نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*قتل کا بدلہ ۔۔۔ قصاص*

*قتل کا بدلہ ----- قصاص*

يَا أَيُّهَا ۔۔ الَّذِينَ ۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   كُتِبَ ۔۔۔۔ عَلَيْكُمُ ۔۔۔ الْقِصَاصُ 
اے ۔۔۔۔۔  لوگو ۔۔ جو ایمان لائے ۔۔ لکھاگیا ۔۔ تم پر ۔۔۔ قصاص
فِي ۔۔۔ الْقَتْلَى ۔۔۔ الْحُرُّ ۔۔۔ بِالْحُرِّ ۔۔۔ وَالْعَبْدُ ۔۔۔۔۔۔۔   بِالْعَبْدِ ۔۔۔ وَالْأُنثَى ۔۔۔۔ بِالْأُنثَى
میں ۔۔ مقتول ۔۔ آزاد ۔۔ بدلے آزاد ۔۔۔ اور غلام ۔۔ بدلے غلام ۔۔ اور عورت ۔۔ بدلے عورت 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَى بِالْأُنثَى

اے ایمان والو ! تم پر فرض کیا گیا ہے مقتولوں میں قصاص ( برابری) کرنا  آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ۔

قَتْلٰی ۔ ( مقتولین )۔ اس کا واحد قتیل ہے یعنی مقتول ۔ وہ قتل کیا گیا شخص جسے کسی نے ارادہ کے ساتھ یعنی جان بوجھ کر قتل کیا ہو ۔ 
قِصَاصٌ ۔ ( بدلہ میں برابری ) یعنی کسی جُرم کا بدلہ لینے میں برابری اور مساوات سے کام لینا ۔ شریعت کی اصطلاح میں قتل کے بدلے میں قتل کرنا یا زخم کے بدلہ میں ایسا ہی برابر کا بدلہ لینا مراد ہے ۔ 
اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں عربوں اور یہودیوں کے ہاں دستور تھا کہ اگر اُونچے گھرانے کا فرد قتل کر دیا جاتا تو وہ قاتل کے خاندان کے بہت سے آدمی قتل کر دیتے ۔ اور اگر اونچے خاندان کا کوئی غلام قتل ہو جاتا تو بدلے میں قاتل کے خاندان کے آزاد آدمی کو قتل کرتے خواہ قتل کرنے والا کوئی غلام ہی ہوتا ۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے اونچے گھرانے کے غلام کی قدر ادنٰی گھرانے کے آزاد کے برابر بلکہ اس بھی زیادہ ہے ۔ اس لئے غلام کو نہیں بلکہ آزاد کو قتل کیا جائے ۔ پھر اگر اونچے گھرانے کی کوئی عورت ادنی گھرانے کی کسی عورت کے ہاتھوں قتل ہو جاتی تو مقتول کے وارث اصل قاتلہ کو چھوڑ کر اس خاندان کے کسی مرد کو قتل کرتے ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے خاندان کی عورت ادنٰی گھر کے مرد کے برابر ہے ۔ 
قرآن مجید میں الله جل شانہ نے اس نسلی امتیاز کو ختم کر دیا اورحکم دیا کہ جہاں تک انسان ہونے کا تعلق ہے سب ایک دوسرے کے برابر ہیں ۔ جانیں سب کی برابر ہیں ۔ غریب ہو یا امیر ، شریف ہو یا ذلیل ، عالم ہو یا جاھل ، جوان ہو یا بوڑھا ، تندرست ہویا بیمار گویا جان کے لحاظ سے سب ایک دوسرے کے برابر ہیں ۔ اگر کوئی عورت کسی مرد کو قتل کر دے تو صرف اسی قاتلہ عورت کو قتل کرنا چاہئیے ۔ کیونکہ اس کی جان مقتول کی جان کے برابر ہے ۔ کوئی غلام قاتل ہو تو اسے ہی قتل کیا جائے کوئی رزیل آدمی قاتل ہو تو بدلے میں اس رزیل ہی کو قتل کیا جائے کسی دوسرے کو نہیں ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ جس نے قتل کیا ہے اسے ہی  بدلے میں قتل کیا جائے ۔ اور زیادتی جو اھل کتاب اور عرب کرتے تھے وہ منع ہے ۔
اس سے پہلی آیت میں نیکی اور برّ کے اصول ذکر کئے گئے ۔ جن پر ھدایت اور مغفرت کا دارو مدار ہے ۔ اور اھل کتاب ان خوبیوں سے بے بہرہ ہیں ۔ اور کھول کر بیان فرما دیا کہ دین میں سچا اور متقی ان خوبیوں کے بغیر کوئی نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ اہل اسلام کے علاوہ نہ تو اہل کتاب اور نہ ہی اہل عرب اس کے مصداق بن سکتے ہیں ۔ وہ آصول پر پختہ نہیں اس لئے وہ فروعی معاملات پر خطاب کے قابل نہیں ۔ 
چنانچہ  اب  سب کو نظر انداز کر کے الله تعالی خاص اہل ایمان سے خطاب کر رہا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...