نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حلالہ ۔۔۔ متعلق آیت ۲۳۰

حلالہ


اسلام ایک فطری مذہب ہے ۔ انسان کی پوری زندگی کا ایک مکمل دستور العمل ہے ۔ دنیاوی اور اخروی زندگی کی فلاح وبہبود حاصل کرنے کا راستہ دکھاتا ہے ۔ اسلام حیاتِ زندگی کے ہر شعبے پر پوری طرح حاوی ہے ۔ زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل نہ بتاتا ہو ۔ اور کوئی پہلوایسا نہیں جس کے بارے میں احکام نافذ نہ کرتا ہو ۔ 

انسان کی اجتماعی زندگی گھرانے سے شروع ہوتی ہے ۔ اگر گھریلو زندگی کامیاب ہو اور میاں بیوی کے تعلقات بہتر حالت میں ہوں تو ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو بڑی اچھی فضا میں پائے گا ۔ اپنا کام اچھے طریقے سے کر سکے گا ۔ بچوں کو اعلٰی نمونے ملیں گے ۔ اور وہ بھی بڑے ہوکر نیک راہ پر چلیں گے ۔ اس لئے اسلام مسلمان کی گھریلو زندگی کو بہتر بناتا ہے ۔ خاندان میں شوہر اور بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر ان میں باہمی تعاون ہو تو اس گھرانے کا ہر بچہ بڑی سہولت سے ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا جائے گا ۔ لیکن اگر مرد و عورت میں ناچاقی ہو اور فکر وعمل میں اختلاف ہو تو ان کا خود بھی اکٹھے چلنا نہایت دشوار ہے ۔ اور ان کا یہ اختلاف اولاد کے لئے بھی مہلک ثابت ہوگا ۔ 

اسلام انسانی فطرت کے اس پہلو سے بھی آگاہ ہے ۔ اور مجبوری کی حالت میں طلاق کو جائز قرار دیتا ہے ۔ اگر مرد طلاق دینا چاہتا ہے تو خوب سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے ۔ اگر عورت شوہر کے ہاتھوں نالاں ہے تو وہ بھی علیحدگی اختیار کر سکتی ہے ۔ لیکن مرد و عورت کے ازدواجی تعلقات کی اہمیت جتانے کے لئے شریعت نے بعض احکام اور پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں ۔

مثلا شوہر اگر طلاق کا پکا ارادہ رکھتا ہے اور دوسری طلاق کے بعد عدّت کے اندر رجعت نہیں کرتا ۔ بلکہ تیسری طلاق دے دیتا ہے ۔ تو اس کے بعد وہ اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا ۔ اگر کرنا چاہے تو اس کی شرط بہت کڑی ہے ۔ یعنی یہ کہ مطلقہ سے کوئی اور شخص شادی کرے ۔ اس سے صحبت کرے اور اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے ۔ اور پھر اس کے بعد پوری عدّت گزر جائے ۔ اور پھر پہلا شوہر  اس سے دوبارہ نکاح  کرے ۔ اس نکاحِ جدید کو اصطلاح شریعت میں " حلالہ" کہتے ہیں ۔ لیکن اس حلالہ کے بعد نکاح اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ان دونوں کو الله تعالی کے احکام قائم رکھنے یعنی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا خیال ہو ۔ اور اس پر اعتماد ہو ۔ ورنہ باہمی جھگڑے اور حقوق کو تلف کرنے کی نوبت آجائے گی ۔ اور وہ دونوں گناہ میں مبتلا ہوں گے ۔ 

رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اُن مردوں پر لعنت بھیجی ہے جو اس کو ایک پیشہ بنا لیتے ہیں ۔ یعنی ایک مرد اس لئے اس مطلقہ سے شادی کرتا ہے ۔ کہ وہ اسے طلاق دے دے ۔ تاکہ پہلا مرد عورت مذکورہ سے پھر نکاح کر سکے ۔ 

افسوس کہ ہم مسلمانوں نے ان مسائل کا حق نہ پہچانا ۔ اور دین کو مذاق بنا لیا ۔ شریعت نے طلاق پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کی پرواہ نہ کی ۔ جب چاہا بے سوچے سمجھے طلاق دے دی ۔ جب غصہ دُور ہوا اور عقل ٹھکانے آئی اور پچھتانے لگے اور حلالے کی ناجائز صورتیں اختیار کرنے لگے ۔ یہ سب خرابی دین سے غفلت ، جہالت اور مسائل کا احترام نہ کرنے سے پیدا ہوئی ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...