نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*مجبوری کی صورتیں*

فَمَنِ ۔۔۔اضْطُرَّ ۔۔۔ غَيْرَ ۔۔۔ بَاغٍ ۔۔وَلَا عَادٍ
پس جو ۔۔ بے اختیارہوجائے ۔۔ نہ ۔۔ باغی ۔۔۔ اور نہ سرکش
فَلَا إِثْمَ ۔۔۔ عَلَيْهِ ۔۔۔ إِنَّ ۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔ رَّحِيمٌ۔  1️⃣7️⃣3️⃣
پس نہیں گناہ ۔۔ اس پر۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔۔ بخشنے والا ۔۔۔ مہربان 

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.   1️⃣7️⃣3️⃣

پھر جو کوئی بے اختیار ہوجائے نہ تو نافرمانی کرے اور نہ زیادتی تو اس پر کچھ گناہ نہیں بے شک الله تعالی بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔

اَضْطُرَّ ۔ ( بے اختیار ہو جائے ) ۔ ضرورت اسی کے مادے سے نکلا ہے ۔ اس کا مصدر  اِضْطِرَارٌ ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسی مجبوری میں پھنس جائے کہ جان پر بن آئے ۔ تو ایسی مجبوری کے وقت حرام غذا صرف اس حد تک کھانے کی اجازت ہے جس سے جان بچ سکے ۔ 
مثلا کھانا میسر نہ ہو اور جان نکلنے کی نوبت آجائے ۔اور حرام شئے کے علاوہ کوئی چیز نہ ملے یا تنگدستی کی وجہ سے حلال غذا میسر نہ آتی ہو  یا کسی بیماری میں ماہر طبیب کے مشورے پر حرام شئے کا استعمال ضروری ہو ۔ صرف ان صورتوں میں اس حد تک حرام شئے کی اجازت ہے جس سے جان بچ سکے ۔ 
غَیْرَ بَاغٍ ۔ ( نافرمانی نہ کرے ) ۔ مطلب یہ کہ حرام غذا کھانے والے کی نیت اور ارادہ نافرمانی اور قانون شکنی کا نہ ہو ۔ صرف جان بچانا مقصود ہو ۔ چونکہ جان بچانا بھی اُسی کا حکم ہے ۔ 
لاَ عَادٍ ۔ ( زیادتی نہ کرنے والا ) ۔ یعنی شریعت کی حدود سے بڑھنے والا نہ ہو ۔ اگر مجبوری کے عالم میں کھانے لگے تو زیادہ نہ کھائے بلکہ صرف اتنا کھائے جس سے بس جان بچ جائے ۔
غَفُورٌ ۔ ( بخشنے والا) ۔ یعنی ایسی بخشش والا کہ بعض حالات میں گناہوں پر سزا نہیں دیتا بلکہ گناہ بھی باقی نہیں رہنے دیتا ۔ مثلا مجبوری میں بقدر ضرورت حرام شئے کے استعمال پر بندش نہیں کرتا اور سزا نہیں دیتا ۔ 
الله تعالی نے اپنی کمال شفقت اور مہربانی سے کام لے کر ان حرام چیزوں کو بھی بعض حالات میں حلال کر دیا ہے ۔ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ انسان کسی وجہ سے ان کے استعمال پر مجبور ہوجائے کہ اس کے بغیر جان نہ بچتی ہو اور دوسری  یہ کہ وہ اس وقت حرام چیز محض لذت حاصل کرنے کے لئے نہ کھائے بلکہ بقدر ضرورت ہو جس سے بس زندہ بچ سکے ۔ جان بچانا فرض ہے ۔ 
مجبوری کی حالت میں ان چیزوں کو نہ کھانا بھی گناہ ہے ۔ کیونکہ جان بچانا اولین فرض ہے ۔ ایسے موقعوں پر غذا نہ کھانا خود کشی کے برابر ہے ۔ اور خود کشی حرام ہے ۔ 
ہمیں چاہئیے کہ اوّل توان چیزوں سے کلّی پرہیز کریں ۔اور اگر بالفرض ان کے استعمال پر مجبور ہو جائیں تو نیت نیک رکھیں ۔اور کم سے کم مقدار میں استعمال کریں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...