نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*وصیّت میں تبدیلی*

فَمَن ۔۔۔ بَدَّلَهُ ۔۔۔ بَعْدَ ۔۔ مَا ۔۔۔ سَمِعَ ۔۔۔ هُ۔ 
پس جو ۔۔ بدل ڈالے اس کو ۔۔ بعد ۔۔ جو ۔۔ سنا اس نے ۔۔ اس کو 
 فَإِنَّمَا ۔۔۔إِثْمُهُ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ يُبَدِّلُونَ ۔۔ هُ
پس بے شک ۔۔ گناہ اس کا ۔۔ پر ۔۔ وہ لوگ ۔۔ وہ بدل ڈالتے ہیں ۔۔ اس کو 
إِنَّ ۔۔ اللَّهَ ۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔ عَلِيمٌ۔  1️⃣8️⃣1️⃣
بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ سننے والا ۔۔ جاننے والا 
فَمَنْ ۔۔ خَافَ ۔۔ مِن ۔۔ مُّوصٍ ۔۔ جَنَفًا
پس جو ۔۔ ڈر گیا ۔۔ سے ۔۔ وصیت کرنے والا ۔۔ طرفداری 
أَوْ ۔۔ إِثْمًا ۔۔ فَأَصْلَحَ ۔۔۔ بَيْنَهُمْ ۔۔۔ فَلَا ۔۔ إِثْمَ ۔۔ عَلَيْهِ
یا ۔۔ گناہ ۔۔ پس درست کر دیا ۔۔ ان کے درمیان ۔۔ پس نہیں ۔۔ گناہ ۔۔ اس پر 
إِنَّ ۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔ رَّحِيمٌ.  1️⃣8️⃣2️⃣
بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔ بخشنے والا ۔۔ مہربان ہے 

فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.  1️⃣8️⃣1️⃣

پھر جو کوئی وصیت کو سن لینے کے بعد بدل ڈالے تو اس کا گناہ انہی پر ہے جنہوں نے اسے بدلا  بے شک الله تعالی سننے والا جاننے والا ہے ۔ 

فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.  1️⃣8️⃣2️⃣

پھر جو کوئی وصیت کرنے والے سے خوف کرے طرفداری کا یا گناہ کا پھر ان میں باہم صلح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں  بے شک الله تعالی بخشنے والا نہایت مہربان ہے 

اس آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو مرنے والے کے پاس وصیت کے وقت موجود ہوں ۔ کہ اگر وہ مرنے والے کی وصیت میں کوئی ردوبدل کریں گے تو اس کا گناہ انہی پر ہوگا ۔ ممکن ہے بعض لوگ اپنے فائدے کے لئے میّت کی وصیت میں کوئی تبدیلی کریں ۔ پھر اسے پیش کرکے اپنی غرض پوری کر لیں ۔ 
اصل  وصیت سے بے خبر لوگوں کو بظاہر اس میں وصیت کرنے والے یا وصیت کے مطابق فیصلہ دینے والے کا قصور معلوم ہوگا کہ اس نے حق تلفی کی ۔ 
الله تعالی نے وصیت کرنے والے اور فیصلہ دینے والے کی مجبوری بیان کر دی ہے اور بتایا ہے کہ اصل ملزم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جھوٹی شھادت اور غلط گواہی پیش کی ۔ جنہوں نے اپنے فائدے کے لئے غلط بیان دئیے یا جھوٹے ثبوت فراہم کئے ۔ 
اس آیت میں وصیت بدلنے کی صرف ایک صورت جائز بتائی ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ وصیت کرنے والے نے کسی کی حق تلفی کی ہے ۔ترکہ کی ناجائز تقسیم کی ہے ۔ قانون الٰہی کے خلاف ھدایت دی ہے ۔ یا وصیت گناہ اور ناانصافی سے کی ہے ۔ مثلا وہ کسی ایسے کام پر مال خرچ کرنے کی وصیت کر گیا جو شرعا ممنوع ہے ۔ ان صورتوں میں گواہ اور فیصلہ کرنے والے کو حق پہنچتا ہے کہ وہ وارثوں کو صحیح مشورہ دے ۔ ان میں باہم تصفیہ کرا دے ۔ اور وصیت تبدیل کروا دے ۔ اس صورت میں وصیت کی تبدیلی گناہ نہیں ہو گی 
گویا اصل بات اخلاصِ نیت اور نیکی کی ہے ۔
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...