نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

منافقوں کی دوسری مثال ۔۔ منافقوں کی بے بسی

   أَوْ  ۔  كَ ۔     صَيِّبٍ  ۔ مِّنَ  ۔ السَّمَاءِ  ۔     فِيهِ ۔      ظُلُمَاتٌ  ۔     وَرَعْدٌ       ۔ وَبَرْقٌ 
یا   ۔  جیسے۔   بارش ۔   سے ۔ آسمان ۔    اس میں ۔ اندھیرے ۔ اور گرج ۔ اور بجلی ۔ 

يَجْعَلُونَ  ۔       أَصَابِعَهُمْ ۔  فِي  ۔  آذَانِهِم  ۔ مِّنَ  ۔ الصَّوَاعِقِ  ۔ حَذَرَ  ۔ الْمَوْتِ ط 
وہ ڈالتے ہیں ۔   اپنی انگلیاں ۔  میں ۔ اپنے کان ۔ سے ۔    کڑک ۔       ڈر ۔      موت 

وَاللَّهُ ۔  مُحِيطٌ  ۔ بِالْكَافِرِينَ۔  1⃣9️⃣
اور الله تعالی ۔ احاطہ کرنے والا ہے ۔ کافروں کا 


أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ۔  1⃣9️⃣
یا ان کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہو ۔ اس میں اندھیرے گرج اور بجلی ہے ۔ وہ اپنے کانوں میں انگلیں ڈال لیتے ہیں کڑک کی وجہ سے موت کے ڈر سے اور الله تعالی کافروں کو ہر طرف سے گھرے ہوئے ہے ۔ 

صَیَّبٍ ۔ مینہ ۔ یہ لفظ صوب سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بادل یا بارش کا نازل ہونا ۔
السَّماء ۔ آسمان ۔ یہ لفظ سمو سے ہے ۔ اس کے معنی بلندی کے ہیں ۔ ہر بلندی والی چیز خواہ بادل ہو یا آسمان اسے سماء کہا جاتا ہے 
 مُحِیْطٌ ۔ احاطہ کئے ہوئے ۔ یہ لفظ احاطہ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چاروں طرف سے کسی چیز کو گھیر لینا ۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے ۔ کہ الله تعالی کافروں پر اپنی ذات ، علم اور قدرت ہر لحاظ سے محیط ( چھایا ہوا ) ہے ۔ 
 ہم پڑھ چکے ہیں کہ منافقوں کی دو قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو دل سے اسلام کے پکے دشمن ہیں ۔ لیکن ظاہری طور پر اپنے مسلمان ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں ۔ 
اس آیت میں دوسری قسم کے منافقوں کا ذکر ہے ۔ وہ اپنی طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے نہ تو پوری طرح اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور نہ اسے چھوڑتے ہیں ۔ بلکہ شک اور تذبذب میں غرق رہتے ہیں اور قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ اس قسم کے منافقوں کی مثال زور دار بارش سے دی گئی ہے ۔ اس میں بے شمار فائدے ہیں ۔ مُردہ زمین زندہ ہوتی ہے ۔ کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں ۔ ندی نالے بہنے لگتے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی دل کو لرزانے والی بادلوں کی کڑک اور آنکھوں کو چندھیانے والی بجلی کی چمک بھی ہوتی ہے ۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا بھی چھا جاتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود کوئی بارش کا دشمن نہیں ہوتا ۔ 
اسلام بھی بارش کی طرح سراسر رحمت بن کر آیا ۔ لیکن اس میں نماز ، روزہ ، حج ، زکٰوۃ ، جہاد اور احکامِ  خداوندی کی دوسری پابندیاں اور دشواریاں بھی ہیں ۔ منافق ان پابندیوں اور دشواریوں سے گھبراتے اور جی کتراتے ہیں ۔ اسلام کے فائدے دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑتے ہیں ۔ مگر جب قربانی کا وقت آتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ 
مسلمانوں کے ساتھ بیٹھیں اُن کے وعظ اور دعوت سُنیں ، اُن کی شان اور فتحمندی دیکھیں تو مرعُوب ہو کر اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن جب آزمائش اور امتحان سے واسطہ پڑتا ہے تو پھر کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ وہ مشقت اور موت سے ڈرتے ہیں ۔ 
ایت کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ الله تعالی ان منافقوں پر ہر طرح سے حاوی ہے ۔ وہ محض مشقت اور موت سے بچنے کی خاطر اسلام سے بھاگتے ہیں لیکن الله تعالی ان پر ہر قسم کا اختیار رکھتا ہے ۔ اس لئے موت سے کیسے بچ سکتے ہیں ۔ وہ تو انہیں گھروں میں بھی آ لے گی ۔ اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جھوٹی خواہشات اور نفسانی لذتوں کو چھوڑ دیں ۔ الله تعالی کے راستے میں جان ومال پیش کریں ۔ تکلیفیں اور مصیبتیں بھی جھیلیں ۔ 
وہ عذاب کی آیتیں سننا نہیں چاہتے ۔ اور کان دبا کر نکل جاتے ہیں لیکن وہ الله تعالی کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے ۔ قادرِمطلق کی گرفت سے اپنے آپ کو اس طرح بچانے کی کوشش محض حماقت اور کم عقلی کی دلیل ہے ۔ الله تعالی صرف انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اُن کے لئے سمجھنے کے موقعے پیدا کرتا ہے ۔ جب ان کی مہلت ختم ہو جائے گی تو پھر دُنیا کی کوئی طاقت اور اُن کا کوئی دوست انہیں الله تعالی کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا ۔ وہ ان کی تمام حرکات بلکہ سینوں کے بھیدوں کو بھی خوب جانتا ہے ۔ اور وہ ان پر قدرت کے لحاظ سے بھی حاوی ہے ۔ جس طرح کی بھی سزاء دینا چاہے ۔ اسے اس پر قدرت ہے ۔ 
 جس طرح بارش میں گرج چمک اور کڑک سب کچھ ہوتا ہے اسی طرح اسلام میں آزمائش کے طور پر محنت ، سختی ، غُربت اور تکلیف سب ہی کچھ ہو سکتا ہے ۔ مگر بدلے میں دونوں جہان کی کامیابی ہے ۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ ان عارضی مصیبتوں سے گھبرا کر اسلام سے دور نہ ہو جائے بلکہ پوری قوت اور طاقت سے اس پر جم جائے ۔ اور اپنی زندگی اسلام کے ساتھ وابستہ کر دے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...