مُنافقوں کا تذ بذ ب اور منافقوں کو وعید ۔۔۔

يَكَادُ  ۔ الْبَرْقُ  ۔   يَخْطَفُ  ۔     أَبْصَارَهُمْ  ۔      كُلَّمَا ۔        أَضَاءَ            ۔ لَهُم
قریب ہے ۔ بجلی ۔    اُچک لے ۔ اُن کی بینائی ۔ جب بھی ۔ چمکتی ہے ۔ اُن کے لئے 
    مَّشَوْا        ۔ فِيهِ      ۔ وَإِذَا ۔      أَظْلَمَ ۔    عَلَيْهِمْ                    ۔ قَامُوا
وہ چلتے ہیں ۔ اس میں ۔ اور جب ۔ اندھیرا ہو ۔ اُن پر ۔ وہ کھڑے ہو جاتے ہیں 
 وَلَوْ       ۔ شَاءَ ۔         اللَّهُ         ۔ لَذَهَبَ                  ۔ بِسَمْعِهِمْ               ۔  وَأَبْصَارِهِمْ 
اور اگر ۔ وہ چاہے ۔ الله تعالی ۔ البتہ لے جائے ۔ اُن کی سماعت  ( کان ) ۔ اور اُن کی آنکھیں 
إِنَّ  ۔ اللَّهَ ۔  عَلَى  ۔ كُلِّ  ۔ شَيْءٍ ۔  قَدِيرٌ۔ 2️⃣0️⃣ع
بے شک ۔ الله تعالی ۔ پر ۔ ہر ۔ چیز ۔ قدرت رکھتا ہے 
يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ 2️⃣0️⃣ع 

قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائی کو اُچک لے وہ جب اُن پر چمکتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چلتے ہیں  اور جب ان پر اندھیرا ہو وہ کھڑے رہ جاتے ہیں ۔ اور اگر الله تعالی چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں لے جائے  بے شک الله جل شانہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ 

 یَخْطَفُ ۔ اُچک لے جائے ۔ ۔۔ اس سے مراد ہے آنکھوں کا چندھیا جانا ۔ یعنی اسلام کا غلبہ ، طاقت اور شوکت منافقوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے اور ان کے دلوں میں رُعب ڈالنے کے لئے کافی ہے ۔ 
اس آیت میں دوسری قسم کے منافقوں کا حال مزید تشریح اور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ پہلی آیت میں بارش کی مثال دے کر ان کے بارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ فائدوں کی طرف لپکتے ہیں ۔ لیکن فائدے حاصل کرنے کے لئے کچھ مشقت یا نقصان اٹھانا پڑے تو پیچھا دکھا جاتے ہیں ۔ 
بارش نوع ِ انسان کے لئے بہت سے فائدوں کا سبب بنتی ہے ۔ لیکن جب اس میں بادل کی کڑک اور بجلی کی چمک دیکھتے ہیں تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں ۔ اور اس سے بچنا چاہتے ہیں ۔ اور بارش کے فائدوں کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ اور یہ نہیں سمجھتے کہ فلاح اور بہتری کے لئے اگر کچھ قربانی دینی پڑے یا آزمائش میں مبتلا ہونا پڑے تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ 
منافقین اسلام کی کامیابیاں اور فتحمندیاں دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بڑھنے لگتے ہیں دراصل ان کے دل میں حق کی تلاش نہیں ہوتی ۔ صرف اسلام کے رعب اور شان وشوکت کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ اہل ایمان کو آزمائشیں اور مصیبتیں  پیش آنے لگی ہیں تو یہ انکار اور بے یقینی کی وجہ سے ٹھٹک کر رہ جاتے ہیں ۔ اور اسلام کیطرف اُن کے بڑھتے ہوئے قدم رُک جاتے ہیں ۔ گویا بجلی کے چمکنے کی طرح جب اسلام کی روشنی ان پر واضح ہو جاتی ہے تو مسلمان ہو جاتے ہیں ۔ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ۔ اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں ۔ لیکن جوں ہی اندھیرا ہو جاتا ہے یعنی انہیں تکلیفیں اور مصیبتیں پیش آنے لگتی ہیں تو پھر ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔ اور واپس کفر کی طرف لَوٹ جاتے ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ سکھ اور دُکھ ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں ۔ اگر ہم الله تعالی کی راہ میں جان مال اور اولاد کی قربانی کریں تو یقینا اس کے بدلے میں کامیابی اور فلاح نصیب ہو گی ۔ یہ طریقہ ہرگز درست نہیں کہ فائدے کی طرف تو ہم دوڑیں ۔ مگر آزمائش کے وقت ہم پیچھے ہٹ جائیں ۔ الله تعالی کو یہ بات پسند نہیں 
 اس رکوع کی ابتداء سے منافقوں کا بیان شروع ہوا تھا جو یہاں ختم ہو جاتا ہے ۔ الله تعالی نے انسان کو دیکھنے اور سننے کی قوتیں بخشی ہیں ۔ لیکن منافقوں نے یہ قوتیں صرف دنیا کے عارضی فائدے جمع کرنے اور نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے میں استعمال کر دیں ۔ حق کی آواز سننے اور الله تعالی کی نشانیاں دیکھنے سے اپنے کانوں اور آنکھوں کو بالکل بند کر لیا ۔ انہوں نے اپنی قوتو ں کو غلط جگہ خرچ کیا  ۔ 
اب الله تعالی انہیں خبردار کرتا ہے کہ اگر وہ اس غلط روش سے باز نہ آئے تو ان سے یہ قوتیں چھین لی جائیں گی ۔ منافق اگرچہ موت کے خوف سے بجلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔ وہ کڑک اور گرج کی آواز سُن کر کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں کہ کہیں مر نہ جائیں ۔ الله تعالی ان کی آنکھوں کی بینائی اور کانوں کی سننے کی قوت چھین بھی سکتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بچانے کی کوشش کریں ۔ 
انسان کو تمام قوتیں الله تعالی نے عطا کی ہیں ۔ لیکن جب وہ انہیں اسُ کے حکم کے مطابق استعمال نہیں کرتا تو اسے ڈرتے رہنا چاہئے کہ الله تعالی کہیں چھین نہ لے ۔ اگر وہ چھیننے میں کچھ دیر کرے تو نڈر نہ ہو جانا چاہئیے کیونکہ سزاء ملنے میں دیر بھی ہو سکتی ہے ۔ ممکن ہے یہ دیر ڈھیل دینے کے لئے ہو یا اُس کی رحمت کی وجہ سے ہو ۔ 
انسان کی آنکھیں اور کان موجود ہوتے ہوئے بھی الله تعالی کی مرضی اور حکم کے بغیر کام نہیں کر سکتے ۔ اگر وہ چاہے تو انسان کو اعضاء سے کام لینے کی قوتوں سے محروم کر سکتا ہے ۔ کہ آنکھ کے ہوتے ہوئے بھی نہ دیکھ سکے اور کان ہوتے ہوئے بھی نہ سُن سکے ۔ اور یہ بات اُس کی قدرت سے باہر نہیں ۔ اس نے عالم کے انتظام کے لئے قائدے ، وقت اور سبب مقرر کر رکھے ہیں ۔ وہ دُنیا کے تمام کافروں منکروں اور منافقوں کو فوراً ہلاک کر سکتا ہے ۔ لیکن مقررہ قاعدوں کے مطابق انہیں ڈھیل مل جاتی ہے ۔ تاکہ وہ باز آ جائیں ۔ اگر وہ باز نہ آئیں تو اس کا غضب ان پر یوں آ پڑتا ہے کہ انہیں اس کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ۔ چنانچہ اکثر منافقوں کا حال عبرت ناک ہی ہوا ۔ 
الله جل شانہ اپنی رحمت کریمہ سے ہمیں کفر ، شرک اور منافقت سے محفوظ رکھے 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں