نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*اصل نیکی ۔۔۔ ایفائے عہد*

وَالْمُوفُونَ ۔۔۔۔ بِعَهْدِهِمْ ۔۔۔۔ إِذَا ۔۔۔ عَاهَدُوا 
اور پورا کرنے والے ۔۔۔ اپنے وعدوں کو ۔۔۔ جب وہ عہد کریں 

وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا 
اور اپنے اقرار کو پورا کرنے والے جب وہ کسی سے عہد کریں ۔ 

عقائد ۔۔۔ معاملات اور عبادات کا بیان کرنے کے بعد اب اخلاق کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ انسان کے اخلاق اچھے ہونے کی سب سے بڑھ کر بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ وہ اپنے عہد ، قول و اقرار اور وعدے کا پورا پورا پابند رہے ۔ اس کی اپنی ذاتی زندگی کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جن کے ساتھ اسے واسطہ پڑتا ہے عہد کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے ۔ 
عہد کی کئی صورتیں ہیں ۔ مثلا انسان کا معاھدہ اپنے رب کے ساتھ ہو یا انسانوں کے ساتھ ۔۔۔ روزمرہ کی زندگی میں ہمیں الله تعالی سے ، اپنے بھائی بندوں سے ، عزیز واقارب سے اور عام انسانوں سے بہت سے وعدے کرنے پڑتے ہیں ۔ وعدے سے مراد وہ ذمہ داریاں ہیں جنہیں پورا کرنا ہم پر لازم ہوتا ہے ۔ مثلا 
الله تعالی نے ہم سے وعدہ لے رکھا ہے کہ وہ ہمارا خالق اور معبود ہے ۔ ہم اسی کی عبادت کریں گے ۔ ضرورت کے وقت اسی کو پکاریں گے ۔ اسے واحد اور مختار سمجھیں گے ۔ اب یہ ہم پہ ذمہ داری ہے کہ اپنے اس عہد سے نہ پھریں ۔ 
اسی طرح ہم نے اپنے بھائی بندوں سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ بزرگوں کی خدمت  اور فرمانبرداری ، اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت ، درستی اخلاق اور اصلاح اعمال کی پوری کوشش کریں گے ۔ ۔ رشتہ داروں اور عزیزوں کی مالی مدد کریں گے ۔ ہم نے عوام سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ معاشرہ میں یتیم ، مسکین ، غریب ، محتاج ، مسافر ، قیدی اور مجبور انسانوں کی ضروریات کا احساس کریں گے ۔ اُن کی امداد کریں گے ۔ اب ہمیں چاہئیے کہ ان تمام ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھائیں ۔ اور ان سے غفلت نہ برتیں ۔ 
اس کے علاوہ ہمارے اوپر یہ بھی ذمہ داری ہے کہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے یا جہاں ہم ملازم ہیں وہاں سے حاصل کی ہوئی تنخواہ اور معاوضہ کے بدلے پوری ایمانداری کے ساتھ کام کریں ۔ کسی رورعایت کو جائز نہ سمجھیں ۔ 
معلوم ہوا کہ ہم نے اپنی عملی زندگی میں بے شمار  انسانوں سے کوئی نہ کوئی وعدہ کر رکھا ہے ۔ ذمہ داریوں کا ایک بہت بڑا گٹھا اپنے سر پر اٹھا رکھا ہے ۔ لازم ہے کہ ساری ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے پورا کریں ۔ اور پوری دیانتداری اور احسن طریقے سے اس طرف توجہ دیں ۔ 
آج اکثر انسان اس معاملے میں بہت پست ہو گئے ہیں ۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں عہد کی پاسداری کا خیال نہیں کرتے ۔ وعدے کو وعدہ ہی نہیں سمجھتے ۔ حد یہ ہے کہ قومی اور ملکی معاھدے بھی اس وقت تک قائم رہتے ہیں جب تک بس نہیں چلتا ۔ جونہی طاقت حاصل ہوتی ہے تمام تحریری معاھدے بھی توڑ دئیے جاتے ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
الله جل شانہ ہمیں وعدے کی اصل حقیقت تک پہنچنے کی توفیق بخشے اور اپنے تمام عہد پوری احساس ذمہ داری اور ایمانداری کے ساتھ مکمل کرنے کی ہمت و طاقت عطا فرمائے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...