*قصاص میں زندگی ہے*

وَلَكُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔ الْقِصَاصِ ۔۔۔ حَيَاةٌ ۔۔۔ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
اور تمہارے لئے ۔۔ میں ۔۔ قصاص ۔۔۔ زندگی ۔۔۔ اے عقل والو 
لَعَلَّكُمْ ۔۔۔ تَتَّقُونَ۔ 1️⃣7️⃣9️⃣
تاکہ تم ۔۔ متقی بنو 

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ. 1️⃣7️⃣9️⃣

اور قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے  اے عقلمندو !   تاکہ تم بچتے رہو۔ 

قتل کے جُرم میں قاتل کو جان سے مار دینے کی سزا  بظاہر بہت سنگین اور سخت محسوس ہوتی ہے اور یہ خیال ہوتا ہے کہ قاتل کو سزا دے کر ایک اور جان جان بوجھ کر ضائع کر دی جاتی ہے ۔ لیکن اگر اس حکم کی مصلحت اور حکمت کا گہرے غور سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی  کہ اس سے مزید ایک زندگی فنا نہیں ہوتی بلکہ زندگی نصیب ہوتی ہے ۔ 
مثال کے طور پر اگر قتل کی سزا قتل نہ رکھی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسانی جان کی قدر نہ رہے گی ۔ ظالم لوگ بے دھڑک اور بے دریغ قتل کریں گے ۔ کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ وہ تھوڑا سا جرمانہ بھرنے یا قید بھگتنے کے بعد رہا ہو جائیں گے ۔ اس طرح انسانی جان بہت سستی ہو جائے گی ۔ جیسا کہ عرب کے اندر جاہلیت کے زمانے میں عملی طور پر موجود تھا ۔ عرب میں ایسا ہوتا تھا کہ قاتل اور غیر قاتل لحاظ نہیں کرتے تھے جو ہاتھ آجاتا مقتول کے وارثوں میں سے اسے قتل کر ڈالتے تھے ۔ اور فریقین میں اس ایک قتل کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہونے کی نوبت آجاتی تھی ۔ جب خاص قاتل ہی سے قصاص مقرر کیا گیا تو یہ تمام جانیں بچ گئیں ۔ 
اگر اسلامی طریقہ کے مطابق قتل کی سزا قتل رکھ دی جائے یعنی تمام انسانی جانوں کو برابر سمجھا جائے جان کی قیمت جان ہی مقرر کی جائے تو قتل بہت کم ہوں گے ۔ کیونکہ معلوم ہو گا کہ اگر اس کے ہاتھوں کوئی مارا گیا تو خود اس کو بدلے میں جان دینی پڑے گی اور قتل کی سزا بھگتنی پڑے گی تو ان حالات میں قتل کے واقعات رُک جائیں گے ۔ اور لوگ اپنی جانوں کو محفوظ پائیں گے ۔ گویا قتل کی سزا اگر قتل نہ ہو تو لوگوں کی جانیں تلف ہوتی رہیں گی ۔ لیکن  جب قتل کی سزا قتل ہو تو لوگوں کی جانیں بچتی ہیں ۔۔۔ یہ ہے ۔۔۔ *فِی القصَاص حیٰوۃ* 
قصاص کا قانون عدل اور مساوات کا قانون ہے ۔ یہ تمام انسانیت کی زندگی کے ہر پہلو میں نظم ، راستی اور اعتدال کا بہترین ضامن ہے ۔ کہ کوئی کسی پر زیادتی نہ کرنے پائے ۔ اور کمزور اور طاقتور کے حقوق برابر محفوظ ہو جائیں ۔ جب اس قانون پر عرصہ تک عمل ہوتا رہے گا ۔ تو اسکی روح  ساری اُمّت میں پیدا ہو جائے گی اور آئین پسندی  باہم صلح امت کی زندگی کا ایک اہم پہلو بن جائے گی ۔ 
اسلام نے بظاہر جرموں کی سزائیں بہت سنگین رکھی ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تو دراصل یہ جرم ہی اس قدر سنگین سزا چاہتے ہیں ۔ اس سے کم سزا دینا لوگوں میں جرم کو معمولی بنا دینے کا سبب ہو گا ۔ دوسرا مقصد تو جرائم کا انسداد ہے نہ کہ سزا کو محض مذاق اور شغل بنا دینا ۔۔ آجکل یہی ہو رہا ہے ۔ کہ سزا یافتہ مجرم مزید جرم کرتے ہیں ۔ نہ ان کی اصلاح ہوتی ہے نہ دوسروں کو عبرت حاصل ہوتی ہے ۔ 
پھر فرمایا بچتے رہو ۔۔۔ یعنی قصاص کے خوف سے کسی کو قتل کرنے سے بچو ۔۔۔ قصاص کے سبب عذابِ آخرت  سے بچو ۔اور یہ کہ تم کو قصاص کے حکم کی  حکمت معلوم ہو گئی ہے تو اس کی مخالفت یعنی ترک قصاص سے بچتے رہو ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں