نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اسلام علم شناس ، علم دوست

اسلام دین حق ہے اور قیامت تک کے لیے ہے ۔ اسلام دنیاوی ترقی کی راہ میں حائل نہیں بلکہ پانچ وقت نماز میں ہر روز ہماری دعا ہوتی ہے کہ اے الله ہماری دنیا بہترین بنا اور ہماری آخرت بھی بہترین بنا ۔ 

اسلام دین فطرت ہے ۔ اور انسان کی فطرت میں تحقیق ، تخلیق ، تجسس آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اسلام ان چیزوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ مسلمان کے لیے علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور مسلمان دین کے ساتھ ساتھ ہمیشہ دنیاوی علوم میں بھی تحقیق کرتے رہے ہیں ۔ 

آج کے اس ترقی یافتہ دور کو بنیاد فراہم کرنے مسلمان ہی ہیں ۔۔۔۔ چیزیں ایک دن میں وجود میں نہیں آجاتیں ان کے پیچھے صدیوں کی تحقیق اور محنت چھپی ہوتی ہے ۔ اور جب تک کسی علم کی بنیاد نہ ہو اس پر شاندار عمارات کا کھڑا ہونا ممکن نہیں ۔ 

یورپ اس وقت گمراہی کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا جب اسلام اپنی پوری آب وتاب سے دنیا میں جگمگا رہا تھا ۔۔۔۔ عیسائی پادری غسل کرنے والے پر قتل کا حکم لگا رہے تھے ۔۔۔ جب مسلمانوں کے محلوں اور رہائش گاہوں کے باہر گرم حمام اور سٹیم باتھ تک کا انتظام تھا ۔ 

یہ صرف ایک مثال ہے ۔۔۔۔ جو قوم منہ دھونا نہ جانتی تھی وہ دنیا کے لیے آرام و آسائش کا سامان کیسے تیار کرسکتی تھی ۔۔۔۔ ؟؟؟

مسلمان ریاضی دان ، عرب کیمیا دان ، مسلمان ستارہ شناس ، زمین کی پیمائش کرنے والے ، دریاؤں کے پاٹ ناپنے والے ۔ میڈیسن کی دنیا میں آپریشن اور آلات اپریشن ایجاد کرنے والے ۔اور سب سے بڑی بات " صفر کو دریافت کرنے والے ۔۔۔۔ مسلمان ہیں ۔۔۔۔۔ جس پر اس ماڈرن ایج کا ہر سسٹم کھڑا ہے ۔۔۔ جس کے بغیر کسی ایجاد کا وجود میں آنا ناممکن تھا ۔

اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان سائنسدانوں کی اکثریت حافظ قرآن ، احادیث کے یاد کرنے والے اور اسلام پر ثابت قدم تھے ۔ 

مسلمان کے زوال کی ایک ہی وجہ ہے کتاب الله سے دوری ۔۔۔۔ اور جب قوموں پر زوال آتا ہے تو فاتح ان کا سب اچھا چھین کرلے جاتے ہیں ۔ خواہ وہ ہیرے ، جواہرات ۔۔ سونا چاندی ہو یا علم و تحقیق کی دولت ۔۔۔ سو مسلمان زوال کا شکار ہونے کے بعد ہر دولت سے محروم ہوئے ۔۔۔ یہاں تک کہ اس احساس کی دولت سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں کہ کبھی ہم اس دنیا کے حکمران تھے اور کس وجہ سے تھے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...