نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*وصیت*

كُتِبَ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔ إِذَا ۔۔۔ حَضَرَ ۔۔۔ أَحَدَكُمُ ۔۔۔ الْمَوْتُ 
فرض کر دیا گیا ۔۔۔ تم پر ۔۔ جب ۔۔ حاضر ہو ۔۔ تم میں سے ایک کو ۔۔ موت 
إِن ۔۔۔ تَرَكَ ۔۔۔ خَيْرًا ۔۔۔ الْوَصِيَّةُ ۔۔۔ لِلْوَالِدَيْنِ ۔۔۔۔وَالْأَقْرَبِينَ 
اگر ۔۔ چھوڑا اس نے ۔۔۔ مال ۔۔ وصیت ۔۔ والدین کے لئے ۔۔۔ اور رشتہ داروں کے لئے 
بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔حَقًّا ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الْمُتَّقِينَ۔ 1️⃣8️⃣0️⃣
اچھے طریقے کے ساتھ ۔۔۔ لازم ہے ۔۔۔ پر ۔۔ پرھیزگار

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ. 1️⃣8️⃣0️⃣

تم پر فرض کر دیا گیا کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے وصیت کرنا بشرطیکہ وہ کچھ مال اپنے پیچھے چھوڑے ماں باپ کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے انصاف کے ساتھ یہ حکم پرھیزگاروں کے لئے لازم ہے ۔ 

خیراً ۔ ( مال) ۔ اس لفظ کے معنی فلاح اور بہتری کے ہیں ۔ اور قرآن مجید میں یہ لفظ پاکیزہ مال کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ 
اَلْوَصِیّۃُ۔ ( وصیت ) اس کے لفظی معنی حکم دینا اور درخواست کرنا ہیں ۔ شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ ہدائیتیں ہوتی ہیں جو مرنے والا اپنے پیچھے رہنے والوں کو کر جاتا ہے ۔ جو اس کی موت کے بعد پوری کی جاتی ہیں ۔ 
علماء نے وصیت کی کئی قسمیں بیان کی ہیں 
 بعض وصیتیں واجب ہوتی ہیں ۔ مثلا ۔۔ زکوٰۃ ، امانت ، قرض  ادا کرنے کی وصیت جس کا پورا کرنا انتہائی ضروری اور 📌
 فرض ہے 
بعض وصیتیں مستحب ہوتی ہیں ۔ مثلا کسی نیک کام کے لئے وصیت کر جانا ۔ یا کسی ایسے عزیز کو کچھ دے جانا 📌📌
جسے میراث نہ پہنچ رہی ہو ۔ 
بعض وصیتیں صرف مباح ہوتی ہیں ۔ مثلا کسی جائز امر کے لئے وصیت کرنا ۔ 📌📌📌
بعض وصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا پورا کرنا الله تعالی نے منع فرمایا ہے ۔ 
مثلا کوئی حرام کام کے لئے وصیت کرجائے ۔ 📌📌📌📌
جس کا پورا کرنا ممنوع ہے ۔ 
بعض وصیتیں موقوف کہلاتی ہیں ۔ انہیں پورا کرنے کے لئے بعض شرطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ 📌📌📌📌📌
 مثلا مرنے والا اپنے مال کے تیسرے حصے سے زیادہ حصہ کی وصیت کر جائے ۔ اس کی تعمیل دوسرے وارثوں کی رضا مندی پر موقوف ہوتی ہے ۔ 
پچھلی آیات میں قتل کے بارے میں اسلامی احکام تھے ۔اب مرنے والے کے مال سے متعلق احکام بیان ہو رہے ہیں ۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ تمام وارثوں اور حق داروں کا حصہ مقرر فرما دیا گیا ہے ۔ اس لئے وصیت ان حصوں کی روشنی میں جانچی جائے گی ۔ البتہ جائیداد کے تیسرے حصے میں وصیت ہو سکتی ہے ۔ 
بِالمعروف ِ ۔ ( انصاف کے ساتھ ) ۔ یہ لفظ پہلے بھی استعمال ہو چکا ہے ۔ عرف " اس کا مادہ ہے ۔ یعنی ایسی بات جو جانی پہچانی ہو ۔ اور عام طور پر اسے بہتری اور نیکی تصور کیا جاتا ہو ۔ چنانچہ اس کا ایک ترجمہ دستور کے مطابق بھی کیا جاتا ہے ۔ وصیت میں اس کی شرط لگا کر ان تمام خرابیوں کو روک دیا گیا ہے ۔ جو وصیت کرنے والا جانبداری یا ناراضگی کی وجہ سے کر سکتا ہے ۔ کہ کسی کو بہت زیادہ دے دینا یا کسی کا حق بالکل تلف کر دینا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...