نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*روزوں کا حکم*

يَا أَيُّهَا ۔۔ الَّذِينَ ۔۔ آمَنُوا ۔۔ كُتِبَ ۔۔۔عَلَيْكُمُ 
اے ۔۔ لوگو۔۔ جو ایمان لائے ۔۔ لکھاگیا ۔۔ تم پر 
 الصِّيَامُ ۔۔۔ كَمَا ۔۔۔  كُتِبَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الَّذِينَ 
روزہ۔۔ جیسا کہ ۔۔ لکھاگیا  ۔۔۔ پر ۔۔ وہ لوگ 
مِن ۔۔۔ قَبْلِكُمْ ۔۔۔ لَعَلَّكُمْ ۔۔۔  تَتَّقُونَ۔ 1️⃣8️⃣3️⃣
سے ۔۔ تم سے پہلے ۔۔ تاکہ تم ۔۔ پرھیزگار ہو جاؤ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.  1️⃣8️⃣3️⃣

اے ایمان والو ! تم پر فرض کیا گیا روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے پہلوں پر تاکہ تم پرھیزگار بن جاؤ 

اَلصّیامُ ۔ ( روزہ ) ۔ صوم کی طرح مصدر ہے ۔ جس کے معنی روزہ ہیں ۔ شریعت کی اصطلاح میں روزہ اسے کہتے ہیں کہ انسان فجر سے لے کر سورج ڈوبنے تک کھانے پینے اور جنسی اختلاط سے رُکا رہے ۔ 
مسلمانوں پر رمضان کے روزے فرض ہیں ۔ احادیث میں روزے کے دوران گناہوں سے بچتے رہنے کی تاکید بار بار آئی ہے ۔مثلا غیبت ، فحش کلامی ، بے حیائی بدکلامی وغیرہ ۔ 
علم طب یہ بتاتا ہے کہ روزہ جسمانی بیماریوں کو دور کرنے کا بہترین علاج ہے ۔ اس کے علاوہ اس سے ضبط نفس اور سپاہیانہ زندگی پیدا ہوتی ہے ۔ گویا روزہ ایک طرف روحانی خرابیوں کا علاج ہے ۔ اور دوسری طرف جسمانی قوتوں کو درست کرنے اور بیماریوں کا علاج کرنے والا ہے ۔ 
اَلّذِینَ مِن قَبْلکُم ۔ ( تم سے پہلے لوگ) ۔ روزہ کسی نہ کسی صورت میں ہر مذہب اور ہر قوم میں پایا جاتا ہے ۔ حضرت موسی ۔ حضرت عیسیٰ ۔ حضرت ابراھیم علیھم السلام اور دوسرے انبیاء کی شریعت میں روزہ کو بہت اہمیت حاصل تھی ۔ اس لئے پہلے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے الله تعالی نے فرمایا ۔ کہ ان کی طرح تم پر بھی روزہ فرض کیا جاتا ہے ۔مقصد یہ ہے کہ روزہ دار اپنی جائز اور طبعی خواہشوں کو پورا کرنے سے بھی ایک خاص مدت تک رکا رہے ۔
لعلّکُم تتقُونَ ۔ ( تاکہ تم پرھیزگار بن جاؤ ) ۔ الله تعالی نے ساتھ ہی روزوں کا مقصد بھی بیان کر دیا 
یعنی روزے اس لئے فرض کئے گئے ۔ تاکہ نفس کی غلاظت اور گندگی دور ہو ۔ تقوی اور پرھیز گاری پیدا ہو ۔ جس طرح نقصان دینے والی چیزوں سے پرھیز کرنے سے جسمانی صحت درست ہو جاتی ہے اسی طرح روح اور اخلاق کو نقصان پہنچانے والی تمام عادتوں سے پرھیز کرنے سے انسان کی روحانی استعداد ترقی پاتی ہے ۔ اس خصوصیت کو تقوٰی کہا جاتا ہے ۔ 
روزے کا دوسرا مقصد شکر گزاری بیان کیا گیا ہے ۔
روزہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ۔۔ روحانی اور جسمانی لحاظ سے بھی مفید ترین نسخہ ہے ۔ ہمیں چاہئیے کہ اس فریضے کو نہایت احترام اور کمال پابندی سے نبھایا کریں ۔ بظاہر روزے میں پابندی اور دشواری ہے ۔ لیکن اس کے فوائد پر نگاہ رکھی جائے تو یہ مشکلیں ان فائدوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...