زندگی کا سفر اور اس کا انجام

ہماری یہ چھوٹی مختصر اورمحدود زندگی دراصل ایک سفر ہے ایک منزل کی جانب ۔
اس کی جانب اشارہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ملتاہے جوآنحضرت نے حضرت انس کے کندھے  پکڑ کر بڑے پیار اورشفقت سے ان سے فرمایاتھا۔

 کن فی الدنیا کانک غریب اورعابرسبیل
 دنیا میں ایسے رہو جیساکہ تم پردیسی ہو یاپھر راہ گزرنے والے ہو۔

یہ دوراستے کون سے ہیں۔یہ خیر اورشر کے راستے ہیں 
اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشادہے 

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ۔۔۔۔ اور ہم نے اسے خیر وشر کے دونوں راستے دکھا دئیے 
البلد ۔ 
راستوں کے ساتھ منزل کا بھی تعین کر دیا کہ وہ منزل کیاہے ؟
  ایک منزل یہ ہے

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ
البروج 
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح کئے ان  کے لیے (بہشت کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی (اور) یہ بڑ ی کامیابی ہے۔
دوسری منزل یہ ہے

فَلَهُمۡ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمۡ عَذَابُ ٱلۡحَرِيقِ
البروج 

ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور (جہنم میں بالخصوص) ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک ہی آیت میں بتادیاہے کہ حقیقی کامیابی اورحقیقی خسران اورگھاٹا کیاہے ؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے

فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز
 سورہ آل عمران
جس کو جہنم سے ہٹالیا اورجنت میں داخل کیاگیا تو وہ فلاح وکامیاب ہوگیا۔

اپنے مقصد اور مراد کو پہنچ گیااوراپنی منزل کو پاگیا۔ اورجس کے ساتھ ایسانہ ہو اسے جہنم سے دورنہ کیاگیااسے جنت میں داخلہ کا پروانہ نہیں ملا تو وہ ناکام رہا۔ گھاٹے میں رہاٹوٹے میں رہا۔خسارے میں رہا ۔

نماز ۔۔ خلاصہ عبادت انبیاء

ہجرت سے پہلے نماز مغرب کے سوا ہر نماز میں صرف دو رکعتیں فرض تھیں.. مدینہ آنے کے بعد ایک ماہ گزرا تو ظہر ، عصر اور عشاء میں دو دو رکعت کے اضافہ کا حکم آیا.. اوقات نماز کے بارے میں روایت ہے کہ نماز فجر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے پڑھی تھی.. ظہر کی نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بطور شکرانہ پڑھی تھی.. اس لئے کہ نمرود کے آتش کدہ کو اللہ تعالیٰ نے جب گلزار بنایا , اس وقت دوپہر کا وقت تھا.. نماز عصر سب سے پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام نے ادا کی تھی.. اس لئے کہ ان کے صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کے بعد ان کے صحیح و سلامت ہونے کی اطلاع حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت یعقوب کو دی تو اس وقت عصر کا وقت تھا.. مغرب کی نماز پہلے داؤد علیہ السلام نے ادا کی تھی.. اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ جب قبول کی , اس وقت مغرب کا وقت تھا..   حضرت داؤد نے شکرانہ میں نماز مغرب پڑھی.. حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکل آئے تو رات کا وقت تھا.. انھوں نے شکرانے میں پہلی نماز عشاء ادا کی.. اللہ تعالیٰ نے معراج کی شب میں ان پانچوں نمازوں کو اُمت محمدی کے لئے فرض کیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ خلاصہ ٔ عبادات انبیاء ہے.. (واللہ اعلم)

(مصباح الدین شکیل , سیرت احمد مجتبیٰ)

*وضو کا اہتمام*

ارشاد باری تعالٰی ہے۔

یَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُو سِکُمْ وَ ارْ جُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ
 سورۃ المائدہ:۵
اے ایمان والو ! جب تم نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو تو تم اپنےچہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اپنے سر کا مسح کر لو۔ 

  • اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کرنا لازمی ہے۔

  • حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ الصلوٰۃ مفاتیح الجنۃ و مفاتیح الصلوٰۃ الطھور۔ جنت کی کنجیاں نماز ہیں اور نماز کی کنجی وضو ہے۔

  • ایک حدیث پاک میں ہے کہ وضو کے اعضاء قیامت کے دن روشن ہوں گے جسکی وجہ سےنبی علیہ السلام اپنے امتی کو پہچان لیں گے۔
  • وضو کرنے والے کے سر پر اللہ تعالٰی کی رحمت کی چادر ہوتی ہے۔ جب وہ دنیا کی باتیں کرتا ہے تو چادر ہٹ جاتی ہے۔
  • ایک روایت میں ہے کہ جو شخص وضو شروع کرتے وقت بِسْمِ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی دِیْنِ الْاِسْلَامِ پڑھے اور وضو کے اختتام پر کلمہ شہادت پڑھے اسکے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

فضائل وضو

ایک حدیث مبارکہ  میں آیا ہے اَلْوُ ضُوْءُ سَلَّاحُ الْمُؤمِنِ (وضو مومن کا اسلحہ ہے) جس طرح ایک انسان اسلحے کے ذریعے اپنےدشمن کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح مومن وضو کے ذیعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امام غزالیؒ فرمایا کرتےتھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمارے مشائخ اپنی زندگی با وضو گزارنے کا اہتمام فرماتے تھے۔

حدیث پاک میں ہے اَنْتُمْ تَمُوْ تُوْ نَ کَمَا تَعِیْشُوْنَ (تم جس طرح زندگی گزارو گے تمہیں اسی طرح موت آئے گی)
اس حدیث پاک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی با وضو گزارنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالٰی اسے با وضو موت عطا فرمائیں گے۔

مولانا ذوالفقار نقشبندی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سےتعلق رکھنے والے ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ انکی کوٹھی ایک نئی کالونی میں بن رہی تھی۔ مغرب کا وقت شروع ہوا تو انہوں نے گھرکے دالان میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں بچھا دیں۔ انکے گھر کے صحن میں پانچ سات چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے۔ جب اقامت ہوئی تو کھیلنے والے بچے دوڑتے ہوئے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو انکے والد نے بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سیکھی ہے کہ اپنی زندگی باوضو گزارو۔ ہمارے گھر کاچھوٹا بڑا کوئی بھی فرد جب بھی آپکو ملے گا با وضو ہو گا۔ جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فورًا نیا وضو کر لیتے ہیں۔

*استغفار*

*استغفار کے فوائدقرآن وسنت کی روشنی میں*

استغفار کے بہت سے فوائد ہیں جنمیں سے چند درج ذیل ہیں
🌟
١۔ استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے 
ارشاد باری تعالی ہے۔۔۔

وَمَن یَعْمَلْ سُوء اً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّہَ یَجِدِ اللّہَ غَفُوراً رَّحِیْما
''جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا'مہربانی کرنے والا پائے گا''
(سورئہ نساء:١١٠)
🌟
٢۔ استغفار گناہوں کے مٹانے اوردرجات کی بلندی کا ذریعہ ہے
 'رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''اللہ تعالی جب جنت میں نیک بندے کے درجہ کو بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا :پروردگار یہ مرتبہ مجھے کیسے ملا؟اللہ تعالی فرمائے گاتیرے لئے تمہارے بچوں کے استغفار کے سبب 
''(مسند احمد'شعیب ارنؤوط نے اس کی سند کو حسن قراردیا ہے )
🌟
٣۔ استغفار بارش کے نزول 'مال واولادکی ترقی اور دخول حنت کا سبب ہے۔
  ارشاد باری تعالی ہے 

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً ' یُرْسِلِ السَّمَاء عَلَیْْکُمْ مِّدْرَاراً ' وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَاراً
''اور میں(نوح علیہ السلام) نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ(اور معافی مانگو)وہ یقینا بڑا بخشنے والا ہے 'وہ تم پرآسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑدے گا'اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا'اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا
''(سورئہ نوح:١٠۔١٢)
🌟
٤۔ استغفار ہر طرح کی طاقت وقوت کی زیادتی کا ذریعہ ہے ۔
:ارشاد باری تعالی ہے

وَیَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوْا ِلَیْْہِ یُرْسِلِ السَّمَاء َ عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً وَیَزِدْکُمْ قُوَّةًالَی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْن
''اے میری قوم کے لوگو!تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو'تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پراور طاقت وقوت بڑھادے اور تم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو''
(سورئہ ہود:٥٢)
🌟
٥۔ استغفار سامانِ زندگی کا سبب ہے 
ارشاد باری تعالی ہے

وَأَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُواْ ِلَیْْہِ یُمَتِّعْکُم مَّتَاعاً حَسَناً ِالَی أَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہُ
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤپھر اسی کی طرف متوجہ رہو وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی)دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا''
(سورئہ ہود:٣)
🌟
٦۔ استغفار بندے کے دنیاوی واخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے 
ارشاد باری تعالی ہے
وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُون
''اور اللہ تعالی ایسا نہ کرے گاکہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گااس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں''
(سورئہ انفال:٣٣)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''بندہ عذاب الہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ استغفار کرتارہتا ہے ''
(مسند احمد'شعیب ارنؤوط نے اس حدیث کو حسن قراردیا ہے )۔
🌟
٧۔ استغفار نزولِ رحمت کا سبب ہے 
ارشاد باری تعالی ہے
قَالَ یَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون
''آپ نے فرمایا اے میری قوم کے لوگو!تم نیکی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں مچارہے ہو؟ تم اللہ تعالی سے استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے ''
(سورئہ نمل:٤٦)
🌟
٨۔  استغفاردلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:'
'کہ مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے اگر وہ گناہ چھوڑکر توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگرگناہ پرگناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے یہی وہ ''رین ''ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے
 کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ
یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے
''(مسند احمد'شعیب ارنؤوط نے اس کی سند کوقوی قراردیا ہے )۔
🌟
٩۔ *استغفار قربت ِالہی کا سبب ہے*
ارشاد باری تعالی ہے

 ہُوَ أَنشَأَکُمْ مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْہَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوبُوْا ِلَیْْہِ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْب مُّجِیْب

''اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کاقبول کرنے والا ہے''
 (سورئہ ہود:٦١)۔
🌟
١٠۔ استغفار اللہ کی محبت اور اس کے لطف وکرم کا سبب ہے 
ارشاد باری تعالی ہے 
وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوْا ِلَیْْہِ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْم وَدُود
تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو یقین مانو کہ میرا رب بڑی مہربانی والا اور بہت محبت کرنے والا ہے''
(سورئہ ہود:٩٠)
🌟
١١۔ استغفار بعض گناہ کبیرہ کی بخشش کا ذریعہ ہے 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کہ جس نے کہا:
'' أَسْتَغْفِرُ اللّہَ الّذِیْ لَا الَہَ الَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ'' 
تو اللہ تعالی اس کے گناہ کو معاف فرمادے گااگرچہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگا ہو
''(سنن ابوداود' علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے )۔
🌟
١٢۔ استغفارقبر میں میت کی ثابت قدمی کا باعث ہے 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس ٹھہر کر فرماتے :
''اپنے بھائی کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرواور اس کے ثابت قدمی کی دعا کروکیوں کہ اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا''
(سنن ابوداود 'علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے )۔

*دو قابل رشک اور دو قابل عبرت عورتیں*

دو قابلِ رشک عورتیں اور دو قابلِ عبرت عورتیں

 ان کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن پاک کی سورہ تحریم کی تین آیات 10 تا 12 میں کیا ہے۔

وَاہِلہ:۔
یہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی تھی۔ اس کو ایک نبی برحق کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا اور برسوں یہ اللہ تعالیٰ کے نبی علیہ السلام کی صحبت سے سرفراز رہی مگر اس کی بدنصیبی قابل عبرت ہے کہ اس کو ایمان نصیب نہیں ہوا بلکہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی دشمنی اور توہین و بے ادبی کے سبب سے بے ایمان ہو کر مرگئی اور جہنم میں داخل ہوئی۔
یہ ہمیشہ اپنی قوم میں جھوٹا پروپیگنڈہ کرتی رہتی تھی کہ حضرت نوح علیہ السلام مجنون اور پاگل ہیں، لہٰذا ان کی کوئی بات نہ مانو۔

حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے جباروں کو ایمان لانے والوں کی خبریں پہنچایا کرتی تھی۔ جس سے اس کی قوم کے افراد ایمان لانے والوں پر ظلم کرتے تھے

وَاعِلہ:۔
یہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی تھی۔ یہ بھی اللہ کے ایک جلیل القدر نبی علیہ السلام کی زوجیت و صحبت سے برسوں سرفراز رہی مگر اس کے سر پر بدنصیبی کا ایسا شیطان سوار تھا کہ سچے دل سے کبھی ایمان نہیں لائی بلکہ عمر بھر منافقہ رہی اور اپنے نفاق کو چھپاتی رہی۔ جب قوم ِ لوط پر عذاب آیا اور پتھروں کی بارش ہونے لگی، اُس وقت حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مومنین کو ساتھ لے کر بستی سے باہر چلے گئے تھے۔ ''واعلہ'' بھی آپ کے ساتھ تھی آپ نے فرما دیا تھا کہ کوئی شخص بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی عذاب میں مبتلا ہوجائے گا۔ چنانچہ آپ کے ساتھ والوں میں سے کسی نے بھی بستی کی طرف نہیں دیکھا اور سب عذاب سے محفوظ رہے لیکن واعلہ چونکہ منافق تھی اُس نے حضرت لوط علیہ السلام کے فرمان کو ٹھکرا کر بستی کی طرف دیکھ لیا اور شہر کو الٹ پلٹ ہوتے دیکھ کر چلانے لگی کہ''یَاقَوَمَاہ،''ہائے رے میری قوم، یہ زبان سے نکلتے ہی ناگہاں عذاب کا ایک پتھر اس کو بھی لگا اور یہ بھی ہلاک ہو کر جہنم رسید ہو گئی۔

حضرت آسیہ:۔
آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ عنہا یہ فرعون کی بیوی تھیں۔ فرعون تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بدترین دشمن تھا لیکن حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا نے جب جادوگروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں مغلوب ہوتے دیکھ لیا تو فوراً اُن کے دل میں ایمان کا نور چمک اُٹھا اور وہ ایمان لے آئیں۔ جب فرعون کو خبر ہوئی تو اس ظالم نے ان پر بڑے بڑے عذاب کئے، بہت زیادہ زدو کوب کے بعد چومیخا کردیا یعنی چار کھونٹیاں گاڑ کر حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کے چاروں ہاتھوں پیروں میں لوہے کی میخیں ٹھونک کر چاروں کھونٹوں میں اس طرح جکڑ دیا کہ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھیں اور بھاری پتھر سینہ پر رکھ کر دھوپ کی تپش میں ڈال دیا اور دانہ پانی بند کردیا لیکن ان مصائب و شدائد کے باوجود وہ اپنے ایمان پر قائم و دائم رہیں اور فرعون کے کفر سے خدا عزوجل کی پناہ اور جنت کی دعائیں مانگتی رہیں اور اسی حالت میں اُن کا خاتمہ بالخیر ہو گیا اور وہ جنت میں داخل ہو گئیں۔ ابن کیسان کا قول ہے کہ وہ زندہ ہی اُٹھا کر جنت میں پہنچا دی گئیں۔ واللہ اعلم
روایت میں ہے کہ آپ جنت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں شامل ہوں گی۔

حضرت مریم:۔
مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا، یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس لئے ان کی قوم نے طعن اور بدگوئیوں سے ان کو بڑی بڑی ایذائیں پہنچائیں مگر یہ صابر رہ کر اتنے بڑے بڑے مراتب و درجات سے سرفراز ہوئیں کہ خداوند ِ قدوس نے قرآن مجید میں ان کی مدح و ثنا کا بار بار خطبہ ارشاد فرمایا ۔

ان چاروں عورتوں کے بارے میں قرآن مجید نے سورہ ءتحریم میں فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
''اللہ تعالیٰ کافروں کی مثال دیتا ہے۔ جیسے حضرت نوح (علیہ السلام)کی عورت (واہلہ)اور حضرت لوط (علیہ السلام)کی عورت (واعلہ)یہ دونوں ہمارے دو مقرب بندوں کے نکاح میں تھیں۔ پھر ان دونوں نے ان دونوں سے دغا کیا تو وہ دونوں پیغمبران، ان دونوں عورتوں کے کچھ کام نہ آئے اور ان دونوں عورتوں کے بارے میں خدا کا یہ فرمان ہو گیا کہ تم دونوں جہنمی عورتوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مثال بیان فرماتا ہے۔ فرعون کی بیوی (آسیہ)جب انہوں نے عرض کی اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات بخش اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبرداروں میں سے ہوئی۔
(پ۲۸، التحریم:۱۰ ۔ ۱۲)

درسِ ہدایت:۔
واہلہ اور واعلہ دونوں نبی کی بیویاں ہو کر کفر و نفاق میں گرفتار ہو کر جہنم رسید ہوئیں اور فرعون جیسے کافر کی بیوی حضرت ''آسیہ''ایمان کامل کی دولت پاکر جنت میں داخل ہوئیں اور حضرت آسیہ حق ظاہر ہوجانے کے بعد اس طرح ایمان لائیں کہ فرعون کے سب آرام و راحت کو ٹھکر ادیا اور بے پناہ تکلیفوں اور ایذاؤں کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہیں۔

دعا مانگنے کے سات آداب جو دعا کی روح ہیں.

 دعا مانگنے کے سات آداب جو دعا کی روح ہیں. 


🎀 الله جل شانہ کے لئے اخلاص 🎀

🎀   قبولیت کا  مکمل یقین  ---🎀

🎀۔ قطعی طور پر دعا کرنا  بغیر کسی شک کے 🎀

🎀 دعا کو کسی چیز پر موقوف نہ کرنا  🎀

🎀 پورے دل اور پوری کوشش اور محنت سے دعا کرنا  🎀

🎀دل کی پوری توجہ سے دعا کرنا   🎀

🎀 دعاکی قبولیت کے لئے حسن ظن رکھنا۔ 🎀

مذہب اور دین میں فرق

لفظ "مذھب" اور لفظ "دین" میں مفہوم کے اعتبار سے بڑا فرق ہے، اکرچہ ہمارے ہاں عام طور پر اسلام کو مذھب کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے قرآن مجید اور حدیث کے ذخیرہ میں اسلام کے لیے مذھب کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا، بلکہ اس کے لیے ہمیشہ "دین" ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے- 
سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا ہے کہ: " اللہ کی بارگاہ مین مقبول دین تو صرف اسلام ہے"- دین اور مذھب میں بنیادی فرق کو سمجھ لیجے!
مذھب کی جزوی حقیقت ہے- یہ صرف چند عقائد اور کچھ عبادت کےطور طریقوں کے مجموعے کا نام ہے جبکہ دین سے مراد ہے ایک مکمل نظام زندگی جو تمام پہلوؤں پر حاوی ہو- گویا مذھب کے مقابلے میں دین ایک بڑی اور جامع حقیقت ہے- 
اس پس منظر میں شاید یہ کہنا تو درست نہ ہوگا کہ اسلام مذھب نہیں ہے، اس لیے کہ مذھب کے جملہ بھی اسلام میں شامل ہیں، اس میں عقائد کا عنصر بھی ہے، ایمانیات بھی ہیں، پھر اس  میں عبادت یعنی نماز، روزہ ہے، حج اور زکواۃ ہے، چنانچہ صحیح یہ ہوگا کہ یوں کہا جائے کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ مکمل دین ہے ۔ 

عام طور پر دین اور مذہب کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے، جبکہ ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ 
دین کل ہے اور کسی بھی نظام کے اصول و ضوابط کا نام ہے۔ نیز دین، دنیا و آخرت کے تمام گوشوں کو محیط ہے اس کے برعکس مذہب جزو ہے جو شرعی عبادات احکامات سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

الحجرات کی نصیحتیں

الله سبحان و تعالی کی بنی نوع انسان کو 9 نصیحتیں اور ممنوعات


(سورہ الحجرات)


1- فتبينوا

کوئ بھی بات سن کر آگے کرنے سے پہلے تحقیق کر لیا کرو . کہیں ایسا نہ ہو کہ بات سچ نہ ہو اور کسی کوانجانے میں نقصان پہنچ جائے۔


2 - فأصلحوا

دو بھایوں کے درمیان صلح کروا دیا کرو. تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔


3- وأقسطوا

ہر جھگڑے کو حل کرنے کی کوشش کرو اور دو گروہوں کے درمیان انصاف کرو. الله کریم انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔


4 - لا يسخر

کسی کا مذاق مت اڑاؤ. ہو سکتا ہے کہ وہ الله کے قریب تم سے بہتر ہو۔


5 - ولا تلمزوا

کسی کو بے عزّت مت کرو۔


6- ولا تنابزوا

لوگوں کو برے القابات

(الٹے ناموں) سے مت پکارو.


7- اجتنبوا كثيرا من الظن

برا گمان کرنے سے بچو کہ کُچھ گمان گناہ کے زمرہ میں آتے ہیں۔


8 - ولا تجسَّسُوا

ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو۔


9- ولا يغتب بعضكم بعضا

تُم میں سےکوئی ایک کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔


الله کریم اخلاص کیساتھ عمل کرنیکی تو فیق دے۔

آمین یاربُّ العالمین

درسِ حدیث ، طائف کی دعا۔اللُھم الیک اشکو ضعف قوتی

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِی۔۔وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْئ. 
     اے اللہ ! میں اپنی طاقت کی ناتوانی۔۔۔اپنی قوت عمل کی کمی۔ 
وَ ھَوَانِی عَلٰی النَّا سِ۔۔  
     لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں۔  
یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ۔   
.   اے ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے۔  
وَاَنْتَ رَبِّی۔    
.    تو میرا بھی رب ہے۔.    
اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ۔  
.     تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے۔  
اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِی۔  
.    ایسے بعید کے حوالے جو ترش روئی سے میرے ساتھ پیش آتا ہے۔  
اَمْ اِلٰی عَدُوٍّمَلَّکْتَہٗ اَمْرِیْ۔  
.   کیا کسی دشمن کو تو نے میری قسمت کا مالک بنادیا ہے۔  
اِنْ لّمْ یَکُنْ بِکَ عَلیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِیْ۔ 
.    اگر تو مجھ پر ناراض نہ ہو تو مجھے ان تکلیفوں کی ذرا پروا نہیں۔  
وَلٰکِنَّ عَافِیَتُکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ۔  
.   پھر بھی تیری طرف سے عافیت اور سلامتی میرے لیے زیادہ دلکشا ہے۔  
اَعُوْذُبِنُوْرِوَجْہِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ۔ لَہُ الظُّلُمَاتُ۔  
.    میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے نور کے ساتھ۔ جس  سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں۔  
وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُالدُّنْیَا وَالْآٰخِرَۃِ۔  
.    اوردنیا و آخرت کے کام سنور جاتے ہیں۔ 
مِنْ اَنْ تُنَزِلِ بِیْ غَضَبَکَ   
.   کہ تو نازل کرے اپنا غضب مجھ پر۔  
اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ۔   
  .   اور تو اتارے مجھ پر اپنی ناراضگی۔  
لَکَ الْعُتْبٰی حَتیّٰ تَرْضٰی۔  
 .      میں تیری رضا طلب کرتارہونگا یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔  
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَاِلَّابِکَ۔   
  .    تیری ذات کے بغیر نہ میرے پاس کوئی طاقت ہے نہ قوت۔   
۔۔۔۔۔۔۔۔
 

درسِ حدیث۔ نماز کا طریقہ

نماز کا طریقہ 

ابی ہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ

’’ ان رجلا دخل المسجد ‘‘

 یہ کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا’’

 و رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جالس فی ناحیۃ المسجد 

‘‘اورسید عالم صلی الله علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے۔

 فصلی 

پس اس شخص نے نماز پڑھی۔

’’ثم جآء فسلم علیہ ‘‘

 پھر وہ شخص آیا اور حضور اکرم کو سلام کیا

’’ فقال لہ رسول  ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم وعلیک السلام ارجع فصل فانک لم تصل‘‘ 

اس کو سید عالم  صلی الله علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا 

وعلیک السلام واپس لوٹ نماز پڑھ، بالتحقیق تو نے نماز نہیں پڑھی۔ 

یعنی تعدیل ارکان، قومہ ، جلسہ صحیح ادا نہیں کیا۔

 ’’فرجع فصلی ‘‘

 وہ شخص واپس ہوا۔ پھر نماز پڑھی ۔

’’ ثم جاء فسلم ‘‘

 وہ شخص پھر نماز پڑھ کر آیا اور حضور انور صلی الله علیہ وسلم  کو سلام کیا 

’’فقال وعلیک السلام ارجع فصل فانک لم تصل ‘‘ 

پھر حضور اکرم  صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا و علیک السلام واپس جا پھر نماز پڑھ، بالتحقیق تو نے نماز نہیں پڑھی 

’’فقال فی الثالثۃ اوفی التی بعدھا‘‘

 پھر اس شخص نے تیسری دفعہ یا اس کے بعد عرض کی 

’’علمنی یا رسول۔ ﷲ‘‘ 

اے اللہ تعالیٰ کے (پیارے) رسول  الله صلی الله علیہ وسلم  مجھے سکھلا دیجئے

’’ فقال اذا اقمت الی الصلوۃ فاسبغ الوضوء‘‘

آپ نے ارشاد فرمایا جب تو نماز کا قصد کرے تو مکمل وضو کر

’’ ثم استقبل القبلۃ ‘‘ 

پھر قبلہ (کعبہ) کی طرف منہ کر

’’ فکبر‘‘

 تکبیر تحریمہ کہہ

’’ ثم اقرء بما تیسر معک من القران‘‘

پھر قرآن مجید پڑھ جو تجھ کو آسان ہو یعنی جس جگہ سے تجھ کو یاد ہو

’’ ثم ارجع حتی تطمئن راکعا ‘‘ 

پھر رکوع کر یہاں تک کہ تجھے رکوع میں اطمینان حاصل ہوجائے

’’ ثم ارجع حتی تستوی قائما‘‘ 

پھر سر کو اٹھا ، یہاں تک کہ تو بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے

’’ ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا‘‘

 پھر سجد ہ کریہاں تک کہ تیرا سجدہ اطمینان کے ساتھ ہو

 ’’ثم ارفع حتی تطمئن جالسا ‘‘

 پھر بیٹھ یہاں تک کہ بیٹھنے میں تجھے اطمینان حاصل ہو جائے

’’ ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا‘‘

 پھر سجدہ کر ، یہاں تک کہ تو سجدے میں اطمینان پالے

’’ ثم ارفع حتی تطمئن جالسا‘‘

 پھر اپنا سر اٹھا ، یہاں تک کہ تو اطمینان کے ساتھ بیٹھے۔

 اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اپنے سرکو اٹھا ، یہاں تک کہ تو سیدھا کھڑا ہو ، پھر اپنی تمام نماز اسی طرح ادا کر ۔

متفق علیہ 

قومہ ، جلسہ ، رکوع اور سجود میں طمانیت نہایت ضروری ہے۔


امام شافعی  اور امام مالک  کے نزدیک طمانیت فرض ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے۔ طمانیت بدن کے تمام جوڑ رکوع اور سجود میں اپنی اپنی جگہ پر آجانے کو اور سکون حاصل ہو جانے کو کہتے ہیں۔ 

آج کل عموماً اس طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔ حالانکہ نماز کے صحیح ہونے کا مدار اسی پر ہے کہ نماز اطمینان کے ساتھ ٹہرٹہر کر ادا کی جائے تاکہ قبولیت کے مقام پر پہنچ جائے۔

آٹھ مسئلے

ایک روز شیخ شفیق بلخی رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا.. "حاتم ! تم کتنے دنوں سے میرے ساتھ ہو..؟"
انہوں نے کہا.. "بتیس برس سے.."
شیخ نے پوچھا.. "بتاؤ اتنے طویل عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا..؟"
حاتم نے کہا.. "صرف آٹھ مسئلے.."
شیخ نے کہا.. "انا للہ وانا الیہ راجعون.. میرے اوقات تیرے اوپر ضائع چلے گئے.. تُو نے صرف آٹھ مسئلےسیکھے..؟"
حاتم نے کہا.. "استادِ محترم ! زیادہ نہیں سیکھ سکا اور جھوٹ بھی نہیں بول سکتا.."
شیخ نے کہا.. "اچھا بتاؤ کیا سیکھا ہے..؟"
حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا.. "میں نے مخلوق کو دیکھا تو معلوم ہوا ہر ایک کا محبوب ہوتا ہے قبر میں جانے تک.. جب بندہ قبر میں پہنچ جاتا ہے تو اپنے محبوب سے جدا ہو جاتا ہے.. اس لیے میں نے اپنا محبوب "نیکیوں" کو بنا لیا ہے کہ جب میں قبر میں جاؤں گا تو یہ میرا محبوب میرے ساتھ قبر میں رہے گا..
2: لوگوں کو دیکھا کہ کسی کے پاس قیمتی چیز ہے تو اسے سنبھال کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے.. پھر فرمانِ الہی پڑھا..
"جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے.. جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے.." (سورۃ النحل آیت 96)
تو جو چیز مجھے قیمتی ہاتھ آئی اسے اللہ کی طرف پھیر دیا تا کہ اس کے پاس محفوظ ہو جائے جو کبھی ضائع نہ ہو..
3: میں نے خدا کے فرمان پر غور کیا..
"اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا' جنت اسی کا ٹھکانہ ہو گا.." (سورۃ النازعات آیت 40)
تو اپنے نفس کو بُرائیوں سے لگام دی.. خواہشاتِ نفسانی سے بچنے کی محنت کی , یہاں تک کہ میرا نفس اطاعتِ الٰہی پر جم گیا..
4: لوگوں کو دیکھا ہر ایک کا رجحان دنیاوی مال , حسب نسب , دنیاوی جاہ و منصب میں پایا.. ان امور میں غور کرنے سے یہ چیزیں ہیچ دکھائی دیں.. اُدھر فرمان الٰہی دیکھا..
"درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے.." (سورۃ الحجرات آیت 13)
تو میں نے تقوٰی اختیار کیا تاکہ اللہ کے ہاں عزت پاؤں..
5: لوگوں میں یہ بھی دیکھا کہ آپس میں گمانِ بد رکھتے ہیں , ایک دوسرے کو بُرا کہتے ہیں.. دوسری طرف اللہ کا فرمان دیکھا..
"دنیا کی زندگی میں ان کی بسر اوقات کی ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں.." (سورۃ الزخرف آیت 32)
اس لیے میں حسد کو چھوڑ کر خلق سے کنارہ کر لیا اور یقین ہوا کہ قسمت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے.. خلق کی عداوت سے باز آگیا..
6: لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے سرکشی اور کشت و خون کرتے ہیں.. اللہ کی طرف رجوع کیا تو فرمایا..
"درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو.." (سورۃ فاطر آیت 6)
اس بنا پر میں نے صرف اس اکیلے شیطان کو اپنا دشمن ٹھہرا لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ اس سے بچتا رہوں..
7: لوگوں کو دیکھا پارہ نان (روٹی کے ٹکرے) پر اپنے نفس کو ذلیل کر رہے ہیں , ناجائز امور میں قدم رکھتے ہیں.. میں نے ارشادِ باری تعالٰی دیکھا..
"زمہن پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو.." (سورۃ ہود آیت6)
پھر میں ان باتوں میں مشغول ہوا جو اللہ کے حقوق میرے ذمے ہیں.. اس رزق کی طلب ترک کی جو اللہ کے ذمے ہے..
8: میں نے خلق کو دیکھا , ہر ایک کسی عارضی چیز پر بھروسہ کرتا ہے.. کوئی زمین پر بھروسہ کرتا ہے , کوئی اپنی تجارت پر , کوئی اپنے پیشے پر , کوئی بدن پر , کوئی ذہنی اور علمی صلاحیتوں پر بھروسہ کیے ہوئے ہے.. میں نے خدا کی طرف رجوع کیا.. یہ ارشاد دیکھا..
"جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے.." (سورۃ طلاق آیت3)
تو میں نے اپنےخدا پر توکل کیا.. وہی مجھے کافی ہے.."
شیخ بلخی رحمہ اللہ نے فرمایا.. "اے میرے پیارے شاگرد حاتم ! خدا تمہیں ان کی توفیق نصیب کرے.. میں نے قران کے علوم پر مطالعہ کیا تو ان سب کی اصل جڑ انہی آٹھ مسائل کو پایا.. ان پر عمل کرنے والا گویا چاروں آسمانی کتابوں کا عامل ہوا.."
بحوالہ الاحیاء العلوم.. امام غزالی رحمہ اللہ.

لا یحب ۔۔الله تعالی نہیں پسند کرتا

ایک جیسے الفاظ والی آیات 

وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ


اور یہ ملک میں فساد کے لئے دوڑتے پھرتے ہیں۔ اور اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔


مائدہ ۔۶۴



وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ۔


اور الله تعالی ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔ 

آل عمران ۔۱۴۰



إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ


بے شک الله تعالی زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔

بقرہ۔۱۹۰



إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا


بیشک اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔

نساء ۔۳۶



وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ


اور بے جا نہ اڑاؤ کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

اعراف ۔٣١



إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا


بے شک اللہ دغاباز اور گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔


نساء۔۱۰۷



إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ


بے شک اللہ دغابازوں کو دوست نہیں رکھتا۔


انفال ۔۵۸



إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ


وہ سرکشوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔


نحل ۔٢٣



وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ


اور اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔


بقرہ ۔٢٧٦



إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ


بے شک اللہ تعالی اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔


قصص ۔ ۷۶

دعا کی قبولیت کے اوقات

دعا کی قبولیت کے اوقات

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الثَّقَفِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ ؟ قَالَ:    جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ   . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:    جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ الدُّعَاءُ فِيهِ أَفْضَلُ أَوْ أَرْجَى أَوْ نَحْوَ هَذَا   .


پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ 

آپ نے فرمایا: 

”آدھی رات کے آخر کی دعا (یعنی تہائی رات میں مانگی ہوئی دعا) اور فرض نمازوں کے اخیر میں* 

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔


 ابوذر اور ابن عمر رضی الله عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

 ”رات کے آخری حصہ میں دعا سب سے بہتر ہے، یا اس کے قبول ہونے کی امیدیں زیادہ ہیں یا اسی جیسی کوئی اور بات آپ نے فرمائی"


اذان اوربارش کے وقت: 

حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں۔ ایک اذان کے وقت ،دوسرے بارش کے وقت ۔

 (أبوداود)

اذان اور اقامت کے درمیان:

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔

لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ ! پھر ہم اس وقت کیا دعا کریں؟ 

آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی عافیت مانگا کرو۔

 (أبوداود والترمذي)

جب امام ولاالضالین کہے:

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا

جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو جائے گی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔

(صحیح بخاری ومسلم)

جب امام غیر المغضوب علیھم و لا الضالین کہے تو تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔

(صحیح مسلم)

حالت سجدہ:

 حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا

انسان اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے (سجدے میں ) دعاء کثرت سے کیا کرو۔

( صحیح مسلم وأبوداود وأحمد)

فرض نماز کے بعد: 

حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا کہ کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ؟

 آپ ﷺنے فرمایا

 رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی (دعا)۔

 (ترمذي صحيح)

تلاوت قرآن  مجید کے بعد: 

حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

جو شخص قرآن پڑھے اسے چاہئے کہ اللہ سے سوال کرے اس لئے کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھ کر لوگوں سے سوال کریں گے۔

 (ترمذي صحيح)

جمعہ کے دن کی ایک خاص گھڑی: 

ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے جمعہ کے دن کا تذکرہ کیا۔  تو آپ rنے فرمایا کہ

اس دن میں ایک ساعت ایسی ہے کہ کوئی مسلمان بندہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اس ساعت میں جو چیز بھی اللہ سے مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے، اور اپنے ہاتھوں سے اس ساعت کی کمی کی طرف اشارہ کیا﴿یعنی وہ وقت بہت چھوٹا ہوتا ہے﴾۔

 (صحیح بخاری ومسلم)

ہررات کی ایک مخصوص ساعت:

جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا

کہ رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اس وقت جو مسلمان بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے جو بھی بھلائی مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرمائیں گے۔

 (صحیح مسلم)

آب زمزم پیتے ہوئے: 

حضرت جابر سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا کہ زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے۔

 (ابن ماجه وأحمد)

مرغ کی بانگ سنتے وقت:

حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جب تم مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے رحمت و فضل کی دعا مانگو کیونکہ اس مرغ نے فرشتہ دیکھا ہے اور جب تم گدھے کی آوز سنو تو شیطان سے خدا کی پناہ مانگو ﴿یعنی أعوذ باالله من الشيطن الرجيم پڑھو﴾کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔ 

(متفق عليه)

مہر کی مقدار

حق مہر کتنا ہونا چاہیے؟


کم از کم مہر کے متعلق صحیح مسلم میں ایک روایت ملتی ہے جو درج ذیل ہے ۔۔


سہل بن سعد ساعدی رضي اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ :

ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپنے آپ کوآپ کے لیے ھبہ کرتی ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اوراپنی نظریں اوپرکرنے کے بعد نيچے کرلیں جب عورت نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئي فیصلہ نہیں فرمایا تووہ بیٹھ گئي ۔

صحابہ کرام میں سے ایک صحابی کھڑا ہوا اورکہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگرآپ کواس عورت کی ضرورت نہیں تومیرے ساتھ اس کی شادی کردیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تیرے پاس کچھ ہے ؟ اس صحابی نے جواب دیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ اللہ تعالی کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اپنے گھروالوں کے پاس دیکھو ہوسکتا ہے کچھ ملے جائے ، وہ صحابی گيا اورواپس آ کہنے لگا اللہ کی قسم مجھے کچھ بھی نہیں ملا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اگر لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے وہ گیا اورواپس آکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم لوہے کی انگوٹھی بھی نہيں ملی ، لیکن میرے پاس یہ چادر ہے اس میں سے نصف اسے دیتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

اس کا تم کیا کرو گے اگر اسے تم باندھ لو تواس پر کچھ بھی نہيں ہوگا ، وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بات سن کر بیٹھ گيا اورجب زيادہ دیر بیٹھا رہا تواٹھ کر چل دیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تواسے واپس بلانے کاحکم دیا جب وہ واپس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

تجھے کتنا قرآن حفظ ہے ؟ اس نے جواب دیا فلاں فلاں سورۃ حفظ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اسے زبانی پڑھ سکتے ہو ؟ وہ کہنے لگا جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : جاؤ میں نے جو تمہیں قرآن کریم حفظ ہے اس کے بدلہ میں اس کا مالک بنا دیا ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1425 )

تواس حدیث میں ہے کہ مہر کم بھی ہوسکتا ہے اورزیادہ بھی جس سے مال حاصل کیا جاسکتا ہو ، لیکن اس میں خاوند اوربیوی کی رضامندی ضروری ہے کہ وہ جتنے مہر پر راضي ہوجائيں ، اس لیے کہ مہر میں کم از کم لوہے کی انگوٹھی ہے ۔

امام شافعی اورسلف اوربعد میں آنے والے جمہور علماء کرام رحمہ اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے ، ربیعہ ، ابوالزناد ، ابن ابی ذئب ، یحیی بن سعید ، لیث بن سعد ، اورامام ثوری ، اوزاعی ، مسلم بن خالد ، ابن ابی لیلی ، اورداود ، اوراہل حدیث فقھاء کرام رحمہ اللہ تعالی اجمعین اورامام مالک کے اصحاب میں ابن وھب کا بھی یہی مسلک ہے ۔

حجازیوں ، بصریوں ، کوفیوں ، اورشامیوں وغیرہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ جس پر بھی خاوند اوربیوی راضي ہوجائیں چاہے وہ زيادہ وہ یا کم مہر مثلا جوتا ، لوہے کی انگوٹھی اور چھڑی وغیرہ ۔

اور ایک بات امہات المؤمنین رضي اللہ تعالی عنہن کے مہر کے بارہ میں گزارش ہے کہ :

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے حدیث بیان کی ہے کہ :

ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ میں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المؤمنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر کتنا تھا ؟

توان کا جواب تھا :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر بارہ اور نش اوقیہ تھا ، فرمانے لگیں کہ نش کا علم ہے کہ وہ کتنا ہے ؟ ابوسلمہ کہتے ہیں میں نے جواب دیا نہیں مجھے علم نہيں وہ کہنے لگیں کہ نصف اوقیہ :

تویہ پانچ سودرھم ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا مہرتھا ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1426 )

علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

آپ اپنے علم میں یہ رکھیں کہ شروع اسلام اورصحابہ کرام اورتابعین عظام کے دور سے یہ اجماع پایا جاتا ہے کہ شرعی درھم وہ ہے جس کا وزن دس درھم سات مثقال سونے کے برابر ہو ، اورایک اوقیہ چالیس درھم کا ہوتا ہے ، تو وہ اس طرح ستر دینار ہوئے ۔۔۔ وزن کا یہ اندازہ اجماع سے ثابت ہے ۔ دیکھیں : مقدمہ ابن خلدون ص ( 263 ) ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دینار بارہ درھم کے برابر تھا ۔

اور دینار کا وزن ہمارے موجودہ دور میں سوا چارگرام چوبیس کیرٹ سونے کا وزن بنتا ہے ۔

تو اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا مجموعی مہر پانچ سو درھم جو کہ تقریبا ساڑھے اکتالیس دینار بنتا ہے جو ( 176.375 ) یعنی ایک سوچھتر اعشاریہ تین سو پچھتر گرام سونے کے برابر ہوگا ۔

تومثلا جب ایک گرام سونا نو ڈالر کا ہو تو جوتقریبا اس وقت ریٹ چل رہا ہے توازاوج مطہرات کا مجموعی مہر موجودہ کرنسی میں تقریبا ( 1587 ) ڈالر

اور پاکستانی روپوں میں (40162)بنے گا ۔

لیکن یاد رہے جتنا آپ آسانی سے دے سکیں اتنا دینا چاہیے اور ذیادہ حق مہر کی کوئی حد مقرر نہیں

واللہ اعلم .


مہر عورت کی قیمت نہیں ہوتی اور نہ عورت کے پیار و عصمت کی کوئی قیمت ہوسکتی ہے ۔ یہ تو صدیوں سے ظلم اور بے بسی میں جکڑی عورت کو آزادی کا اختیار Freedom of Will عطا کرنے کے لیے اسلام نے عورت کو مہر کا حق دے دیا ۔ یہ ایک علامت symbol ہے جس کو قبول کر کے وہ مرد کو اپنانے کا اعلان کرتی ہے ۔ اگر وہ اسے قبول نہ ہو تو نہ مرد اس پر زبردستی کر سکتا ہے نہ خود اس کے ماں باپ ۔ دراصل مہر عورت کی رضا مندی Consent کا اعلان ہے ۔

قرآن مجید میں واضح طور پر جہاں بھی مہر کا حکم آیا ہے ’ نقد ‘ ادا کرنے کے مفہوم میں آیا ہے ۔ فقہاء نے اگرچہ اس کو اُدھار رکھنے کی اجازت دی ہے لیکن قرآن مجید یا سیرت رسول و صحابہ سے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ مہر کو اُدھار رکھا گیا ہو ۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کی مالی حیثیت کیا تھی یہ تو سبھی جانتے ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہر ایک کو حسب استطاعت جتنا نقد ادا کرسکتے ہوں ادا کرنے کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ عورت کو قبول ہو ۔

کسی صحابی (رضی اللہ عنہ) کو زرہ فروخت کرنے کا حکم دیا کسی کے پاس صرف ایک چادر تھی ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہی چادر دینے کا حکم دیا ۔

کسی کو صرف قرآن مجید کی کچھ آیتیں یاد تھیں ، اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہی سورتیں عورت کو یاد دلادینے کے کام کو مہر کے طور پر ادا کرنے کا حکم دیا ۔

حضرت اُم سلیم (رضی اللہ عنہا) کا واقعہ قابل مثال ہے کہ انہوں نے ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) جیسے امیر شخص کے لیے مہر میں صرف کلمہ پڑھنے کی شرط رکھی۔ (اُس وقت تک ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اسلام نہیں لائے تھے ) ۔

شادی کے رقعوں پر النکاح من سنتی لکھوانے والے غور کریں کہ اگر اُدھار رکھنے کا جواز ہوتا تو سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) و صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ہمیں بے شمار واقعات مل جاتے جو یقیناً بہت غریب تھے لیکن دلوں کے ایسے امیر کہ اگر وہ اُدھار بھی رکھتے تو ان کی طرف سے مہر کے ڈوب جانے کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

مہرکے فرض ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ :

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ // النساء:34

مرد کو عورتوں پر قوام اس لیے بھی بنایا گیا ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کی ابتداء مہر سے ہوتی ہے ۔ جہیز لے کر جہاں وہ اس آیت کو الُٹ دیتا ہے وہیں مہر کو اُدھار کر کے وہ ان تمام آیات کی خلاف ورزی کرتا ہے ، جن کے ذریعے عورت اس پر حلال ہوتی ہے۔۔۔۔ واللہ اعلم 



مہر کی اہمیت ومقدار

مہر لوازم نکاح میں سے ہے ، اس کی ادائیگی مرد کے ذمے ہے ۔ قرآن کریم میں ہے 

واٰتواالنساء صدقاتھن نحلة 

عورتوں کو خوش دلی سے ان کے مہر ادا کردو۔

 مہردراصل عورت کے اعزاز کا ایک رمز ہے، اس کا مقصد عورت کا اعزاز ہے ، مہر نہ تو عورت کی قیمت ہے اورنہ صرف ایک رسمی اور فرضی کارروائی کا نام ہے ، اسلام مہر کو لازم کرتا ہے ، مگر اسے نکاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ اس لیے اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی تحدید وتعیین نہیں کی گئی ہے ، اسلام نے مہر کی کوئی ایسی آخری حد متعین نہیں کی ہے جس کے بعد اجازت نہ رہے، لیکن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہر کا اتنا رہنا مطلوبِ شرعی ہے جو بآسانی ادا ہو سکے۔


حضرت عمر رضی الله عنہ  نے ایک موقع پر اپنے اجتہاد سے مہر کی تحدید کرنی چاہی اور چار سو درہم سے زیادہ مہرمتعین کرنے پر روک لگا دی اور یہ فرمایا کہ اس سے زیادہ مہر نہ باندھا جائے ، اگر مہر کی زیادتی باعث اعزاز دینی ودنیوی ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم ایسا ضرور کرتے ، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم کاعمل یہ رہا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بالعموم اپنی بیویوں اور صاحب زادیوں کا مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ نہیں رکھا، اب چارسو درہم سے زیادہ جو مہر رکھے گا وہ زائد رقم بیت المال میں جمع کرے گا۔۔۔۔

 اس پر قریش کی ایک خاتون نے اعتراض کیا اور کہا : اے عمر ! اس تحدید کا تمہیں کس نے اختیار دیا ہے؟

 قرآن تو اس طرح کی حدبندی نہیں کرتا۔ قرآن میں تو آیا ہے:

واٰتیتم احداھن فنطاراً فلا تاخذوا منہ شیئاً

تم نے اسے ڈھیر سا مال بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔

 ”قنطار“(خزانہ او رمال کثیر) کا لفظ مہر کی کثرت بتارہا ہے ، پھر تم کیسے حدبندی کرسکتے ہو؟

 اس پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے برملا اعتراف کیا کہ عورت نے درست کہا او رمرد نے غلطی کی، خدایا! مجھے معاف رکھیے۔۔۔۔  ہر آدمی عمر سے زیادہ سمجھ دار ہے 

پھر فرمایا: اے لوگو! میں نے چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھنے سے روکا تھا، مگر اب میں کہتا ہوں کہ جو شخص اپنے مال میں کم وبیش جتنا چاہے مہر رکھ سکتا ہے۔

 (مجمع الزوائد:283/4 ، الفقہ الاسلامی للزحیلی256,255/7)


اس لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مہر کی آخری کوئی حد اسلام نہیں مقرر کرتا، تاہم اسلام یہ مزاج بنانا چاہتا ہے کہ مہر کی تعیین انسان اپنی ادائیگی کی وسعت وطاقت کے تناسب سے کرے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا انتہائی صریح، زریں اورپورے معاملہٴ نکاح میں حرزجاں بنانے کے قابل ارشاد یہ ہے:

”ان اعظم النکاح برکة أیسرہ مؤنة“․

 (نیل الاوطار:168/6)


ترجمہ: سب سے بابرکت نکاح بلاشبہ وہ ہے ،جس میں مشکلات ومصارف کم سے کم اور آسانیاں زیادہ سے زیادہ ہوں۔


حضرت عقبہ بن عامر رضی الله عنہ  آپ صلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں: 

”خیر الصداق أیسرہ․“

 ( مستدرک حاکم:182/6)


اس طرح ارشاد نبوی ہے:

”ان اعظم النساء برکة ایسرھن صداقاً“․ 

( ایضاً)


ترجمہ: سب سے بابرکت خاتون وہ ہے ( جس کا مہر ادا کرنے کے اعتبار سے) آسان(اورکم) ہو۔


مہر کو زیادہ نہ رکھنے کی تعلیم کا مقصود صرف یہ ہے کہ نوجوان بآسانی نکاح کے بندھن میں بندھ سکیں اور بے نکاح رہنے کی وجہ سے جو بے شمار اور لاینحل معاشرتی او راخلاقی مفاسد درآتے ہیں، ان سے بچاؤ ہو سکے۔

والله اعلم 


نکاح میں مہر کا رکھنا ضروری ہے، نکاح کے وقت اگر مہر مقرّر نہیں کیا گیا تو ”مہرِ مثل“ لازم ہوگا، اور ”مہرِ مثل“ سے مراد یہ ہے کہ اس خاندان کی لڑکیوں کا جتنا مہر رکھا جاتا ہے، اتنا لازم ہے۔ مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی ہے۔ نکاح کے دن بازار میں اتنی چاندی کی جتنی قیمت ہو، اس سے کم مہر رکھنا جائز نہیں، اور زیادہ مہر کی کوئی حد مقرّر نہیں کی گئی، فریقین کی باہمی رضامندی سے جس قدر مہر رکھا جائے جائز ہے۔ لیکن مہر لڑکی اور لڑکے کی حیثیت کے مطابق رکھنا چاہئے تاکہ لڑکا اسے بہ سہولت ادا کرسکے۔


مہر وہی دینا ہوگا جو طے ہوا، مرد کی نیت کا اعتبار نہیں

وقت میں برکت کا نایاب نسخہ ۔

وقت میں برکت کیسے ہو؟


اللہ پاک نے ہر انسان کو ایک ’’زمانہ‘‘ عطا فرمایا… اکثر لوگ اپنا یہ زمانہ ضائع کردیتے ہیں تو وہ خسارے میں جا پڑتے ہیں… قسم ہے ’’زمانے‘‘ کی تمام انسان خسارے میں ہیں  (القرآن) … مگر جو لوگ 4 کاموں میں اپنا زمانہ خرچ کرتے ہیں… وہ زمانے کے مالک بن جاتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ ابد الآباد کیلئے زندہ اور کامیاب ہوجاتے ہیں…… 4 کام کیا ہیں؟
1۔ ایمان…
 اعمال صالحہ…
3۔ حق کی دعوت…
حق پر صبر کی دعوت…
 یہ تو ہوئی پہلی بات اسے اچھی طرح دل میں بٹھا کر دوسری بات سنیں… جس انسان کو یہ فکر نصیب ہوجائے کہ میرا زمانہ… یعنی عمر… یعنی وقت ضائع نہ ہو وہ آدمی خوش نصیب ہوتا ہے… اور جس کو اس کی فکر نہ ہو وقت اسے کھا جاتا ہے اور کاٹ دیتا ہے… اب تیسری بات… وہ وعدہ کہ وقت میں برکت کا نسخہ عرض کیا جائے گا… برکت ایک عجیب چیز ہے بعض لوگوں کے وقت میں ڈبل برکت ہوتی ہے… بعض کے وقت میں 3 گنا،  4 گنا… اور بعض کے وقت سو گنا،  ہزار گنا… یعنی 1 دن ہزار دنوں کے برابر… یہ جھوٹ اور مبالغہ نہیں… امام ابو حنیفہؒ،  امام بخاریؒ کے اوقات کی برکت دیکھ لیں۔ آج تک جاری ہے حضرات صحابہؓ کی بات تو اور ہے… صلاح الدین ایوبیؒ نے جن اوقات میں بیت المقدس فتح کیا۔ کتنی صدیوں تک مسجد اقصیٰ میں اذان گونجی اور اب 50 سال کے قبضے کے باوجود گونج رہی ہے… بیت المقدس کی فتح کا کام جتنے اوقات میں ہوا اتنا وقت 1 آدمی موبائل پر یاری لگانے میں ذبح کردیتا ہے۔ اللہ پاک خسارے سے میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے… … 
وقت میں برکت کا سب سے مفید نسخہ… اللہ پاک کے اسم ذات ’’اللہ‘‘ کا ذکر ہے… یہ اسم ہر جان کی جان،  ہر زندہ کی زندگی اور ہر چیز کی برکت ہے… جان نہ ہو تو بڑے بڑے لوگ لاش بن جاتے ہیں… کیا جناب والا اور کیا وزیر اعلیٰ… …  جان نکلی تو وہی ناک،  کان،  آنکھیں… مگر سب کہتے ہیں لاش ’’میت‘‘ جنازہ اور ڈیڈ باڈی… اسم ’’اللہ‘‘ ہر ذکر کی جان… ہر زندہ کی زندگی اور ہر چیز کی برکت ہے… آپ سحری کے وقت یا صبح سویرے فجر کے بعد صرف 1 ہزار بار توجہ سے ’’اللہ‘‘ کا ذکر کرلیں… پھر دیکھیں کہ 24 گھنٹے کتنے بڑے ہوجاتے ہیں… آپ تمام کام کرلیں گے تب بھی وقت کی برکت انشاء اللہ جاری رہے گی معمولات بھی پورے ہوں گے… جس کام میں ہاتھ ڈالیں گے خیر نظر آئے گی… آرام بھی ملے گا،  بیوی بچوں کیلئے وقت نکلے گا… دین کا کام بھی ہوگا اور ایسے کام بھی جن کا فائدہ اور اثر تادیر جاری رہتا ہے… باقی اور نسخے بھی ہیں مثلاً 1۔ صدقہ دینے سے زندگی اور اوقات میں برکت ہوتی ہے اور سب سے افضل جہاد میں مال لگانا ہے۔ 2۔ والدین کو خوش اور راضی رکھنا۔ 3۔ سونے جاگنے میں فطرت کے مطابق چلنا کہ دن کو جاگیں،  رات کو سوئیں دن کو صرف مختصر قیلولہ۔ 4۔ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا۔ 5۔ کھانا کم کھانا۔ 6۔ زبان کے استعمال پر قابو… یہ ظالم بہت وقت اور زمانہ برباد کراتی ہے… بس یہ کل 6 نسخے ہوگئے۔ ہمارے پاس وقت ہی واحد اثاثہ ہے۔ یہ ختم تو سب ختم۔ اتنے قیمتی اثاثے کی حفاظت کیلئے یہ نسخے بہت آسان اور سستے ہیں… اللہ پاک مجھے اور آپ سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے… 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں