منافقوں کی بے عقلی ۔۔۔

وَإِذَا ۔         قِيلَ  ۔       لَهُمْ     ۔  آمِنُوا ۔       كَمَا  ۔      آمَنَ    ۔ النَّاسُ     ۔ قَالُوا      ۔ أَ ۔             نُؤْمِنُ  ۔ 
اور جب ۔ کہا جاتا ہے ۔ ان سے ۔ ایمان لاؤ ۔ جیسے ۔ ایمان لائے ۔ لوگ ۔ وہ کہتے ہیں ۔ کیا ۔ ہم ایمان لائیں ۔

كَمَا       ۔ آمَنَ  ۔    السُّفَهَاءُ    ۔ أَلَا       ۔ إِنَّهُمْ      ۔ هُمُ  ۔   السُّفَهَاءُ ۔     وَلَكِن  ۔  لَّا  ۔     يَعْلَمُونَ 1️⃣3️⃣
جیسے ۔ ایمان لائے ۔ بے وقوف ۔ خبردار ۔ بے شک وہ ۔ وہ ہی ۔ بےوقوف ۔ اور لیکن ۔ نہیں ۔ وہ علم رکھتے ۔ 

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِن لَّا يَعْلَمُونَ.  1️⃣3️⃣
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے ۔ کہ ایمان لے آؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں ۔تو کہتے ہیں کہ کیا ہم ایمان لے آئیں جیسے بےوقوف ایمان لائے ہیں ۔ سُن رکھو کہ خود وہی لوگ بے وقوف ہیں ۔ لیکن وہ نہیں جانتے ۔ 

اَلنَّاس : لوگ ۔ الف لام کے لگنے سے یہ لفظ خاص انسانوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ یعنی وہ لوگ جو دل سے صحیح معنوں میں ایمان لائے ۔ اور دو رُخی چال نہ چلے ۔ 
اس  آیۃ میں منافقین کے سامنے صحیح ایمان کا ایک معیار رکھا گیا ہے ۔ " اٰمِنُوا کَمَا اٰمَنَ النَّاسُ " یعنی ایمان لاؤ جیسے ایمان لائے اور لوگ ۔ مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  اس میں لفظ ناس سے مراد صحابہ کرام ہیں ۔ کیونکہ وہی حضرات ہیں جو قرآن مجید نازل ہونے کے وقت ایمان لائے تھے ۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ الله تعالی کے نزدیک وہی ایمان معتبر ہے جو صحابہ کرام کے ایمان کی طرح ہو ۔ جن چیزوں میں جس کیفیت کے ساتھ ان کا ایمان ہے ۔ اسی طرح کا ایمان دوسروں کا ہو گا تو اسے ایمان کہا جائے گا ورنہ نہیں ۔ صحابہ کرام رضوان الله علیھم کا ایمان ایک کسوٹی ہے ۔ ایک پیمانہ ہے ۔ جس پر باقی ساری امت کے ایمان کو پرکھا جائے گا ۔ جو اس پیمانے پر پورا نہ اُترے اسے شرعاً مومن نہ کہا جائے گا ۔ اس بات کے خلاف کوئی عقیدہ اور عمل اگرچہ وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو  اور کتنی ہی نیک نیتی سے کیا جائے الله تعالی کے نزدیک قابل اعتبار نہ ہو گا ۔ 
 ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے والے یعنی صحابہ کرام کو بے وقوف کہا ۔ اور یہی ہر زمانے کے گمراہوں کا طریقہ ہے ۔ کہ جو ان کو سیدھی راہ دکھلائے اسے بے وقوف اور جاہل قرار دے دیتے ہیں ۔ لیکن قرآن مجید میں الله تعالی نے بتا دیا کہ حقیقت میں یہ خود بے وقوف ہیں کہ اتنی کُھلی اور واضح نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے 
السُّفَھَآءُ ۔ بے وقوف لوگ ۔ یہ سفیه کی جمع ہے ۔ جو لفظ سفه سے نکلا ہے اس کے معنی ہیں ہلکا پن  چونکہ بے وقوفی عقل میں ہلکا پن اور کمی ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس لئے لفظ کا استعمال بے وقوفی اور حماقت کے لئے ہوتا ہے 
اس آیہ میں منافقوں کی ایک اور عادت کا ذکر ہے ۔ ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اسلام پر صدق وخلوص کے ساتھ سچے مسلمانوں کی طرح سے ایمان لاؤ ۔ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں ۔ گویا اُن کے خیال میں ایمان لانے والے بے وقوف ہیں ۔ کہ وہ کفر کے ایک طاقتور گروہ کے مقابلے میں حق بات کو غالب کرنا چاہتے ہیں ۔ جو منافقوں کے نزدیک بالکل نا ممکن ہے ۔ مدینہ منورہ کے کافر اپنی قوت اور طاقت کے بل بوتے پر بہت مغرور تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ ان کے مقابلے میں اجنبی اور غریب الوطن مسلمان نہیں ٹھر سکیں گے ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اسلام چند روز کا کھیل ہے ۔جو خود بخود ختم ہو جائے گا ۔ اس لئے جو لوگ اس میں داخل ہورھے ہیں ۔ وہ انجام سے غافل اور اپنے نفع سے لاپرواہ ہیں ۔ 
اُن کے اس قول کے جواب میں الله تعالی فرماتا ہے کہ یہی لوگ احمق اور بے وقوف ہیں ۔ کیونکہ راستبازی اور سچائی آخر غالب آکر رہتی ہے ۔ اور دھوکا دینے والے منافق ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ منافقین کا آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ۔ اس لئے کہ آخرت پر ایمان رکھنے کے لئے بہت زیادہ دور اندیشی کی ضرورت ہے ۔ آخرت کو ماننے سے اس دنیا کے عیش وعشرت کو ہمیشہ کی زندگی کے آرام کے لئے کسی قدر چھوڑنا پڑتا ہے ۔ منافق عاقبت کا خیال نہیں کرتے ۔ وہ اپنے ابدی نفع ونقصان سے غافل رہتے ہیں ۔ اس لئے وہی بے وقوف اور  احمق ہیں ۔ 
مأخذ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں