شرک کی ممانعت ۔۔۔

الَّذِي     ۔جَعَلَ             ۔لَكُمُ     ۔ الْأَرْضَ    ۔ فِرَاشًا      ۔وَالسَّمَاءَ              بِنَاءً
 وہ ۔ اس نے بنایا ۔ تمہارے لئے ۔  زمین ۔      فرش ۔     اور آسمان       ۔ چھت 
 وَأَنزَلَ     ۔ مِنَ           ۔ السَّمَاءِ        ۔ مَاءً           ۔ فَأَخْرَجَ۔           ۔ بِهِ     مِنَ        الثَّمَرَاتِ    
اور اس نے اتارا  ۔ سے       ۔ آسمان    ۔ پانی  ۔ پھر نکالا اس نے ۔  اس سے ۔ سے ۔         پھل  
رِزْقًا                    ۔ لَّكُمْ۔        ۔   
روزی                  ۔ تمہارے لئے ۔ 
فَلَا     ۔    تَجْعَلُوا              ۔  لِلَّهِ         أَندَادًا۔     وَأَنتُمْ         تَعْلَمُونَ۔       2⃣2⃣    
پس نہ ۔ تم بناؤ   ۔ الله تعالی کے لئے ۔ مقابل  ۔ اور تم     ۔ تم جانتے ہو ۔          ۔
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ 
فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔  2️⃣2️⃣
جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنا دیا اور آسمان سے پانی اتارا ۔ پھر اس سےتمہارے رزق کے لئے مختلف پھل نکالے ۔ پس نہ مقرر کرو الله کے لئے شریک اور تم جانتے ہو ۔ 

فِرَاشاً ۔۔۔ ( فرش ) وہ چیز جو بچھا دی گئی ہو ۔ یا ایسی ٹھوس اور ہموار چیز جس پر ہم قدم رکھ سکتے ہوں  اور چل پھر سکتے ہوں ۔ ہموار ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مستطیل یا مربع ہو بلکہ ایک بڑی گول شکل بھی فرش کا کام دے دیتی ہے ۔
اَنْدَاداً ۔۔ ( مقابل ) یہ لفظ  نِدّ کی جمع ہے ۔ جو عربی میں مثل اور مشابہ کے معنوں میں بھی آتا ہے ،  مخالف اور مدِّ مقابل کے معنوں میں بھی چنانچہ انداداً کے معنی مخالف اور موافق دونوں ہو سکتے ہیں 
پہلی آیت میں رب کی یہ پہچان بتائی گئی کہ اس کو اپنا اور اپنے سے پہلوں کا پیدا کرنے والا مانا جائے ۔ اس آیت میں کچھ اور نشانیاں بیان کی گئی ہیں ۔ چونکہ الله جل شانہ کی پیدا کرنے والی صفت زمین کے اندر یا ماں کے پیٹ کے اندر کام کرتی ہے ۔ اور آدمی کو نظر نہیں آتی اس لئے دوسری صفات جو بہت واضح ہیں بیان کی جاتی ہیں تاکہ اُن پر ہر چھوٹا بڑا آدمی غور کر سکے۔ انسان کی زندگی کو باقی اور قائم رکھنا اس کے اسباب مہیا کرنا اور انسان کی زندگی کو آہستہ آہستہ اس کی ترقی کے آخری درجے تک پہنچا دینا صرف اس کے رب کا کام ہے ۔  اس سے پہلی آیت میں اُن نعمتوں کا ذکر ہے جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں  یعنی  " انفسی " اور اس آیت میں ان نعمتوں کا بیان ہے جو انسان کے گردو پیش کی چیزوں سے متعلق ہیں یعنی " آفاقی " ۔ 
سب سے پہلی نعمت زمین ہے جس پر ہم رہتے اور چلتے پھرتے ہیں ۔ یہ الله تعالی بچھایا ہوا فرش ہے جو نہ تو اتنا نرم ہے کہ اس پر قرار نہ پکڑا جا سکے اور نہ اتنا سخت کہ ہم اپنی ضرورت کے مطابق اسے استعمال نہ کر سکیں ۔ 
 دوسری نعمت ہے آسمان جس کو الله تعالی نے خیمے کی طرح چھت بنا کر انسان کے سر پر کھڑا کر دیا ۔ اور اسے سجا سنوار دیا ۔ جس سے روشنی کا انتظام بھی خوب ہو رہا ہے ۔ 
تیسری نعمت یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسایا ۔ اور انسان کے روز مرہ کے کھانے کا بندوبست کیا ۔ بارش جس سے رنگا رنگ کے پھل وہی پیدا کرتا ہے جس کو انسان کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے ۔ اور اپنے مصرف میں لاتا ہے جس طرح زمین اور آسمان کی پیدائش اور بادل و بارش کے منظم طریقہ کار میں انسان کی کوشش اور محنت کا کوئی دخل نہیں ، اس طرح کھیتی اور درختوں کے پیدا ہونے اور ان سے پھل پھول نکلنے اور ان سے انسان کی غذا تیار ہونے میں بھی انسان کا کوئی حصہ نہیں ۔ دراصل یہ تمام کاروبار حق تعالی کی کامل قدرت کا نتیجہ ہے 
پس ثابت ہوا کہ انسان موجود ہونے میں بھی اور اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے بھی رب ہی کا محتاج ہے ۔ اس لئے چاہئیے کہ وہ اپنا معبود بھی اسی کو سمجھے اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس رب کا نام جس میں یہ تمام صفات موجود ہیں " الله " ہے ۔انسان کو چاہئیے کہ وہ الله تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائے ۔۔ الله تعالی نے خوب سمجھا کر اپنی نعمتوں اور بخششوں کو بیان کر کے اپنی عبادت کا حکم دیا ہے اور اپنی پہچان کا راستہ بھی بتا دیا ۔ تاکہ عبادت اس کو پہچان کر کی جائے ۔ بغیر پہچانے عبادت کرتے رہنے سے تقوٰی حاصل نہیں ہوتا ۔ 
 چنانچہ جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ انسان کو پیدا کرنا اور پھر اس کو باقی رکھنے اور ترقی دینے کے لئے تمام تر اسباب زمین ، آسمان ، بارش اور پھل و پھول مہیا کرنا صرف الله جل شانہ کا کام ہے تو اس بات پر یقین کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں کے عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے ۔ اور اس میں اس کے ساتھ کوئی شامل اور شریک نہیں ۔ الله تعالی نے انسان کو اپنی تمام مخلوق کا سردار  اس لئے بنایا کہ ساری کائنات اس کی خدمت کرے اور یہ صرف ربّ کائنات کی خدمت اور عبادت میں مشغول رہے اور کسی کی طرف نظر نہ کرے ۔ لیکن انسان کی بے وقوفی اور حماقت دیکھیئے کہ ایک الله کو چھوڑ کر ہزاروں معبود بنا لئے ۔ اسے غیروں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے اس آیت کے آخر میں الله تعالی نے فرمایا کہ  " تم اس الله کا شریک کسی کو نہ ٹھراؤ اور تم خوب جانتے ہو " ۔ 
*عقیدہ توحید*
 ان دونوں آیتوں میں اس چیز کی دعوت دی گئی ہے جو تمام آسمانی کتابوں کے اور تمام انبیاء علیھم السلام کے بھیجے جانے کا اصل مقصد ہے ۔ یعنی صرف ایک الله کی عبادت و بندگی کرنا جس کا نام توحید ہے ۔ 
اور یہ وہ انقلابی نظریہ ہے جو انسان کے تمام اعمال ، اسکے حالات ، اسکے اخلاق اور اس کے رہنے سہنے کے انداز پر اثر رکھتا ہے ۔ کیونکہ جو شخص یہ یقین کر لے کہ تمام عالم کا خالق و مالک اور ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا صرف اور صرف الله تعالی ہے اس کے حکم اور ارادے کے بغیر کوئی ذرّہ بھی حرکت نہیں کر سکتا اور نہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ تو اس کی پوری توجہ ہر مصیبت و آرام میں اور ہر تنگی اور فراخی میں صرف الله تعالی کی ذات کی طرف ہو جائے گی ۔ 
 عقیدہ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے یہ صرف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے ۔ جو انسان کی تمام مشکلات کاحل ، اور ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ اور ہر غم اور فکر میں اس کا غم خوار ہے ۔ جب یہ یقین کسی کے دل و دماغ پر  چھا جائے تو دنیا اس کے لئے جنت بن جائے گی ۔ سب جھگڑے ، فساد اور فساد کی جڑیں ختم ہو جائیں گی ۔ اس عقیدے کا مالک دنیا سے بے نیاز ، ہر خوف اور خطرے سے آزاد ہو کر زندگی گزارتا ہے 
کلمہ  *لَا اِلٰہَ اِلاَّ الله* جو کلمہ توحید ہے اس کا یہی مفہوم ہے ۔ اس کلمہ کے پڑھنے والے آج دنیا میں کڑوڑوں کی تعداد میں ہیں او ر اتنے اور کسی زمانے میں نہیں ہوئے ۔ لیکن عام طور پر یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے ۔ توحید کا رنگ ان میں رچا نہیں اور نہ ان کا بھی وہی حال ہوتا ہے جو پہلے بزرگوں کا تھا کہ بڑی سے بڑی قوت اور طاقت انہیں ڈرا نہیں سکتی تھی ۔ نہ کس قوم کی اکثریت اُن کو دھمکا سکتی تھی ۔ نہ کوئی بڑی سے بڑی دولت و سلطنت ان کے دلوں کو حق کے خلاف اپنی طرف جھکا سکتی تھی ۔ 
ایک پیغمبر علیہ السلام  کھڑا ہو کر ساری دنیا کو للکار کر کہہ دیتا تھا ۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ انبیاء علیھم السلام کے بعد صحابہ و تابعین جو تھوڑی سی مدت میں دنیا پر چھا گئے ان کی طاقت اور قوت اسی حقیقی توحید میں پوشیدہ تھی ۔ الله تعالی ہمیں اور سب مسلمانوں کو یہ دولت نصیب فر مائے ۔ 
مأخذ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں