نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*اصل نیکی ۔۔۔ صلوۃ و زکوٰۃ*

وَأَقَامَ ۔۔۔ الصَّلَاةَ ۔۔۔ وَآتَى ۔۔۔ الزَّكَاةَ
اور قائم رکھے ۔۔۔ نماز ۔۔ اور اداکرے ۔۔۔ زکوۃ 

وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ

اور نماز قائم رکھے اور زکوۃ دیا کرے 

پچھلے دو سبقوں سے یہ بیان چلا آرہا ہے کہ نیکی کی اصل اور سچی روح یہ نہیں کہ انسان کسی خاص سمت کو مقدس جان کر اس کی طرف منہ کرکے عبادت کرے بلکہ نیکی کی حقیقی روح عقیدوں کی درستی ۔ معاملات کی صفائی ۔ عبادتوں کے بجا لانے ۔ اخلاق کے سنوارنے اور ان کاموں کے کرنے میں ہے جو قرآن مجید بیان کرتا ہے ۔ یعنی انسان کے عقائد وہی ہونے چاہئیں جن کا الله تعالی اپنی کتاب مبین میں تقاضا کرتا ہے ۔ اور انسان دوسرے انسانوں سے اسی طرح پیش آئے جس طرح شریعت ھدایت کرتی ہے ۔
عقائد اور مالی قربانی کے بعد الله تعالی نے نیکی کے دوسرےحصے یعنی عبادتوں کا ذکر کیا ہے ۔ عبادات میں سب سےبڑی عبادت بدنی اور مالی قربانی ہے ۔ بدنی عبادت کی صورت نماز ہے اور مالی عبادت کی صورت زکوۃ ہے ۔ نماز کی بہت سی خوبیاں خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہیں ۔اور احادیث میں بھی اس کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں ۔ 
نماز اسلامی معاشرے کی ایک اہم کڑی ہے۔نماز انسان کو بدی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ نافرمانی سے باز رکھتی ہے۔۔ نماز مؤمن کی معراج ہے ۔ روحانی ، اخلاقی اور سماجی زندگی میں انسان کو تقویت بخشتی ہے ۔ 
مالی عبادات میں زکوٰۃ سب سے بنیادی عبادی ہے۔ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے  کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اپنی دولت کا اڑھائی فیصد حصہ الله کی راہ میں مستحق لوگوں میں نکال دے ۔الله جل شانہ کی مقرر کی ہوئی یہ زکوٰۃ اس قدر ضروری اور مفید ہے کہ اگر مسلمان اس کی پوری پابندی کریں تو امت میں کوئی شخص فاقے نہیں مر سکتا ۔
روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر خود کشی کی نوبت نہیں آ سکتی ۔ کوئی دربدر بھیک نہیں مانگ سکتا ۔
ہمارے معاشرے میں بے راہ روی ۔ تنگدستی ۔بے بسی اور زبوں حالی نہ رہے ۔ ساری امت مجموعی طور پر مضبوط ہوجائے ۔ امن فروغ پائے اور ترقی کی راہیں کھل جائیں ۔
قرآن مجید میں تقریبا ہر جگہ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا ذکر ساتھ ساتھ آیا ہے۔اگر وہ آیات جمع کی جائیں جن میں صلوۃ و زکوۃ کے مسائل ۔ احکام ۔اشارے یا تذکرےموجود ہیں تو ان کی مجموعی تعداد تین سو سے زیادہ ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں ان دونوں فرائض کی حیثیت کس قدر اونچی اور اہم ہے۔ ان ارکان کی بجاآوری اور باقاعدگی کے بغیر اسلامی سوسائٹی کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ چنانچہ ان سے غافل مسلمانوں کو  فاسق " اورمنکر کو دائرہ اسلام ہی سے خارج ہیں سمجھا جاتا ہے 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن  بورڈ



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...