*روزے کی برکتیں*

وَأَن ۔۔ تَصُومُوا ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔ لَّكُمْ 
اور اگر ۔۔۔ تم روزہ رکھو ۔۔۔ بہتر ہے ۔۔۔ تمہارے لئے 
إِن ۔۔۔ كُنتُمْ ۔۔۔ تَعْلَمُونَ۔ 1️⃣8️⃣4️⃣
اگر ۔۔ ہو تم ۔۔۔ جانتے 

وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.  1️⃣8️⃣4️⃣

اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو ۔ 

آیت کے اس حصے میں روزوں کی اہمیت اور خیر و برکت کا ایک بار پھر بیان کیا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ اگرچہ کوئی معقول عذر انسان کو روزہ قضا کرنے پر یا فدیہ دینے پر مجبور کر دے ۔ پھر روزہ رکھنے سے جو فائدے اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں وہ صرف رمضان میں ہی روزہ رکھنے سے حاصل ہو سکتی ہیں ۔قضا یا کفّارہ سے نہیں ۔اس لئے نتبیہ کر دی گئی کہ اگر تم روزے کی فضیلتیں ، مصلحتیں اور حکمتیں سمجھ لو تو تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم روزہ رکھو اور فدیہ وغیرہ کی اجازت سے خوامخواہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو ۔ 
الله تعالی نے روزے کی فرضیت ، حکمت اور اس سلسلے میں ضروری احکام کا ذکر جو اس رکوع کی سابقہ آیات میں فرمایا ہے انہیں ہم یہاں دوبارہ خلاصے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ 
📌 روزہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ۔ یہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رُکن ہے ۔ اس سے غفلت ، سُستی اور روگردانی بہت بڑا گناہ ہے ۔ فقہا نے روزے کی فرضیت سے انکار کو کفر قرار دیا ہے ۔ 
📌 روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض رہا ہے ۔ اسلام میں نیا نہیں ہے ۔ 
📌 روزے کا مقصد انسان  میں روح کی پاکیزگی ۔ پرھیزگاری ۔ تقوٰی اور بندگی پیدا کرنا ہے ۔ 
📌 روزوں کی تعداد مقرر ہے ۔ یعنی رمضان کے مہینے میں کبھی  ۲۹اور کبھی ۳۰ دن 
📌 اگر رمضان کے مہینے میں کوئی شخص بیمار ہو اور اس قابل نہ ہو کہ روزے پورے کر سکے تو وہ اس مہینے کی بجائے کسی اور وقتجبکہ وہ تندرست ہو روزے رکھ سکتا ہے ۔ 
📌 ان دنوں اگر کوئی شخص سفر پر ہو تو وہ اپنے روزے کسی اور وقت پورے کر سکتا ہے جب وہ سفر پر نہ ہو ۔ 
📌 فدیہ کی مقدار ایک فقیر کو  کھانا کھلانے کے  برابر ہے  ۔ البتہ اگر کوئی شخص ان رعایتوں کا مستحق ہوتے ہوئے بھی روزہ رکھے اور اپنی خوشی  سے نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے تو یہ اس کے حق میں اور بھی بہتر ہے۔ 
ابھی روزے کا بیان اور اس کے مسائل ختم نہیں ہوئے ۔ اس رکوع میں مسلسل یہ بیان جاری رہے گا ۔ 
الله تعالی ہمیں صحیح علم و عمل اور سمجھنے سمجھانے کی توفیق بخشے ۔۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*مجبوری کا فدیہ*

وَعَلَى ۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ يُطِيقُونَهُ ۔۔۔ فِدْيَةٌ ۔۔۔ طَعَامُ ۔۔۔۔ مِسْكِينٍ
اور پر ۔۔ وہ لوگ ۔۔ دشوار ہو ان پر ۔۔۔ بدلہ ۔۔ کھانا ۔۔۔ مسکین 
  فَمَن ۔۔۔ تَطَوَّعَ ۔۔۔ خَيْرًا ۔۔۔ فَهُوَ ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔ لَّهُ 
 پس جو ۔۔ خوشی سے کرے ۔۔۔ نیکی ۔۔ پس وہ ۔۔ اچھا ۔۔ اس کے لئے 

وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ 

اور جن لوگوں کو مشکل ہو ایک فقیر کا کھانا بدلہ ہے پھر جو کوئی خوشی سے نیکی کرے اس کے لئے اچھا ہے ۔ 

یُطیقُونَہُ۔ مراد ہے کہ وہ لوگ جنہیں روزہ رکھنے کے لئے غیرمعمولی طاقت لگانی پڑتی ہو ۔ اور روزہ کی مشقت برداشت کرنا ان کے لئے مشکل ہو ۔ مثلا بوڑھے لوگ ، دودھ پلانے والی عورتیں ، ناتوان اور کمزور اشخاص وغیرہ 
مَنْ تَطَوّعَ ۔ ( جو خوشی سے کرے) ۔ طوع  اس کا مادہ ہے ۔ اردو میں بھی " طوعاً و کرھاً"  کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ جس کے معنی ہوتے ہیں کچھ خوشی سے اور کچھ ناخوشی سے ۔ 
آیت کے اس حصے میں ان لوگوں کے لئے رعایت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ جنہیں روزہ رکھنے میں بہت مشکل اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہو ۔ ان کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ روزہ چھوڑنے کے بدلے میں کسی فقیر یا حاجت مند کو روزانہ دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھلا دیا کریں ۔ اور کھانے کا معیار وہی ہو جو عام طور پر خود ان کا رہتا ہے ۔ 
اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ روزہ چھوڑنے کا صحیح فدیہ تو ایک مسکین کا دو وقت کا کھانا ہے لیکن اگر کوئی شخص اس بدلے کی مقدار بڑھا دے یعنی ایک سے زیادہ فقیروں کو کھانا کھلا دے ۔ کھانے کی قسم بہتر کر دے تو اور بہتر ہے ۔ اس احسان اور نیک عملی کا معاوضہ اسے ضرور ملے گا ۔ اس کی آخرت سنور جائے گی ۔
صدقہ و خیرات ، فیاضی و حسن سلوک اور نیک برتاؤ کی تاکید اسلام ہر حال اور ہر مقام اور ہر وقت کرتا ہے ۔ لیکن رمضان کے مبارک مہینے میں اس کی اہمیت اور زیادہ ہے ۔ چنانچہ اس مہینے کے ختم ہونے پر یا ختم ہونے سے پہلے صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے تاکہ کوئی مسلمان بھوکا نہ رہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم ویسے بھی بہت فیاض اور سخی تھے لیکن احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان مبارک میں تیز آندھی کی طرح ۔۔۔ یعنی بہت زیادہ سخی ہو جایا کرتے تھے ۔ 
ہمیں چاہئیے کہ اپنے راہبر اعظم صلی الله علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں ۔ اور سخاوت اور فیاضی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔ روزوں میں غریب کی غربت اور بھوکے کی بھوک کا احساس ہوتا ہے ۔ لازم ہے کہ اپنی خوشحالی اور فارغ البالی میں اس احساس کو زندہ رکھیں ۔ اور غربا مستحقین کو امداد و مدد سے محروم نہ کریں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*مریض اور مسافر کو رعایت*

أَيَّامًا ۔۔ مَّعْدُودَاتٍ ۔۔۔ فَمَن ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔ مِنكُم ۔۔ مَّرِيضًا 
چند دن ۔۔ گنے ہوئے ۔۔ پس جو ۔۔ ہے ۔۔ تم میں سے ۔۔ مریض 
أَوْ ۔۔ عَلَى ۔۔۔ سَفَرٍ ۔۔۔ فَعِدَّةٌ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔ أَيَّامٍ ۔۔۔أُخَرَ
یا ۔۔ پر ۔۔ سفر ۔۔۔ پس گنتی ۔۔ سے ۔۔ دنوں ۔۔ دوسرے 

أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ

چند گنتی کے روز ہیں   پھر تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اس پر اس کی گنتی ( پوری کرنا ) دوسرے دنوں سے ہے ۔ 

اَیّامًا مَّعْدُودَات۔ ( گنتی کے چند دن ) ۔ آیت کے اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو گنتی کے چند دنوں کے لئے روزے رکھنے ہوں گے ۔ یعنی ہر سال رمضان کے مہینے میں جو کبھی ۲۹ دن کا ہوتا ہے اور کبھی ۳۰ دن کا ۔ 
امّت کی تنظیم کے لئے وقت اور مدّت کا یہ تعین نہایت ضروری تھا ۔ تاکہ یہ نہ ہو کہ جب کسی کادل چاہے اور جتنے دنوں کے لئے جی چاہے روزہ رکھ لے ۔ بلکہ تمام اہلِ ایمان کے لئے فرض کیا گیا کہ وہ ایک ہی خاص وقت پر ایک ہی خاص مدت میں اس مبارک فریضہ کو ادا کریں ۔ ماہ رمضان کے تعین سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ روزے ادل بدل کر مختلف موسموں میں آجاتے ہیں ۔ اور ہر ایک شخص کو گرمی سردی کے موسم میں روزہ رکھنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ 
وقت اور مدت مقرر کر دی گئی ۔ لیکن ایسے لوگوں کو کچھ رعایت بھی دی گئی ہے جو ان حدود اور شرائط کو پورا کرنے سے معذور ہوں ۔ یہ لوگ جب اپنی مجبوریوں سے نجات پالیں گے تو وہ رمضان کے چھوڑے ہوئے روزے کسی دوسرے وقت میں رکھ سکتے ہیں ۔ 
سب سے پہلے ان لوگوں کو رعایت دی گئی جو بیمار ہوں  اور بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنا ان کے لئے مشکل ہو ۔ بیماری کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں ۔ پھر اس کے موسم اور عمر کے اختلاف بھی اثر انداز ہوا کرتے ہیں ۔ یہاں ایسی بیماری مراد ہے جو روزہ رکھنے میں خلل انداز ہو ۔ اور ایسی شدید ہو کہ انسان روزہ نہ رکھ سکے ۔ شریعت نے بیماری کانام نہیں بتایا ۔ بلکہ مسلمان کے خلوص اور دیانتداری اور ماہر معالج کی رائے پر چھوڑ دیا ہے ۔ 
اس کے علاوہ وہ لوگ جو سفر پر ہوں ان کو بھی رعایت دی گئی ہے ۔ 
یہ دونوں قسم کے لوگ یعنی مسافر اور مریض سال میں کسی اور وقت جب مجبوری ختم ہو جائے اور عذر نہ رہے اپنے روزے پورے کریں ۔ لیکن کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ جلد از جلد قضا روزے پورے کر لئے جائیں کیا معلوم زندگی اور مہلت کب تک کے لئے ہے ۔
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*روزوں کا حکم*

يَا أَيُّهَا ۔۔ الَّذِينَ ۔۔ آمَنُوا ۔۔ كُتِبَ ۔۔۔عَلَيْكُمُ 
اے ۔۔ لوگو۔۔ جو ایمان لائے ۔۔ لکھاگیا ۔۔ تم پر 
 الصِّيَامُ ۔۔۔ كَمَا ۔۔۔  كُتِبَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الَّذِينَ 
روزہ۔۔ جیسا کہ ۔۔ لکھاگیا  ۔۔۔ پر ۔۔ وہ لوگ 
مِن ۔۔۔ قَبْلِكُمْ ۔۔۔ لَعَلَّكُمْ ۔۔۔  تَتَّقُونَ۔ 1️⃣8️⃣3️⃣
سے ۔۔ تم سے پہلے ۔۔ تاکہ تم ۔۔ پرھیزگار ہو جاؤ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.  1️⃣8️⃣3️⃣

اے ایمان والو ! تم پر فرض کیا گیا روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے پہلوں پر تاکہ تم پرھیزگار بن جاؤ 

اَلصّیامُ ۔ ( روزہ ) ۔ صوم کی طرح مصدر ہے ۔ جس کے معنی روزہ ہیں ۔ شریعت کی اصطلاح میں روزہ اسے کہتے ہیں کہ انسان فجر سے لے کر سورج ڈوبنے تک کھانے پینے اور جنسی اختلاط سے رُکا رہے ۔ 
مسلمانوں پر رمضان کے روزے فرض ہیں ۔ احادیث میں روزے کے دوران گناہوں سے بچتے رہنے کی تاکید بار بار آئی ہے ۔مثلا غیبت ، فحش کلامی ، بے حیائی بدکلامی وغیرہ ۔ 
علم طب یہ بتاتا ہے کہ روزہ جسمانی بیماریوں کو دور کرنے کا بہترین علاج ہے ۔ اس کے علاوہ اس سے ضبط نفس اور سپاہیانہ زندگی پیدا ہوتی ہے ۔ گویا روزہ ایک طرف روحانی خرابیوں کا علاج ہے ۔ اور دوسری طرف جسمانی قوتوں کو درست کرنے اور بیماریوں کا علاج کرنے والا ہے ۔ 
اَلّذِینَ مِن قَبْلکُم ۔ ( تم سے پہلے لوگ) ۔ روزہ کسی نہ کسی صورت میں ہر مذہب اور ہر قوم میں پایا جاتا ہے ۔ حضرت موسی ۔ حضرت عیسیٰ ۔ حضرت ابراھیم علیھم السلام اور دوسرے انبیاء کی شریعت میں روزہ کو بہت اہمیت حاصل تھی ۔ اس لئے پہلے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے الله تعالی نے فرمایا ۔ کہ ان کی طرح تم پر بھی روزہ فرض کیا جاتا ہے ۔مقصد یہ ہے کہ روزہ دار اپنی جائز اور طبعی خواہشوں کو پورا کرنے سے بھی ایک خاص مدت تک رکا رہے ۔
لعلّکُم تتقُونَ ۔ ( تاکہ تم پرھیزگار بن جاؤ ) ۔ الله تعالی نے ساتھ ہی روزوں کا مقصد بھی بیان کر دیا 
یعنی روزے اس لئے فرض کئے گئے ۔ تاکہ نفس کی غلاظت اور گندگی دور ہو ۔ تقوی اور پرھیز گاری پیدا ہو ۔ جس طرح نقصان دینے والی چیزوں سے پرھیز کرنے سے جسمانی صحت درست ہو جاتی ہے اسی طرح روح اور اخلاق کو نقصان پہنچانے والی تمام عادتوں سے پرھیز کرنے سے انسان کی روحانی استعداد ترقی پاتی ہے ۔ اس خصوصیت کو تقوٰی کہا جاتا ہے ۔ 
روزے کا دوسرا مقصد شکر گزاری بیان کیا گیا ہے ۔
روزہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ۔۔ روحانی اور جسمانی لحاظ سے بھی مفید ترین نسخہ ہے ۔ ہمیں چاہئیے کہ اس فریضے کو نہایت احترام اور کمال پابندی سے نبھایا کریں ۔ بظاہر روزے میں پابندی اور دشواری ہے ۔ لیکن اس کے فوائد پر نگاہ رکھی جائے تو یہ مشکلیں ان فائدوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*وصیّت میں تبدیلی*

فَمَن ۔۔۔ بَدَّلَهُ ۔۔۔ بَعْدَ ۔۔ مَا ۔۔۔ سَمِعَ ۔۔۔ هُ۔ 
پس جو ۔۔ بدل ڈالے اس کو ۔۔ بعد ۔۔ جو ۔۔ سنا اس نے ۔۔ اس کو 
 فَإِنَّمَا ۔۔۔إِثْمُهُ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ يُبَدِّلُونَ ۔۔ هُ
پس بے شک ۔۔ گناہ اس کا ۔۔ پر ۔۔ وہ لوگ ۔۔ وہ بدل ڈالتے ہیں ۔۔ اس کو 
إِنَّ ۔۔ اللَّهَ ۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔ عَلِيمٌ۔  1️⃣8️⃣1️⃣
بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ سننے والا ۔۔ جاننے والا 
فَمَنْ ۔۔ خَافَ ۔۔ مِن ۔۔ مُّوصٍ ۔۔ جَنَفًا
پس جو ۔۔ ڈر گیا ۔۔ سے ۔۔ وصیت کرنے والا ۔۔ طرفداری 
أَوْ ۔۔ إِثْمًا ۔۔ فَأَصْلَحَ ۔۔۔ بَيْنَهُمْ ۔۔۔ فَلَا ۔۔ إِثْمَ ۔۔ عَلَيْهِ
یا ۔۔ گناہ ۔۔ پس درست کر دیا ۔۔ ان کے درمیان ۔۔ پس نہیں ۔۔ گناہ ۔۔ اس پر 
إِنَّ ۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔ رَّحِيمٌ.  1️⃣8️⃣2️⃣
بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔ بخشنے والا ۔۔ مہربان ہے 

فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.  1️⃣8️⃣1️⃣

پھر جو کوئی وصیت کو سن لینے کے بعد بدل ڈالے تو اس کا گناہ انہی پر ہے جنہوں نے اسے بدلا  بے شک الله تعالی سننے والا جاننے والا ہے ۔ 

فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.  1️⃣8️⃣2️⃣

پھر جو کوئی وصیت کرنے والے سے خوف کرے طرفداری کا یا گناہ کا پھر ان میں باہم صلح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں  بے شک الله تعالی بخشنے والا نہایت مہربان ہے 

اس آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو مرنے والے کے پاس وصیت کے وقت موجود ہوں ۔ کہ اگر وہ مرنے والے کی وصیت میں کوئی ردوبدل کریں گے تو اس کا گناہ انہی پر ہوگا ۔ ممکن ہے بعض لوگ اپنے فائدے کے لئے میّت کی وصیت میں کوئی تبدیلی کریں ۔ پھر اسے پیش کرکے اپنی غرض پوری کر لیں ۔ 
اصل  وصیت سے بے خبر لوگوں کو بظاہر اس میں وصیت کرنے والے یا وصیت کے مطابق فیصلہ دینے والے کا قصور معلوم ہوگا کہ اس نے حق تلفی کی ۔ 
الله تعالی نے وصیت کرنے والے اور فیصلہ دینے والے کی مجبوری بیان کر دی ہے اور بتایا ہے کہ اصل ملزم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جھوٹی شھادت اور غلط گواہی پیش کی ۔ جنہوں نے اپنے فائدے کے لئے غلط بیان دئیے یا جھوٹے ثبوت فراہم کئے ۔ 
اس آیت میں وصیت بدلنے کی صرف ایک صورت جائز بتائی ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ وصیت کرنے والے نے کسی کی حق تلفی کی ہے ۔ترکہ کی ناجائز تقسیم کی ہے ۔ قانون الٰہی کے خلاف ھدایت دی ہے ۔ یا وصیت گناہ اور ناانصافی سے کی ہے ۔ مثلا وہ کسی ایسے کام پر مال خرچ کرنے کی وصیت کر گیا جو شرعا ممنوع ہے ۔ ان صورتوں میں گواہ اور فیصلہ کرنے والے کو حق پہنچتا ہے کہ وہ وارثوں کو صحیح مشورہ دے ۔ ان میں باہم تصفیہ کرا دے ۔ اور وصیت تبدیل کروا دے ۔ اس صورت میں وصیت کی تبدیلی گناہ نہیں ہو گی 
گویا اصل بات اخلاصِ نیت اور نیکی کی ہے ۔
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*وصیت*

كُتِبَ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔ إِذَا ۔۔۔ حَضَرَ ۔۔۔ أَحَدَكُمُ ۔۔۔ الْمَوْتُ 
فرض کر دیا گیا ۔۔۔ تم پر ۔۔ جب ۔۔ حاضر ہو ۔۔ تم میں سے ایک کو ۔۔ موت 
إِن ۔۔۔ تَرَكَ ۔۔۔ خَيْرًا ۔۔۔ الْوَصِيَّةُ ۔۔۔ لِلْوَالِدَيْنِ ۔۔۔۔وَالْأَقْرَبِينَ 
اگر ۔۔ چھوڑا اس نے ۔۔۔ مال ۔۔ وصیت ۔۔ والدین کے لئے ۔۔۔ اور رشتہ داروں کے لئے 
بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔حَقًّا ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الْمُتَّقِينَ۔ 1️⃣8️⃣0️⃣
اچھے طریقے کے ساتھ ۔۔۔ لازم ہے ۔۔۔ پر ۔۔ پرھیزگار

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ. 1️⃣8️⃣0️⃣

تم پر فرض کر دیا گیا کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے وصیت کرنا بشرطیکہ وہ کچھ مال اپنے پیچھے چھوڑے ماں باپ کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے انصاف کے ساتھ یہ حکم پرھیزگاروں کے لئے لازم ہے ۔ 

خیراً ۔ ( مال) ۔ اس لفظ کے معنی فلاح اور بہتری کے ہیں ۔ اور قرآن مجید میں یہ لفظ پاکیزہ مال کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ 
اَلْوَصِیّۃُ۔ ( وصیت ) اس کے لفظی معنی حکم دینا اور درخواست کرنا ہیں ۔ شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ ہدائیتیں ہوتی ہیں جو مرنے والا اپنے پیچھے رہنے والوں کو کر جاتا ہے ۔ جو اس کی موت کے بعد پوری کی جاتی ہیں ۔ 
علماء نے وصیت کی کئی قسمیں بیان کی ہیں 
 بعض وصیتیں واجب ہوتی ہیں ۔ مثلا ۔۔ زکوٰۃ ، امانت ، قرض  ادا کرنے کی وصیت جس کا پورا کرنا انتہائی ضروری اور 📌
 فرض ہے 
بعض وصیتیں مستحب ہوتی ہیں ۔ مثلا کسی نیک کام کے لئے وصیت کر جانا ۔ یا کسی ایسے عزیز کو کچھ دے جانا 📌📌
جسے میراث نہ پہنچ رہی ہو ۔ 
بعض وصیتیں صرف مباح ہوتی ہیں ۔ مثلا کسی جائز امر کے لئے وصیت کرنا ۔ 📌📌📌
بعض وصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا پورا کرنا الله تعالی نے منع فرمایا ہے ۔ 
مثلا کوئی حرام کام کے لئے وصیت کرجائے ۔ 📌📌📌📌
جس کا پورا کرنا ممنوع ہے ۔ 
بعض وصیتیں موقوف کہلاتی ہیں ۔ انہیں پورا کرنے کے لئے بعض شرطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ 📌📌📌📌📌
 مثلا مرنے والا اپنے مال کے تیسرے حصے سے زیادہ حصہ کی وصیت کر جائے ۔ اس کی تعمیل دوسرے وارثوں کی رضا مندی پر موقوف ہوتی ہے ۔ 
پچھلی آیات میں قتل کے بارے میں اسلامی احکام تھے ۔اب مرنے والے کے مال سے متعلق احکام بیان ہو رہے ہیں ۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ تمام وارثوں اور حق داروں کا حصہ مقرر فرما دیا گیا ہے ۔ اس لئے وصیت ان حصوں کی روشنی میں جانچی جائے گی ۔ البتہ جائیداد کے تیسرے حصے میں وصیت ہو سکتی ہے ۔ 
بِالمعروف ِ ۔ ( انصاف کے ساتھ ) ۔ یہ لفظ پہلے بھی استعمال ہو چکا ہے ۔ عرف " اس کا مادہ ہے ۔ یعنی ایسی بات جو جانی پہچانی ہو ۔ اور عام طور پر اسے بہتری اور نیکی تصور کیا جاتا ہو ۔ چنانچہ اس کا ایک ترجمہ دستور کے مطابق بھی کیا جاتا ہے ۔ وصیت میں اس کی شرط لگا کر ان تمام خرابیوں کو روک دیا گیا ہے ۔ جو وصیت کرنے والا جانبداری یا ناراضگی کی وجہ سے کر سکتا ہے ۔ کہ کسی کو بہت زیادہ دے دینا یا کسی کا حق بالکل تلف کر دینا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*قصاص میں زندگی ہے*

وَلَكُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔ الْقِصَاصِ ۔۔۔ حَيَاةٌ ۔۔۔ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
اور تمہارے لئے ۔۔ میں ۔۔ قصاص ۔۔۔ زندگی ۔۔۔ اے عقل والو 
لَعَلَّكُمْ ۔۔۔ تَتَّقُونَ۔ 1️⃣7️⃣9️⃣
تاکہ تم ۔۔ متقی بنو 

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ. 1️⃣7️⃣9️⃣

اور قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے  اے عقلمندو !   تاکہ تم بچتے رہو۔ 

قتل کے جُرم میں قاتل کو جان سے مار دینے کی سزا  بظاہر بہت سنگین اور سخت محسوس ہوتی ہے اور یہ خیال ہوتا ہے کہ قاتل کو سزا دے کر ایک اور جان جان بوجھ کر ضائع کر دی جاتی ہے ۔ لیکن اگر اس حکم کی مصلحت اور حکمت کا گہرے غور سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی  کہ اس سے مزید ایک زندگی فنا نہیں ہوتی بلکہ زندگی نصیب ہوتی ہے ۔ 
مثال کے طور پر اگر قتل کی سزا قتل نہ رکھی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسانی جان کی قدر نہ رہے گی ۔ ظالم لوگ بے دھڑک اور بے دریغ قتل کریں گے ۔ کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ وہ تھوڑا سا جرمانہ بھرنے یا قید بھگتنے کے بعد رہا ہو جائیں گے ۔ اس طرح انسانی جان بہت سستی ہو جائے گی ۔ جیسا کہ عرب کے اندر جاہلیت کے زمانے میں عملی طور پر موجود تھا ۔ عرب میں ایسا ہوتا تھا کہ قاتل اور غیر قاتل لحاظ نہیں کرتے تھے جو ہاتھ آجاتا مقتول کے وارثوں میں سے اسے قتل کر ڈالتے تھے ۔ اور فریقین میں اس ایک قتل کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہونے کی نوبت آجاتی تھی ۔ جب خاص قاتل ہی سے قصاص مقرر کیا گیا تو یہ تمام جانیں بچ گئیں ۔ 
اگر اسلامی طریقہ کے مطابق قتل کی سزا قتل رکھ دی جائے یعنی تمام انسانی جانوں کو برابر سمجھا جائے جان کی قیمت جان ہی مقرر کی جائے تو قتل بہت کم ہوں گے ۔ کیونکہ معلوم ہو گا کہ اگر اس کے ہاتھوں کوئی مارا گیا تو خود اس کو بدلے میں جان دینی پڑے گی اور قتل کی سزا بھگتنی پڑے گی تو ان حالات میں قتل کے واقعات رُک جائیں گے ۔ اور لوگ اپنی جانوں کو محفوظ پائیں گے ۔ گویا قتل کی سزا اگر قتل نہ ہو تو لوگوں کی جانیں تلف ہوتی رہیں گی ۔ لیکن  جب قتل کی سزا قتل ہو تو لوگوں کی جانیں بچتی ہیں ۔۔۔ یہ ہے ۔۔۔ *فِی القصَاص حیٰوۃ* 
قصاص کا قانون عدل اور مساوات کا قانون ہے ۔ یہ تمام انسانیت کی زندگی کے ہر پہلو میں نظم ، راستی اور اعتدال کا بہترین ضامن ہے ۔ کہ کوئی کسی پر زیادتی نہ کرنے پائے ۔ اور کمزور اور طاقتور کے حقوق برابر محفوظ ہو جائیں ۔ جب اس قانون پر عرصہ تک عمل ہوتا رہے گا ۔ تو اسکی روح  ساری اُمّت میں پیدا ہو جائے گی اور آئین پسندی  باہم صلح امت کی زندگی کا ایک اہم پہلو بن جائے گی ۔ 
اسلام نے بظاہر جرموں کی سزائیں بہت سنگین رکھی ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تو دراصل یہ جرم ہی اس قدر سنگین سزا چاہتے ہیں ۔ اس سے کم سزا دینا لوگوں میں جرم کو معمولی بنا دینے کا سبب ہو گا ۔ دوسرا مقصد تو جرائم کا انسداد ہے نہ کہ سزا کو محض مذاق اور شغل بنا دینا ۔۔ آجکل یہی ہو رہا ہے ۔ کہ سزا یافتہ مجرم مزید جرم کرتے ہیں ۔ نہ ان کی اصلاح ہوتی ہے نہ دوسروں کو عبرت حاصل ہوتی ہے ۔ 
پھر فرمایا بچتے رہو ۔۔۔ یعنی قصاص کے خوف سے کسی کو قتل کرنے سے بچو ۔۔۔ قصاص کے سبب عذابِ آخرت  سے بچو ۔اور یہ کہ تم کو قصاص کے حکم کی  حکمت معلوم ہو گئی ہے تو اس کی مخالفت یعنی ترک قصاص سے بچتے رہو ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*قتل کا بدلہ ۔۔۔ معروف و احسان*

*قتل کا بدلہ ۔۔۔ معروف و احسان*

فَمَنْ ۔۔۔۔۔۔۔   عُفِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مِنْ ۔۔۔۔۔  أَخِيهِ ۔۔۔۔۔۔۔    شَيْءٌ
پھر جو ۔۔ معاف کیا گیا ۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ سے ۔۔ اس کا بھائی ۔۔ کچھ 
 فَاتِّبَاعٌ ۔۔۔۔۔۔۔    بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَأَدَاءٌ ۔۔۔ إِلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِإِحْسَانٍ 
پس اتباع ۔۔۔  اچھے طریقے سے ۔۔۔ اور ادا ۔۔۔ اس کی طرف ۔۔۔ احسان کے ساتھ 
ذَلِكَ ۔۔ تَخْفِيفٌ ۔۔ مِّن ۔۔  رَّبِّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔    وَرَحْمَةٌ ۔۔۔ فَمَنِ ۔۔۔۔۔۔۔  اعْتَدَى 
یہ ۔۔  نرمی ۔۔۔ سے ۔۔ تمہارا رب ۔۔۔ اور رحمت ۔۔ پس جو ۔۔ زیادتی کی اسنے 
بَعْدَ ۔۔ ذَلِكَ ۔۔۔ فَلَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    عَذَابٌ ۔۔۔ أَلِيمٌ۔  1️⃣7️⃣8️⃣
بعد ۔۔ یہ ۔۔ پس اس کے لئے ۔۔ عذاب ۔۔ دردناک 

فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ 
فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ. 1️⃣7️⃣8️⃣

پھر جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کیا جائے تو دستور کے موافق تابعداری کرنی چاہئیے  اور اسے ادا کرنا چاہئیے خوبی کے ساتھ  یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی  اور مہربانی ہوئی ۔ پھر جس نے زیادتی کی اس فیصلے کے بعد تو اس کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔

مِنْ اَخِیْهِ ۔ ( اس کے بھائی سے ) ۔ اس سے مراد ہے مقتول کے وارث کی طرف سے ۔ جذبہ محبت ابھارنے کے لئے اسے لفظ " بھائی " سے مخاطب کیا گیا ہے ۔ 
اِتّبَاعٌ بِالمَعْرُوف ۔ ( دستور کے موافق پیروی کرنا) ۔ مقصد یہ ہے کہ اگر مقتول کے وارث بدلہ میں خون معاف کر دیں ۔ صرف خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں ۔ تو قاتل کا فرض ہے دستور کے مطابق پوری پوری مناسب رقم ادا کرے اور۔ بِاِحْسَان ۔ ( خوبی ، شرافت ، نیکی ) کے ساتھ ادا کرے ۔ 
پچھلے سبق میں ہم نے پڑھا کہ الله تعالی نے تمام انسانوں کے درمیان فطری مساوات کا جو اصول مقرر فرمایا ہے اس کی رو سے قتل کا بدلہ قتل مقرر کیا گیا ہے ۔ اب یہ بیان فرمایا کہ مقتول کے وارث قاتل کو معاف کر سکتے ہیں ۔ یا اس سے خون بہا کی رقم لے کر خون سے دستبردار ہو سکتے ہیں ۔ یا خون بہا کی رقم میں بھی کچھ کمی کر سکتے ہیں ۔ ان حالات میں قاتل سزائے قتل سے بچ سکتا ہے ۔ 
اس کے بعد فرمایا کہ مقتول کے وارث اگر قاتل کی جان بخشی اور خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں تو وہ اتنی بھاری رقم کا مطالبہ نہ کریں  جو قاتل کی ہمت سے باہر ہو ۔ ضد میں آکر خوامخواہ اُسے تنگ نہ کرنے لگیں ۔یا خون بہا معاف کرنے کے بعد دوبارہ پورے معاوضے کا مطالبہ شروع نہ کر دیں ۔ بلکہ دستور کے مطابق معقول اور مناسب رقم وصول کریں ۔ 
مقتول کے وارثوں کو تاکید کرنے کے بعد قاتل کو بھی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ بھی اس رقم کو نہایت خوش اسلوبی اور خوبصورتی کے ساتھ ادا کردے ۔ خوامخواہ طول دینے یا پیچیدگی اور بد مزگی پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ 
الله تعالی نے قاتل کو قتل کی انتہائی جانی سزا دینے کے ساتھ یہ تخفیف کا طریقہ مقرر کر دیا ہے ۔ الله تعالی انسانوں پر مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس نے اپنی شفقت سے کام لیتے ہوئے سزا کو ہلکا کر دیا ہے ۔ لیکن اگر اس کے بعد بھی کوئی ان قوانین کی خلاف ورزی کرے گا اور دستور جاہلیت پر چلے گا یا معافی اور خون بہا لینے کے بعد قاتل کو قتل کرے گا ۔ اور حدود سے باہر قدم رکھے گا تو الله تعالی اسے درد ناک سزا دے گا ۔ 
یہ اجازت کہ قتل عمد میں چاہے قصاص لو چاہے خون بہا یا دیت لو یا اگر چاہو تو معاف کر دو  الله تعالی کی طرف سے قاتل اور مقتول کے وارثوں دونوں   کے لئے سہولت اور آسانی ہے ۔ جو پہلے لوگوں پر نہیں ہوئی تھی ۔ 
یہودیوں کے لئے قصاص لینا اور نصاری کے لئے معاف کرنا یا دیت لینا فرض تھا ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*قتل کا بدلہ ۔۔۔ قصاص*

*قتل کا بدلہ ----- قصاص*

يَا أَيُّهَا ۔۔ الَّذِينَ ۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   كُتِبَ ۔۔۔۔ عَلَيْكُمُ ۔۔۔ الْقِصَاصُ 
اے ۔۔۔۔۔  لوگو ۔۔ جو ایمان لائے ۔۔ لکھاگیا ۔۔ تم پر ۔۔۔ قصاص
فِي ۔۔۔ الْقَتْلَى ۔۔۔ الْحُرُّ ۔۔۔ بِالْحُرِّ ۔۔۔ وَالْعَبْدُ ۔۔۔۔۔۔۔   بِالْعَبْدِ ۔۔۔ وَالْأُنثَى ۔۔۔۔ بِالْأُنثَى
میں ۔۔ مقتول ۔۔ آزاد ۔۔ بدلے آزاد ۔۔۔ اور غلام ۔۔ بدلے غلام ۔۔ اور عورت ۔۔ بدلے عورت 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَى بِالْأُنثَى

اے ایمان والو ! تم پر فرض کیا گیا ہے مقتولوں میں قصاص ( برابری) کرنا  آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ۔

قَتْلٰی ۔ ( مقتولین )۔ اس کا واحد قتیل ہے یعنی مقتول ۔ وہ قتل کیا گیا شخص جسے کسی نے ارادہ کے ساتھ یعنی جان بوجھ کر قتل کیا ہو ۔ 
قِصَاصٌ ۔ ( بدلہ میں برابری ) یعنی کسی جُرم کا بدلہ لینے میں برابری اور مساوات سے کام لینا ۔ شریعت کی اصطلاح میں قتل کے بدلے میں قتل کرنا یا زخم کے بدلہ میں ایسا ہی برابر کا بدلہ لینا مراد ہے ۔ 
اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں عربوں اور یہودیوں کے ہاں دستور تھا کہ اگر اُونچے گھرانے کا فرد قتل کر دیا جاتا تو وہ قاتل کے خاندان کے بہت سے آدمی قتل کر دیتے ۔ اور اگر اونچے خاندان کا کوئی غلام قتل ہو جاتا تو بدلے میں قاتل کے خاندان کے آزاد آدمی کو قتل کرتے خواہ قتل کرنے والا کوئی غلام ہی ہوتا ۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے اونچے گھرانے کے غلام کی قدر ادنٰی گھرانے کے آزاد کے برابر بلکہ اس بھی زیادہ ہے ۔ اس لئے غلام کو نہیں بلکہ آزاد کو قتل کیا جائے ۔ پھر اگر اونچے گھرانے کی کوئی عورت ادنی گھرانے کی کسی عورت کے ہاتھوں قتل ہو جاتی تو مقتول کے وارث اصل قاتلہ کو چھوڑ کر اس خاندان کے کسی مرد کو قتل کرتے ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے خاندان کی عورت ادنٰی گھر کے مرد کے برابر ہے ۔ 
قرآن مجید میں الله جل شانہ نے اس نسلی امتیاز کو ختم کر دیا اورحکم دیا کہ جہاں تک انسان ہونے کا تعلق ہے سب ایک دوسرے کے برابر ہیں ۔ جانیں سب کی برابر ہیں ۔ غریب ہو یا امیر ، شریف ہو یا ذلیل ، عالم ہو یا جاھل ، جوان ہو یا بوڑھا ، تندرست ہویا بیمار گویا جان کے لحاظ سے سب ایک دوسرے کے برابر ہیں ۔ اگر کوئی عورت کسی مرد کو قتل کر دے تو صرف اسی قاتلہ عورت کو قتل کرنا چاہئیے ۔ کیونکہ اس کی جان مقتول کی جان کے برابر ہے ۔ کوئی غلام قاتل ہو تو اسے ہی قتل کیا جائے کوئی رزیل آدمی قاتل ہو تو بدلے میں اس رزیل ہی کو قتل کیا جائے کسی دوسرے کو نہیں ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ جس نے قتل کیا ہے اسے ہی  بدلے میں قتل کیا جائے ۔ اور زیادتی جو اھل کتاب اور عرب کرتے تھے وہ منع ہے ۔
اس سے پہلی آیت میں نیکی اور برّ کے اصول ذکر کئے گئے ۔ جن پر ھدایت اور مغفرت کا دارو مدار ہے ۔ اور اھل کتاب ان خوبیوں سے بے بہرہ ہیں ۔ اور کھول کر بیان فرما دیا کہ دین میں سچا اور متقی ان خوبیوں کے بغیر کوئی نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ اہل اسلام کے علاوہ نہ تو اہل کتاب اور نہ ہی اہل عرب اس کے مصداق بن سکتے ہیں ۔ وہ آصول پر پختہ نہیں اس لئے وہ فروعی معاملات پر خطاب کے قابل نہیں ۔ 
چنانچہ  اب  سب کو نظر انداز کر کے الله تعالی خاص اہل ایمان سے خطاب کر رہا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*اصل نیکی ۔۔۔ صبر و ثبات*


وَالصَّابِرِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِي ۔۔۔ الْبَأْسَاءِ ۔۔۔ وَالضَّرَّاء۔۔۔ وَحِينَ ۔۔۔۔۔۔  الْبَأْسِ
اور صبر کرنے والے ۔۔۔ میں ۔۔۔ سختی ۔۔۔ اور تکلیف ۔۔۔ اور وقت ۔۔۔ جنگ 
 أُولَئِكَ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔صَدَقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَأُولَئِكَ ۔۔۔ هُمُ ۔۔۔۔الْمُتَّقُونَ
یہی ۔۔ لوگ ۔۔۔ سچ کہا انہوں نے ۔۔ اور یہی ۔۔ وہ ۔۔ وہ پرہیزگار ہیں 

وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

اور سختی اور تکلیف میں صبر کرنے والے اور لڑائی کے وقت  یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرھیزگار ہیں ۔ 

بأْسَآءٌ ۔ ( سختی ) اس کا تعلق مالی پریشانیوں سے ہے ۔ 
اَلضَّرّآءُ ۔ ( تکلیف ) ۔ اس کا تعلق جسمانی بیماریوں اور تکلیفوں سے ہے ۔ 
حِیْنَ الْبَأْسِ ۔ ( لڑائی کے وقت ) ۔ یعنی الله تعالی کی راہ میں دشمن سے جنگ کرتے وقت ۔ 
صابِرِیْنَ ۔ ( صبر کرنے والے ) ۔ یعنی ہر مشکل پریشانی اور تکلیف کا مقابلہ کرنے والے ۔ اور ثابت قدمی سے صحیح راہ پر قائم رہنے والے ۔ 
انسانی اخلاق کی تعبیر کے لئے قرآن مجید نے راہنمائی کی ہے اور فرمایا ہے کہ پختہ اخلاق والے شخص میں یہ خوبیاں ہونی چاہئیں ۔
 وہ اپنے عہد کو پورا کرتا ہو ۔ اپنی ذمہ داریوں کو نہایت اچھے طریقے سے نبھاتا ہو ۔ 
حقوق الله اور حقوق العباد پوری خوبی کے ساتھ ادا کرتا ہو ۔
وہ مالی پریشانیوں ۔۔ جسمانی بیماریوں ۔۔ الله کے دشمنوں  سے جنگ کے وقت صبر و استقامت سے کام لیتا ہو ۔ 
عملی زندگی میں انسان کو طرح طرح کی تکلیفوں  سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ بے روزگاری ، غربت ، افلاس ، معاشی بدحالی ، فاقہ اور تنگ دستی ، اور اسی قسم کی دوسری پریشانیاں  انسان کو روزانہ ستاتی رہتی ہیں ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ ، ان کی شادی بیاہ کا سوال شادی شدہ زندگی کے مسائل اور ایسی ہی شدید ضروریات آدمی کو تنگ کرتی رہتی ہیں ۔ وہ صبح شام اسی ادھیڑ بُن اور کوشش میں لگا رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ طرح طرح کی بیماریاں اور بدنی تکلیفیں گھیرا ڈالے رہتی ہیں ۔ آج خود بیمار ہے ، کل گھر کا کوئی دوسرا فرد بستر پر پڑ گیا ۔ ان کی دوا دارو ، علاج معالجہ ایک الگ پریشانی کا باعث بنا رہتا ہے ۔
پھر دشمن کا خطرہ ، جنگ چھڑ جانے کا اندیشہ ، تباہی اور بربادی کا امکان ، ہلچل اور گڑ بڑ کا خوف یہ تمام چیزیں انسان کو پریشان کئے رہتی ہیں ۔ ان سب کا مقابلہ الله تعالی کے پیش کردہ نیکی کے وسیع تصور سے ہی ممکن ہے ۔ 
یہاں یہ آیت ختم ہوتی ہے جس میں نیکی کا اسلامی تصور پیش کیا گیا ہے ۔ درست عقیدہ رکھنے والے ، مالی قربانی کرنے والے ، صلوۃ و زکوۃ پابندی سے ادا کرنے والے ، عہد پورا کرنے والے اور صبر اور مستقل مزاجی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے والے 
وہی سچے انسان ہیں اور یہی متقی اور پرھیزگار ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
الله جل شانہ ہمیں نیکی کا درست مفہوم سمجھنے کی توفیق بخشے ۔ اور عمل کی ہمت عطا فرمائے ۔ 

*اصل نیکی ۔۔۔ ایفائے عہد*

وَالْمُوفُونَ ۔۔۔۔ بِعَهْدِهِمْ ۔۔۔۔ إِذَا ۔۔۔ عَاهَدُوا 
اور پورا کرنے والے ۔۔۔ اپنے وعدوں کو ۔۔۔ جب وہ عہد کریں 

وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا 
اور اپنے اقرار کو پورا کرنے والے جب وہ کسی سے عہد کریں ۔ 

عقائد ۔۔۔ معاملات اور عبادات کا بیان کرنے کے بعد اب اخلاق کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ انسان کے اخلاق اچھے ہونے کی سب سے بڑھ کر بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ وہ اپنے عہد ، قول و اقرار اور وعدے کا پورا پورا پابند رہے ۔ اس کی اپنی ذاتی زندگی کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جن کے ساتھ اسے واسطہ پڑتا ہے عہد کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے ۔ 
عہد کی کئی صورتیں ہیں ۔ مثلا انسان کا معاھدہ اپنے رب کے ساتھ ہو یا انسانوں کے ساتھ ۔۔۔ روزمرہ کی زندگی میں ہمیں الله تعالی سے ، اپنے بھائی بندوں سے ، عزیز واقارب سے اور عام انسانوں سے بہت سے وعدے کرنے پڑتے ہیں ۔ وعدے سے مراد وہ ذمہ داریاں ہیں جنہیں پورا کرنا ہم پر لازم ہوتا ہے ۔ مثلا 
الله تعالی نے ہم سے وعدہ لے رکھا ہے کہ وہ ہمارا خالق اور معبود ہے ۔ ہم اسی کی عبادت کریں گے ۔ ضرورت کے وقت اسی کو پکاریں گے ۔ اسے واحد اور مختار سمجھیں گے ۔ اب یہ ہم پہ ذمہ داری ہے کہ اپنے اس عہد سے نہ پھریں ۔ 
اسی طرح ہم نے اپنے بھائی بندوں سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ بزرگوں کی خدمت  اور فرمانبرداری ، اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت ، درستی اخلاق اور اصلاح اعمال کی پوری کوشش کریں گے ۔ ۔ رشتہ داروں اور عزیزوں کی مالی مدد کریں گے ۔ ہم نے عوام سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ معاشرہ میں یتیم ، مسکین ، غریب ، محتاج ، مسافر ، قیدی اور مجبور انسانوں کی ضروریات کا احساس کریں گے ۔ اُن کی امداد کریں گے ۔ اب ہمیں چاہئیے کہ ان تمام ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھائیں ۔ اور ان سے غفلت نہ برتیں ۔ 
اس کے علاوہ ہمارے اوپر یہ بھی ذمہ داری ہے کہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے یا جہاں ہم ملازم ہیں وہاں سے حاصل کی ہوئی تنخواہ اور معاوضہ کے بدلے پوری ایمانداری کے ساتھ کام کریں ۔ کسی رورعایت کو جائز نہ سمجھیں ۔ 
معلوم ہوا کہ ہم نے اپنی عملی زندگی میں بے شمار  انسانوں سے کوئی نہ کوئی وعدہ کر رکھا ہے ۔ ذمہ داریوں کا ایک بہت بڑا گٹھا اپنے سر پر اٹھا رکھا ہے ۔ لازم ہے کہ ساری ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے پورا کریں ۔ اور پوری دیانتداری اور احسن طریقے سے اس طرف توجہ دیں ۔ 
آج اکثر انسان اس معاملے میں بہت پست ہو گئے ہیں ۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں عہد کی پاسداری کا خیال نہیں کرتے ۔ وعدے کو وعدہ ہی نہیں سمجھتے ۔ حد یہ ہے کہ قومی اور ملکی معاھدے بھی اس وقت تک قائم رہتے ہیں جب تک بس نہیں چلتا ۔ جونہی طاقت حاصل ہوتی ہے تمام تحریری معاھدے بھی توڑ دئیے جاتے ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
الله جل شانہ ہمیں وعدے کی اصل حقیقت تک پہنچنے کی توفیق بخشے اور اپنے تمام عہد پوری احساس ذمہ داری اور ایمانداری کے ساتھ مکمل کرنے کی ہمت و طاقت عطا فرمائے ۔ 

*اصل نیکی ۔۔۔ صلوۃ و زکوٰۃ*

وَأَقَامَ ۔۔۔ الصَّلَاةَ ۔۔۔ وَآتَى ۔۔۔ الزَّكَاةَ
اور قائم رکھے ۔۔۔ نماز ۔۔ اور اداکرے ۔۔۔ زکوۃ 

وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ

اور نماز قائم رکھے اور زکوۃ دیا کرے 

پچھلے دو سبقوں سے یہ بیان چلا آرہا ہے کہ نیکی کی اصل اور سچی روح یہ نہیں کہ انسان کسی خاص سمت کو مقدس جان کر اس کی طرف منہ کرکے عبادت کرے بلکہ نیکی کی حقیقی روح عقیدوں کی درستی ۔ معاملات کی صفائی ۔ عبادتوں کے بجا لانے ۔ اخلاق کے سنوارنے اور ان کاموں کے کرنے میں ہے جو قرآن مجید بیان کرتا ہے ۔ یعنی انسان کے عقائد وہی ہونے چاہئیں جن کا الله تعالی اپنی کتاب مبین میں تقاضا کرتا ہے ۔ اور انسان دوسرے انسانوں سے اسی طرح پیش آئے جس طرح شریعت ھدایت کرتی ہے ۔
عقائد اور مالی قربانی کے بعد الله تعالی نے نیکی کے دوسرےحصے یعنی عبادتوں کا ذکر کیا ہے ۔ عبادات میں سب سےبڑی عبادت بدنی اور مالی قربانی ہے ۔ بدنی عبادت کی صورت نماز ہے اور مالی عبادت کی صورت زکوۃ ہے ۔ نماز کی بہت سی خوبیاں خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہیں ۔اور احادیث میں بھی اس کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں ۔ 
نماز اسلامی معاشرے کی ایک اہم کڑی ہے۔نماز انسان کو بدی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ نافرمانی سے باز رکھتی ہے۔۔ نماز مؤمن کی معراج ہے ۔ روحانی ، اخلاقی اور سماجی زندگی میں انسان کو تقویت بخشتی ہے ۔ 
مالی عبادات میں زکوٰۃ سب سے بنیادی عبادی ہے۔ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے  کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اپنی دولت کا اڑھائی فیصد حصہ الله کی راہ میں مستحق لوگوں میں نکال دے ۔الله جل شانہ کی مقرر کی ہوئی یہ زکوٰۃ اس قدر ضروری اور مفید ہے کہ اگر مسلمان اس کی پوری پابندی کریں تو امت میں کوئی شخص فاقے نہیں مر سکتا ۔
روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر خود کشی کی نوبت نہیں آ سکتی ۔ کوئی دربدر بھیک نہیں مانگ سکتا ۔
ہمارے معاشرے میں بے راہ روی ۔ تنگدستی ۔بے بسی اور زبوں حالی نہ رہے ۔ ساری امت مجموعی طور پر مضبوط ہوجائے ۔ امن فروغ پائے اور ترقی کی راہیں کھل جائیں ۔
قرآن مجید میں تقریبا ہر جگہ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا ذکر ساتھ ساتھ آیا ہے۔اگر وہ آیات جمع کی جائیں جن میں صلوۃ و زکوۃ کے مسائل ۔ احکام ۔اشارے یا تذکرےموجود ہیں تو ان کی مجموعی تعداد تین سو سے زیادہ ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں ان دونوں فرائض کی حیثیت کس قدر اونچی اور اہم ہے۔ ان ارکان کی بجاآوری اور باقاعدگی کے بغیر اسلامی سوسائٹی کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ چنانچہ ان سے غافل مسلمانوں کو  فاسق " اورمنکر کو دائرہ اسلام ہی سے خارج ہیں سمجھا جاتا ہے 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن  بورڈ



*اصل نیکی ۔۔۔ اچھے معاملات*

وَآتَى ۔۔ الْمَالَ ۔۔۔عَلَى ۔۔۔حُبِّهِ ۔۔۔ذَوِي الْقُرْبَى 
اور دیا اس نے ۔۔۔ مال ۔۔ پر ۔۔ اس کی محبت ۔۔۔ قرابت دار 
وَالْيَتَامَى ۔۔۔وَالْمَسَاكِينَ ۔۔۔وَابْنَ السَّبِيلِ ۔۔۔وَالسَّائِلِينَ ۔۔۔۔وَفِي الرِّقَابِ
اور یتیم ۔۔۔ اور محتاج ۔۔۔ اور مسافر ۔۔ اور گردن چھڑانے میں 

وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ

اور اس کی محبت پر مال دے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں ۔

عَلٰی حُبّه ۔ ( اس کی محبت پر )  یعنی الله تعالی کی محبت پر ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مال کا خرچ کرنا ہی اصل مقصد نہیں بلکہ الله کی راہ میں اس کی رضا جوئی کے لئے خرچ کرنا مقصد ہونا چاہئیے ۔ اس سے یہ معنی بھی لئے گئے ہیں کہ 
"  انسان کو مال سے محبت ہو اور اس کی ضرورت ہو اس کے باوجود مال الله کی راہ میں خرچ کرے " 
اس سے ایک پختہ مؤمن کی اس خوبی کا پتہ چلتا ہے ۔ کہ اس کے دل میں مال کی محبت ہے اس کی خواہشیں زندہ ہیں ۔ وہ اپنی ذات اوراپنی دل پسند اشیاء پر خرچ کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن الله جل شانہ کے حکم کے سامنے گردن جھکا دیتا ہے ۔ اور اپنی خواہشات کو دبا کر الله کی راہ میں خرچ کرتا ہے ۔ذاتی شوق کو الله تعالی کے حکم پر قربان کر دیتا ہے ۔
ذوی القُربی ۔ ( رشتہ دار) ۔ رشتہ داروں کو مالی امداد دینے میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے ۔ ساری امّت کا معاشی نظام اسی پر مستحکم ہے ۔ہر صاحب استطاعت کو سب سے  پہلے اپنے نادار عزیزوں ، کنبہ والوں ، بھائیوں ، بہنوں ، بھتیجوں ، بھانجوں اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کیخبر گیری کرنی چاہئیے ۔ 
و فِی الرّقَاب۔ ( گردنوں کے چھڑانے میں ) ۔ یہ رَقَبَه کی جمع ہے ۔ لفظی معنی گردن کے ہیں ۔محاورہ میں اس سے مرادایسے لوگ ہیں جو غلام ہیں ۔اس حکم سے یہ مراد ہے کہ معاوضہ دے کر انہیں چھڑانا نیکی ہے ۔ 
آیت کے پہلے حصے میں ارشاد ہوا تھا کہ نیکی کسی خاص سمت رُخ کرنے کا نام نہیں بلکہ نیک بننے کے لئے پہلی شرط عقائد کی درستی  اور تکمیل ایمان ہے ۔ اب نیکی کے دوسرے حصے یعنیمالی قربانی کا ذکر ہو رہا ہے ۔ 
ارشاد ہوتا ہے کہ یہ صحیح ہے انسان کو مال سے محبت ہوتی ہے لیکن نیک انسان وہی ہے جو مال کی محبت کے باوجود اسے الله تعالی کی رضا اور خوشی کے لئے الله کے بندوں پر خرچ کرے ۔ضرورتمند اور مستحق انسانوں میں سر فہرست اپنے رشتہ دار ہیں ۔ پھر یتیم ، مسکین ، مسافر ، سوالی ، مجبور و محکوم انسان ہیں  جو آزادی سے محروم ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*اصل نیکی ----- اچھے عقائد*

لَّيْسَ ۔۔ الْبِرَّ ۔۔۔ أَن ۔۔۔تُوَلُّوا ۔۔۔ وُجُوهَكُمْ ۔۔قِبَلَ 
نہیں ۔۔ نیکی ۔۔ یہ کہ ۔۔۔ تم پھیر لو ۔۔ اپنے چہرے ۔۔ طرف 
الْمَشْرِقِ ۔۔ وَالْمَغْرِبِ ۔۔۔ وَلَكِنَّ ۔۔۔الْبِرَّ ۔۔۔مَنْ 
مشرق ۔۔۔ اور مغرب ۔۔۔ اور لیکن ۔۔ نیکی ۔۔۔ جو شخص 
آمَنَ    ۔بِاللَّهِ ۔۔۔  وَالْيَوْمِ ۔۔ الْآخِرِ ۔۔۔ وَالْمَلَائِكَةِ 
ایمان لایا ۔۔ الله تعالی پر ۔۔۔ اور دن ۔۔۔ آخرت ۔۔۔ اورفرشتوں پر 
وَالْكِتَابِ ۔۔۔۔وَالنَّبِيِّينَ 
اور کتاب پر ۔۔۔ اور نبیوں پر 

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ 

نیکی یہی نہیں کہ اپنا منہ کر لو مشرق یا مغرب کی طرف لیکن نیکی یہ ہے کہ جو کوئی الله تعالی پر ایمان لائے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور پیغمبروں پر 

اَلْبِرُّ ۔ ( نیکی ) ۔ عربی زبان میں اس کے معنی بہت وسیع ہیں ۔ ہر قسم کی نیکی اس کے مفہوم میں آجاتی ہے ۔ 
اَلْمَشْرِقُ ۔ ( مشرق ) ۔ جس طرف سے سورج نکلے ۔ بہت سی مشرقی قومیں سورج کو دیوتا سمجھ کر پوجا کرتی رہی ہیں ۔ اور کیونکہ سورج مشرق سے نکلتا ہے اس لئے جاہل قوموں نے مشرق کو بھی ایک مقدس سمت سمجھ لیا ۔ قرآن مجید نے اس خیال پر کاری ضرب لگائی اور بتایا کہ صرف کسی سمت کو مقدس مان لینا اطاعت اور نیکی نہیں ۔نیکی کی تکمیل تو اچھے عقیدے اور درست کاموں سے ہوتی ہے ۔ 
اَلْمَلٰئِکَۃُ ۔ ( فرشتے ) ۔ اس نورانی مخلوق کا وجود ماننا جو الله تعالی کے مقرر کئے ہوئے کاموں پر لگے رہتے ہیں ۔ان پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ 
اَلْکِتابُ ۔ ( کتاب ) مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں ۔ ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ 
اَلنّبِیّینَ ۔ مراد تمام انبیاء علیھم السلام ہیں جو الله تعالی کی طرف سے  انسانوں کی ھدایت کے لئے وقتا فوقتا دنیا میں تشریف لائے ۔ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ 
یہودیوں نے جب شرک کی مذمت اور شرک کرنے والے کی سزاء کا اعلان قرآن مجید کی زبانی سنا تو کانپ اُٹھے ۔اور جواب میں کہنے لگے کہ ہم بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں ۔ کیونکہ ہم آسمانی کتاب کی پیروی کرتے ہیں اس لئے ہم پر عذاب کیوں نازل ہو گا ۔ اس آیت میں ان کی اس کَٹ حجتی کا جواب دیا گیا ہے ۔ 
یہ آیت قرآن مجید کی اہم ترین آیات میں سے ہے ۔ اس میں نیکی کا ایک جامع تصور دیا گیا ہے ۔ کہ نیکی محض بندگی اور پرستش کا نام نہیں اور کسی خاص سمت رُخ کرکے عبادت کرنے کا نام نہیں بلکہ اسلام کے نزدیک نیکی عقیدہ اور عمل دونوں کی درستی سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس میں ایمان ۔ معاملات ۔ عبادات ۔ اخلاق ۔ اخلاص اور قربانی سب کی یکساں حیثیت ہے ۔ 
اس کی تفصیل آئیندہ اسباق میں مسلسل بیان ہو گی ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*گھاٹے والا سودا*

أُولَئِكَ ۔۔۔الَّذِينَ ۔۔۔اشْتَرَوُا ۔۔۔الضَّلَالَةَ ۔۔۔بِالْهُدَى
یہی ۔۔ وہ لوگ ۔۔ خریدا انہوں نے ۔۔۔ گمراہی ۔۔ بدلے ھدایت کے 
وَالْعَذَابَ ۔۔۔بِالْمَغْفِرَةِ ۔۔۔فَمَا ۔۔۔أَصْبَرَهُمْ ۔۔۔عَلَى ۔۔۔النَّارِ۔ 1️⃣7️⃣5️⃣
اور عذاب ۔۔۔ بدلے بخشش کے ۔۔ پس کیا ہی ۔۔۔ صبر ہے ان کا ۔۔۔پر ۔۔ آگ 

ذَلِكَ ۔۔۔بِأَنَّ ۔۔۔اللَّهَ ۔۔۔نَزَّلَ ۔۔۔الْكِتَابَ
یہ ۔۔ اس لئے کہ ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اتاری اس نے ۔۔ کتاب 
بِالْحَقِّ ۔۔۔وَإِنَّ ۔۔۔الَّذِينَ ۔۔اخْتَلَفُوا
حق کے ساتھ ۔۔ اور بے شک۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ اختلاف کیا 
فِي ۔۔الْكِتَابِ ۔۔۔لَفِي ۔۔۔ شِقَاقٍ ۔۔۔ بَعِيدٍ.  1️⃣7️⃣6️⃣
میں ۔۔ کتاب ۔۔ البتہ ہیں ۔۔ ضد ۔۔ دور 

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ1️⃣7️⃣5️⃣

یہی لوگ ہیں جنہوں نے ھدایت کے بدلے گمراہی خریدی ۔ اور بخشش کے بدلے عذاب۔ سو کس قدر صبر ہے ان کا دوزخ پر 

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ.  1️⃣7️⃣6️⃣

یہ اس لئے کہ الله تعالی نے کتاب حق کے ساتھ اتاری اور جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف کیا وہ دور ضد میں جا پڑے ۔

اس آیت میں سچائی چھپانے اور کچھ پیسوں کے لئے دین بیچنے والے لوگوں کے سودے کی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ وہ خود تو یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حق بیچ کر مال و دولت اکٹھا کر لیا ۔ دنیا کما لی۔ ۔ عیش کا سامان اکٹھا کر لیا  اور بڑا اچھا سودا کر لیا ۔ لیکن الله تعالی فرماتا ہے اس سودے میں انہوں نے سب کچھ کھو دیا ۔ انہوں نے ھدایت قربان کرکے گمراہی خرید لی ۔ راہ راست کو بُھلا کر کج روی اختیار کی ۔ روشنی چھوڑ کر تاریکی میں پناہ لی ۔ ایمان ترک کرکے گمراہی اختیار کی ۔ آخرت کی بجائے دنیا کو پسند کیا ۔ اس سے زیادہ خسارے اور نقصان والا سودا اور کون سا ہو گا ۔ ان لوگوں نے عارضی فائدوں کو حاصل کیا اور ہمیشہ کا آرام حاصل کرنے کے لئے کوئی پرواہ نہیں کی ۔ 
سچی بات کو چھپانا ، الله تعالی کے احکام کو غلط رنگ دینا۔ ،  حق کی تجارت کرنا ، تھوڑے سے فائدے کے لئے سچ کو چھپانا بہت بڑا جُرم ہے ۔ اور اس جُرم کی سزا بہت دردناک ہے ۔یہودیوں کی بد عملیوں سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئیے  تاکہ ہم ان گناہوں کی سزا سے بچ سکیں ۔ 
یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟  اس لئے کہ الله تعالی نے حق نازل کیا لیکن انہوں نے حق سے اختلاف کیا ۔  محض ضد اور تعصب کی وجہ سے حق کو نہ مانا ۔ تعاون کی بجائے اختلاف اور مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے ۔ انہوں نے مذہب کو بھی نسلی اور خاندانی میراث سمجھ لیا ۔ 
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت صرف اس لئے کی کہ وہ اسرائیلی نہیں بلکہ اسماعیلی تھے ۔ اگرچہ ایک ہی دادا کی اولاد تھے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*مزید سزائیں*

وَلَا يُكَلِّمُهُمُ ۔۔۔اللَّهُ ۔۔۔ يَوْمَ ۔۔۔ الْقِيَامَةِ
اور نہیں کلام کرے گااُن سے ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ دن ۔۔۔ قیامت 
وَلَا يُزَكِّيهِمْ ۔۔۔وَلَهُمْ ۔۔۔عَذَابٌ ۔۔۔۔ أَلِيمٌ۔ 4️⃣ 1️⃣7️⃣
اورنہیں پاک کرے گا ان کو ۔۔ اور ان کے لئے ۔۔۔ عذاب ۔۔ دردناک

وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.  1️⃣7️⃣4️⃣

اور قیامت کے دن الله تعالی ان سے بات نہیں کرے گا  اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے 

پچھلے سبق میں ان عالموں کا ذکر کیا گیا جو حق کو چھپاتے ہیں ۔ الله کے احکام کو بدل کر اپنی یا دوسروں کی کی مرضی کے مطابق پیش کرتے ہیں ۔عارضی فائدوں کے لئے اور دنیاوی لالچ میں آکر سیدھی راہ سے ہٹ جاتے ہیں ۔دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ان کا انجام یہ بتایا گیا تھا کہ مال ودولت نہیں بلکہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں ۔ اب الله تعالی نے ان کے لئے مزید تین سزائیں بیان فرمائی ہیں ۔
اوّل ۔۔۔ یہ کہ قیامت کے روز الله تعالی ان سے خطاب نہیں کرے گا ۔ اس طرح یہ برے علماء الله تعالی کی رحمت اور شفقت سے محروم رہیں گے ۔ خالق کائنات اور قیامت کے دن کا مالک ان کی طرف سے رُخ پھیر لے گا ۔ یہ اس کی رحمت سے محرومی اور غصے کا اظہار ہو گا ۔ 
دوم ۔۔۔ وہ گناہوں سے کبھی پاک نہ ہو سکیں گے ۔ الله تعالی انہیں گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈالے گا ۔ اور انہیں تزکیہ اور اصلاح میسر نہ ہو گی ۔ نہ ان کے گناہ جھڑیں گے نہ وہ پاک ہوں گے اور نہ جنت میں داخل ہو سکیں گے ۔ 
سوم ۔۔۔ ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا ۔ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور روحانی بھی ۔ اور اس مصیبت سے انہیں کبھی نجات نہ ملے گی ۔ 
الله جل شانہ عذاب سے بچائے ۔ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حق بات کو چھپانا ، سچ کو ظاہر نہ کرنا ، سچ باتوں کی غلط تعبیر کرنا اور الله جل شانہ کے احکام کو غلط رنگ میں ظاہر کرنا کتنا بڑا جُرم ہے ۔ جس کی اتنی سزائیں ہیں ۔ یہ اس لئے اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے قوم کی قوم تباہ ہو جاتی ہے ۔ اور سیدھی راہ سے ہٹ کر گمراہی کے تاریک گڑھے میں جا گرتی ہے ۔ 
ایک طرف حق گوئی اور بے باکی سب سے اعلی صفات ہیں تو دوسری طرف دروغ گوئی ( جھوٹ بولنا ) اور مداہنت ( حق کو چھپانا ) بد ترین اخلاقی جرم ہیں ۔ 
اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ظالم حکمران کے سامنے حق بات بیان کرنے کو جہاد سے تعبیر فرمایا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*بُرے عالموں کی سزا*

إِنَّ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔ يَكْتُمُونَ ۔۔۔ مَا ۔۔ أَنزَلَ ۔۔۔اللَّهُ 
بے شک ۔۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ وہ چھپاتے ہیں ۔۔ جو اتارا ۔۔ الله 
مِنَ ۔۔۔الْكِتَابِ ۔۔۔وَيَشْتَرُونَ ۔۔۔بِهِ ۔۔۔ثَمَنًا ۔۔۔قَلِيلًا 
سے ۔۔۔ کتاب ۔۔ اور لیتے ہیں ۔۔۔ اس کے بدلے ۔۔ قیمت ۔۔۔ تھوڑی 
أُولَئِكَ ۔۔۔مَا يَأْكُلُونَ ۔۔۔فِي ۔۔۔بُطُونِهِمْ ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔النَّارَ
یہ لوگ ۔۔ نہیں وہ کھاتے ۔۔۔ میں ۔۔۔ اپنے پیٹوں میں ۔۔ مگر ۔۔۔ آگ 

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ

بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ الله تعالی نے کتاب میں اتارا اور اس کو تھوڑی قیمت پر بیچ دیتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھرتے ہیں ۔ 

ثمَناً قَلِیْلاً ۔ ( تھوڑا مول ۔ تھوڑی قیمت ) ۔ آخرت کے فوائد اور اجر و ثواب کے مقابلہ میں دنیا کے فائدے خواہ کتنے ہی زیادہ ہوں بے حقیقت اور تھوڑے ہیں ۔یہاں ثمناً قَلِیلاً سے یہی مراد ہے ۔ 
قرآن مجید نے نہایت وضاحت کے ساتھ ان تمام چیزوں پر روشنی ڈال دیجو انسان کے لئے حلال ہیں اور ان چیزوں کی بھی وضاحت کر دی جو نوع انسانی کے لئے حرام ہیں ۔ یہ تمام قوانین اس لئے نازل کئے گئے کہ لوگ ان سے راہنمائی حاصل کریں ۔ اور الله تعالی کےمقرر کئے ہوئے حکموں کی تعمیل کریں ۔ہر شخص تک ان سچے اور اٹل حکموں کو پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئیے ۔تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے آپ کو ان احکام کی روشنی میں سنوار سکیں ۔ 
الله تعالی نے بنی اسرائیل کی شریعت میں بھی ایسے حکم اور ممنوعات شامل کئے تھے ۔ مقصد یہ تھا کہ قوم سیدھی راہ پہچان لے ۔ لیکن ہوا یہ کہ ایک گروہ مذہب کا ٹھیکدار بن گیا اور یہ گروہ احبار و رحبان ( علماء ) کا طبقہ سمجھا جانے لگا ۔ توریت کی تشریح اور تفسیر کرنا اسگروہ نے اپنی ٹھیکداریسمجھ لیا ۔پھر دنیاوی طمع اور لالچ میں آکر لوگوں سےاپنے فائدے کے مسئلے بتانے لگے ۔اورمعمولی قیمت لے کر اصل احکام کو اُلٹ پھیر کر اور ادل بدل کر لوگوں  کی مرضی کی باتیں کہنی شروع کر دیں ۔ اس طرح احکام کا اصل مقصد ہی فوت ہوگیا ۔یہ طبقہ خود بھی راہ راست سے ہٹا اوراسگروہ نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ 
اس آیت میں ان کی یہ سزاء  بتائی گئی ہے کہ وہ اس جُرم کے مرتکب ہو کر آگ کھا رہے ہیں ۔ جیسے کسی نہایت لذیذ کھانے میں زہر ملا ہوا ہو۔تو ویسے ظاہری طور پر تو اس کی لذت بہت ہوگی ، لیکن پیٹ میں جانے کے بعد وہ آگ لگا دے گا۔اسی طرح یہ لوگ دنیاوی طمع میں آکر اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں۔اگرچہ بظاہر ان کی زندگی بڑے ٹھاٹھ اور آرام سے گزر رہی ہے ۔ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں ۔لیکن حقیقت میں ان کا انجام بہت ہولناک ہو گا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ  درس قرآن بورڈ 

*مجبوری کی صورتیں*

فَمَنِ ۔۔۔اضْطُرَّ ۔۔۔ غَيْرَ ۔۔۔ بَاغٍ ۔۔وَلَا عَادٍ
پس جو ۔۔ بے اختیارہوجائے ۔۔ نہ ۔۔ باغی ۔۔۔ اور نہ سرکش
فَلَا إِثْمَ ۔۔۔ عَلَيْهِ ۔۔۔ إِنَّ ۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔ رَّحِيمٌ۔  1️⃣7️⃣3️⃣
پس نہیں گناہ ۔۔ اس پر۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔۔ بخشنے والا ۔۔۔ مہربان 

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.   1️⃣7️⃣3️⃣

پھر جو کوئی بے اختیار ہوجائے نہ تو نافرمانی کرے اور نہ زیادتی تو اس پر کچھ گناہ نہیں بے شک الله تعالی بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔

اَضْطُرَّ ۔ ( بے اختیار ہو جائے ) ۔ ضرورت اسی کے مادے سے نکلا ہے ۔ اس کا مصدر  اِضْطِرَارٌ ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسی مجبوری میں پھنس جائے کہ جان پر بن آئے ۔ تو ایسی مجبوری کے وقت حرام غذا صرف اس حد تک کھانے کی اجازت ہے جس سے جان بچ سکے ۔ 
مثلا کھانا میسر نہ ہو اور جان نکلنے کی نوبت آجائے ۔اور حرام شئے کے علاوہ کوئی چیز نہ ملے یا تنگدستی کی وجہ سے حلال غذا میسر نہ آتی ہو  یا کسی بیماری میں ماہر طبیب کے مشورے پر حرام شئے کا استعمال ضروری ہو ۔ صرف ان صورتوں میں اس حد تک حرام شئے کی اجازت ہے جس سے جان بچ سکے ۔ 
غَیْرَ بَاغٍ ۔ ( نافرمانی نہ کرے ) ۔ مطلب یہ کہ حرام غذا کھانے والے کی نیت اور ارادہ نافرمانی اور قانون شکنی کا نہ ہو ۔ صرف جان بچانا مقصود ہو ۔ چونکہ جان بچانا بھی اُسی کا حکم ہے ۔ 
لاَ عَادٍ ۔ ( زیادتی نہ کرنے والا ) ۔ یعنی شریعت کی حدود سے بڑھنے والا نہ ہو ۔ اگر مجبوری کے عالم میں کھانے لگے تو زیادہ نہ کھائے بلکہ صرف اتنا کھائے جس سے بس جان بچ جائے ۔
غَفُورٌ ۔ ( بخشنے والا) ۔ یعنی ایسی بخشش والا کہ بعض حالات میں گناہوں پر سزا نہیں دیتا بلکہ گناہ بھی باقی نہیں رہنے دیتا ۔ مثلا مجبوری میں بقدر ضرورت حرام شئے کے استعمال پر بندش نہیں کرتا اور سزا نہیں دیتا ۔ 
الله تعالی نے اپنی کمال شفقت اور مہربانی سے کام لے کر ان حرام چیزوں کو بھی بعض حالات میں حلال کر دیا ہے ۔ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ انسان کسی وجہ سے ان کے استعمال پر مجبور ہوجائے کہ اس کے بغیر جان نہ بچتی ہو اور دوسری  یہ کہ وہ اس وقت حرام چیز محض لذت حاصل کرنے کے لئے نہ کھائے بلکہ بقدر ضرورت ہو جس سے بس زندہ بچ سکے ۔ جان بچانا فرض ہے ۔ 
مجبوری کی حالت میں ان چیزوں کو نہ کھانا بھی گناہ ہے ۔ کیونکہ جان بچانا اولین فرض ہے ۔ ایسے موقعوں پر غذا نہ کھانا خود کشی کے برابر ہے ۔ اور خود کشی حرام ہے ۔ 
ہمیں چاہئیے کہ اوّل توان چیزوں سے کلّی پرہیز کریں ۔اور اگر بالفرض ان کے استعمال پر مجبور ہو جائیں تو نیت نیک رکھیں ۔اور کم سے کم مقدار میں استعمال کریں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*حرام غذائیں*

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔ كُلُوا ۔۔۔ مِن ۔۔۔ طَيِّبَاتِ
اے لوگو ۔۔۔ ایمان لائے ۔۔ کھاؤ ۔۔سے ۔۔ پاکیزہ 
مَا ۔۔۔ رَزَقْنَاكُمْ ۔۔۔ وَاشْكُرُوا ۔۔۔ لِلَّهِ
جو ۔۔۔ ہم نے عطا کی تم کو ۔۔۔ اورشکر ادا کرو ۔۔ الله تعالی کا 
إِن كُنتُمْ ۔۔۔ إِيَّاهُ ۔۔۔تَعْبُدُونَ۔  1️⃣7️⃣2️⃣
اگر ہوتم ۔۔۔ خاص اس ہی کی ۔۔۔ تم عبادت کرتے ہو 
إِنَّمَا ۔۔۔ حَرَّمَ ۔۔۔ عَلَيْكُمُ ۔۔۔الْمَيْتَةَ ۔۔۔وَالدَّمَ 
بے شک ۔۔۔ حرام کیا اس نے ۔۔۔ تم پر ۔۔۔ مردار۔۔ اور لہو 
وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ ۔۔۔۔۔وَمَا ۔۔أُهِلَّ ۔۔۔ بِهِ ۔۔ لِغَيْرِ ۔۔۔ اللَّهِ 
اور خنزیر کا گوشت ۔۔ اور وہ جو ۔۔ لیا جائے ۔۔ اس پر ۔۔ اس کے سوا ۔۔ الله تعالی 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ. 1️⃣7️⃣2️⃣

اے ایمان والو  کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں دیں  اور الله تعالی کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کے بندے ہو ۔

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ 

اس نے تم پر حرام کیا ہے مردہ جانور اور خون اور سور کا گوشت اور جس پر الله کے سوا کسی کا نام لیا جائے ۔

اس آیت میں الله تعالی نے دوبارہ اپنی نعمتیں یاد کروائی ہیں۔ اور فرمایا کہ ہم نے بے شمار پاکیزہ چیزیں پیدا کی ہیں ۔انسان کو چاہئیے کہ انہیں کھائے اور اپنی طرف سے ان پر کوئی پابندی نہ لگائے ۔ 
الله تعالی کی صحیح بندگی کا تقاضا تو یہی ہے کہ انسان اس کی نعمتوں سے لطف اندوزہو ۔ اس کا شکر ادا کرے اور کسی دوسری ہستی کو اس کا شریک نہ ٹہرائے ۔
اس کے بعد چند حرام اشیاء کا ذکر ہے ۔ 
اَلْمَیْتَتَةُ ۔ ( مردہ جانور ) ۔ یعنی ایسا جانور جو از خود مر جائے ۔ یا ہلاک تو کیا گیا ہو لیکن شریعت کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو ۔ اسی طرح اگر زندہ جانور کے جسم سے گوشت کا ٹکڑا کاٹ لیا جائے تو وہ بھی مُردار ہی شمار ہو گا ۔
مردار کے علاوہ حرام اشیاء میں دَم ( خون) سور کا گوشت اور وہ جانور بھی شامل ہیں جن پر الله کے سوا کسی اور کا نام لیا جائے ۔
لَحْمَ الْخَنْزِیْرِ ۔ ( سور کا گوشت ) ۔ قرآن مجید میں سور کی حُرمت کا ذکر واضح لفظوں میں موجود ہے ۔ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سور سب سے زیادہ بے غیرت جانور ہے ۔اور اس کا گوشت متعدد اخلاقی اور جسمانی مضر اثرات رکھتا ہے ۔ 
مَا اُھِلَّ بِه لِغَیْرِ الله ِ ( جس پر الله کے سوا کسی اور کا نام لیا جائے ) ۔ یعنی کسی اور کے بام پر ذبح کیا جائے یا بھینٹ چڑھایا جائے ۔ 
اُھِلَّ کے لفظی معنی آواز بلند کرنا اور پکارنا ہیں ۔ 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں