بیویوں سے برتاؤ ۔۔۔ ۲۳۱-(ا)

بیویوں کے ساتھ برتاؤ


وَإِذَا ۔۔۔ طَلَّقْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  النِّسَاءَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَبَلَغْنَ ۔۔۔۔۔۔۔ أَجَلَهُنَّ 

اور جب ۔۔ تم طلاق دے دو ۔۔ عورتیں ۔۔۔ پھر وہ پہنچیں ۔۔۔ ان کی عدّت 

فَأَمْسِكُوهُنَّ ۔۔۔  بِمَعْرُوفٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔   أَوْ سَرِّحُوهُنَّ  ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِمَعْرُوفٍ 

تو روک لو ان کو ۔۔۔ دستور کے موافق ۔۔۔ یا چھوڑ دو ان کو ۔۔۔ دستور کے موافق 

وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ۔۔۔  ضِرَارًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    لِّتَعْتَدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَمَن

اور نہ تم روکو ان کو ۔۔ ستانا ۔۔ تاکہ تم زیادتی کرو ۔۔ اور جو شخص 

 يَفْعَلْ ۔۔۔ ذَلِكَ ۔۔۔۔۔۔  فَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ظَلَمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   نَفْسَهُ

کرے ۔۔۔ یہ ۔۔ پس تحقیق ۔۔ ظلم کیا اس نے ۔۔۔ جان اُس کی 


وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ


اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی پھر وہ اپنی عدت کو پہنچیں تو انہیں دستور کے موافق رکھ لو یا انہیں چھوڑ دو دستور کے موافق  اور ان کو نہ روکو ستانے کے لئے  تاکہ تم ان پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے گا وہ بے شک اپنا ہی نقصان کرے گا ۔ 


اِذَا طَلَقْتُمْ ( جب تم نے طلاق دی) ۔ یہاں مراد وہی ایک یا دوبار دی ہوئی طلاق رجعی ہے ۔ جس کے بعد ابھی رجوع کر لینے کی گنجائش ہے ۔ 

اَجَلَھُنَّ ( ان کی عدّت ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ عدت کا  زمانہ اب ختم ہونے پر ہو ۔ لیکن پوری طرح ختم نہ ہو چکا ہو 

ورنہ بالکل ختم ہو جانے کے معنی یہ ہوں گے کہ اب رجعت کی گنجائش باقی نہ رہی ۔ 

اس آیت میں یہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ جب خاوند ایک یا دومرتبہ بیوی کو طلاق دے دے اور آخری تیسری بار طلاق نہ دی ہو تو اس طلاق سے پہلے اگر وہ رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔ اور اگر رجوع نہ کرنا چاہے تو تیسری مرتبہ طلاق دے دے ۔ یا پھر اگر وہ خاموش رہے گا تو عدّت پوری ہونے کے بعد خود بخود سمجھ لیا جائے گا کہ وہ رجوع نہیں کرنا چاہتا اور اس نے ارادتاً بیوی سے تعلق توڑ لیا ہے ۔ 

لیکن ضروری چیز یہ ہے کہ شوہر ان دونوں راستوں میں سے جو راستہ بھی اختیار کرے وہ دستور کے مطابق اور شریعت کے موافق ہو ۔ یعنی اگر وہ اسے اپنی زوجیت میں لینا چاہے تو بڑی شرافت اور عزت سے دوبارہ لوٹائے ۔ اور اگر اس سے تعلق توڑ لینا چاہے تو بڑی شرافت اور عزت کے ساتھ اسے گھر سے رخصت کردے ۔ 

غرض دونوں صورتیں قانون اور آداب کے موافق ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ بیوی کو تنگ کرنے اور ستانے کے لئے رجعت کر لے اور یوں اسے خوامخواہ قید میں ڈالے ۔ 

جو لوگ عورتوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور محض ستانے کے لئے دوبارہ زوجیت میں لے لیتے ہیں ۔ ان کے بارے میں الله تعالی نے بیان فرمایا کہ اس طرح وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔ وہ اپنا نقصان آپ کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے ایسا کرنے سے ان کا اپنا  گھر آباد نہیں ہو سکے گا ۔ بلکہ برباد ہو جائے گا ۔ خود انہیں بھی چین اور سکون نصیب نہ ہوگا ۔ ان کی گھریلو زندگی پریشانیوں اور دکھوں کا مجموعہ بن جائے گی ۔ دونوں اپنی اولاد کی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتیں گے ۔ اسی طرح تباہی اور بربادی ڈیرہ جما لے گی ۔ اگر کچھ عرصے بعد یہ شخص اپنی بیوی کو طلاق دے بھی دے تو پھر کوئی شریف عورت اس کی نئی بیوی بننے کے لئے تیار نہ ہو گی ۔ خاوند کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرے تاکہ خود بھی خوش رہ سکے اور وہ بھی ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں