نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سید القراء حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ

سید القراء حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ 

🌹. حضرت اُبیؓ کو رحمت عالم ﷺ سے بے پناہ محبت تھی او رکلام الہٰی سے بھی گہرا شغف تھا۔ چنانچہ وہ اپنے وقت کا بیشتر حصہ بارگاہ نبویؐ میں گزارتے تھے۔ 

🌹. حضور صلی الله علیہ وسلم ان کو قرآن سناتےاور حفظ کراتے تھے اورکتابت وحی کی خدمت بھی لیتے تھے۔ اس طرح ان کو بارگاہ رسالت میں خصوصی تقرب حاصل ہوگیا تھا۔ 

قرآن حکیم سے حضرت اُبیؓ کا غیرمعمولی شغف اس قدر مقبول ہواکہ خود ذات باری تعالیٰ نے حضرت اُبیؓ کا نام لے کر رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ ان کو قرآن سنایا کریں۔ 

ارشاد ربانی کےمطابق حضور اکرمﷺ نے حضرت اُبیؓ کی تعلیم پر خاص توجہ فرمائیں جس کا نتیجہ یہ ہواکہ وہ قرآن حکیم کے حافظ اور قرآنی علوم و معارف کے بہت بڑے عالم بن گئے 

❤️ ان کی قرأت سرور عالمﷺ کو اس قدر پسند تھی کہ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا کہ ''لوگوں میں سب سے بڑے قاری ابیؓ بن کعب ہیں۔'' ۔۔۔۔۔


📌. حدیث نمبر: 3808

حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن إبراهيم، عن مسروق، قال ذكر عبد الله بن مسعود عند عبد الله بن عمرو فقال ذاك رجل لا أزال أحبه، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول " خذوا القرآن من أربعة من عبد الله بن مسعود ـ فبدأ به ـ وسالم مولى أبي حذيفة، ومعاذ بن جبل، وأبى بن كعب ".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے مسروق نے بیان کیا

 کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی مجلس میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا

 کہ اس وقت سے ان کی محبت میرے دل میں بیٹھ گئی جب سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا 

کہ قرآن چار آدمیوں سے سیکھو

❤️ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کے نام سے ابتداء کی

💚 اور ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم سے

💙 معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے 

💜 اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے۔ 



حدیث نمبر: 3809

حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، قال سمعت شعبة، سمعت قتادة، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم لأبى " إن الله أمرني أن أقرأ عليك { لم يكن الذين كفروا} ". قال وسماني قال " نعم " فبكى.

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبہ سے سنا، انہوں نے قتادہ سے سنا 

اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا 

کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

 اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم کو سورۃ ”لم يكن الذين كفروا“ سناؤں، 

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بولے کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اس پر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرط مسرت سے رونے لگے۔ ​


❤️💛💚💙💜❤️💛💚💙💜❤️💛💚💙💜


کتاب مناقب الانصآر صحیح بخاری​

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...