*قتل کا بدلہ ۔۔۔ معروف و احسان*

*قتل کا بدلہ ۔۔۔ معروف و احسان*

فَمَنْ ۔۔۔۔۔۔۔   عُفِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مِنْ ۔۔۔۔۔  أَخِيهِ ۔۔۔۔۔۔۔    شَيْءٌ
پھر جو ۔۔ معاف کیا گیا ۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ سے ۔۔ اس کا بھائی ۔۔ کچھ 
 فَاتِّبَاعٌ ۔۔۔۔۔۔۔    بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَأَدَاءٌ ۔۔۔ إِلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِإِحْسَانٍ 
پس اتباع ۔۔۔  اچھے طریقے سے ۔۔۔ اور ادا ۔۔۔ اس کی طرف ۔۔۔ احسان کے ساتھ 
ذَلِكَ ۔۔ تَخْفِيفٌ ۔۔ مِّن ۔۔  رَّبِّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔    وَرَحْمَةٌ ۔۔۔ فَمَنِ ۔۔۔۔۔۔۔  اعْتَدَى 
یہ ۔۔  نرمی ۔۔۔ سے ۔۔ تمہارا رب ۔۔۔ اور رحمت ۔۔ پس جو ۔۔ زیادتی کی اسنے 
بَعْدَ ۔۔ ذَلِكَ ۔۔۔ فَلَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    عَذَابٌ ۔۔۔ أَلِيمٌ۔  1️⃣7️⃣8️⃣
بعد ۔۔ یہ ۔۔ پس اس کے لئے ۔۔ عذاب ۔۔ دردناک 

فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ 
فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ. 1️⃣7️⃣8️⃣

پھر جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کیا جائے تو دستور کے موافق تابعداری کرنی چاہئیے  اور اسے ادا کرنا چاہئیے خوبی کے ساتھ  یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی  اور مہربانی ہوئی ۔ پھر جس نے زیادتی کی اس فیصلے کے بعد تو اس کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔

مِنْ اَخِیْهِ ۔ ( اس کے بھائی سے ) ۔ اس سے مراد ہے مقتول کے وارث کی طرف سے ۔ جذبہ محبت ابھارنے کے لئے اسے لفظ " بھائی " سے مخاطب کیا گیا ہے ۔ 
اِتّبَاعٌ بِالمَعْرُوف ۔ ( دستور کے موافق پیروی کرنا) ۔ مقصد یہ ہے کہ اگر مقتول کے وارث بدلہ میں خون معاف کر دیں ۔ صرف خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں ۔ تو قاتل کا فرض ہے دستور کے مطابق پوری پوری مناسب رقم ادا کرے اور۔ بِاِحْسَان ۔ ( خوبی ، شرافت ، نیکی ) کے ساتھ ادا کرے ۔ 
پچھلے سبق میں ہم نے پڑھا کہ الله تعالی نے تمام انسانوں کے درمیان فطری مساوات کا جو اصول مقرر فرمایا ہے اس کی رو سے قتل کا بدلہ قتل مقرر کیا گیا ہے ۔ اب یہ بیان فرمایا کہ مقتول کے وارث قاتل کو معاف کر سکتے ہیں ۔ یا اس سے خون بہا کی رقم لے کر خون سے دستبردار ہو سکتے ہیں ۔ یا خون بہا کی رقم میں بھی کچھ کمی کر سکتے ہیں ۔ ان حالات میں قاتل سزائے قتل سے بچ سکتا ہے ۔ 
اس کے بعد فرمایا کہ مقتول کے وارث اگر قاتل کی جان بخشی اور خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں تو وہ اتنی بھاری رقم کا مطالبہ نہ کریں  جو قاتل کی ہمت سے باہر ہو ۔ ضد میں آکر خوامخواہ اُسے تنگ نہ کرنے لگیں ۔یا خون بہا معاف کرنے کے بعد دوبارہ پورے معاوضے کا مطالبہ شروع نہ کر دیں ۔ بلکہ دستور کے مطابق معقول اور مناسب رقم وصول کریں ۔ 
مقتول کے وارثوں کو تاکید کرنے کے بعد قاتل کو بھی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ بھی اس رقم کو نہایت خوش اسلوبی اور خوبصورتی کے ساتھ ادا کردے ۔ خوامخواہ طول دینے یا پیچیدگی اور بد مزگی پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ 
الله تعالی نے قاتل کو قتل کی انتہائی جانی سزا دینے کے ساتھ یہ تخفیف کا طریقہ مقرر کر دیا ہے ۔ الله تعالی انسانوں پر مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس نے اپنی شفقت سے کام لیتے ہوئے سزا کو ہلکا کر دیا ہے ۔ لیکن اگر اس کے بعد بھی کوئی ان قوانین کی خلاف ورزی کرے گا اور دستور جاہلیت پر چلے گا یا معافی اور خون بہا لینے کے بعد قاتل کو قتل کرے گا ۔ اور حدود سے باہر قدم رکھے گا تو الله تعالی اسے درد ناک سزا دے گا ۔ 
یہ اجازت کہ قتل عمد میں چاہے قصاص لو چاہے خون بہا یا دیت لو یا اگر چاہو تو معاف کر دو  الله تعالی کی طرف سے قاتل اور مقتول کے وارثوں دونوں   کے لئے سہولت اور آسانی ہے ۔ جو پہلے لوگوں پر نہیں ہوئی تھی ۔ 
یہودیوں کے لئے قصاص لینا اور نصاری کے لئے معاف کرنا یا دیت لینا فرض تھا ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں