مجاھدوں کی آزمائش ۔ آیہ ۔ 249۔ا

مجاھدوں کی آزمائش


فَلَمَّا ۔۔۔  فَصَلَ ۔۔۔  طَالُوتُ ۔۔۔۔۔۔  بِالْجُنُودِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  إِنَّ ۔۔ اللَّهَ 

پس جب ۔۔۔ نکلا ۔۔ طالوت ۔۔۔ لشکر کے ساتھ ۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔ بے شک ۔۔۔ الله 

مُبْتَلِيكُم ۔۔۔  بِنَهَرٍ۔۔۔۔۔  فَمَن ۔۔۔  شَرِبَ ۔۔۔  مِنْهُ ۔۔۔۔۔۔۔  فَلَيْسَ ۔۔۔  مِنِّي

آزمائے کا تم کو ۔۔۔ ایک نہر ۔۔۔ پس جو ۔۔ پیا ۔۔ اس سے ۔۔ پس نہیں ۔۔ میرا 

 وَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَّمْ يَطْعَمْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَإِنَّهُ ۔۔۔ مِنِّي ۔۔۔  إِلَّا ۔۔ مَنِ ۔۔۔ اغْتَرَفَ

اور جو ۔۔ نہیں پیا اس سے ۔۔۔ پس بے شک وہ ۔۔ میرا ۔۔ مگر ۔۔ جو ۔۔ بھرے 

 غُرْفَةً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِيَدِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَشَرِبُوا ۔۔۔  مِنْهُ ۔۔۔۔۔۔۔  إِلَّا ۔۔۔  قَلِيلًا ۔۔۔۔۔۔۔۔   مِّنْهُمْ 

ایک چلو ۔۔ اپنے ہاتھ سے ۔۔ پس پیا انہوں نے ۔۔۔ اس سے ۔۔۔ مگر ۔۔ تھوڑے ۔۔ ان میں سے 


فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ 


پھر جب طالوت فوجیں لے کر باہر نکلے کہا بے شک الله تعالی ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرتا ہے  سو جس نے اس نہر کا پانی پیا تو وہ میرا نہیں اور جس نے اسے نہ چکھا تو وہ بے شک میرا ہے مگر جو کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلّو بھرے  پھر سب نے پی لیا مگر ان میں سے تھوڑوں نے 


نَھَر( نہر ) ۔ ایک دریا جس سے اس لشکر کو گزرنا تھا ۔ اس کا نام دریائے اردن بیان کیا جاتا ہے ۔ شرق اردن کی ہاشمی حکومت کا نام بھی اسی دریا کی نسبت سے ہے ۔ یہ دریا شمال سے جنوب کو بہتا ہے اور بحیرہ مردار میں جا گرتا ہے ۔ 

مَنْ شَرِبَ مِنْہُ ( جس نے اس سے پی لیا ) ۔ مراد یہ ہے ۔ جس نے اس کا پانی جی بھر کے اور سیر ہو کر نوش کیا ۔ وہ میرا نافرمان شمار ہو گا اور میری جماعت سے خارج ہو جائے گا ۔ 

غُرْفَةً بِیَدِہ ( اپنے ہاتھ سے ایک چلّو ) ۔ یعنی پیاس بجھانے اور ہونٹوں کی خشکی دور کرنے کے لئے تھوڑا سا صرف چلو بھر پانی پی لینے کی اجازت ہوگی ۔ 

طالوت یہود کے لشکر کو جالوت کے مقابلے کے لئے لے کر چلے تو الله تعالی نے ان لوگوں کے لئے ایک آزمائش مقرر کی اور وہ یہ تھی کہ راستہ میں دریائے اردن کا پانی پیٹ بھر کر نہ پیئں ۔

الله تعالی کا کوئی حکم حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا ۔ ہر حکم اور ہر پابندی میں انسان کے لئے کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور پوشیدہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ محض ایک امتحان نہ تھا ۔ بلکہ اس پابندی میں صحت و کردار کے اعتبار سے انہیں کا فائدہ تھا ۔ جو اس وقت تو ان کی سمجھ میں نہ آیا ۔ لیکن بہت جلد انہیں معلوم ہو گیا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تابوت سکینہ ۔ آیہ ۔ 248

تابوت سکینہ


وَقَالَ ۔۔۔  لَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   نَبِيُّهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   آيَةَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مُلْكِهِ 

اور کہا ۔۔ ان کے لئے ۔۔۔ ان کے نبی نے ۔۔ بے شک ۔۔۔ نشانی ۔۔۔ اس کی سلطنت 

أَن يَأْتِيَكُمُ ۔۔۔  التَّابُوتُ ۔۔۔۔۔۔۔  فِيهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سَكِينَةٌ ۔۔۔ مِّن ۔۔۔۔۔  رَّبِّكُمْ 

یہ کہ تمہارے پاس آئے ۔۔۔ تابوت ۔۔۔ اس میں ۔۔۔ تسلی خاطر ۔۔ سے ۔۔ تمہارا رب 

وَبَقِيَّةٌ ۔۔۔ مِّمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   تَرَكَ ۔۔۔  آلُ مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔  وَآلُ هَارُونَ 

اور بچی ہوئی چیزیں ۔۔ اس سے جو ۔۔ چھوڑا ۔۔ اولادِ موسٰی ۔۔۔ اور اولاد ہارون 

تَحْمِلُهُ ۔۔۔  الْمَلَائِكَةُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  إِنَّ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ ذَلِكَ 

اٹھا کر لائیں گے اس کو ۔۔۔ فرشتے ۔۔۔ بے شک ۔۔ میں ۔۔۔ یہ 

لَآيَةً ۔۔۔  لَّكُمْ ۔۔۔ إِن ۔۔۔ كُنتُم ۔۔۔۔۔۔۔  مُّؤْمِنِينَ  2️⃣4️⃣8️⃣

البتہ نشانی ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔ اگر ۔۔۔ ہو تم ۔۔ یقین رکھتے 


وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.  2️⃣4️⃣8️⃣


اور ان کے نبی نے بنی اسرائیل سے کہا کہ طالوت کی سلطنت کی یہ نشانی ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق لایا جائے گا جس میں تسلی خاطر ہے تمہارے رب کی طرف سے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جو چھوڑ گئی موسٰی اور ہارون کی اولاد  اس صندوق کو فرشتے اٹھا کر لائیں گے بے شک اسی میں  تمہارے لئے پوری نشانی ہے اگر تم یقین رکھتے ہو ۔ 


اَلتّابُوت ( صندوق ) ۔ اس صندوق کا نام تابوتِ سکینہ بھی ہے ۔ اس میں تورات کا اصلی نسخہ اور بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے تبرکات موجود تھے ۔ بنی اسرائیل کے لئے یہ سب سے بڑا قومی ورثہ تھا ۔ وہ اسے ہر وقت حتی کہ سفر اور جنگ میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ وہ اسے بڑا بابرکت سمجھتے تھے ۔ اور خاص طور پر لڑائی کے وقت اسے آگے آگے رکھتے تاکہ الله تعالی اس کی برکت سے انہیں فتح نصیب فرمائے ۔ 

حضرت شموئل علیہ السلام نے حضرت طالوت کو بنی اسرائیل پر بادشاہ مقرر کر دیا تو ان کے اطمینان کے لئے یہ بھی بتایا کہ اُن کی بادشاھت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارا وہ مبارک صندوق جسے جالوت تم سے چھین کر لے گیا تھا وہ طالوت کے عہدِ حکومت میں تمہیں واپس مل جائے گا ۔ 

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی جب سے یہ تابوت بنی اسرائیلیوں سے چھین کر لے گئے انہیں ایک دن بھی چین نہ آیا ۔ جس جگہ اور جس بستی میں اسے رکھتے وہیں کوئی وبا پھوٹ پڑتی یا کوئی اور مصیبت آجاتی ۔ آخر عاجز آکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔ چنانچہ یہ تابوت انہوں نے ایک بیل گاڑی میں لادا اور بغیر کسی گاڑی بان کے اس کو یونہی ہانک دیا ۔الله تعالی کے فرشتے اسے طالوت کے دروازے پر لے گئے ۔ بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین لے آئے ۔ 

تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ تابوت بنی اسرائیل کے قبضے میں حضرت سلیمان علیہ السلام ( ۲۳۰ق۔م ) کے عہد تک رہا ۔ آپ نے اسے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد اس 

میں رکھ دیا ۔ اس کے بعد اس کا پتہ نہیں چلتا ۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ یہ تابوت اب بھی ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کے اندر دفن ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سپہ سالار کی خصوصیات ۔ 247-ب

سپہ سالار کی خصوصیات


قَالَ ۔۔ إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ اصْطَفَاهُ ۔۔۔۔۔۔۔  عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَزَادَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   بَسْطَةً

اس نے کہا ۔۔ بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ چُن لیا اس کو ۔۔ تم پر ۔۔ اور زیادہ کی اس کو ۔۔ فراخی 

 فِي ۔۔۔ الْعِلْمِ ۔۔۔ وَالْجِسْمِ ۔۔۔  وَاللَّهُ ۔۔۔ يُؤْتِي ۔۔۔۔۔۔۔  مُلْكَهُ 

میں ۔۔ علم ۔۔ اور جسم ۔۔ اور الله ۔۔۔ دیتا ہے ۔۔۔ اپنا ملک 

مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔   يَشَاءُ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاسِعٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔  عَلِيمٌ۔ 2️⃣4️⃣7️⃣

جسے ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔۔ اور الله ۔۔۔ وسعت والا ۔۔ جاننے والا 


قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ   2️⃣4️⃣7️⃣


نبی نے کہا  یقیناً الله تعالی نے اسے تم پر چُن لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی دی ہے اور الله تعالی جسے چاہتا ہے اپنا ملک دیتا ہے اور الله تعالی فضل کرنے والا جاننے والا ہے ۔ 


آیت کے پہلے حصے میں ذکر تھا کہ شموئل نبی نے الله تعالی کی طرف سے طالوت کی سپہ سالاری کا اعلان فرمایا ۔ یہودیوں نے اپنی امارت کے زعم میں ان کے اس انتخاب پر اعتراض کیا ۔ کہ وہ ہم سے زیادہ دولتمند نہیں ہمارے بادشاہ کیسے ہو سکتے ہیں ۔ 

الله کے نبی نے حکومت اور سرداری کے لئے الله کریم کی مقرر کردہ خصوصیات بیان فرمائیں ۔ 

اوّل یہ کہ الله تعالی نے اسے علم میں وسعت اور فراوانی بخشی ہے ۔ 

دوسرے یہ کہ جسمانی اعتبار سے وہ تمہارے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے ۔ 

بَسْطَۃً فِی العلمِ  ( الله نے اسے علم میں وسعت دی ) ۔ علم سے مراد حقائق کو جاننا اور اسرار کو پہچاننا ہے ۔ اس ایک لفظ میں بے شمار معنٰی پوشیدہ ہیں ۔ اور تمام علوم و فنون اس میں شامل ہیں ۔ خصوصاً ملک گیری اور ملک رانی کے علوم ۔

اَلْجِسم ( جسم ) ۔ مقصد یہ ہے کہ طالوت تمہارے مقابلہ میں قد وقامت کے اعتبار سے اور قوت وطاقت کے لحاظ سے زیادہ اہلیت کے مالک ہیں ۔ جس شخص میں علم و جسم کی دونوں طاقتیں زیادہ ہوں گی ۔  وہ دوسروں پر فوقیت اور سرداری کے لائق ہو گا ۔ 

مُلْکَهُ ( اپنا ملک ) ۔ مدعا یہ ہے کہ حکمرانی اصل میں الله تعالی کی ہے ۔ اور حکومت حقیقت میں اس ذات واحد کے لئے ہے ۔ 

                         سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے 

                         حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری ! 

اب یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے کہ اپنے بندوں میں سے وہ سب سے اہل اور مستحق کو اپنی حکومت چلانے کی خدمت سپرد کر دے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سپہ سالار کا انتخاب ۔ آیہ ۔ 247 ۔ ا

سپہ سالار کا انتخاب


وَقَالَ ۔۔۔  لَهُمْ ۔۔ نَبِيُّهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔   إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   قَدْ بَعَثَ 

اور کہا ۔۔ ان سے ۔۔۔ ان کا نبی ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔ تحقیق بھیجا 

لَكُمْ ۔۔ طَالُوتَ ۔۔۔  مَلِكًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قَالُوا ۔۔۔  أَنَّى ۔۔۔ يَكُونُ 

تمہارے لئے ۔۔۔ طالوت ۔۔۔ بادشاہ ۔۔ کہا انہوں نے ۔۔۔ کیسے ۔۔ ہو 

لَهُ ۔۔۔ الْمُلْكُ ۔۔۔ عَلَيْنَا ۔۔۔ وَنَحْنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أَحَقُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِالْمُلْكِ

اس کے لئے ۔۔۔ بادشاہی ۔۔۔ ہم پر ۔۔ اور ہم ۔۔ زیادہ حق دار ۔۔ بادشاہی کے ۔

 مِنْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَمْ يُؤْتَ ۔۔۔ سَعَةً ۔۔۔  مِّنَ ۔۔۔۔ الْمَالِ۔  

اس سے ۔۔۔ اور نہیں وہ دیا گیا ۔۔ وسعت ۔۔۔ سے ۔۔ مال 


وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ


اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ الله تعالی نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہنے لگے اسے ہم پر بادشاہت کیونکر مل سکتی ہے اور ہم اس کے مقابلے میں حکو مت کا زیادہ حق رکھتے ہیں اور اسے تو مال میں وسعت نہیں ملی 


طَالُوْتَ ( طالوت بن کش ) ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے سب سے بڑے ، سب سے پہلے بادشاہ تسلیم کئے گئے ۔ ان کا زمانہ (۱۰۱۲) قبل مسیح سے (۱۰۲۸) قبل مسیح بیان کیا جاتا ہے ۔ آپ قبیلہ بن یامین سے تھے ۔ آپ کا خاندان معمولی درجہ کا تھا ۔ اس خاندان میں کبھی کوئی بادشاہ نہیں ہوا تھا اور وہ کوئی خاص مالدار اور دولت مند بھی نہ تھے ۔ 

غلط اندیش یہودیوں نے آپ کے سپہ سالار مقرر ہونے پر یہی اعتراض کیا کہ وہ مالدار نہیں ہیں ۔ ایک غریب آدمی ہیں ۔ بھلا ہم دولت مندوں پر ایک غریب کو کیسے سرداری مل سکتی ہے ۔ حکومت اور سرداری تو امیروں کا پیدائشی حق ہے ۔ 

ایک یہودیوں پر کیا منحصر ہے ہمیشہ مادہ پرست قوموں نے اسی قسم کے غلط اصول بنائے اور حکومت کو امیروں اور دولت مندوں کے گھر کی لونڈی سمجھ لیا ۔ حالانکہ یہ تصور حد درجہ احمقانہ اور غیر منصفانہ ہے ۔ اسی لئے آنے والی نسلوں کی عبرت کے لئے الله تعالی نے اپنی آخری کتاب میں یہودیوں کے اس غلط تصور کو وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ۔ تاکہ آئندہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو اور کوئی قوم دولت و ثروت کو سرداری اور سر بلندی کا معیار نہ سمجھ بیٹھے ۔ 

اس کے بعد بھی اگر کوئی قوم یا کوئی جماعت دولت مندی کو برتری کا سبب تصور کرتی ہے تو اسے وہی سزا بھگتنا پڑے گی جو اس سے قبل یہودیوں کو برداشت کرنی پڑی ۔ چونکہ فطرت کا قانون نہیں بدلتا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

حضرت طالوت کا قصہ ۔۔۔ 246

حضرت طالوت کا قصہ


أَلَمْ تَرَ ۔۔۔۔  إِلَى ۔۔۔۔۔۔۔    الْمَلَأِ ۔۔۔  مِن ۔۔۔ بَنِي إِسْرَائِيلَ 

کیا نہیں دیکھا ۔۔۔ طرف ۔۔۔ ایک جماعت ۔۔۔ سے ۔۔ بنی اسرائیل 

مِن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔ مُوسَى ۔۔۔ إِذْ ۔۔۔ قَالُوا ۔۔۔ لِنَبِيٍّ

سے ۔۔۔ بعد ۔۔ موسیٰ ۔۔ جب ۔۔۔ کہا ۔۔ نبی سے 

 لَّهُمُ ۔۔۔ ابْعَثْ ۔۔۔۔۔۔۔۔    لَنَا ۔۔۔ مَلِكًا ۔۔۔ نُّقَاتِلْ۔۔۔۔  فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ 

ان کے لئے ۔۔۔ مقرر کرو ۔۔۔ ہمارے لئے ۔۔۔ بادشاہ ۔۔ ہم لڑیں ۔۔ میں ۔۔ راستہ ۔۔ الله 

قَالَ ۔۔۔ هَلْ ۔۔۔۔۔۔  عَسَيْتُمْ۔۔۔۔  إِن ۔۔۔ كُتِبَ ۔۔۔  عَلَيْكُمُ ۔۔۔ الْقِتَالُ

کہا ۔۔ کیا ۔۔ تم سے توقع ہے ۔۔ اگر ۔۔ لکھا گیا ۔۔ تم پر ۔۔ لڑنا 

 أَلَّا تُقَاتِلُوا ۔۔۔۔۔  قَالُوا ۔۔۔ وَمَا ۔۔۔  لَنَا ۔۔۔۔۔۔۔  أَلَّا ۔۔۔۔۔  نُقَاتِلَ 

یہ کہ نہ تم لڑو ۔۔ کہا ۔۔ اور کیا ۔۔ ہمیں ۔۔ یہ کہ نہ ۔۔۔  ہم لڑیں 

 فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔  وَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔  أُخْرِجْنَا۔۔۔۔۔۔۔  مِن ۔۔۔۔۔۔ دِيَارِنَا 

میں ۔۔۔ راستہ ۔۔۔ الله ۔۔ اور تحقیق ۔۔ ہم نکالے گئے ۔۔۔ سے ۔۔ ہمارے گھر 

وَأَبْنَائِنَا ۔۔۔ فَلَمَّا ۔۔۔۔ كُتِبَ ۔۔۔۔ عَلَيْهِمُ ۔۔۔ الْقِتَالُ ۔۔۔۔۔۔   تَوَلَّوْا 

اور ہمارے بیٹے ۔۔ پس جب ۔۔ لکھا گیا ۔۔ ان پر ۔۔۔ لڑنا ۔۔ وہ پھر گئے 

إِلَّا ۔۔۔ قَلِيلًا ۔۔۔۔۔۔۔  مِّنْهُمْ ۔۔۔۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ عَلِيمٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔  بِالظَّالِمِينَ  2️⃣4️⃣6️⃣

مگر ۔۔۔ تھوڑے ۔۔۔ ان میں سے ۔۔ اور الله ۔۔۔ جانتا ہے ۔۔۔ ظالموں کو 


أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَأِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ.   2️⃣4️⃣6️⃣


کیا تو نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہ دیکھا موسی ٰ علیہ السلام کے بعد جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم الله کی راہ میں لڑیں  پیغمبر نے کہا کیا تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تمہیں لڑائی کا حکم ہو تو تم اس وقت نہ لڑو وہ بولے ہمیں کیا ہوا کہ ہم نہ لڑیں الله کی راہ میں اور ہم تو نکال دئیے گئے اپنے گھروں اور بیٹوں سے  پھر جب انہیں حکم ہوا لڑائی کا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے اور الله تعالی گنہگاروں کو خوب جانتا ہے ۔ 


اس آیت میں بھی بنی اسرئیل کی تاریخ کے ایک اہم واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ 

حضرت موسٰی علیہ السلام کے کچھ عرصے بعد بادشاہ طالوت اور اور دوسرے دشمنوں کے حملوں سے گھبرا کر اور ہر طرف سے عاجز ہو کر یہ لوگ بیت المقدس میں جمع ہو گئے ۔ 

غالباً یہ زمانہ حضرت شموئل نبی کا تھا ۔ الله کے نبی سے  کہنے لگے کہ ہم پر کوئی سپہ سالار مقرر کردو جس کی سرکردگی میں ہم جہاد کر سکیں ۔ 

انہوں نے فرمایا ڈر ہے کہ جہاد کا حکم آیا تو تم جی چُراؤ گے ۔ ان لوگوں نے یقین دلایا ۔ 

مگر جب لڑائی کا وقت آیا تو چند لوگوں کے سوا سب پیٹھ دکھا گئے ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

قرض حسن ۔۔۔ سورۃ بقرہ ۔ آیات: 244, 245

قرضِ حسن


وَقَاتِلُوا ۔۔۔ فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔  اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔  وَاعْلَمُوا 

اور تم لڑو ۔۔۔ میں ۔۔ راستہ ۔۔۔ الله ۔۔۔ اور جان لو 

 أَنَّ ۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔ عَلِيمٌ.  2️⃣4️⃣4️⃣

بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ سنتا ہے ۔۔۔ جانتا ہے 


مَّن ۔۔۔ ذَا الَّذِي ۔۔۔  يُقْرِضُ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ قَرْضًا ۔۔۔ حَسَنًا 

کون ۔۔ ایسا جو ۔۔ قرض دے ۔۔۔ الله ۔۔ قرض ۔۔۔ حسنہ 

فَيُضَاعِفَهُ ۔۔۔۔  لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔ أَضْعَافًا ۔۔۔۔۔  كَثِيرَةً 

پھر دوگنا کردے اس کو ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ بڑھانا ۔۔ زیادہ 

 وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يَقْبِضُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَيَبْسُطُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَإِلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تُرْجَعُونَ  2️⃣4️⃣5️⃣

اور الله ۔۔۔ تنگی کر دیتا ہے ۔۔۔ اور کشائش کرتا ہے ۔۔۔ اور اسی کی طرف ۔۔۔ تم لوٹائے جاؤ گے 


وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ. 2️⃣4️⃣4️⃣


اور الله کی راہ میں لڑو اور جان لو کہ الله تعالی  بے شک سنتا جانتا ہے 


مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.  2️⃣4️⃣5️⃣


کون شخص ہے جو الله کو اچھا قرض دے پھر الله تعالی اسے کئی گنا کردے اور الله ہی تنگی کرتا ہے اور وہی کشائش کرتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے 


عَلِیمٌ ( جانتا ہے ) ۔ مراد یہ ہے کہ الله تعالی جہاد کرنے والوں اور جہاد نہ کرنے والوں کے دل کے ارادوں اور زبان سے کئے ہوئے اعلانات کو جانتا ہے ۔ 

قَرْضاً حَسَناً ( اچھا قرض ) ۔ ایسا قرض جس کے بعد مقروض کو تنگ نہ کیا جائے ۔ نہ احسان جتایا جائے نہ بدلہ لیا جائے اور نہ مقروض کو حقیر سمجھا جائے ۔ وسیع معنوں میں اس سے مراد ہر وہ رقم بھی ہوتی ہے جو دین کی  کسی مد میں خرچ ہو ۔ یہاں جہاد میں خرچ کرنا مراد ہے ۔

 اہل عرب ہر اچھے معاوضہ والے عمل کو " قرض ِحسن " کہتے تھے ۔ اور ہر بُرے معاوضے والے عمل کو بُرا قرض کہا کرتے تھے ۔ چونکہ جہاد کی راہ میں مال خرچ کرنے سے آخرت میں کئی گنا زیادہ واپس ملتا ہے ۔ اس لئے اس خرچ کے عمل کو قرآن مجید نے " قرض ِحسن " قرار دیا ہے 

فَیُضٰعِفَهُ ( پھر دگنا کردے ) ۔ مراد ہے اس کے اجرو ثواب کو دوگنا کردے ۔ اس کا مصدر اضعاف ( چند در چند اور کئی گنا زیادہ کرنا ) ہے ۔ 

پچھلی آیت میں الله تعالی نے ایک قوم کا ذکر کر کے یہ واضح کر دیا تھا کہ زندگی اور موت کا اختیار صرف الله تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے دشمن کے خوف سے بھاگنا نہیں چاہئیے ۔ اب صریح طور پر جہاد کا حکم ہے کہ دینِ حق کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرو ۔ 

جہاد کے لئے جنگ کے سامان آلات و ہتھیار اور دیگر اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے ان لوگوں کو جو صاحبِ استطاعت ہیں ۔ یہ حکم دیا کہ تم دل کھول کر مال خرچ کرو ۔ تمہاری اس قربانی کو الله تعالی کو کئی گنا کرکے واپس کرے گا ۔ تم ہرگز یہ نہ سمجھو کہ روپیہ خرچ کرنے سے تم غریب ہوجاؤ گے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

موت سے نہ بھاگو ۔۔۔۔ ۲۴۳

موت سے نہ بھاگو


أَلَمْ تَرَ ۔۔۔  إِلَى ۔۔۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ خَرَجُوا ۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔  دِيَارِهِمْ 

کیا نہیں دیکھا تو نے ۔۔۔ طرف ۔۔ وہ لوگ ۔۔ وہ نکلے ۔۔ سے ۔۔ ان کے گھر 

وَهُمْ ۔۔۔ أُلُوفٌ ۔۔۔ حَذَرَ ۔۔۔ الْمَوْتِ ۔۔۔۔ فَقَالَ ۔۔۔۔۔۔۔ لَهُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهُ 

اور وہ ۔۔۔ ہزاروں ۔۔ ڈر ۔۔۔ موت ۔۔ پس کہا ۔۔ ان سے ۔۔ الله تعالی 

مُوتُوا ۔۔۔ ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَحْيَاهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ لَذُو فَضْلٍ 

تم مر جاؤ ۔۔ پھر ۔۔ زندہ کیا ان کو ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔۔۔ البتہ فضل والا 

عَلَى ۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔ وَلَكِنَّ ۔۔۔ أَكْثَرَ ۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔۔ لَا يَشْكُرُونَ۔ 2️⃣4️⃣3️⃣

پر ۔۔ لوگ ۔۔۔ اور لیکن ۔۔ اکثر ۔۔ لوگ ۔۔۔ نہیں شکر کرتے 


أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ. 2️⃣4️⃣3️⃣


کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے گھروں سے نکلے موت کے ڈر سےحالانکہ وہ ہزاروں تھے پھر الله تعالی نے انہیں فرمایا تم مر جاؤ پھر انہیں زندہ کر دیا بے شک الله تعالی لوگوں پر فضل کرنے والا ہے اور لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ۔ 


اَلَمْ تَرَ ( کیا تو نے نہیں دیکھا ) ۔ عربی زبان میں خطاب کرنے کا یہ طریقہ ایسے موقعوں پر اختیار کیا جاتا ہے جب کسی بہت بڑے اور جانے بوجھے واقعے کی طرف توجہ دلانی ہو ۔ یہاں دیکھنے سے محض آنکھ سے دیکھنا مراد نہیں ہے بلکہ خیال ، غور و فکر اور عقل سے غور کرنا مقصود ہے ۔ اور جب اس کے ساتھ  " اِلٰی " آجائے تو اس سے یہ مراد بھی ہوتا ہے کہ اس واقعہ سے کوئی سبق دینا مقصود ہے ۔ 

اَلّذِیْنَ خَرَجُوا ( جو نکلے ) ۔ اشارہ یہود کی طرف ہے جو اپنے گھروں سے موت کے ڈر سے نکل کھڑے ہوئے ۔ اور عرب باشندے اس واقعہ سے خوب واقف تھے ۔ 

اس آیت میں ایک بہت قدیم واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ ہزاروں افراد پر مشتمل یہودی موت کے ڈر سے ( جس کا سبب یا تو وبا خیال کی جاتی ہے یا دشمن کا حملہ ) اپنے وطن سے نکل کھڑے ہوئے ۔ نہ انہوں نے تقدیر پر یقین کیا اور نہ دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھائے ۔ بلکہ بزدل بن کر جان بچانے کی کوشش میں چل نکلے ۔ لیکن ان کا یوں بھاگنا ان کے کچھ کام نہ آیا ۔ الله نے انہیں موت دے دی  اور وہ موت کے چنگل سے نہ بچ سکے ۔ 

سات دن کے بعد الله تعالی کے ایک پیغمبر نے دعا کی تو وہ دوبارہ زندہ ہو گئے ۔ تاکہ آئندہ کے لئے وہ توبہ کریں ۔ اور معلوم کر لیں کہ موت وحیات کا رشتہ الله جل جلالہ کے ہاتھ میں ہے ۔ الله تعالی انسان کی زندگی اور موت پر پورا قبضہ اور اختیار رکھتا ہے ۔ وہ انسان پر فضل کرتا ہے ۔  انسان اس کے احسانات کا شمار بھی نہیں کر سکتا ۔ اس لئے انسان کو ہر دم الله سبحانہ و تعالی کا شکر گزار ہونا چاہئیے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

بیوہ کے لئے وصیت ۔۔۔ ۲۴۰-۲۴۱-۲۴۲

بیوہ کے لئے وصیت


وَالَّذِينَ ۔۔۔  يُتَوَفَّوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔  مِنكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَيَذَرُونَ ۔۔۔۔۔۔۔  أَزْوَاجًا 

اور جو لوگ ۔۔۔ مرجائیں ۔۔ تم میں سے ۔۔ اوروہ چھوڑ جائیں ۔۔ بیویاں 

وَصِيَّةً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لِّأَزْوَاجِهِم ۔۔۔۔۔۔۔۔ مَّتَاعًا ۔۔۔  إِلَى ۔۔۔ الْحَوْلِ 

وصیت کرنا ۔۔۔ ان کی عورتوں کے لئے ۔۔۔ سامان ۔۔ تک ۔۔ ایک سال 

غَيْرَ ۔۔۔ إِخْرَاجٍ ۔۔۔۔۔۔۔  فَإِنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  خَرَجْنَ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَلَا جُنَاحَ 

بغیر ۔۔ نکالے ۔۔ پس اگر ۔۔ وہ عورتیں نکل جائیں ۔۔۔ پس نہیں گناہ 

عَلَيْكُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ مَا ۔۔۔ فَعَلْنَ ۔۔۔ فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَنفُسِهِنَّ 

تم پر ۔۔ میں ۔۔ جو ۔۔ وہ کریں ۔۔ میں ۔۔۔ ان کی جانیں 

مِن ۔۔۔ مَّعْرُوفٍ ۔۔۔  وَاللَّهُ ۔۔۔ عَزِيزٌ ۔۔۔ حَكِيمٌ۔ 2️⃣4️⃣0️⃣

سے ۔۔ بھلا کام ۔۔ اور الله ۔۔ زبردست ۔۔۔ حکمت والا 


وَلِلْمُطَلَّقَاتِ ۔۔۔۔  مَتَاعٌ ۔۔۔  بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔ حَقًّا ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الْمُتَّقِينَ.  2️⃣4️⃣1️⃣

اور طلاق دی ہوئی عورتوں کے لئے ۔۔۔ خرچ ۔۔ قاعدے کے موافق ۔۔ حق ۔۔ پر ۔۔۔۔۔۔۔   پرھیزگار 


كَذَلِكَ ۔۔۔ يُبَيِّنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  آيَاتِهِ 

اسی طرح ۔۔۔ بیان کرتا ہے ۔۔۔ الله ۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ اپنی آیات 

لَعَلَّكُمْ ۔۔۔۔ تَعْقِلُونَ   2️⃣4️⃣2️⃣

تاکہ تم ۔۔۔ سمجھ لو 


وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي 

أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ    2️⃣4️⃣0️⃣

اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور اپنی عورتیں چھوڑ جائیں تو وہ اپنی عورتوں کے لئے وصیت کر دیں ایک برس تک خرچ دینا گھر سے نکالے بغیر پھر اگر وہ عورتیں خود نکل جائیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اس میں کہ وہ اپنے حق میں بھلی بات کریں اور الله تعالی زبردست حکمت والا ہے ۔ 


وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ  2️⃣4️⃣1️⃣


اور طلاق دی ہوئی عورتوں کے لئے قاعدہ کے موافق خرچ دینا پرھیزگاروں پر لازم ہے 


كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ. 2️⃣4️⃣2️⃣


اسی طرح الله تعالی تمہارے لئے اپنی آیات بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو 


وَصِیّةً لّاَزْوَاجِھِمْ ( اپنی بیویوں کے لئے وصیت کر دیں ) یہ ازدواجی مسائل کے سلسلہ میں اس صورت کی آخری آیت ہے ۔ جس میں الله تعالی نے فرمایا کہ شوہر اپنے آخری وقت میں ہونے والی بیوہ کے لئے ایک اور آسانی کی صورت پیدا کرسکتا ہے کہ وہ اپنے ورثا کو وصیت کرجائے کہ بیوہ ایک سال اس کے گھر میں رہ سکتی ہے اور مراعات کی حقدار ہو سکتی ہے ۔ 

عورت کو طلاق دی جائے یا وہ قضائے الٰہی سے بیوہ ہوجائے ۔ مہر مقرر ہو چکا ہو یا نکاح کے وقت مہر کی صراحت نہ ہوئی ہو ۔ ہر حال میں اسلام حسنِ سلوک عفو و درگزر اور نیکی کی تعلیم دیتا ہے ۔ 

بعد میں عورت کا حصہ اور عدّت مقرر کر دی گئی ۔ اب اس آیت پر عمل ضروری نہیں ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

نمازوں کی پابندی ۔۔۔ ۲۳۸- ۲۳۹

نمازوں کی پابندی


حَافِظُوا ۔۔ عَلَى ۔۔۔ الصَّلَوَاتِ ۔۔۔ وَالصَّلَاةِ ۔۔۔ الْوُسْطَى 

حفاظت کرو ۔۔ پر ۔۔ نمازوں ۔۔۔۔۔ اور نماز ۔۔ درمیانی 

وَقُومُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِلَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قَانِتِينَ  2️⃣3️⃣8️⃣

اور کھڑے رہو ۔۔۔ الله تعالی کے لئے ۔۔۔ ادب سے 

فَإِنْ ۔۔۔ خِفْتُمْ ۔۔۔ فَرِجَالًا ۔۔۔  أَوْ ۔۔۔  رُكْبَانًا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَإِذَا 

پھر اگر ۔۔۔ تم ڈر جاؤ ۔۔۔ تو پیادہ ۔۔۔ یا ۔۔ سوار ۔۔۔ پس جب 

أَمِنتُمْ ۔۔۔۔۔۔  فَاذْكُرُوا ۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  كَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَلَّمَكُم 

تم امن میں ہو ۔۔۔ تو یاد کرو ۔۔۔ الله ۔۔ جیسا کہ ۔۔ اس نے سکھایا تم کو 

مَّا ۔۔۔ لَمْ ۔۔۔ تَكُونُوا ۔۔۔۔ تَعْلَمُونَ.   2️⃣3️⃣9️⃣

جسے ۔۔۔ نہیں ۔۔ تھے تم ۔۔۔ جانتے 


حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ۔.  2️⃣3️⃣8️⃣


سب نمازوں سے خبردار رہو اور درمیانی نماز سے اور الله تعالی کے سامنے ادب سے کھڑے رہو 


فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ     2️⃣3️⃣9️⃣


پھر اگر تمہیں کسی کا ڈر ہو تو پیادہ پڑھ لو یا سوار پھر جس وقت تم امن پاؤ تو الله کو یاد کرو جس طرح تمہیں سکھایا ہے جسے تم نہ جانتے تھے 


حَافِظُوا علی الصلٰوتِ ( سب نمازوں سے خبردار رہو ) ۔ یعنی نمازوں کی پابندی کرو ۔ علماء  نے نماز کی پابندی کے تین درجے بتائے ہیں ۔

1. سب سے پہلا درجہ تو یہ ہے کہ نماز وقت پر پڑھی جائے ۔ اور فرائض اور واجبات نہ چھوڑے جائیں ۔ 

2. درمیانی درجہ یہ ہے کہ نمازی کا جسم ہر طرح سے پاک وصاف ہو ۔ دل میں عاجزی اور انکساری ہو ۔ سنتیں اور مستحبات کا پورا پورا خیال رکھتا ہو ۔ 

3. سب سے اعلٰی درجہ یہ ہے کہ یہ سمجھ کر نماز پڑھی جائے گویا نمازی الله تعالی کو دیکھ رہا ہو ۔ اور اسے یہ بھی احساس ہو کہ الله تعالی نمازی کو دیکھ رہا ہے ۔ 

اَلصّلٰوۃ الوسطی ( بیچ والی نماز ) ۔ اس بیچ والی درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ کچھ علماء نے اس سے نماز ظہر اور مغرب اور بعض نے فجر بھی مراد لی ہے ۔

قَانِتین ( ادب سے ) ۔ یہ لفظ قنوت سے نکلا ہے ۔ جسکے معنی دعا ، خشوع و خضوع اور عاجزی و انکساری ، اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں ۔ 

پچھلی آیات میں بیویوں کے حقوق اور مطالبات کا ذکر چلا آرہا تھا ۔ اور آگے پھر یہی ذکر چلے گا ۔درمیان میں نماز کے متعلق کچھ احکام آگئے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں معاشرت و معاملت ، قانون و اخلاق کے مسائل عبادت سے الگ نہیں اور شریعت میں الله تعالی کے حقوق اور بندوں کے حقوق ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ 

طلاق کے احکام میں نماز کا حکم بیان فرمانے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسان دنیا کے معاملات اور باہمی جھگڑوں میں پڑ کر کہیں الله تعالی کی عبادت کو نہ بھلا دے ۔ 

درمیانی نماز ( عصر کی نماز ) کی تاکید اس لئے زیادہ فرمائی کہ اس وقت انسان دنیاوی کاموں میں زیادہ مشغول ہوتا ہے ۔اس لئے اس طرف توجہ دلا دی کہ دنیاوی کاموں میں مشغول ہوکر الله تعالی کو نہ بھول جاؤ ۔ بلکہ ذکر و عبادت بھی جاری رکھو ۔ یہاں خوف اور امن کے اوقات میں  نماز کے احکام بھی بتا دئیے گئے ۔ اگر لڑائی اوردشمن سے خوف ہو کا وقت ہو تو پیادہ اور سواری پر اشارے سے نماز پڑھ لینا چاہئیے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

طلاق اور مہر ۔۔۔ ۲۳۷

طلاق اور مہر


وَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  طَلَّقْتُمُوهُنَّ ۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔  قَبْلِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن تَمَسُّوهُنَّ 

اور اگر ۔۔۔ تم نے طلاق دے دی ان کو ۔۔۔ سے ۔۔ پہلے ۔۔۔ یہ کہ تم چھوؤان کو 

وَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔  فَرَضْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَهُنَّ ۔۔۔ فَرِيضَةً ۔۔۔ فَنِصْفُ

اور تحقیق ۔۔۔ ٹہرا چکے تم ۔۔۔ان کے لئے ۔۔۔  مہر ۔۔ پس آدھا 

 مَا فَرَضْتُمْ ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن يَعْفُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَوْ يَعْفُوَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ الَّذِي

جو مقرر کیا تم نے ۔۔۔ مگر ۔۔ درگذر کریں عورتیں ۔۔ یا درگزر کرے ۔۔ وہ شخس 

 بِيَدِهِ ۔۔۔ عُقْدَةُ ۔۔۔۔۔۔ النِّكَاحِ ۔۔۔ وَأَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تَعْفُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَقْرَبُ 

اس کے ہاتھ میں ۔۔ گرہ ۔۔ نکاح ۔۔ اور اگر ۔۔ تم معاف کرو ۔۔۔ زیادہ قریب ہے 

لِلتَّقْوَى ۔۔۔  وَلَا تَنسَوُا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   الْفَضْلَ ۔۔۔ بَيْنَكُمْ 

تقوٰی کے ۔۔ اور نہ بھلا دو ۔۔۔ احسان کرنا ۔۔ آپس میں 

إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔ تَعْمَلُونَ ۔۔۔ بَصِيرٌ    2️⃣3️⃣7️⃣

بے شک ۔۔ الله ۔۔۔ وہ جو ۔۔ تم کرتے ہو ۔۔ دیکھنے والا ہے 


وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.  2️⃣3️⃣7️⃣ 


اور اگر تم نے اس سے قبل انہیں طلاق دے دی کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور ان کے لئے تم مقرر کر چکے تھے مہر تو جو تم نے مقرر کیا تھا اس کا نصف ( ادا کردو ) مگر یہ کہ وہ عورتیں درگزر کریں یا وہ شخص درگزر کرے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے  اور اگر تم درگزر کرو تو پرھیزگاری کے قریب ہے اورباہم احسان کرنا نہ بھلا دینا بے شک الله تعالی دیکھتا ہے جو تم کرتے ہو ۔


اس آیت میں مطلقہ اور اس کے مہر کی ادائیگی کے متعلق کچھ اور احکام بیان کئے گئے ہیں۔اگر نکاح کے وقت مہر مقرر ہو چکا تھا اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق کی نوبت آجائے تو آدھا مہر لازم ہے ۔ لیکن خود عورت یا جس کے ہاتھ میں نکاح کی باگ دوڑ ہے ۔ کُل مہر یا مہر کے کسی حصے سے درگزر کریں تو اور بات ہے۔ 

اس کے بعد یہ بھی بتایا کہ اگر مرد درگزر کرے تو تقوٰی کے زیادہ مناسب ہے ۔ کیونکہ الله تعالی نے اسے بڑائی دی اور اسےنکاح باقی رکھنے اور طلاق دینے کا مختار بنایا ۔ اب اگر ہاتھ لگانے کے بغیر طلاق دے کر خاوند آدھا مہر بھی اپنے ذمہ نہ لے تو یہ تقوٰی کے مناسب نہیں ۔ بیوی کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی ۔ 

گویا مہر اور طلاق کی چار صورتیں ہوئیں ۔  

1. نہ مہر مقرر کیا نہ صحبت ہوئی ۔    

اس صورت میں کچھ مناسب دے دے ۔


2. مہر مقرر ہوا اور صحبت نہ ہوئی ۔ 

نصف مہر ادا کرے ۔


3. مہر مقرر ہوا اور صحبت ہوئی ۔ 

پورا مہر ادا کرے ۔


4. مہر مقرر نہ ہوا اور صحبت ہوئی ۔ 

اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہو گا ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

چھونے سے پہلے طلاق ۔۔۔۔۲۳۶

چھونے سے پہلے طلاق


لَّا جُنَاحَ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ إِن ۔۔۔۔۔۔۔ طَلَّقْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ النِّسَاءَ 

نہیں گناہ ۔۔ تم پر ۔۔ اگر ۔۔ طلاق دی تم نے ۔۔۔ عورتیں 

مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَمْ تَمَسُّوهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَوْ تَفْرِضُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَهُنَّ ۔۔۔۔۔۔ فَرِيضَةً 

جب ۔۔ نہیں چھوا ہو تم نے ان کو ۔۔ یا نہ مقرر کیا تم نے ۔۔ ان کے لئے ۔۔ مہر 

وَمَتِّعُوهُنَّ ۔۔۔عَلَى ۔۔۔ الْمُوسِعِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قَدَرُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَعَلَى

اور انہیں خرچ دو ۔۔ پر ۔۔ وسعت والا ۔۔ اس کے موافق ۔۔ اور پر 

 الْمُقْتِرِ ۔۔۔۔۔۔  قَدَرُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  مَتَاعًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِالْمَعْرُوفِ

تنگی والا ۔۔ اس کے مطابق ۔۔ سامان ۔۔ قاعدے کے موافق 

 حَقًّا ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔۔۔۔۔  الْمُحْسِنِينَ  2️⃣3️⃣6️⃣

حق ہے ۔۔ پر ۔۔ نیکی کرنے والے 


لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ   2️⃣3️⃣6️⃣


تم پر کچھ گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دو اس وقت کہ تم نے انہیں ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور ان کے لئے کچھ مہر مقرر نہ کیا ہو اور انہیں کچھ خرچ دو وسعت والے پر اس کے مطابق ہے اور تنگی والے پر اس کے موافق ہے  خرچ دستور  کے موافق نیکی کرنے والوں پر لازم ہے ۔ 


ما لم تَمَسُّوھُنَّ ( جنہیں ہاتھ نہ لگایا ہو ) ۔ یہ لفظ  "مسّ" سے ہے  ۔ جس کے معنٰی چھونا اور ہاتھ لگانا ہیں ۔ مراد عورت کے قریب جانا اور ہم بستر ہونا ہے ۔ 

مَتِّعُوْھُنّ ( انہیں خرچ دو ) ۔ یہ لفظ متاع" سے ہے ۔ یعنی انہیں خرچ اور ضروریاتِ زندگی بہم پہنچاؤ ۔ علماء نے خاص طور پر اس سے لباس مراد لیا ہے ۔ 

اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر نکاح کے وقت مہر کا ذکر نہ آیا ہو اور بلا صراحت نکاح کرلیا ہو ۔ تو مہر بعد میں مقرر ہو جائے گا ۔ البتہ بیوی کو ہاتھ لگانے سے پہلے یعنی خلوتِ صحیحہ سے قبل ہی اگر طلاق دے دی جائے تو مہر کچھ لازم نہ ہو گا ۔ لیکن خاوند کے لئے ضروری ہو گا کہ عورت کو کچھ دے دے ۔ 

طلاق کے بعد عورت کو جو کچھ دینا ہے وہ خاوند کی حیثیت کے مطابق مقرر ہوگا ۔ اگر وہ امیر اور دولتمند ہے تو وہ معقول رقم دے اور اگر غریب اور تنگدست ہے تو پھر جو اس کو توفیق ہو وہی دے دے ۔  ۔"بالمعروف "  کا لفظ بڑھا کر یہ تاکید بھی  کر دی کہ رقم کی ادائیگی میں کسی طرح کی زحمت اور تنگی نہ پہنچائی جائے ۔ بلکہ معروف طریقے سے یعنی دستور کے مطابق ہو ۔ خاوند کی سہولت اور بیوی کی ضروریات پیشِ نظر رکھتے ہوئے دیا جائے ۔ 

آخر میں یہ بتایا گیا کہ  " محسنین ( نیکی کرنے والوں ) پر یہ بات واجب ہے کہ مسلمان کو ہر شخص سے اچھا سلوک کرنا چاہئیے لیکن عورت کے معاملے میں انہیں زیادہ خوش معاملگی سے یہ باتیں طے کرنی چاہئیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

نکاح ثانی کا نامہ و پیام ۔۔۔ ٢٣٥

نکاح ثانی کا نامہ و پیام


وَلَا جُنَاحَ ۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  فِيمَا ۔۔۔۔۔۔۔   عَرَّضْتُم ۔۔۔۔۔۔۔۔    بِهِ 

اور نہیں گناہ ۔۔ تم پر ۔۔ اس میں جو ۔۔ اشارہ میں کہو ۔۔۔ اس کو 

مِنْ ۔۔۔ خِطْبَةِ ۔۔۔ النِّسَاءِ ۔۔  أَوْ ۔۔۔۔۔۔   أَكْنَنتُمْ ۔۔۔  فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔   أَنفُسِكُمْ 

سے ۔۔۔ پیغام ِ نکاح ۔۔۔ عورتیں ۔۔ یا ۔۔ پوشیدہ رکھو ۔۔ میں ۔۔ اپنی جانوں میں 

عَلِمَ ۔۔۔۔۔   اللَّهُ ۔۔۔ أَنَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔   سَتَذْكُرُونَهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَلَكِن 

جان لیا ۔۔ الله ۔۔ بے شک تم ۔۔ البتہ ان کا ذکر کرو گے ۔۔ اور لیکن 

 لَّا تُوَاعِدُوهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔    سِرًّا ۔۔۔  إِلَّا ۔۔  أَن ۔۔۔ تَقُولُوا 

نہ تم وعدہ کرو ان سے ۔۔۔ چھپ کر ۔۔ مگر ۔۔۔ یہ ۔۔ تم کہو 

 قَوْلًا ۔۔۔۔۔۔    مَّعْرُوفًا ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَا تَعْزِمُوا ۔۔۔ عُقْدَةَ ۔۔۔ النِّكَاحِ

بات ۔۔۔ شریعت کے موافق ۔۔ اور نہ تم ارادہ کرو ۔۔ گرہ ۔۔ نکاح 

 حَتَّى ۔۔۔ يَبْلُغَ ۔۔۔ الْكِتَابُ ۔۔۔۔۔۔۔  أَجَلَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاعْلَمُوا۔۔۔۔۔۔۔۔   أَنَّ 

یہانتک ۔۔ پہنچ جائے ۔۔۔ مقررہ مدت ۔۔ اپنی انتہاء تک ۔۔ اور جان لو ۔۔۔ بے شک 

اللَّهَ ۔۔۔ يَعْلَمُ ۔۔۔۔  مَا ۔۔۔  فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَنفُسِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    فَاحْذَرُوهُ 

الله ۔۔ وہ جانتا ہے ۔۔ جو ۔۔ میں ۔۔ تمہاری جانوں ۔۔ پس تم ڈرو اس سے 

وَاعْلَمُوا ۔۔۔  أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ غَفُورٌ۔۔۔۔۔ حَلِيمٌ۔ 2️⃣3️⃣5️⃣

اور جان لو ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔ معاف کرنے والا ۔۔۔ تحمل والا ہے ۔


وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِن لَّا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَن تَقُولُوا قَوْلًا مَّعْرُوفًا وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ. 2️⃣3️⃣5️⃣


اور اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان عورتوں کو پیغام نکاح اشارہ میں کہو یا اپنے دل میں پوشیدہ رکھو  الله تعالی کو معلوم ہے کہ تم ان عورتوں کا ذکر کرو گے لیکن ان سے نکاح کا وعدہ چھپ کر نہ کرو مگر یہی کہ کوئی بات شریعت کے رواج کے موافق کہہ دو اور نکاح کا ارادہ نہ کرو یہاں تک کہ مقررہ عدت اپنی انتہا کو پہنچ جائے اور جان رکھو کہ الله تعالی جانتا ہے جو تمہارے دل میں ہے سو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ الله تعالی بخشنے والا اور تحمل کرنے والا ہے ۔ 


اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب مطلقہ عورت عدّت کا دور گزار رہی ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کوئی مرد بیوہ سے نکاح کا ارادہ اپنے دل میں قائم کرلے ۔ لیکن زبان پر نہ لائے یا اگر لائے بھی تو صرف اشارہ کے طور پر صاف اور واضح طور پر اپنا ارادہ ظاہر کرنا جائز نہیں ہے ۔ یہاں انسان کی ایک کمزوری بیان فرما دی ۔ یعنی عورت کسی کو پسند آئی  ۔ اور اس کے دل میں بس گئی ہو تو وہ شخص اس کا ذکر ضرور زبان پر لاتا ہے ۔ اس لئے یہ تنبیہ کر دی کہ غم کے اس زمانہ میں عورت سے نکاح کا وعدہ ظاہری طور پر یا خفیہ طور پر کرنا جائز نہیں ۔ عدّت کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے نکاح کا پیغام نہ دو ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

عدت ۔۔۔ ۲۳۴

عدّت


وَالَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔     يُتَوَفَّوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔ مِنكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَيَذَرُونَ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ أَزْوَاجًا 

اور جو لوگ ۔۔۔ قبضہ میں کئے جائیں ۔۔ تم میں سے ۔۔ اور وہ چھوڑ جائیں ۔۔ بیویاں 

يَتَرَبَّصْنَ ۔۔۔۔۔۔ بِأَنفُسِهِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَرْبَعَةَ ۔۔۔ أَشْهُرٍ۔۔۔  وَعَشْرًا 

وہ عورتیں انتظار کریں ۔۔ اپنی جانوں میں ۔۔۔ چار ۔۔ مہینے ۔۔ اور دس دن 

فَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    بَلَغْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أَجَلَهُنَّ ۔۔۔۔۔۔   فَلَا جُنَاحَ ۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔  فِيمَا 

پس جب ۔۔ وہ پہنچ جائیں ۔ اپنی مدت کو ۔۔ پس نہیں گناہ ۔۔۔ تم پر ۔۔ اس میں جو 

فَعَلْنَ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ فِي ۔۔۔۔۔۔۔  أَنفُسِهِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِالْمَعْرُوفِ 

وہ کریں ۔۔۔ میں ۔۔ اپنی جانوں ۔۔۔ اچھے طریقے سے 

وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِمَا ۔۔۔ تَعْمَلُونَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  خَبِيرٌ 2️⃣3️⃣4️⃣

اور الله ۔۔ اس سے  جو ۔۔۔ تم کرتے ہو ۔۔۔ خبر دار ہے 


وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ. 2️⃣3️⃣4️⃣


اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور اپنی عورتیں چھوڑ جائیں تو چاہئیے کہ وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن انتظار میں رکھیں  پھر جب اپنی عدّت پوری کر چکیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اس بات میں کہ وہ اپنے حق میں قاعدے کے موافق کریں اور الله تعالی کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔ 


یَتَرَبَّصْنَ ( انتظار میں رکھیں ) ۔ مراد یہ ہے کہ خاوندوں کی وفات کے بعد ان کی بیویاں نکاح سے رُکی رہیں ۔ انتظار کی اس مدّت کا اصطلاحی نام "عدّت" ہے ۔ جس عورت کا شوہر وفات پاجائے اس کی عدّت چار ماہ اور دس دن ہے ۔ اگر بیوہ حاملہ ہو تو اس کی عدّت وضعِ حمل ( بچہ پیدا ہونے ) تک ہے ۔ عدّت کے ایّام میں بناؤ سنگھار جائز نہیں ۔ 

بیوہ کے ساتھ دنیا کے دوسرے مذاہب نے کوئی خاص رعایت نہیں کی ۔ بلکہ ہندو مذہب نے تو ستی ہونے یعنی بیوہ کو زندہ ہی آگ میں جل جانے کا حکم دیا ۔ اسلام نے بیوہ کو زندہ رہنے اور پوری طرح زندہ رہنے کا حق بخشا ہے ۔ اور یہ حکم نافذ کیا ہے کہ عورت شوہر کی وفات کی تاریخ سے ٹھیک چار ماہ اور دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھے ۔ نکاح اور اس کے متعلق دوسری باتوں کی طرف توجہ نہ دے ۔ بناؤ سنگھار نہ کرے ۔ اگر اس دوران معلوم ہو جائے کہ وہ حاملہ ہے تو اس کی عدّت بدل جائے گی ۔ اور اسے بچے کی پیدائش تک اپنے آپ کو دوسرے نکاح سے روکنا پڑے گا ۔ 

جب بیوگی کی عدّت ختم ہو جائے تو نکاح کا پیغام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہاں خطاب تمام امّت کوہے یعنی تم پر ایسی بات کے جائز رکھنے میں کوئی گناہ یا حرج نہیں ۔ 

اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ کوئی شخص اگر کوئی خلافِ شرع کام کرے تو دوسروں پر واجب ہوتا ہے کہ اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق اسے روکیں ۔ ورنہ سب گنہگار ہوں گے ۔ اس لئے انہیں دیکھنا چاہئیے کہ بیوگی کی عدّت کے بعد عورت جو بھی کام کرے وہ شریعت کے قانون اور دستور سے باہر نہ ہو ۔ یاد رکھو الله سبحانہ وتعالی تمہارے کاموں سے پوری طرح باخبر ہے ۔ وہ ضرور باز پُرس کرے گا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

دودھ پلانے کے دیگر قوانین ۔۔۔ ۲۳۳- ب

دودھ پلانے کے دیگر قوانین


وَعَلَى ۔۔۔ الْوَارِثِ ۔۔۔۔۔ مِثْلُ ۔۔۔ ذَلِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَإِنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أَرَادَا 

اور پر ۔۔۔ وارث ۔۔۔ مانند ۔۔ اس کے ۔۔ پس اگر ۔۔۔ وہ ارادہ  کریں  

فِصَالًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَن ۔۔۔ تَرَاضٍ ۔۔۔ مِّنْهُمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔     وَتَشَاوُرٍ

دودھ چھڑانا ۔۔۔ سے ۔۔ رضا ۔۔ دونوں ۔۔ اور آپس کا مشورہ 

 فَلَا جُنَاحَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  عَلَيْهِمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَإِنْ ۔۔۔  أَرَدتُّمْ ۔۔۔۔۔۔ أَن 

پس نہیں گناہ ۔۔ ان دونوں پر ۔۔۔ اور اگر ۔۔۔ تم چاہو ۔۔ یہ کہ 

تَسْتَرْضِعُواُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔      أَوْلَادَكُمْ ۔۔۔۔ فَلَا جُنَاحَ ۔۔۔۔۔۔۔   عَلَيْكُمْ 

دودھ پلواؤ دایہ سے ۔۔۔ اولاد تمہاری ۔۔۔ پس نہیں گناہ ۔۔۔ تم پر 

إِذَا ۔۔۔۔۔۔   سَلَّمْتُم ۔۔۔۔۔۔۔۔    مَّا ۔۔۔۔ آتَيْتُم ۔۔۔۔۔۔  بِالْمَعْرُوفِ

جب ۔۔۔ حوالے کر دو ۔۔ جو ۔۔ دیا تم نے ۔۔۔ دستور کے موافق 

 وَاتَّقُوا ۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهَ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا۔۔۔۔۔  أَنَّ ۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهَ 

اور ڈرو ۔۔ الله تعالی ۔۔ اور جان لو ۔۔ بے شک ۔۔ الله 

بِمَا ۔۔۔۔۔۔۔  تَعْمَلُونَ ۔۔۔۔۔۔۔  بَصِيرٌ.  2️⃣3️⃣3️⃣

وہ جو ۔۔۔ تم کرتے ہو ۔۔۔ دیکھتا ہے 


وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.    2️⃣3️⃣3️⃣


اور وارثوں پر بھی یہی لازم ہے پھر اگرماں باپ چاہیں کہ دودھ چُھڑا لیں اپنی رضا اور مشورے سے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم چاہو تو اپنی اولاد کو کسی دایہ سے دودھ پلواؤ تو بھی تم پر کچھ گناہ نہیں  جب کہ حوالے کردو جو تم نے دینا ٹہرایا تھا دستور کے موافق اور الله سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ الله تعالی تمہارے سب کاموں کو دیکھتا ہے ۔ 


اَلْوَارِثِ ( وارث ) ۔ وارث سے مراد وہ محرم رشتہ دار ہے جو باپ کے بعد شرعی وارث ہے ۔ 

مِثلُ ذالک ( یہی ) ۔ یعنی جس طرح باپ پر بچہ کی ماں کے حقوق کی حفاظت لازمی ہے ۔ اسی طرح باپ کے بعد اس کے قریب ترین وارث عزیزوں پر بھی واجب ہے ۔ 

بچہ کی پرورش کا خرچ باپ کے ذمہ ہے ۔ اور جب باپ مرجائے تو پھر حکم اس طرح ہے کہ اگر بچہ مال کا مالک ہو تو اسی مال میں سے اس کا خرچ چلے گا ۔ اور اگر مال کا مالک نہیں تو اس کے مال دار عزیزوں  میں سے جو لوگ اس کے محرم ہوں اور محرم ہونے کے علاوہ شرعا اس کے مستحق میراث بھی ہوں تو ان وارث رشتہ داروں کے ذمہ اس کا خرچ واجب ہو گا ۔ 

دودھ پیتے  بچہ کے اخراجات جو دوسروں پر واجب کئے گئے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ بچہ خود اپنی پرورش کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اس سے ایک یہ بات بھی نکالی جا سکتی ہے کہ محتاج عورتوں ، اپاہج مردوں اور نابالغوں کے اخراجات ِ زندگی ان کے رشتہ داروں کے ذمہ ہیں ۔ 

اس کے بعد یہ حکم بھی دے دیا کہ اگر  والدین دو برس سے پہلے ہی دودھ چُھڑا دینا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن یہ فیصلہ وہ باہمی صلاح و مشورہ سے کریں ۔ ماں کا جذبہ شفقت اور پرورش کا حق زیادہ ہوتا ہے ۔ اس لئے بچے کے معاملات کو صرف باپ کی رائے پر نہیں چھوڑ دیا گیا ۔ پھر یہ بھی واضح کر دیا کہ بعض حالات میں جب ماں کی بجائے دودھ کسی دوسری عورت سے پلوانا درکار ہو تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ۔ بشرطیکہ اجرت ادا کردی جائے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

دودھ پلانے کی مدت ۔۔۔ ۲۳۳- (ا)

دودھ پلانے کی مدّت


وَالْوَالِدَاتُ ۔۔۔  يُرْضِعْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَوْلَادَهُنَّ ۔۔۔ حَوْلَيْنِ ۔۔۔ كَامِلَيْنِ 

اور بچے والی عورتیں ۔۔۔  دودھ پلائیں ۔۔۔ ان کی اولاد ۔۔ دو برس ۔۔ پورے 

لِمَنْ ۔۔۔ أَرَادَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔  يُتِمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔   الرَّضَاعَةَ ۔۔۔ وَعَلَى ۔۔۔ الْمَوْلُودِ 

جو کوئی ۔۔۔ ارادہ کرے ۔۔۔ یہ کہ ۔ وہ پوری کرے ۔۔ دودھ کی مدّت ۔۔ اور پر ۔۔ لڑکا 

لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔   رِزْقُهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَكِسْوَتُهُنَّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    لَا تُكَلَّفُ 

اس کے لئے ۔۔۔ کھانا ان کا ۔۔۔ اور کپڑا ان کا ۔۔۔۔ دستور کے موافق ۔۔۔ نہیں تکلیف دی جاتی 

نُفْسٌ ۔۔۔۔۔۔  إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وُسْعَهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لَا تُضَارَّ ۔۔۔۔۔۔۔   وَالِدَةٌ 

کسی جان کو ۔۔۔ مگر ۔۔ اس کی وسعت کے مطابق ۔۔۔ نہ نقصان دیا جائے ۔۔۔ ماں 

بِوَلَدِهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَا مَوْلُودٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِوَلَدِهِ 

اس کی اولاد کی وجہ سے ۔۔۔ اور نہ جس کا بچہ ہو (باپ ) ۔۔۔ اس کا ۔۔۔ اس کے  بچہ کی وجہ سے 


وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نُفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ 


اور بچوں والی عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں پورے دو برس  جو کوئی چاہے کہ وہ دودھ پلانے کی مدّت کو پورا کرے  اور لڑکے والے ( باپ ) پر ان عورتوں کا کھانا اور کپڑا دستور کے موافق واجب ہے۔ کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر اس کی گنجائش کے موافق  نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان دیا جائے اور نہ اس کو جس کا وہ بچہ ہے یعنی باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے 


رَضَاعَه ( دودھ کی مدّت ) ۔ اسلامی شریعت میں دودھ پلانے کی فطری  مدّت کامل دو سال مقرر کی گئی ہے ۔ اس میں کمی بیشی باہمی رضا مندی پر چھوڑ دی گئی ہے ۔ ان احکام کی تفصیلات موجودہ اور آئندہ سبق میں موجود ہیں ۔ 

اَلْوَالِداتُ ( بچے والی عورتیں ) ۔ مراد بچوں کی مائیں ہیں ۔ خواہ نکاح میں ہوں یا طلاق پا چکی ہوں ۔ 

اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ماں اپنے بچے کو دو برس تک دودھ پلائے ۔ اور یہ مدّت اس کے لئے ہے جو ماں باپ اپنے بچے کے لئے دودھ پلانے کی مدّت کو پورا کرنا چاہیں ۔ ورنہ اس میں کمی بھی جائز ہے ۔ جیسا کہ آیت کے آخر میں آتا ہے ۔ اس حکم میں وہ مائیں بھی داخل ہیں ۔ جن کا نکاح قائم ہے اور وہ بھی جن کو طلاق مل  چکی ہو یا ان کی عدّت گزر چکی ہو ۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ بیوی کا کھانا کپڑا خاوند پر ہر حال میں لازم ہے ۔ 

اس آیت سے معلوم ہوا کہ دودھ کی مدّت جس ماں سے پورا کرانا چاہیں یا باپ سے دودھ پلانے کی اُجرت ماں کو دلوانا چاہیں تو اس کی مدّت مکمل دو سال ہے ۔ اس کے بعد یہ بھی واضح ہوگیا کہ باپ کو بچہ کی ماں کو کھانا کپڑا ہر حال میں دینا پڑے گا ۔

 پہلی صورت میں تو اس کے نکاح میں ہے ۔

 دوسری صورت میں دودھ پلانے کی اجرت دینی ہو گی ۔

 اور بچہ کے ماں باپ کسی طرح سے ایک دوسرے کو تکلیف نہ دیں ۔ مثلا ماں بلاوجہ دودھ پلانے سے انکار کرے یا باپ بلا وجہ ماں سے بچے کو جُدا کرکے کسی اور سے دودھ نہ پلائے یا کھانے کپڑے میں تنگی نہ کرے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

عورت کی رضا ۔۔۔ ۲۳۲

عورت کی رضا


وَإِذَا ۔۔۔ طَلَّقْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   النِّسَاءَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَبَلَغْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَجَلَهُنَّ 

اور جب ۔۔۔ تم نے طلاق دی ۔۔۔ عورتیں ۔۔۔ پھر وہ پہنچ جائیں ۔۔۔ اپنی مدّت کو 

فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَن يَنكِحْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَزْوَاجَهُنَّ  ۔۔۔ إِذَا 

پس تم نہ روکو انہیں ۔۔۔ یہ کہ وہ نکاح کرلیں ۔۔ اپنے شوہروں سے ۔۔۔ جب 

تَرَاضَوْا ۔۔۔  بَيْنَهُم ۔۔۔۔۔۔۔   بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ذَلِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    يُوعَظُ 

 راضی ہو جائیں ۔۔۔ آپس میں ۔۔۔ دستور کے مطابق ۔۔۔ یہ ۔۔ نصیحت کی جاتی ہے 

بِهِ ۔۔۔ مَن ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔  مِنكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔   يُؤْمِنُ ۔۔۔۔۔۔۔   بِاللَّهِ ۔۔۔ وَالْيَوْمِ ۔۔۔ الْآخِرِ

جوکہ ۔۔۔ جو ۔۔۔ ہو ۔۔۔ تم میں سے ۔۔۔ ایمان لاتا ہے ۔۔۔ الله پر ۔۔ اور دن ۔۔ آخرت 

 ذَلِكُمْ ۔۔۔۔ أَزْكَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَأَطْهَرُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاللَّهُ 

یہ ۔۔ زیادہ پاکیزہ ہے ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ اور زیادہ پاکیزہ ۔۔۔ اور الله 

يَعْلَمُ ۔۔۔ وَأَنتُمْ ۔۔۔  لَا تَعْلَمُونَ 2️⃣3️⃣2️⃣

وہ جانتا ہے ۔۔۔ اور تم ۔۔۔ نہیں جانتے 


وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ 2️⃣3️⃣2️⃣


اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی پھر وہ اپنی عدّت پوری کر چکیں تو اب انہیں اس سے نہ روکو کہ نکاح کرلیں اپنے انہیں خاوندوں سے جبکہ آپس میں دستور کے موافق راضی ہو جائیں ۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں سے الله اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اس میں تمہارے لئے ستھرائی اور پاکیزگی ہے اور الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ 


فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ ( پھر اپنی عدّت پوری کر چکیں ) ۔ فَبَلَغْنَ کا ترجمہ ہے پھر وہ پہنچ جائیں ۔ یعنی پوری کر لیں  اَجَلَھُنَّ کا ترجمہ ہے ان کی اپنی مدّت ۔ یعنی مقررہ میعاد ۔ جسے شریعت کی اصطلاح میں عدّت کہتے ہیں ۔ 

اِذَا طَلَقْتُمْ ( جب تم نے طلاق دی ) ۔ یہاں یہ خطاب براہ راست تو شوہروں سے ہے ۔ لیکن مخاطب پوری ملت ہے ۔

اَزْوَاجَھُنَّ ( اپنے انہی خاوندوں سے ) ۔ یعنی وہ شوہر جنہیں عورتیں پسند کریں ۔ خواہ وہ نئے ہوں یا وہی پرانے ۔ جو ایک بار انہیں چھوڑ چکے ہیں ۔ 

تَرَاضُوا ( راضی ہوجائیں ) ۔ اس لفظ سے یہ بات ظاہر ہے کہ ایجاب اور قبول نکاح کے رُکن ہیں ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ شوہر اور بیوی کی بجائے بعض اوقات ان کے ولی یا وکیل ایجاب و قبول کرلیں اور اسے وہ دونوں تسلیم کر لیں ۔ بصورت دیگر اگر دونوں راضی نہ ہوں تو نکاح نہیں ہوتا ۔ 

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک عورت کو اس کے خاوند نے ایک یا دوطلاق دے دی اور عدّت میں رجعت بھی نہ کی ۔ جب مدّت ختم ہوگئی تو دوسرے لوگوں کے ساتھ پہلے خاوند نے بھی نکاح کا پیغام دیا ۔ عورت اس بات پر راضی تھی لیکن عورت کے بھائی کو غصہ آیا اور نکاح کو روک دیا ۔ اس پر یہ حکم اترا کہ عورت کی خوشنودی اور بہبودی کو سامنے رکھنا چاہئیے ۔ اس کے موافق نکاح ہونا چاہئیے ۔ اپنے کسی خیال اور ناخوشی کو دخل نہیں دینا چاہئیے ۔ البتہ اگرخلاف قاعدہ کوئی بات ہو مثلا پہلے خاوند کی عدّت کے اندر کسی دوسرے سے نکاح کرنا چاہئیے ۔ تو بے شک ایسے نکاح سے روکنے کا حق ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

احکام الہی کا مذاق ۔۔۔ ۲۳۱ -ب

احکامِ الہی کا مذاق


وَلَا تَتَّخِذُوا ۔۔۔  آيَاتِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ هُزُوًا 

اور نہ تم بناؤ ۔۔۔ احکام ۔۔ الله ۔۔ مذاق 

وَاذْكُرُوا ۔۔۔  نِعْمَتَ ۔۔۔  اللَّهِ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ وَمَا 

اور یاد کرو ۔۔۔ نعمت ۔۔۔ الله ۔۔۔ تم پر ۔۔۔ اور جو 

أَنزَلَ ۔۔۔ عَلَيْكُم ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔۔ الْكِتَابِ ۔۔۔ وَالْحِكْمَةِ 

اتاری ۔۔ تم پر ۔۔ سے ۔۔ کتاب ۔۔۔ اور علم کی باتیں 

يَعِظُكُم  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِهِ ۔۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔  وَاعْلَمُوا 

وہ نصیحت کرتا ہے تم کو ۔۔ اس سے ۔۔۔ اور ڈرو ۔۔ الله ۔۔ اور جان لو 

أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ بِكُلِّ ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔ عَلِيمٌ 2️⃣3️⃣1️⃣

بے شک ۔۔ الله ۔۔۔ ہر ۔۔۔ چیز ۔۔۔ جانتا ہے 


وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ. 2️⃣3️⃣1️⃣


اور الله تعالی کے احکام کو ہنسی نہ ٹہراؤ اور تم پر الله تعالی کا جو احسان ہے یاد کرو اور جو کتاب اور علم کی باتیں تم پر اتاریں تمہیں اس کے ذریعے نصیحت کرتا ہے اور الله سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ الله تعالی سب کچھ جانتا ہے ۔ 


اس آیت میں الله تعالی نے یہ تنبیہ کر دی ہے کہ ہمارے حکموں کو ہنسی اور مذاق نہ بناؤ کہ جس حکم پر چاہا عمل کرلیا اور جسے چاہا چھوڑ دیا ۔ بلکہ سارے احکام پر پوری طرح کاربند ہو جاؤ ۔ کیونکہ اسی میں تمہاری بھلائی ہے ۔ 

معاشرتی زندگی کا بنیادی پتھر خاندان اور خاندانی زندگی ہے ۔ اور خاندان کا بنیادی نقطہ میاں بیوی کے صحیح تعلقات ہیں ۔ اس لئے یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہوگا کہ ساری قوم کے معاشرتی نظام کی بنیاد میاں بیوی کے حقوق اور فرائض کی درستی اور بجا آوری ہے ۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے اور بیوی اپنے شوہر کے تمام حقوق نہایت خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہوں تو سارے معاشرے کی زندگی نہایت پختہ بنیادوں پر قائم ہوگی ۔ 

لیکن اگر میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوگئے آپس میں کسی قسم کی ناچاقی پیدا ہوگئی تو سمجھ لینا چاہئیے کہ ساری سوسائٹی خطرے میں ہے ۔ اس لئے تمام اصلاح پسند لوگوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئیے ۔ کہ وہ کسی طرح بھی میاں بیوی کے تعلقات خراب نہ ہونے دیں ۔ اسلام نے اس طرف خصوصیت سے زور دیا ہے ۔ 

اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ الله تعالی کے احکام میں ہنسی مذاق کو دخل نہ دو ۔ مثلا پہلے طلاق دے دی اور بعد میں رجعت کرلی ۔ اور کہہ دیا کہ طلاق تو محض ہنسی مذاق میں کہی تھی ۔ یا یونہی جوش میں کہہ دیا تھا ۔ 

شریعت کی ان تمام باتوں میں بڑی حکمت اور مصلحت بھری ہوئی ہے ۔ انسان کا کام ہے کہ وہ ان باتوں پر غور کرے اور ان کی تہہ تک پہنچے ۔ الله تعالی نے یہ احکام ہماری ھدایت اور راہنمائی کے لئے بھیجے ہیں ۔ ان سے فائدہ اٹھانا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے ۔ الله تعالی ہماری نیتیں جانتا ہے ۔ ہمارے حالات سے واقف ہے ۔ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ۔ نیت صاف رکھنا اور معاملات کو سدھارنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

بیویوں سے برتاؤ ۔۔۔ ۲۳۱-(ا)

بیویوں کے ساتھ برتاؤ


وَإِذَا ۔۔۔ طَلَّقْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  النِّسَاءَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَبَلَغْنَ ۔۔۔۔۔۔۔ أَجَلَهُنَّ 

اور جب ۔۔ تم طلاق دے دو ۔۔ عورتیں ۔۔۔ پھر وہ پہنچیں ۔۔۔ ان کی عدّت 

فَأَمْسِكُوهُنَّ ۔۔۔  بِمَعْرُوفٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔   أَوْ سَرِّحُوهُنَّ  ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِمَعْرُوفٍ 

تو روک لو ان کو ۔۔۔ دستور کے موافق ۔۔۔ یا چھوڑ دو ان کو ۔۔۔ دستور کے موافق 

وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ۔۔۔  ضِرَارًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    لِّتَعْتَدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَمَن

اور نہ تم روکو ان کو ۔۔ ستانا ۔۔ تاکہ تم زیادتی کرو ۔۔ اور جو شخص 

 يَفْعَلْ ۔۔۔ ذَلِكَ ۔۔۔۔۔۔  فَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ظَلَمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   نَفْسَهُ

کرے ۔۔۔ یہ ۔۔ پس تحقیق ۔۔ ظلم کیا اس نے ۔۔۔ جان اُس کی 


وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ


اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی پھر وہ اپنی عدت کو پہنچیں تو انہیں دستور کے موافق رکھ لو یا انہیں چھوڑ دو دستور کے موافق  اور ان کو نہ روکو ستانے کے لئے  تاکہ تم ان پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے گا وہ بے شک اپنا ہی نقصان کرے گا ۔ 


اِذَا طَلَقْتُمْ ( جب تم نے طلاق دی) ۔ یہاں مراد وہی ایک یا دوبار دی ہوئی طلاق رجعی ہے ۔ جس کے بعد ابھی رجوع کر لینے کی گنجائش ہے ۔ 

اَجَلَھُنَّ ( ان کی عدّت ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ عدت کا  زمانہ اب ختم ہونے پر ہو ۔ لیکن پوری طرح ختم نہ ہو چکا ہو 

ورنہ بالکل ختم ہو جانے کے معنی یہ ہوں گے کہ اب رجعت کی گنجائش باقی نہ رہی ۔ 

اس آیت میں یہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ جب خاوند ایک یا دومرتبہ بیوی کو طلاق دے دے اور آخری تیسری بار طلاق نہ دی ہو تو اس طلاق سے پہلے اگر وہ رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔ اور اگر رجوع نہ کرنا چاہے تو تیسری مرتبہ طلاق دے دے ۔ یا پھر اگر وہ خاموش رہے گا تو عدّت پوری ہونے کے بعد خود بخود سمجھ لیا جائے گا کہ وہ رجوع نہیں کرنا چاہتا اور اس نے ارادتاً بیوی سے تعلق توڑ لیا ہے ۔ 

لیکن ضروری چیز یہ ہے کہ شوہر ان دونوں راستوں میں سے جو راستہ بھی اختیار کرے وہ دستور کے مطابق اور شریعت کے موافق ہو ۔ یعنی اگر وہ اسے اپنی زوجیت میں لینا چاہے تو بڑی شرافت اور عزت سے دوبارہ لوٹائے ۔ اور اگر اس سے تعلق توڑ لینا چاہے تو بڑی شرافت اور عزت کے ساتھ اسے گھر سے رخصت کردے ۔ 

غرض دونوں صورتیں قانون اور آداب کے موافق ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ بیوی کو تنگ کرنے اور ستانے کے لئے رجعت کر لے اور یوں اسے خوامخواہ قید میں ڈالے ۔ 

جو لوگ عورتوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور محض ستانے کے لئے دوبارہ زوجیت میں لے لیتے ہیں ۔ ان کے بارے میں الله تعالی نے بیان فرمایا کہ اس طرح وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔ وہ اپنا نقصان آپ کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے ایسا کرنے سے ان کا اپنا  گھر آباد نہیں ہو سکے گا ۔ بلکہ برباد ہو جائے گا ۔ خود انہیں بھی چین اور سکون نصیب نہ ہوگا ۔ ان کی گھریلو زندگی پریشانیوں اور دکھوں کا مجموعہ بن جائے گی ۔ دونوں اپنی اولاد کی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتیں گے ۔ اسی طرح تباہی اور بربادی ڈیرہ جما لے گی ۔ اگر کچھ عرصے بعد یہ شخص اپنی بیوی کو طلاق دے بھی دے تو پھر کوئی شریف عورت اس کی نئی بیوی بننے کے لئے تیار نہ ہو گی ۔ خاوند کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرے تاکہ خود بھی خوش رہ سکے اور وہ بھی ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حلالہ ۔۔۔ متعلق آیت ۲۳۰

حلالہ


اسلام ایک فطری مذہب ہے ۔ انسان کی پوری زندگی کا ایک مکمل دستور العمل ہے ۔ دنیاوی اور اخروی زندگی کی فلاح وبہبود حاصل کرنے کا راستہ دکھاتا ہے ۔ اسلام حیاتِ زندگی کے ہر شعبے پر پوری طرح حاوی ہے ۔ زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل نہ بتاتا ہو ۔ اور کوئی پہلوایسا نہیں جس کے بارے میں احکام نافذ نہ کرتا ہو ۔ 

انسان کی اجتماعی زندگی گھرانے سے شروع ہوتی ہے ۔ اگر گھریلو زندگی کامیاب ہو اور میاں بیوی کے تعلقات بہتر حالت میں ہوں تو ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو بڑی اچھی فضا میں پائے گا ۔ اپنا کام اچھے طریقے سے کر سکے گا ۔ بچوں کو اعلٰی نمونے ملیں گے ۔ اور وہ بھی بڑے ہوکر نیک راہ پر چلیں گے ۔ اس لئے اسلام مسلمان کی گھریلو زندگی کو بہتر بناتا ہے ۔ خاندان میں شوہر اور بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر ان میں باہمی تعاون ہو تو اس گھرانے کا ہر بچہ بڑی سہولت سے ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا جائے گا ۔ لیکن اگر مرد و عورت میں ناچاقی ہو اور فکر وعمل میں اختلاف ہو تو ان کا خود بھی اکٹھے چلنا نہایت دشوار ہے ۔ اور ان کا یہ اختلاف اولاد کے لئے بھی مہلک ثابت ہوگا ۔ 

اسلام انسانی فطرت کے اس پہلو سے بھی آگاہ ہے ۔ اور مجبوری کی حالت میں طلاق کو جائز قرار دیتا ہے ۔ اگر مرد طلاق دینا چاہتا ہے تو خوب سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے ۔ اگر عورت شوہر کے ہاتھوں نالاں ہے تو وہ بھی علیحدگی اختیار کر سکتی ہے ۔ لیکن مرد و عورت کے ازدواجی تعلقات کی اہمیت جتانے کے لئے شریعت نے بعض احکام اور پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں ۔

مثلا شوہر اگر طلاق کا پکا ارادہ رکھتا ہے اور دوسری طلاق کے بعد عدّت کے اندر رجعت نہیں کرتا ۔ بلکہ تیسری طلاق دے دیتا ہے ۔ تو اس کے بعد وہ اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا ۔ اگر کرنا چاہے تو اس کی شرط بہت کڑی ہے ۔ یعنی یہ کہ مطلقہ سے کوئی اور شخص شادی کرے ۔ اس سے صحبت کرے اور اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے ۔ اور پھر اس کے بعد پوری عدّت گزر جائے ۔ اور پھر پہلا شوہر  اس سے دوبارہ نکاح  کرے ۔ اس نکاحِ جدید کو اصطلاح شریعت میں " حلالہ" کہتے ہیں ۔ لیکن اس حلالہ کے بعد نکاح اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ان دونوں کو الله تعالی کے احکام قائم رکھنے یعنی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا خیال ہو ۔ اور اس پر اعتماد ہو ۔ ورنہ باہمی جھگڑے اور حقوق کو تلف کرنے کی نوبت آجائے گی ۔ اور وہ دونوں گناہ میں مبتلا ہوں گے ۔ 

رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اُن مردوں پر لعنت بھیجی ہے جو اس کو ایک پیشہ بنا لیتے ہیں ۔ یعنی ایک مرد اس لئے اس مطلقہ سے شادی کرتا ہے ۔ کہ وہ اسے طلاق دے دے ۔ تاکہ پہلا مرد عورت مذکورہ سے پھر نکاح کر سکے ۔ 

افسوس کہ ہم مسلمانوں نے ان مسائل کا حق نہ پہچانا ۔ اور دین کو مذاق بنا لیا ۔ شریعت نے طلاق پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کی پرواہ نہ کی ۔ جب چاہا بے سوچے سمجھے طلاق دے دی ۔ جب غصہ دُور ہوا اور عقل ٹھکانے آئی اور پچھتانے لگے اور حلالے کی ناجائز صورتیں اختیار کرنے لگے ۔ یہ سب خرابی دین سے غفلت ، جہالت اور مسائل کا احترام نہ کرنے سے پیدا ہوئی ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں