نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*روزے کی برکتیں*

وَأَن ۔۔ تَصُومُوا ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔ لَّكُمْ 
اور اگر ۔۔۔ تم روزہ رکھو ۔۔۔ بہتر ہے ۔۔۔ تمہارے لئے 
إِن ۔۔۔ كُنتُمْ ۔۔۔ تَعْلَمُونَ۔ 1️⃣8️⃣4️⃣
اگر ۔۔ ہو تم ۔۔۔ جانتے 

وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.  1️⃣8️⃣4️⃣

اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو ۔ 

آیت کے اس حصے میں روزوں کی اہمیت اور خیر و برکت کا ایک بار پھر بیان کیا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ اگرچہ کوئی معقول عذر انسان کو روزہ قضا کرنے پر یا فدیہ دینے پر مجبور کر دے ۔ پھر روزہ رکھنے سے جو فائدے اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں وہ صرف رمضان میں ہی روزہ رکھنے سے حاصل ہو سکتی ہیں ۔قضا یا کفّارہ سے نہیں ۔اس لئے نتبیہ کر دی گئی کہ اگر تم روزے کی فضیلتیں ، مصلحتیں اور حکمتیں سمجھ لو تو تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم روزہ رکھو اور فدیہ وغیرہ کی اجازت سے خوامخواہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو ۔ 
الله تعالی نے روزے کی فرضیت ، حکمت اور اس سلسلے میں ضروری احکام کا ذکر جو اس رکوع کی سابقہ آیات میں فرمایا ہے انہیں ہم یہاں دوبارہ خلاصے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ 
📌 روزہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ۔ یہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رُکن ہے ۔ اس سے غفلت ، سُستی اور روگردانی بہت بڑا گناہ ہے ۔ فقہا نے روزے کی فرضیت سے انکار کو کفر قرار دیا ہے ۔ 
📌 روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض رہا ہے ۔ اسلام میں نیا نہیں ہے ۔ 
📌 روزے کا مقصد انسان  میں روح کی پاکیزگی ۔ پرھیزگاری ۔ تقوٰی اور بندگی پیدا کرنا ہے ۔ 
📌 روزوں کی تعداد مقرر ہے ۔ یعنی رمضان کے مہینے میں کبھی  ۲۹اور کبھی ۳۰ دن 
📌 اگر رمضان کے مہینے میں کوئی شخص بیمار ہو اور اس قابل نہ ہو کہ روزے پورے کر سکے تو وہ اس مہینے کی بجائے کسی اور وقتجبکہ وہ تندرست ہو روزے رکھ سکتا ہے ۔ 
📌 ان دنوں اگر کوئی شخص سفر پر ہو تو وہ اپنے روزے کسی اور وقت پورے کر سکتا ہے جب وہ سفر پر نہ ہو ۔ 
📌 فدیہ کی مقدار ایک فقیر کو  کھانا کھلانے کے  برابر ہے  ۔ البتہ اگر کوئی شخص ان رعایتوں کا مستحق ہوتے ہوئے بھی روزہ رکھے اور اپنی خوشی  سے نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے تو یہ اس کے حق میں اور بھی بہتر ہے۔ 
ابھی روزے کا بیان اور اس کے مسائل ختم نہیں ہوئے ۔ اس رکوع میں مسلسل یہ بیان جاری رہے گا ۔ 
الله تعالی ہمیں صحیح علم و عمل اور سمجھنے سمجھانے کی توفیق بخشے ۔۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...