نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

🌺۔۔۔۔کلام الله کا چیلنج ۔۔۔🌺

قرآن مجید اپنی صداقت کی خود دلیل ہے ۔ کلام الله کا دعوٰی ہے ۔ اگر انکار کرنے والے منکر اسے الله جل شانہ کا کلام نہیں سمجھتے تو اس جیسا کلام بنا کر پیش کریں ۔ اگر قرآن مجید کسی انسان کا بنایا ہوا ہے ۔ یا نعوذ بالله رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے ۔ تو یقیناً۔ وہ بھی ایسا کلام بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے ۔ 
 الله تعالی نے ایک جگہ فرمایا ۔ تم قرآن مجید جیسی دس  سورتیں بنا لاؤ ۔ دوسری جگہ فرمایا تین ہی لکھ لاؤ ۔ یہاں فرمایا اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک آیۃ ہی بنا کر پیش کر دو ۔ بے شک اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کرکے کوشش کر دیکھو ۔  شرط صرف ایک ہے کہ تمھارے کلام میں وہ تمام لفظی اور معنوی خوبیاں ہوں ۔ جو الله تعالی کے کلام میں موجود ہیں اور تمھارا کلام انسانی زندگی پر ایسا ہی اثر کرنے والا ہو ۔ جیسے قرآن مجید کی سورتیں ہیں ۔ 
 اسلام سے پہلے عرب قوم دُنیا کی دوسری قوموں سے اکثر باتوں میں پیچھے تھی ۔ اخلاقی اعتبار سے وہ انسانیت کا جوھر کھو چکی تھی ۔ معاشرتی اور معاشی زندگی میں عرب بہت زیادہ پیچھے تھے ۔ سیاسی شعور انیہں بالکل حاصل نہ تھا ۔ مذھب اور دین کے تصور سے وہ فارغ تھے ۔ وہ بہادر ضرور تھے لیکن جہالت اور تعصب نے انہیں اُجڈ اور ظالم بنا دیا تھا ۔ 
الله تعالی نے اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کو یہ کلام دیا اور اس کے ذریعے یہی قوم دنیا کی پیشواء بن گئی ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم خود کسی استاد سے نہ پڑھے تھے ۔ وہ لکھنے پڑھنے سے قطعاً نا آشنا تھے ۔ انہیں دنیا کے کسی بیرونی خطّے کے حالات بھی معلوم نہ تھے ۔ اُن کے ملک کے باشندے بھی اَن پڑھ تھے ۔ اور اُن لوگوں کو اپنے اُمّی ہونے پر ناز تھا ۔ 
کلام الله کو لے کر امّی نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی اَن پڑھ اور جاھل قوم کو ترقی اور کمال کی جن بُلندیوں پر پہنچایا ۔ تاریخِ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ یہی عرب اس کلام کے ذریعے اخلاق ، روحانیت ، معاشرت ، معیشت ، سیاست ، حکومت ، مذھب غرض زندگی کے ہر شعبے میں دُنیا کی قوموں کے امام بن گئے ۔ 
قرآن مجید نے ساری دُنیا کو اپنی مثال لانے کا چیلنج دیا تھا اور کوئی نہ لاسکا  نہ لاسکے گا ۔ آج بھی ہر مسلمان دنیا کے ماہر ین ِ علم وسیاست کو چیلنج کرکے کہہ سکتا ہے کہ پوری دُنیا کی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا دکھا دو کہ ایک بڑے سے بڑا ماہر ِ معاشیات و سیاسیات فلسفی کھڑا ہو اور ساری دنیا کے عقائد و نظریات اور رسم و عادات کے خلاف ایک نیا نظام پیش کرے اور پھر اسے نافذ کر کے بھی دکھائے اور اس کو قوم کی شدید مخالفت کے ساتھ  کامیاب بھی کرے ۔ ایساکرنا اور ہونا ناممکن ہے ۔ دُنیا کی پہلی تاریخ میں اگر اس کی کوئی مثال نہیں ملتی تو آج تو بڑی روشنی ، روشن خیالی اور ترقی اور تیزرفتاری کا زمانہ ہے ۔ آج کوئی کر کے دکھا دے ۔ اکیلا نہ کر سکے تو اپنی قوم بلکہ پوری دنیا کی اقوام کو ساتھ ملا کر اس کی مثال پیدا کر لے ۔ یہ قطعاً نا ممکن ہے کیونکہ یہ الله ربُّ العلمین کا وعدہ ہے ۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...