،  اسے اُم الاحادیث  بھی کہا جاتا ہے ،  اسے حیات طیبہ کی ۲۳ سالہ جد وجہد کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے ،  یہ واقعہ تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد اس وقت ہوا جبکہ اس دنیا میں آپ کی عمر مبارک میں صرف تین دن باقی رہ گئے تھے،  

حضور نے فرمایا کہ میں جبرئیل کو ہر شکل میں پہچان لیتا ہوں لیکن اس دفعہ نہ پہچان سکا کیونکہ وہ ایک بدو سائل کے بھیس میں آئے تھے،  امین وحی نہیں بلکہ ملائکہ کے نمائندہ بن کر آئے تھے،  میں نے انھیں افق اور سدرۃالمنتہیٰ پر ہیت اصلی میں بھی دیکھا،  یہ موقع عینی مخلوق کی نمائندگی کا تھا لہٰذا پردہ بعد میں اٹھا ،  دین مکمل ہوگیا ،  اب قیامت تک اس میں نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ بیشی ،  زمین وآسمان کی مخلوق نے گواہی دی.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...