نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*مزید سزائیں*

وَلَا يُكَلِّمُهُمُ ۔۔۔اللَّهُ ۔۔۔ يَوْمَ ۔۔۔ الْقِيَامَةِ
اور نہیں کلام کرے گااُن سے ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ دن ۔۔۔ قیامت 
وَلَا يُزَكِّيهِمْ ۔۔۔وَلَهُمْ ۔۔۔عَذَابٌ ۔۔۔۔ أَلِيمٌ۔ 4️⃣ 1️⃣7️⃣
اورنہیں پاک کرے گا ان کو ۔۔ اور ان کے لئے ۔۔۔ عذاب ۔۔ دردناک

وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.  1️⃣7️⃣4️⃣

اور قیامت کے دن الله تعالی ان سے بات نہیں کرے گا  اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے 

پچھلے سبق میں ان عالموں کا ذکر کیا گیا جو حق کو چھپاتے ہیں ۔ الله کے احکام کو بدل کر اپنی یا دوسروں کی کی مرضی کے مطابق پیش کرتے ہیں ۔عارضی فائدوں کے لئے اور دنیاوی لالچ میں آکر سیدھی راہ سے ہٹ جاتے ہیں ۔دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ان کا انجام یہ بتایا گیا تھا کہ مال ودولت نہیں بلکہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں ۔ اب الله تعالی نے ان کے لئے مزید تین سزائیں بیان فرمائی ہیں ۔
اوّل ۔۔۔ یہ کہ قیامت کے روز الله تعالی ان سے خطاب نہیں کرے گا ۔ اس طرح یہ برے علماء الله تعالی کی رحمت اور شفقت سے محروم رہیں گے ۔ خالق کائنات اور قیامت کے دن کا مالک ان کی طرف سے رُخ پھیر لے گا ۔ یہ اس کی رحمت سے محرومی اور غصے کا اظہار ہو گا ۔ 
دوم ۔۔۔ وہ گناہوں سے کبھی پاک نہ ہو سکیں گے ۔ الله تعالی انہیں گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈالے گا ۔ اور انہیں تزکیہ اور اصلاح میسر نہ ہو گی ۔ نہ ان کے گناہ جھڑیں گے نہ وہ پاک ہوں گے اور نہ جنت میں داخل ہو سکیں گے ۔ 
سوم ۔۔۔ ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا ۔ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور روحانی بھی ۔ اور اس مصیبت سے انہیں کبھی نجات نہ ملے گی ۔ 
الله جل شانہ عذاب سے بچائے ۔ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حق بات کو چھپانا ، سچ کو ظاہر نہ کرنا ، سچ باتوں کی غلط تعبیر کرنا اور الله جل شانہ کے احکام کو غلط رنگ میں ظاہر کرنا کتنا بڑا جُرم ہے ۔ جس کی اتنی سزائیں ہیں ۔ یہ اس لئے اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے قوم کی قوم تباہ ہو جاتی ہے ۔ اور سیدھی راہ سے ہٹ کر گمراہی کے تاریک گڑھے میں جا گرتی ہے ۔ 
ایک طرف حق گوئی اور بے باکی سب سے اعلی صفات ہیں تو دوسری طرف دروغ گوئی ( جھوٹ بولنا ) اور مداہنت ( حق کو چھپانا ) بد ترین اخلاقی جرم ہیں ۔ 
اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ظالم حکمران کے سامنے حق بات بیان کرنے کو جہاد سے تعبیر فرمایا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...