نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سحری کھانا

🌾🍁🌾 سحری سے مراد وہ کھانا ہوتا ہے جو انسان رات کے آخری حصے میں کھاتا  ہے، اور اسے سحری اس لیے کہا گیا ہے کہ رات کے آخری حصے کو سحر کہتے ہیں اور یہ کھانا اسی وقت میں کھایا جاتا ہے۔ 

سحری کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہیں۔🍫

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:💖

 (سحری کرو؛ کیونکہ سحری میں برکت ہوتی ہے

بخاری: (1923) ، مسلم (1095 

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:💖

 ( سحری تناول کرنا  ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق   ہے۔

( مسلم : (1096

اور ایک حدیث میں ہے کہ:💖

  بیشک اللہ تعالی سحری کرنے والوں  پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے  ان کیلیے  رحمت کی دعا کرتے ہیں ۔

احمد : (11086) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے  صحیح قرار دیا ہے جبکہ البانی نے اسے "سلسلہ صحیحہ " (1654) میں حسن کہا ہے۔

ان احادیث میں  سحری سے مراد وہ کھانا ہے جو روزے دار اس وقت میں کھاتا ہے؛ کیونکہ سحری کھانے سے روزہ دار  کو روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے اور سارا دن آسانی سے گزر جاتا ہے؛ نیز سحری تناول کرنا ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کا باعث ہے، اہل علم کی سحری کو بابرکت بنائے جانے سے متعلق گفتگو سے یہی معلوم ہوتا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں
"علمائے کرام کا سحری کے مستحب ہونے پر اجماع ہے اور یہ کہ سحری کرنا واجب نہیں۔
 سحری میں برکت کا معاملہ بھی واضح ہے؛
 کیونکہ سحری کرنے سے روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے اور سارا دن جسم توانا رہتا ہے، اور چونکہ سحری کھانے کی وجہ سے روزہ میں مشقت کا احساس کم ہو جاتا ہے ، اس کی بنا پر مزید روزے رکھنے کو بھی دل کرتا ہے، لہذا سحری کے بابرکت ہونے کے متعلق یہی معنی اور مفہوم صحیح ہے"
 انتہی
" شرح مسلم  " از نووی:  (7/ 206) 

اسی طرح مناوی رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: 
بیشک اللہ تعالی سحری کرنے والوں  پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے  ان کیلیے  رحمت کی دعا کرتے ہیں ۔ کا معنی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: 
"یعنی وہ لوگ جو روزے میں معاونت کی غرض سے سحری تناول کرتے ہیں، کیونکہ روزے کی وجہ سے پیٹ اور شرمگاہ کی شہوت کمزور پڑتی ہے اور یوں  دل  صاف ہوتاہے،   روحانیت کا غلبہ بڑھتا ہے جو کہ اللہ تعالی کے قرب کا موجب بنتی ہے، اسی لیے سحری کرنے کیلیے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے" انتہی
" فيض القدير " (2/ 270) 
"سحری میں برکت ہے؟ یہ برکت کیسے ہے؟
 [اس کا جواب یہ ہے کہ] سحری سراپا برکت ہے، سب سے پہلے تو یہ عبادت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ہے، جہنمیوں کی  مخالفت ہے، سحری سے روزہ رکھنے میں معاونت ملتی ہے، انسانی جان کو اس کا حق ملتا ہے کیونکہ انسان نے اس کے بعد کافی دیر تک کھانے پینے سے رکے رہنا ہے، چنانچہ سحری کھانے سے انسان  سارا دن روزہ  -جو کہ اللہ تعالی کی بہت بڑی عبادت ہے -رکھنے کی طاقت حاصل کر لیتا ہے ، بلکہ سحری روزے کا ابتدائی حصہ بھی ہے۔" انتہی
" لقاء الباب المفتوح " (147/ 7)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"سحری کرنے سے کئی اعتبار سے برکت حاصل ہوتی ہے: سب سے پہلے تو اس میں اتباع سنت ہے، پھر اہل کتاب کی مخالفت، اس کی عبادت کیلیے معاونت، روزے کے دوران چستی، بھوک کی وجہ سے پیدا ہونے والی بد مزاجی سے بچاؤ،اور مزید یہ کہ  سحری کے وقت کوئی کھانا مانگے تو اسے کھانا دینے کا ، یا اپنے  ساتھ بیٹھ کر سحری کھلا دینے کا موقع ملتا ہے ، اسی طرح سحری کے وقت ذکر اور دعا  کا موقع بھی ملتا ہے اور خصوصاً یہ وقت  قبولیت کا بھی ہوتا ہے، اسی طرح سونے سے قبل اگر کسی نے روزے کی نیت نہیں کی تو اسے روزے کی نیت کرنے کا موقع مل جاتا ہے" انتہی
" فتح الباری " (4/ 140)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے برکت کے جو اسباب ذکر کئے ہیں وہ روزے دار کے ساتھ ہی خاص نہیں ہیں تاہم وہ بھی روزے کی نیت کے ما تحت آتے ہیں، چنانچہ روزے کی نیت بنیادی چیز ہے بقیہ امور اس کے تحت شمار ہوں گے۔

علمائے کرام کا اجماع ہے کہ روزے دار کیلیے سحری کرنا مستحب ہے، اور ہمیں نہیں معلوم کہ کسی عالم دین نے غیر روزے دار کیلیے سحری کو مستحب قرار دیا ہو، اگر غیر روزے دار کیلیے سحری مستحب ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پابندی فرماتے، تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سحری کرنا مستحب عمل ہے اور سحری کی برکت روزے کی نیت سے سحری کھانے والے کیلیے خاص ہے۔

واللہ اعلم .

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...