منافقوں کی مفسدانہ چالیں ۔۔۔۔

وَإِذَا ۔       قِيلَ  ۔      لَهُمْ      ۔ لَا       ۔ تُفْسِدُوا     ۔ فِي  ۔ الْأَرْضِ    ۔ قَالُوا ۔       إِنَّمَا ۔     نَحْنُ  ۔     مُصْلِحُونَ 1️⃣1️⃣
اور جب ۔ کہا جاتا ہے ۔ اُن سے ۔ نہ ۔ تم فساد پھیلاؤ ۔ میں ۔ زمین ۔ وہ کہتے ہیں ۔ بے شک  ۔ ہم ۔ اصلاح کرنے والے ہیں ۔ 
أَلَا        ۔ إِنَّهُمْ ۔  هُمُ     ۔ الْمُفْسِدُونَ ۔             وَلَكِن ۔  لَّا     ۔ يَشْعُرُونَ.  1️⃣2️⃣
خبر دار ۔ یہی لوگ ۔ وہ ۔ فساد کرنے والے ہیں ۔ ۔ اور لیکن ۔ نہیں ۔       سمجھ رکھتے     

   وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ۔  1️⃣1️⃣

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ۔     1️⃣2️⃣
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے ۔ کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ  تو کہتے ہیں بلا شبہ ہم اصلاح کر رہے ہیں ۔ سُن رکھو یہی لوگ فسادی ہیں لیکن وہ احساس نہیں رکھتے ۔ 

لا تُفْسِدُوْا ۔۔۔ مت فساد پھیلاؤ ۔ یہ لفظ فساد سے بنا ہے ۔ اس کا معنی ہے مزاج کا بگڑ جانا ۔ یہاں فساد سے مراد  اسلامی نظام میں خلل ڈالنے والے گناہ ہیں ۔ جب یہ حالات عام ہو جاتے ہیں تو دُنیا کے امن اور کائنات کے نظام میں رُکاوٹ آجاتی ہے ۔ اسلام کی رُو سے فساد بہت بڑا جرم ہے ۔ 
 مُصْلِحُوْنَ ۔۔۔ اصلاح کرنے والے ۔ یہ لفظ صلاح سے نکلا ہے ۔ یہ فساد کا اُلٹ ہے ۔ فساد میں اسلامی نظام بگڑتا ہے ۔ اصلاح سے اسلامی  نظام سنورتا ہے ۔ 
 اس آیہ میں منافقوں کی ایک اور بدترین چال کو واضح کیا گیا ہے ۔ قانونِ الٰہی کے علاوہ کسی اور غلط طریقے پر قائم رہنا  اور اس کو پھیلانا کون سا کم جرم تھا کہ یہ منافق بد نظمی پیدا کرنے اور فساد پھیلانے میں بھی لگ گئے ۔ چھپ چھپ کر سازشیں کرنا ، دوست بن کر دشمنی کرنا اُن کی عادت ہوگئ ۔ منافقوں پر دلی بیماری اس قدر غالب آگئی کہ ان کو نیک اور بد میں تمیز نہ رہی ۔  جب ان سے کہا جاتا ہے اپنے ان طور طریقوں سے ملک میں فساد نہ پھیلاؤ ۔ تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح اور بھلائی کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ حقیقتاً مفسد ہیں ۔ بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا فساد ہو سکتا ہے کہ ان کے منافقانہ طور طریقوں سے کافر تو یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسلام میں کوئی خوبی نہیں ۔ کہ یہ منافق اسلام میں داخل ہو کر بھی گناہوں میں مبتلا ہیں ۔ دوسری طرف مسلمانوں کو دھوکا دے کر ورغلاتے ہیں ۔ اسلام کا دعوٰی کرتے ہوئے الله تعالی کاخوف دل میں نہیں رکھتے ۔ ان کی اس روش سے دوسروں کے دلوں سے بھی خوف مٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔  ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان کا فساد اصلاح ہے اور خود یہ مصلح ہیں ۔ الله تعالی صاف صاف فرما رہا ہے کہ فساد اور اصلاح زبانی دعووں سے نہیں ثابت ہوتے ۔ بلکہ اس کا دارومدار اس کام پر ہے جو کیا جا رہا ہے ۔ فساد کرنے والے کو فسادی ہی کہیں گے اگرچہ اس کی نیت فساد کی نہ ہو ۔ ورنہ تو چور ڈاکو بھی اپنے آپ کو فسادی کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ 
خلاصہ یہ ہوا کہ سچائی سے لوگوں میں آپس میں سلوک پیدا ہوتا ہے جو دُنیا میں اصلاح کی وجہ بنتا ہے ۔ اور منافقت سے دنیا کے انتظام میں خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ جب انسان اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے ۔ اور اپنی کمزوری کو نہیں سمجھتا تو تباہ ہو جاتا ہے اور اس کا شعور اور احساس ختم ہو جاتا ہے ۔ 
مأخذ 
 درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں