*پارہ ~~~ 26~~~حمٓ*


               سورہ الاحقاف
مکی سورت ہے۔ پینتیس آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے۔ 
احقاف اس دور کی سپر پاور قوم عاد کے دار السلطنت کا نام ہے اور اس کی تباہی ایسی ہی بڑی خبر ہے جیسے امریکی ٹاوروں کی تباہی کی خبر۔
 زبردست اور حکمت والے رب کا کلام قرآن کریم ہے، پھر آسمان و زمین کی تخلیق سے وحدانیت باری تعالیٰ پر استدلال ہے اور پھر معبود برحق کی طرف سے معبودانِ باطلہ کو چیلنج ہے کہ اس ساری کائنات کا خالق تو اللہ وحدہٗ لاشریک ہے، تم بتاؤ تم نے کیا بنایا ہے؟
 گمراہی کی انتہا ہے کہ ایسے معبودوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک بھی جواب دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ہمارا قرآن جب انہیں سنایا جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ’’نرا جادو‘‘ ہے اور اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کے نام پر لگا دیا ہے۔
 آپ کہئے کہ اگر میں اللہ کے نام پر جھوٹا کلام گھڑ کر پیش کرنے لگوں تو مجھے اللہ کی گرفت سے کون بچائے گا۔ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے میں تو ’’وحی‘‘ کا پابند ہوں اور میں واضح ڈرانے والا ہوں۔
 کافر لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اچھی بات ہوتی تو یہ لوگ اسے قبول کرنے میں ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔ انہیں جب قرآن کی ہدایت نہ مل سکی تو اسے پرانا جھوٹ قرار دینے لگ گئے۔ 
پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور اولاد کی خاطر والدین خصوصاً ’’ماں ‘‘ کی طرف سے اٹھائی جانے والی تکالیف کا تذکرہ ہے کہ حمل، ولادت اور رضاعت میں کس قدر مصائب برداشت کرتی ہے۔ پھر اولاد دو طرح کی ہوتی ہے: (۱)صالح، فرماں بردار، والدین کے لئے دعاء گو (۲)فاسق و نافرمان، والدین کی گستاخ۔ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق صلہ ملے گا۔ 
پھر قوم عاد کو ان کے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی طرف سے دعوت توحید اور قوم کے انکار اور ہٹ دھرمی پر اللہ کی طرف سے بادلوں کی شکل میں عذاب۔ قوم اسے بارش برسانے والے بادل سمجھتی رہی مگر ان بادلوں کے ساتھ تیز آندھی اور طوفان تھا۔ ایسی تیز ہوا تھی کہ جس چیز کو لگتی اسے راکھ بنا کر تباہ کر دیتی۔
 پھر جنات اور ان کے قرآن سننے کا واقعہ جس سے حضور علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی تسلی کا سامان کیا گیا ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی دوسری مخلوقات آپ کی نبوت کی تصدیق کرنے کے لئے موجود ہیں۔ 
قیامت کے دن کافروں کو جہنم کے کنارے پر کھڑے کر کے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ تم اس کو ’’جادو‘‘ کہتے تھے کیا یہ حق نہیں ہے؟
 تو وہ اللہ کی قسم کھا کر اسے درست تسلیم کریں گے، اللہ کہیں گے کہ اپنے کفر کا آج عذاب چکھ لو۔ حضور علیہ السلام سے کہا جا رہا ہے کہ آپ پہلے انبیاء و رسل کی طرح ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہیں اور ان کافروں کی ہلاکت کے لئے جلدی نہ کریں۔ جب ان پر عذاب آئے گا تو انہیں ایسا ہی محسوس ہو گا جیسے ایک آدھ دن کی مہلت بھی انہیں نہیں ملی ہے۔ نافرمانوں کا مقدر ہلاکت ہی ہوتی ہے۔
 
               *سورہ محمد*

مدنی سورت ہے۔ اڑتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ اس کا دوسرا نام سورہ القتال ہے۔ غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوئی، اس میں جہاد کے احکام قیدیوں کے بارے میں قانون سازی اور صلح کے متعلق قرآنی تعلیمات مذکور ہیں۔
 ابتداء میں خیر و شر اور کفرو اسلام کی بنیاد پر انسانی معاشرہ کی تقسیم اور ان کا انجام مذکور ہے۔ اللہ کے راستہ سے روکنے والے کافروں کے اعمال ضائع ہو کر رہ جاتے ہیں جبکہ ایمان و اعمال صالحہ والے کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اللہ ان کے گناہوں کو معاف فرما کر ان کے حالات کو سنوار دیتے ہیں۔ کافروں سے جب تمہارا مقابلہ ہو تو سستی دکھانے اور راہِ فرار اختیار کرنے کی بجائے ان کی گردنیں مارو اور انہیں قتل کرو۔ جب تم کفر کی شان و شوکت کو توڑ چکو تو پھر ان کے باقی ماندہ افراد کو گرفتار کر کے ان کو رسیوں میں مضبوطی سے جکڑ دو، پھر تم مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر چاہو تو ان پر احسان کر کے آزاد کر دو اور چاہو تو فدیہ وصول کر کے چھوڑ دو مگر مقصد ان کی جنگی قوت کو توڑنا اور حربی صلاحیت کو ختم کرنا ہونا چاہئے۔ اللہ انہیں کراماتی طریقہ پر آسمان سے آفت نازل کر کے بھی ختم کرسکتے ہیں مگر وہ تمہارے ہاتھوں سے سزا دلا کر آزمانا چاہتے ہیں۔
 شہداء اسلام کے اعمال ضائع نہیں ہونے دیئے جائیں گے۔ اے ایمان والو! تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد فرمائیں گے اور تمہارے قدم جما دیں گے۔
 دنیا میں چل پھر کر مجرمین کا انجام دیکھ لو۔کتنی بستیاں تم سے زیادہ جاہ و حشمت اور طاقت و قوت والی تھیں۔ ہم نے جب انہیں ہلاک کیا تو کوئی ان کی مدد کو بھی نہ آ سکا۔ 
دین پر علی وجہ البصیرت عمل کرنے والا اور خواہشات پر چل کر اپنے گناہوں کو نیکیاں باور کرنے والا کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ 
متقیوں کے لئے تیار کردہ جنتوں کے اندر ایسی نہریں ہوں گی جن کا پانی سڑنے اور بدبو مارنے سے محفوظ ہو گا۔ دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا ذائقہ خراب نہیں ہو گا۔ مزیدار شراب کی نہریں اور صاف و شفاف شہد کی نہریں ہوں گی، ہر قسم کے پھل اور مغفرت انہیں ملے گی۔ 
اس کے بالمقابل جہنم میں اگر کوئی جا کر کھولتا ہوا پانی پئے اور اس کی آنتیں کٹ کر باہر نکل آئیں تو یہ اس کے برابر نہیں ہو سکتا۔
 بعض منافقین آپ کی مجلس میں بیٹھ کر قرآن سنتے ہیں مگر بعد میں دوسروں سے کہتے پھرتے ہیں کہ آج کیا بات بیان کی گئی ہے؟ اس سے ان کا مقصد تعریض کرنا ہوتا ہے۔ انہیں اگر آج سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو کیا قیامت کے دن سمجھیں گے۔ مؤمنین تو قرآن کی سورتوں اور آیتوں کے نزول کے متمنی رہتے ہیں۔ اور قرآن نازل ہو کر ان کی تمنا پوری کر دیتا ہے مگر منافقین کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب آیات قرآنیہ جہاد کا حکم لے کر اترتی ہیں تو ان کا نفاق کھل کر سامنے آ جاتا ہے اور موت کے خوف سے یہ لوگ مرے چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ظاہراً اطاعت و فرماں برداری کے دعوے کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشرہ میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں اور قطع رحمی کے داعی ہیں۔ ان پر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہے کہ یہ اندھے اور بہرے ہو کر رہ گئے ہیں۔
 منافقین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے یہ لوگ قرآن میں غور و خوض کیوں نہیں کرتے؟ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ منافقین سمجھتے ہیں کہ ان کے دلوں کا کھوٹ ظاہر نہیں ہو گا۔ حالانکہ ان کی شکل و صورت اور لب و لہجہ ان کے دلوں کی بیماری کا پتہ دے رہا ہے، 
ہم جہاد کی آزمائشی بھٹی میں ڈال کر ثابت قدم مجاہدین کو منفرد و ممتاز بنا کر منافقین کو ان سے جدا کر دیں گے۔ تم کمزوری دکھا کر صلح کا مطالبہ نہ کرو۔ تمہی غالب ہو گے، اللہ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں جانے دیں گے۔
 البتہ اگر کافر صلح کی درخواست کریں تو مسلمانوں کے مفاد میں اس پر غور کرسکتے ہو (جیسا کہ سورہ الانفال میں ہے) جب جہاد کے لئے مال خرچ کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے تو یہ بخل کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں حالانکہ بخیل اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اللہ کو تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ غنی ہے اور تم محتاج ہو۔
 اگر تم نے جہاد سے پہلو تہی کی تو تمہیں ہٹا کر اللہ کسی دوسری قوم کو لے آئیں گے اور وہ تمہاری طرح سستی اور بخل کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔

               *سورہ الفتح*

مدنی سورت ہے۔ انتیس آیتیں اور چار رکوع پر مشتمل ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی جو بذات خود ایک بہت بڑی کامیابی تھی اور فتح مکہ کے لئے تمہید بھی تھی اس لئے اس سورت کو ’’الفتح‘‘ کا نام دیا گیا۔ 
جہاد سے پیچھے رہنے والے منافقین کی اس سورت میں کھل کر مذمت کی گئی ہے اور ان کے اندر کی بیماری کو بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بیوی بچوں اور کاروبار کا بہانہ بنا کر جہاد سے راہِ فرار کی کوشش کرتے ہیں۔ اصل میں ان کے دل میں یہ بات ہے کہ مسلمانوں کی تعداد اور وسائل اس قدر کم ہیں کہ کافروں سے مقابلہ میں یہ لوگ مارے جائیں گے اور اپنے گھروں کو زندہ سلامت نہیں لوٹ سکیں گے۔ اس لئے اپنی جان بچانے کے خیال سے پیچھے رہ گئے۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان اعزاز اور منفرد خصوصیت کا ذکر ہے کہ آپ جیسا بھی اقدام کریں صلح کا یا جنگ کا اللہ تعالیٰ اس کی حمایت کرتے ہیں اور اگلے پچھلے تمام تصرفات سے درگزر کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ 
صحابۂ کرام نے اس موقع پر جس طرح آپ کا ساتھ دیا اور آپ کے تمام اقدامات کی حمایت کے لئے آپ کے دست مبارک پر بیعت کر کے اپنی مکمل وفاداری کا اظہار کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان نفوس قدسیہ کی مدح سرائی کی ہے اور اس بیعت کو بیعت رضوان کا نام دے کر ان تمام صحابۂ کرام سے اپنی رضا مندی اور خوشنودی کی نوید سنائی ہے۔ 
اس میں حضرت عثمان کی خصوصی فضیلت بھی ہے کہ انہیں اس موقع پر ’’قاصد رسول‘‘ اور سفیر اسلام ہونے کا اعزاز ملا۔ ان کی وفات کی خبر پر ان کا بدلہ لینے کے لئے مرنے مارنے کی بیعت لینے کا اتنا بڑا اقدام کیا گیا۔ صلح کے نتیجہ میں جنگ ٹل گئی اور بہت سے بے گناہ جنگ کی لپیٹ میں آنے سے بچ گئے۔ 
صحابہ کرام کے لئے تقویٰ کی اہلیت کا قرآنی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔ اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ کی نوید سنائی گئی۔ آپ نے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر طواف کرنے کا جو خواب دیکھا تھا آئندہ سال کو اس کی عملی تعبیر کا سال قرار دیا گیا۔ صحابۂ کرام کی امتیازی خوبیوں میں آپس میں رحمدل ہونے اور کافروں کے مقابلہ میں سخت گیر ہونے کا خصوصی تذکرہ اور اس بات کا بیان کہ صحابۂ کرام کی کمزور جماعت کو آہستہ آہستہ تقویت فراہم کر کے ان کے مربی ومرشد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا ذریعہ بنایا گیا اور اس بات کا اشارہ بھی کہ صحابہ کی جماعت کو دیکھ کر غیض وغضب میں مبتلا ہونے والے ایمان سے محروم ہو کر کفر کی وادی میں بھٹکنے لگ جاتے ہیں۔ اس پاکیزہ جماعت کے لئے مغفرت اور اجر عظیم کے وعدہ کے ساتھ سورت کا اختتام کیا گیا ہے۔

              *سورہ الحجرات*

مدنی سورت ہے۔ اس میں اٹھارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں۔ اس سورت کا دوسرا نام ’’سورہ الآداب‘‘ ہے۔ مجلس رسول کا ادب سکھایا گیا کہ آپ کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ آپ سے کوئی آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے، دروازہ پر کھڑے ہو کر چلا چلا کر آپ کو پکارا نہ جائے آپ کے آرام و راحت کا خیال رکھا جائے۔ 
پھر اسلامی معاشرہ کے آداب کہ افواہوں پر کان نہ دھرا جائے۔ بلا تحقیق کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جو دوسرے کے لئے مالی و جانی نقصان اور اپنے لئے ندامت و پشیمانی کا باعث بن جائے۔ مؤمنین کو آپس میں بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے کی تلقین کے ساتھ ہی باہمی اختلافات کی صورت میں صلح صفائی کی تعلیم دے کر ظالم اور ہٹ دھرم کے خلاف مظلوم کی مدد کا حکم دیا گیا۔ 
معاشرہ کے کسی بھی فرد یا جماعت کے استہزاء و تمسخر سے باز رہنے اور بدگمانی سے بچنے کی ترغیب دی گئی اور غیبت کو اس قدر بدترین عمل قرار دیا کہ اپنے بھائی کی میت سے گوشت نوچ کر کھانے کے مترادف قرار دیا۔ پوری انسانیت کو ایک گھرانے کے افراد بتا کر خاندانوں اور برادریوں کی تقسیم کو تسلیم کرتے ہوئے اسے فضیلت یا اعزاز کی بنیاد قرار دینے سے باز رہنے کی تلقین کے ساتھ ہی اسلامی معاشرہ میں اعزاز و احترام کی بنیاد ’’تقویٰ‘‘ کی تعریف کی گئی۔ 
ایمان کو محض اللہ کا فضل قرار دے کر عُجب اور کبر کی بیخ کنی کر دی گئی اور بتایا کہ ایمان کی صداقت کے ثبوت کی علامت ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ میں جانی و مالی شرکت ہے۔

               *سورہ ق*

مکی سورت ہے۔ پینتالیس آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ اس مختصر سورت میں توحید ورسالت اور بعث بعد الموت کے تینوں عقیدے پوری آب و تاب کے ساتھ مذکور ہیں۔
 قرآن کریم کی عظمت کے بیان کے ساتھ ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ منکرین کے انکارِ قرآن کی وجہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے عقیدہ کا بیان ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت پوست کے بوسیدہ ہو کر ذرات کی شکل میں ہواؤں کی لہروں، پانی کی موجوں اور زمین کی پنہائیوں اور فضاء کی وسعتوں میں بکھرنے کے بعد ان کے ذرات کو علیحدہ علیحدہ شناخت کر کے کس طرح جمع کیا جائے گا؟ 
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسی محفوظ کتاب ہے جس میں ہر ایک کے اجزاء اور ذرات کی تفصیل اس طرح مذکور ہے کہ وہ زمین میں جہاں بھی چھپ جائے یا بکھر کر غائب ہو جائے تو وہ ہمارے علم میں رہتا ہے اور اسے جمع کر کے دوبارہ انسان بنادینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ 
پھر توحید پر کائناتی شواہد اور رسالت پر واقعاتی حقائق سے استدلال کر کے بتایا ہے کہ انبیاء و رسل کے انکار پر پہلی قوموں کی طرح مشرکین مکہ کا مقدر بھی ہلاکت و تباہی بن سکتی ہے۔ 
اس کے بعد جہنم کا تذکرہ اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین جیسی عظیم مخلوقات کو بنا کر بھی وہ نہیں تھکا تو انسان کو دوبارہ بنانے سے وہ کیسے تھک جائے گا۔ موت و حیات اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس بات کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے کہ اپنی وعظ و تبلیغ کی بنیاد قرآن کریم کو بنا کر اللہ کے وعدے اور وعیدیں لوگوں کو سنائی جائیں۔

               *سورہ الذاریات*

مکی سورت ہے۔ ساٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ دوسری مکی سورتوں کی طرح عقیدہ کے موضوع پر ذہن سازی کا عمل اس سورت میں بھی جاری ہے۔
 غبار اڑانے والی ہواؤں، بارش برسانے والے بادلوں، پانی پر تیرنے والی بادبانی کشتیوں اور دنیا کا نظام چلانے والے فرشتوں کی قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی برحق ہے۔ 
پھر منکرین قرآن و آخرت کی ہٹ دھرمی اور عناد اور ان کا بدترین انجام اور ایمان والوں کی صفات فاضلہ اور ان کا انجام خیر ذکر فرمایا ہے۔
 پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مہمان بننے والے فرشتوں کا تذکرہ اور بڑھاپے میں انہیں اولاد کی خوشخبری سنائی اور بتایا ہے کہ قادر مطلق کے لئے اولاد عطاء فرمانے کے لئے جوانی اور بڑھاپے کے عوامل اثر انداز نہیں ہوتے، وہ اپنی قدرت کاملہ سے میاں بیوی کے بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود اولاد دینے پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔

*پارہ ~~~ 25~~~اِلَیْہِ یُرَدُّ*

 
قیامت کے وقت کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔
 کونپلوں سے کیسا پھل برآمد ہو گا۔ 
شکمِ مادر میں کیا ہے اور کب جنے گی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تمہارے شرکاء کہاں ہیں ؟ 
وہ خود کہیں گے کہ ہم ان سے برائت کا اظہار کرتے ہیں۔ 
انسان خیر طلب کرنے سے کبھی نہیں اکتاتا لیکن جیسے ہی تکلیف یا مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو بہت جلد مایوسی اختیار کر لیتا ہے۔ جب آرام و راحت مل جائے تو قیامت کو ایک دم بھول کر ہر فائدہ کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرنے لگ جاتا ہے۔ تکلیف آ جائے تو لمبی لمبی دعاؤں میں لگ جاتا ہے اور آرام و راحت کے وقت ’’کنّی‘‘ کترا کے نکل جاتا ہے۔ 
ہم آفاق کے اندر اپنی آیتیں آپ کو دکھلا کر چھوڑیں گے تاکہ حق ظاہر ہو جائے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز پر گواہ ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ سنو! اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔

              *سورہ الشوری*

’’الشوری‘‘ مشورہ کو کہتے ہیں اور اس سورت میں اللہ کے منتخب بندوں کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ اپنے معاملات باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں اس لئے یہ سورت شوری کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ترپن آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے 
ابتداء سورت میں حقانیت قرآن کا بیان ہے پھر توحید کا تذکرہ اور معبودان باطل کی مذمت ہے۔ پھر قرآن کریم کی عالمگیریت کا بیان ہے کہ یہ مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف میں واقع تمام دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہے۔ اللہ چاہیں تو ہر ایک کو زبردستی اسلام میں داخل کر دیں لیکن یہ ’’سودا‘‘ زبردستی کا نہیں بلکہ اپنے ’’اختیار‘‘ کے مطابق فیصلہ کا ہے تاکہ قیامت کی جزاء و سزاء اس پر نافذ ہو سکے۔
اللہ نے ہر قسم کی نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور اللہ کا مثل کوئی نہیں ہے۔ اس نے تمام انبیاء نوح، ابراہیم، موسیٰ و عیسیٰ کو ایک ہی ’’دین‘ عطاء فرما کر ’’اقامت صلوٰۃ‘‘ اور ’’فرقہ واریت‘‘ سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ دلائل کے آ جانے کے بعد وہ لوگ سرکشی کے طور پر فرقہ واریت کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کی خواہشات کی پیروی کرنے کی بجائے اللہ کے حکم کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کیجئے۔ آسمانی تعلیمات پر ایمان کا اظہار بھی کریں اور عدل و انصاف کے علمبردار رہیں۔ 
جو لوگ وحدانیت باری تعالیٰ کے ثابت ہو جانے کے بعد بھی بے سرو پا دلائل کی بنیاد پر کٹھ حجتی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کے غضب اور عذابِ شدید کی وعید ہے۔ قیامت کی جلدی وہی لوگ مچاتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے اور ایمان والے تو قیامت کو برحق سمجھنے کے باوجود اس کے آنے سے ڈرتے ہیں۔ قیامت کے بارے میں شک کرنے والے کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔
 اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اس لئے جو شخص آخرت کے اجرو ثواب کا طلب گار ہوتا ہے اللہ اس کے اجرو ثواب میں اضافہ فرما دیتے ہیں اور دنیا کے طلب گار کو قسمت سے زیادہ نہیں ملتا مگر آخرت کے بدلہ سے وہ بالکل محروم ہو جاتا ہے۔ پھر ظلم و ستم اور نا انصافی کے مرتکبین اور عدل و انصاف کے علمبرداروں کی قیامت کے دن کی کیفیت کو بیان کرنے کے بعد حضور علیہ السلام کے توسط سے امت مسلمہ کو یہ تعلیم ہے کہ قرآنی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں مالی مفادات پیش نظر نہیں رکھنے چاہئیں پھر دنیا کی زندگی میں ایک زبردست خدائی ضابطہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ باطل کو اس کی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ مٹا کر رہتے ہیں اور حق کو اس کے تمام لوازم کے ساتھ ثابت کر کے چھوڑتے ہیں۔
 اس کے بعد بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کی خطاؤں سے درگزر کرنے کی خوشخبری بیان فرمائی ہے اور اس کے بعد انسان کی اس فطری کمزوری کا تذکرہ ہے کہ جب اسے مالی آسائش اور وسائل زندگی کی فراوانی حاصل ہو جاتی ہے تو یہ سرکشی اور فساد پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
 پھر یہ ضابطہ بھی مذکور ہے کہ انسان پر تکالیف و مصائب درحقیقت اس کے اپنے جرائم اور کرتوتوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں جبکہ بہت سے گناہوں پر تو اللہ تعالیٰ گرفت ہی نہیں کرتے۔
 اس کے بعد اللہ کے صابر و شاکر بندوں کی خوبیوں کی ایک فہرست بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ ایمان و توکل سے سرشار ہوتے ہیں، کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ غصہ کے وقت عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہیں۔اپنے رب کی ہر دعوت پر لبیک کہتے اور اقامت صلوٰۃ کرتے ہیں۔ اپنے معاملات کو مشورہ سے طے کرتے ہیں اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں اور انتقام صرف اسی صورت میں لیتے ہیں جب ان پر کوئی زیادتی و ظلم کیا جاتا ہے۔ 
برائی کا بدلہ برائی سے لینا اگرچہ جائز ہے مگر صبر و تحمل اور عفو و درگزر کرنا بڑے ہی عزم و ہمت کی بات ہے۔
 عذاب الٰہی کو دیکھ لینے کے بعد ظالموں کی جو کیفیت ہو گی اسے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے مختار کل ہونے کا بیان ہے کہ آسمان و زمین کی حکمرانی اسی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے بیٹے دے اور جسے چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے دونوں جنسیں عطاء کر دے اور جسے چاہے بانجھ بنا کر دونوں سے محروم کر دے وہ علم و قدرت والا ے۔ 
پھر وحی کے نزول کے تین طریقے (دل میں القاء کر دینا، پس پردہ بات کرنا یا فرشتہ کی مدد سے پیغام دے دینا) بیان فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی کے لئے واضح کر دیا کہ آپ اللہ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہیں اور تمام کاموں کا مأویٰ و ملجأ ایک اللہ ہی کی ذات ہے۔

               *سورہ الزخرف*

مکی سورت ہے۔ نواسی آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ ’’زخرف‘‘ کے معنیٰ آرائش و زیبائش کے ہیں۔ اس سورت میں کافروں کے لئے ہر طرح کی ’’زخرف‘‘ کا تذکرہ ہے۔
 واضح کتاب کی آیتیں اور عربی زبان میں قرآن اس لئے اتارا تاکہ اہل عقل و دانش اس سے استفادہ کرسکیں۔ 
پھر توحید و رسالت کے موضوع پر گفتگو ہے اور سواریوں کو نقل و حمل کے لئے انسان کے تابع بنانے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تلقین ہے اور تیرہ اور چودہ نمبر آیت میں سواری کی دعاء مذکور ہے پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارا تابع بنا دیا ہم اسے اپنے قابو میں نہیں لا سکتے تھے اور ہم نے لوٹ کر اپنے رب کے پاس ہی جانا ہے۔ 
پھر فرشتوں کو اللہ کی اولاد قرار دینے اور مشرک و گمراہ آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت کی گئی ہے۔ 
پھر ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم کے مشرکانہ افعال سے بیزاری و برأت اور اپنے خالق و مالک کے لئے یکسوئی اختیار کرنے کا بیان ہے۔
 پھر مشرکین کے اعتراض کا تذکرہ ہے کہ ایک غریب اور وسائل سے محروم شخص کو نبی بنانے کی بجائے مکہ یا طائف کے کسی کردار کا انتخاب کیوں عمل میں نہیں لایا گیا۔ نبوت و رسالت اللہ کی رحمت ہے اور اللہ جانتے ہیں کہ اس کا اہل کون ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کو اللہ کی رحمت تقسیم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ باقی رہا مسئلہ امارت و وسائل کی فراوانی کا تو اس کا نبوت و رسالت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے اس سے انسانوں کو امتحان و آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ساری دنیا کے مال و دولت کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر لوگوں کے اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ تمام کافروں کے گھروں کو سونے چاندی سے مزین  کر دیتے، یہ تو دنیا کا عارضی متاع ہے اور متقیوں کے لئے آخرت ہے۔
 اللہ کے ذکر سے غفلت برتنے والوں کا ساتھی شیطان بن کر انہیں راہ راست سے روکتا ہے۔ یہ لوگ جب قیامت کے دن ہمارے پاس آئیں گے تو شیطان سے بیزاری کا بے فائدہ اظہار کریں گے یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں آپ انہیں قرآن سنا کر گمراہی سے نہیں نکال سکیں گے۔ آپ وحی کی اتباع کرتے ہوئے صراط مستقیم پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیجئے۔ یہ قرآن کریم آپ اور آپ کی قوم کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے اور آپ لوگوں کے تذکرہ کے باقی رہنے کا ذریعہ ہے۔
 پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر مبعوث کئے جانے کا ذکر اور مالی وسائل اور دنیوی جاہ و حشمت سے محرومی کے حوالہ سے فرعون کے اعتراضات مذکور ہیں جب فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ میرا اور موسیٰ کا تقابل کر کے دیکھو میں مصر کا حکمران ہوں۔ حور و قصور کا مالک ہوں، باغات اور نہروں کا نظام میرے اختیار میں ہے جبکہ موسیٰ علیہ السلام غریب، وسائل سے تہی دامن اور بات کرنے کے سلیقہ سے بھی عاری ہیں۔ اگر یہ نبی ہوتے تو ان پر سونے کے زیورات کی بارش ہوتی یا فرشتے اس کے آگے پیچھے جلوس کی شکل میں چلا کرتے۔
 اس نے اس قسم کی باتیں کر کے اپنی قوم کو بیوقوف بنا کر اللہ کی نافرمانی پر تیار کر لیا جس سے ہمیں غصہ آیا اور ہم نے انتقاماً انہیں سمندر میں غرق کر کے اگلوں اور پچھلوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا۔ 
پھر عیسیٰ علیہ السلام ان کی بندگی اور ان پر اللہ کے انعامات کا نہایت دلنشین پیرائے میں ذکر موجود ہے۔
 اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ مؤمنین و متقین کی دوستیاں قیامت میں بھی برقرار رہیں گی اور وہ ہر قسم کی پریشانی اور غم سے نجات پا کر جنت کی نعمتوں سے سرشار ہوں گے۔ 
جبکہ مجرمین اپنے ظلم کے نتیجہ میں جہنم کے عذاب میں حیران و سرگرداں ہوں گے۔
 پھر اللہ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آسمان و زمین میں ایک ہی معبود ہے اسی کی حکمرانی ہے اور وہی قیامت کا صحیح علم رکھتا ہے۔ آپ ان کافروں کے ساتھ بحث بازی میں الجھنے کی بجائے انہیں نظر انداز کریں اور چشم پوشی کا مظاہرہ کریں۔ عنقریب انہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔

               *سورہ الدخان*

مکی سورت ہے۔ انسٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ دخان دھوئیں کو کہتے ہیں۔ قیامت کی نشانی اور عذاب کے طور پر مشرکین مکہ پر مسلط کیا گیا تھا۔ اس سورت میں اس کا تذکرہ ہے۔
قرآن کریم ایسی واضح اور بابرکت کتاب ہے کہ جس رات میں اس کا نزول ہوا اسے بھی بابرکت بنا دیا۔
 توحید کا عقیدہ بیان کر کے مشرکین مکہ کے شکوک و شبہات کا تذکرہ کر کے بتایا کہ یہ آسمانی عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں پھر ان پر ایسا دھواں مسلط کیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہ دیتا تھا اس عذاب کے چھٹکارے کی دعائیں مانگنے لگے اور ایمان قبول کرنے کے عہد و پیمان کرنے لگے مگر جیسے ہی عذاب ختم ہوا وہ پھر انکار کرنے لگے اور نبی پر بھونڈے اعتراضات شروع کر دیئے۔
 انہیں بدر کی عبرتناک پکڑ کی وعید سنا کر موسیٰ و فرعون کا واقعہ اور فرعون کی عبرتناک گرفت کا تذکرہ کر کے بتایا کہ اسے جب غرق کیا گیا تو اس کے باغات و محلات سب رہ گئے اور بنی اسرائیل اس کے مالک بن گئے۔ اتنی بڑی قوت کے مالک فرعون کا جب خاتمہ ہوا تو اس پر زمین و آسمان میں رونے والا بھی کوئی نہیں تھا۔
 پھر دلائل توحید اور قیامت کا تذکرہ پھر نافرمانوں کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد کی کیفیت کا بیان ہے کہ ان کی خوراک زقوم کا درخت ہو گا جو پیٹ میں ایسے ابال پیدا کرے گا جیسے ہنڈیا میں آگ پر ابال آتا ہے۔ جہنم کے بیچ میں لے جا کر ان پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تم اپنے آپ کو بہت باعزت سمجھا کرتے تھے آج جہنم کا ذلت آمیز عذاب بھی چکھ لو۔
 پھر جنت میں متقیوں کے اعزاز و اکرام ریشم و کمخواب کے لباس اور خوبصورت بیگمات کا ذکر کر کے بتایا کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضل سے حاصل ہو گا جو عظیم الشان کامیابی کا مظہر ہو گا۔ قرآن کریم کو ہم نے آپ کی زبان میں نہایت آسان بنا کر اس لئے اتارا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرسکیں۔

               *سورہ الجاثیہ*

مکی سورت ہے سینتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا مرکزی مضمون توحید باری تعالیٰ ہے جبکہ حقانیت قرآن، اثبات رسالت محمدیہ اور قیامت کا بیان بھی موجود ہے۔
 ابتداء میں قرآن کے کلام اللہ ہونے کا برملا اظہار ہے اس کے بعد توحید پر کائناتی شواہد پیش کئے گئے ہیں۔ قدرت کے شاہکار آسمان میں دلائل ہیں۔ وسیع و عریض زمین میں، تخلیق انسانی میں، جانوروں اور باقی مخلوقات میں، دن رات کے آنے جانے اور بارشوں اور ہواؤں میں اللہ کی قدرت کے دلائل اور توحید باری کے شواہد موجود ہیں۔ 
پھر مجرمین کا مزاج بیان کیا کہ وہ دلائل سے استفادہ کرنے کی بجائے ضلالت و گمراہی میں اور ترقی کر جاتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ دردناک عذاب اور جہنم کی گہرائیوں میں دھکیلے جانے کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں اور ان میں غور و فکر کر کے منعم حقیقی کو پہچاننے کی تلقین کے ساتھ قوم بنی اسرائیل کا تذکرہ کہ ان پر بے شمار انعامات کئے گئے۔ فضیلت و اکرام سے نوازا گیا مگر انہوں نے ان نعمتوں کی قدر کرنے کی بجائے بغاوت و سرکشی کا راستہ اپنا کر اپنے لئے ہلاکت و بربادی کو لازم کر لیا۔
 پھر گمراہی کی جڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ’’خواہشات نفسانی‘‘ کو معبود کا درجہ دے کر زندگی گزارنا ہی وہ لاعلاج بیماری ہے جو انسان کو گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے اور یہ اندھا اور بہرا ہو کر اس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی کو اصل سمجھ کر آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔
 قیامت کے دن کی ہولناکی اور دہشت کا بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ اس دن لوگ گھٹنوں کے بل گرے پڑے ہوں گے اور ان کی دو جماعتیں بن جائیں گی۔
 ایمان اور اعمال صالحہ والے اللہ کی رحمت اور واضح کامیابی کے مستحق قرار پائیں گے جبکہ کافر و متکبر اپنی مجرمانہ حرکات کی بناء پر ’’پرِکاہ‘‘ کی حیثیت بھی نہیں رکھیں گے اور بے یارو مددگار جہنم کا ایندھن بنادیئے جائیں گے۔ تمام تعریفیں آسمان و زمین اور ساری کائنات کے رب کے لئے ہیں اور آسمان و زمین کی بڑائی بھی اسی زبردست اور حکمتوں والے اللہ کو سزا وار ہے۔

 

*پارہ~~~24~~~فَمَنْ اَظْلَمُ*


جھوٹ کے علمبرداروں اور ان کے حمایتیوں کو دنیا کے ظالم ترین افراد قرار دے کر ان کا ٹھکانہ جہنم بتایا ہے اور سچائی کے علمبرداروں اور حمایتیوں کو متقیوں میں شامل فرما کر ان کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی خوشخبری سنا کر بتایا ہے کہ اپنے بندوں کے لئے اللہ ہی کافی و شافی ہے اس کے بعد کسی اور کی حمایت انہیں درکار نہیں رہتی۔
 یہ لوگ، اللہ کے علاوہ دوسری طاقتوں سے آپ کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اللہ اگر کسی کو نقصان پہنچانا چاہے یا بیماری میں مبتلا کرے یا کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو یہ اسے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اللہ کی حمایت کو کافی سمجھ کر اسی پر توکل کرنا چاہئے۔ انسانوں کی موت و زیست اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ نیند کی حالت میں اللہ ہی روح نکالتے ہیں پھر جس کی موت کا وقت آچکا ہو اس کی روح واپس نہیں کی جاتی جس کا ابھی وقت نہ آیا ہو اس کی روح واپس کر دی جاتی ہے غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں دلائل موجود ہیں۔
 اللہ کے مقابلہ میں انہوں نے اپنے سفارشی ڈھونڈ رکھے ہیں حالانکہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ہر قسم کی شفاعت کا اختیار صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ اکیلے اللہ کے تذکرہ سے ان کے ماتھے پر بَل پڑ جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسروں کا نام لیا جائے تو ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
 قیامت کے دن یہ ظالم ساری دنیا سے دُگنا مال و دولت دے کر عذاب سے چھٹکارا پانا چاہیں گے مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو گی ان کے تمسخر و استہزاء کے نتیجہ میں عذاب کی جو صورتحال درپیش ہو گی وہ ان کے وہم و گمان سے بھی بالاتر ہو گی۔ مگر اللہ نے توبہ کے ذریعہ واپسی کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ اگر کسی نے گناہوں میں ساری عمر تباہ کر دی ہو تو اسے بھی مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے توبہ کرنے پر اللہ ہر قسم کے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اللہ کی طرف رجوع کر کے اللہ کے نازل کردہ قرآن پر عملدر آمد کرو تاکہ کل قیامت کے روز حسرت و افسوس کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
 دنیا میں احکام خداوندی سے روگردانی تکبر کی علامت ہے اور متکبرین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ قیامت کے دن متقی لوگ نجات پائیں گے اور کامیابیاں ان کے قدم چومے گی۔
 اللہ ہر چیز کے خالق و مالک ہیں آسمان و زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اللہ کے منکر گھاٹے اور نقصان میں ہیں۔ غیراللہ کی عبادت کرنے والا کتنا بڑا پڑھا لکھا ہو قرآن کریم اسے جاہل شمار کرتا ہے۔ مشرک کتنا بڑا نیک عمل کر لے اللہ کے ہاں اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ 
جب صور پھونکا جائے گا تو ہر چیز فنا ہو کر رہ جائے گی اور دوبارہ صور پھونکنے پر سب زندہ ہو کر قیامت کا منظر دیکھنے لگیں گے۔ اللہ کے نور سے پوری سرزمین چمک اٹھے گی۔ نبیوں اور گواہوں کی موجودگی میں عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کر کے ہر انسان کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا۔ کافروں کی ٹولیاں بنا کر انہیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ہمارے رسولوں نے قرآن سنا کر تمہیں قیامت کے دن سے نہیں ڈرایا تھا؟ 
وہ تسلیم کریں گے لیکن کافروں کے لئے اللہ کے عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہو گا اور وہ متکبرین کے بدترین ٹھکانہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل کر دیئے جائیں گے۔
 متقیوں کی جماعتیں بنا کر انہیں جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا ان کے استقبال میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے انہیں سلامی پیش کی جائے گی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ وہ اپنے اعمال پر اترانے کی بجائے اللہ کی تعریف میں رطب اللسان ہو رہے ہوں گے۔
 تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ وہ عرش کے چاروں طرف اللہ کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہوں گے۔ عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ ہو چکا ہو گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ تمام خوبیوں اور صفات کے مالک اللہ رب العالمین ہی ہیں۔

              *سورہ المؤمن*

مکی سورت ہے۔ یہ پچاسی آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے۔
 اس میں ایک ’’مرد مؤمن‘‘ کی حق گوئی و بے باکی کا تذکرہ ہے نیز اللہ کے لئے غافر (گناہوں کو معاف کرنے والا) کی صفت کا اطلاق کیا گیا ہے اس لئے ’’سورہ الغافر‘‘ بھی کہا گیا ہے۔
زبردست قوت اور علم کے مالک اللہ کا یہ کلام ہے وہ گناہوں کو معاف کرنے والا توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف سب لوٹ کر جائیں گے۔ اللہ کی آیات میں جھگڑنے والے کافر ہیں۔ عیش و عشرت کے وسائل کی فراوانی اور دنیا میں آزادانہ نقل و حرکت سے آپ دھوکہ میں نہ پڑ جانا۔
 قوم نوح اور ان سے پہلوں اور پچھلوں نے بھی انبیاء کو جھٹلایا۔ انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی انہیں جھگڑا کر کے حق کی آواز دبانے کی کوشش کی مگر ناکام ہو کر ہمارے عذاب کے مستحق قرار پائے۔ 
حاملین عرش اللہ کے مقرب فرشتے اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول رہتے ہیں اور اہل ایمان اور ان کے متعلقین کے لئے استغفار و دعاء کرتے رہتے ہیں۔ 
اے ہمارے رب آپ کی رحمت اور آپ کا علم ہر چیز پر وسیع ہے آپ کی تابعداری کر کے توبہ کرنے والوں کی مغفرت فرما کر انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لیجئے۔ انہیں اپنے خاندان کے نیکوکار افراد سمیت دائمی جنتوں میں داخل کر کے ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات عطا فرما دیجئے۔ 
کافر جہنم میں پڑے ہوئے دوبارہ زندہ ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا اعتراف بھی کریں گے مگر جہنم سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔
 قیامت کے دن اللہ کی حکمرانی کے مقابلہ میں کوئی جھوٹا دعوے دار بھی پیدا نہیں ہو گا۔ اکیلے اللہ ہی ہر چیز پر غالب ہوں گے۔ بغیر کسی ظلم و زیادتی کے ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔
 فرعون، ہامان اور قارون جو کہ اقتدار اعلیٰ، انتظامیہ اور سرمایہ داری کے نمائندے ہیں ان کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ہماری آیات اور معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے۔ مگر انہوں نے ماننے کی بجائے قتل و غارت گری کی مدد سے مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور موسیٰ علیہ السلام کو بھی قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور ’’کلابی تقویٰ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ موسیٰ دراصل لوگوں کا دین بگاڑ رہا ہے اور زمین میں فساد برپا کر رہا ہے اس لئے ہم اس کے خلاف یہ اقدامات کر رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی پناہ اور حفاظت طلب کی تو فرعون کے خاندان کا ایک با اثر شخص کھڑا ہو گیا اس نے لسانی، قومی اور سیاسی تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حمایت کا واضح اعلان کر دیا۔
اس کے ایمان افروز اور طاغوت شکن گفتگو کو قرآن کریم نے آیت ۲۸ سے لیکر آیت ۴۵ تک نہایت تفصیل کے ساتھ ذکر کی ہے، جس میں اس نے موسیٰ علیہ السلام کے حق و صداقت کا اعتراف کیا۔ 
امم ماضیہ کے اپنے انبیاء کا انکار اور ان پر اللہ کے عذاب کا ذکر کیا۔ قیامت کے دن اللہ کی پکڑ سے ڈرایا اور بتایا کہ وہاں پر گناہوں کی سزا مل کر رہے گی، جبکہ ایمان اور اعمال صالحہ والے مرد و عورت جنت میں بے حساب نعمتوں کے مزے لوٹیں گے۔ آخر میں اس نے نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ کہا کہ تم آج میری بات نہیں مان رہے ہو، مگر عنقریب میری باتیں تمہیں یاد آئیں گی، مگر اس وقت کی ندامت تمہارے کام نہ آ سکے گی۔ میں اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کر رہا ہوں۔ 
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم و ستم سے بچا کر فرعون اور اس کے تمام لاؤ لشکر کو بدترین عذاب میں مبتلا کر دیا۔ 
روزانہ صبح و شام جہنم کی آگ ان کی قبروں میں پیش کی جاتی ہے۔ قیامت کے دن سخت ترین عذاب چکھنے کے لئے انہیں جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔
 پھر قیامت کے دن مجرموں کا باہمی جھگڑا اور اپنے جرائم کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی مذموم حرکت کو ذکر کر کے بتایا کہ وہ ایک آدھ دن کے لئے ہی جہنم کے عذاب میں تخفیف کی درخواست کریں گے، مگر وہ بھی پوری نہیں کی جائے گی۔ اپنے بندوں کی مدد کا برحق وعدہ اور ظالموں کے لئے لعنت اور بدترین عذاب کی خبر دیتے ہوئے آگے فرمایا کہ ’’بعث بعدالموت‘‘ کے منکرین یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آسمان و زمین کی تخلیق کا مشکل ترین کام جس اللہ نے کر لیا اس کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہو گا۔ جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں اسی طرح نیک و بد اور مؤمن و کافر بھی برابر نہیں ہو سکتے۔
ہر مشکل میں اللہ ہی کو پکارنا چاہئے جو اللہ سے دعا مانگنے سے پہلوتہی کرتا ہے وہ متکبر اور اسے انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں جانا پڑے گا۔ پھر دن رات کے آنے جانے اور آسمان و زمین کی تعمیر میں غور و فکر کی دعوت دیکر انسانی تخلیق کا بیان شروع کر دیا کہ انسان کو قدرت کا بہترین اور خوبصورت شاہکار بنایا گیا ہے۔ اسے حسین پیکر میں تبدیل ہونے کے لئے جن تخلیقی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ان کا تذکرہ اور پھر زندگی اور موت کے اللہ کے قبضہ میں ہونے کا بیان ہے، پھر بتایا ہے کہ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے اور قرآن کا انکار کرنے والوں کو طوق ڈال کر بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر جہنم میں گھسیٹا جائے گا اور ان کے غرور و تکبر کی بناء پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کو ان کا ٹھکانہ قرار دے دیا جائے گا۔
 اس کے بعد بتایا گیا کہ انبیاء و رسل آپ سے پہلے بھی آتے رہے ہیں۔ مگر ایمان سب پر لانا ضروری ہے کوئی رسول اپنے طور پر کبھی بھی نشانی نہیں لایا کرتا اور پھر انسان اپنے نواح و اطراف میں اگر غور کرے تو پوری کائنات نشانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جب ہمارا عذاب یہ لوگ دیکھتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہیں، لیکن ’’حالتِ نزع‘‘ کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور اس وقت کافروں کو اپنا نقصان واضح نظر آنے لگ جاتا ہے۔

               *سورہ السجدۃ*

مکی سورت ہے۔ اس میں چون آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ قرآن کریم کے رحمان و رحیم کا کلام ہونے کی خبر کے ساتھ ماننے والوں کا انجامِ خیر اور نہ ماننے والوں کا انجام بد مذکور ہے اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والے کو مشرکین کی صف میں کھڑا کیا ہے۔ 
اس کے بعد آسمان وزمین کو چھ دن کے اندر مکمل کرنے کا بیان ہے۔ دو دن میں زمین بنائی اور دو دن میں اس کے اندر خزانے ودیعت کر کے چار دن میں اس سے فارغ ہو گئے اور پھر مزید دو روز کے اندر آسمان کو دھوئیں سے بنایا۔ اس کی زینت اور حفاظت کے لئے ستاروں کو پیدا کر کے کل کائنات کی تخلیق چھ روز میں مکمل کر دی۔ اگر یہ لوگ پھر بھی اللہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو انہیں قوم عاد و ثمود کی تاریخ سے درس عبرت حاصل کرنے کی تلقین کرو۔
 ان کے پاس توحید کا پیغام لیکر رسول آتے رہے قوم عاد تو کہنے لگی کہ ہم بہت طاقتور لوگ ہیں۔ ہم سے زیادہ طاقت والا دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس اللہ نے تمہارے جیسے طاقت ور پیدا کئے وہ تم سے بھی زیادہ طاقتور ہے، مگر انہیں یہ بات سمجھ میں نہ آئی تو اللہ نے شدید آندھی ان پر مسلط کر کے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور ثمود کے انکار پر انہیں بھی ذلت آمیز کڑک سے دوچار کر کے ہلاک کر دیا اور ایمان و تقویٰ والوں کو نجات عطاء فرما دی۔ 
پھر قیامت میں اٹھائے جانے اور حساب و کتاب کے لئے ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء کی گواہی اور کافروں کے تعجب کو ذکر کر کے بتایا کہ جس اللہ نے تمہاری زبان کو قوت گویائی دی تھی۔ اس کے لئے دوسرے اعضاء کو بلوانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ 
پھر حق کے مقابلہ میں کفر کا ایک بھونڈا انداز کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اتنا شور مچاؤ کہ ان کی آواز دب جائے اور تم غالب آ جاؤ۔ ایسے کافروں اور اللہ کے دشمنوں کے لئے جہنم کا ذلت آمیز ٹھکانہ ہو گا۔
 اللہ کو رب مان کر استقامت کا مظاہرہ کرنے والوں کی دلجوئی اور تسلی کے لئے فرشتے اتریں گے اور انہیں ہر قسم کے خوف اور غم سے نجات کی بشارت سنائیں گے۔ جنت میں ان کی ہر خواہش پوری کی جائے گی۔ یہ غفور رحیم کی مہمانی ہو گی۔
بہترین انسان وہ ہے جو اعلیٰ کردار اور بہترین عملی زندگی کے ساتھ اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتا ہو اور دوسروں کو بھی اچھی زندگی اپنانے کی دعوت دیتا ہو۔ 
ایسے لوگ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کر کے اپنے دشمن کا دل بھی موہ لیتے ہیں۔ یہ لوگ صبر و شکر کی زندگی گزارنے والے ہوتے ہیں اور یہ خوبیاں بڑے نصیب والوں کو ہی ملا کرتی ہیں۔
اللہ کی قدرت کی نشانیاں دن رات، سورج چاند ہیں۔ لہٰذا انہیں سجدہ کرنے کی بجائے ان کے پیدا کرنے والے کو سجدہ کرو۔ بنجر و ویران زمین بھی اس کی نشانی ہے کہ جیسے ہی پانی برستا ہے تو وہ لہلہانے اور نشوونما پانے لگ جاتی ہے، جس ذات نے اسے زندہ کر دیا وہ مردوں کو بھی زندہ کر دے گا۔ 
قرآن کریم میں ترمیم و تنسیخ کے خواب دیکھنے والے ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو سکتے اور قرآن کریم پر باطل کسی طرح بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ 
قرآن کریم کو ہم نے عجمی نہیں بلکہ عربی بنایا ہے اس میں ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفاء ہے۔
جو نیکی کرے گا تو اپنا ہی فائدہ کرے گا اور برائی کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ تیرا رب بندوں پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا کرتا۔

 

 

*پارہ ~~~23~~~ وَمَالِیَ*


اصحاب القریہ کا واقعہ دعوت  الی اللہ کی تربیت و تسلی کے لئے اور ہر دور کے مشرکین کی ذہنی ہم آہنگی کے اظہار اور وعید سنانے کے لئے بیان کیا ہے۔
 انطاکیہ بستی کے مشرکین کے لئے عیسائیت کے تین مبلغین توحید کا پیغام لے کر اس طرح پہنچے کہ پہلے دو مبلغ وہاں آئے۔ انطاکیہ کا ایک باشندہ ’’حبیب نجار‘‘ کسی موذی مرض کا شکار لوگوں سے الگ تھلگ شہر کے کنارے پر رہتا تھا۔ مبلغین کی دعوت قبول کر کے مسلمان ہو گیا، اللہ نے اسے صحت دے کر مال و دولت سے بھی نواز دیا۔
 شہر والوں نے مبلغین کی بات نہ مانی، انہیں مارنے پیٹنے اور قتل کی دھمکیاں دینے پر اتر آئے۔ کہنے لگے تمہاری نحوست سے ہم مہنگائی اور باہمی اختلافات کی پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
 انہوں نے کہا کہ نحوست کی اصل وجہ تمہاری ہٹ دھرمی اور اللہ کے پیغام کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔
 قوم کی زیادتی اور ظلم کا معلوم ہونے پر اللہ والوں کی حمایت میں حبیب نجار شہر کے کونے سے بھاگتا ہوا آیا اور قوم کو سمجھانے لگا کہ جس اللہ نے ہمیں پیدا کیا اور اسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے ہمیں عبادت بھی اسی کی کرنی چاہئے اور مفادات سے بالاتر ہو کر جو لوگ ہمیں پیغام حق پہنچانے آئے ہیں ہمیں ان کی دعوت پر ’’لبیک‘‘ کہنا چاہئے مگر قوم اپنے ظلم و ستم سے باز نہ آئی اور قاصدین حق کے قتل پر آمادہ ہو گئی۔ 
حبیب نجار نے قوم کی بجائے اللہ والوں کا ساتھ دیا اور ایمان کے تحفظ اور دین حق کی حمایت میں اپنی جان داؤ پر لگادی اور تینوں اللہ والے شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو گئے۔ 
حق کے دفاع اور حمایت میں اس عظیم الشان قربانی پر اللہ کا نظام غیبی حرکت میں آ گیا اور فرشتے نے فصیل پناہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر ایک زور دار چیخ ماری جس کی ہولناکی اور دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ ٹھنڈے ہو کر رہ گئے۔ انہیں ہلاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کے لشکر نہیں بھیجنے پڑے، اس لئے مشرکین مکہ کو مشرکین انطاکیہ کے اس عبرتناک انجام سے سبق سیکھ لینا چاہئے۔
 پھر مرنے کے بعد زندگی اور اللہ کی قدرت کاملہ کے دلائل کے طور پر بارش سے مردہ زمین کے اندر زندگی کے آثار، لہلہاتی کھیتیاں، کھجور و انگور کے باغات اور نہروں اور چشموں کی شکل میں آب پاشی کا نظام، انسانی خوراک کے لئے پھل اور سبزیاں اور مختلف سبزیوں کی ترکیب سے انواع و اقسام کے نت نئے کھانے۔ کیا یہ لوگ اس پر بھی اللہ کا شکر کرتے ہوئے آسمانی نظام کی افادیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ 
ہر چیز کی ’’جوڑوں ‘‘ کی شکل میں (نر اور مادہ یا مثبت اور منفی) تخلیق، انسانی زندگی میں مظاہر قدرت کی کار فرمائی، شب و روز کی آمد و رفت کا ایک منظم نظام کہ دن کا غلاف اتاریں تو رات کی تاریکی اور رات کا غلاف ہٹائیں تو دن کا اجالا، چاند سورج کا نظام شمسی کے تحت منٹوں اور سیکنڈوں کی رعایت کے ساتھ اپنے مدار میں نقل و حرکت کرنا کہ ایک دوسرے سے آگے نکل کر دن رات کی آمد و رفت میں کوئی خلل پیدا نہ کرسکیں، اللہ کی قدرت کے واضح دلائل ہیں۔ 
سمندر میں نقل و حمل کی سہولت کے لئے تیرتی ہوئی کشتیاں جنہیں اللہ تعالیٰ جب چاہیں اس طرح غرق کر دیں کہ تمہاری آواز بھی نہ نکل سکے اور اس قسم کی کتنی ہی جدید انداز کی سواریاں اللہ پیدا کرتے ہیں، یہ سب اس کی رحمت کے تقاضے کے تحت ایک مقررہ وقت تک دنیا سے استفادہ کا سامان ہے۔
 اس کے بعد تقویٰ اختیار کرنے اور غرباء و مساکین پر خرچ کرنے کی تلقین کے ساتھ مشرکین کی ہٹ دھرمی اور ضلالت کا تذکرہ اور قیامت قائم کرنے کے فوری مطالبہ پر مخصوص اسلوب میں تنبیہ کہ یہ لوگ ایک زور دار چیخ کے منتظر ہیں جو انہیں بھرپور زندگی گزارتے ہوئے اچانک آلے گی اور انہیں اپنے اہل خانہ تک پہنچنے اور کسی قسم کی وصیت کی مہلت بھی نہ مل سکے گی۔
 اس کے بعد قیام قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے کہ جیسے ہی صور پھونکا جائے گا لوگ قبروں سے نکل کر اتنی بڑی تعداد میں اپنے رب کے سامنے حاضری کے لئے چل پڑیں گے کہ وہ پھسلتے ہوئے محسوس ہوں گے اور بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ ہمیں قبروں سے کس نے نکال باہر کیا، پھر خود ہی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ تو رحمان کے وعدہ کی عملی تفسیر ہے اور رسولوں نے بالکل سچ کہا تھا۔
 اس کے بعد ظلم سے پاک محاسبہ اور ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کے ضابطہ کے مطابق جزاء و سزا کا عمل ہو گا۔ جنت والے اپنے مشغلوں میں شاداں و فرحاں ہوں گے، گھنے سائے میں اپنی بیگمات کے پہلو بہ پہلو مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جو طلب کریں گے وہ ان کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ رب رحیم کی طرف سے انہیں ’’سلامیاں ‘‘ دی جا رہی ہوں گی۔
 اس کے بالمقابل مجرموں کو الگ تھلگ کر کے ان کے اعضاء و جوارح کی گواہی پر جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔ اس کے بعد شعرو شاعری کو شانِ نبوت کے منافی قرار دے کر بتایا کہ یہ واضح قرآن ان لوگوں کے لئے مفید ہے جن میں زندگی کی رمق پائی جاتی ہے۔ 
پھر کچھ انعامات خداوندی کا تذکرہ کر کے شرک کی مذمت کی گئی ہے اور باطل پرستوں کے اعتراضات سے اثر قبول نہ کرنے کی تلقین ہے اور آخر میں مرنے کے بعد زندہ ہونے پر معرکۃ الآراء انداز میں عقلی دلائل دے کر سورت کو ختم کیا گیا ہے۔ 
واقعہ یہ ہوا کہ عاص بن وائل نے ایک بوسیدہ ہڈی کو مسل کر فضاء میں تحلیل کرتے ہوئے مذاق کے انداز میں کہا، اس قدر بوسیدہ ہڈیوں کو کون دوبارہ پیدا کرسکے گا؟
اس کا جواب دو طریقہ سے دیا: (۱)جس اللہ نے پہلے اس انسان کو پید اکیا وہی دوبارہ بھی پیدا کر لے گا۔ (۲)جس اللہ نے آسمان و زمین جیسے مشکل ترین اور بڑے بڑے اجسام کو پیدا کیا وہ انسان جیسی چھوٹی مخلوق کو بہت آسانی سے پیدا کرسکتا ہے۔
 کسی بھی بڑے یا چھوٹے کام کے لئے اسے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا پڑتا کہ وہ وجود میں آنے کا حکم دیتے ہوئے ’’کُن٘‘‘ کہتا ہے تو وہ چیز وجود میں آ جاتی ہے۔

             *سورہ الصافات*

مکی سورت ہے۔ ایک سو بیاسی آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے، فرشتوں کو صافات کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ دربار خداوندی میں صف بندی کا اہتمام کرتے اور ’’قطار اندر قطار‘‘ حاضری دیتے ہیں۔ اس سے حیات انسانی میں ’’قطار‘‘ کی اہمیت بھی اجاگر ہو جاتی ہے۔
 نزول قرآن کے وقت آسمان اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ آسمانوں سے اوپر عرش معلیٰ پر لوح محفوظ سے منتقل ہو کر فرشتوں کے توسط سے زمین پر اتر رہا تھا اور اس بات کا امکان تھا کہ شرارتی جنات و شیاطین قرآن کریم کے بعض کلمات کو لے کر خلط ملط کر دیں اور تحریف کر کے لوگوں میں نشر کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر حفاظتی چوکیاں (بروج) قائم کر کے فرشتوں کو ان پر مامور کر دیا تاکہ شیاطین اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
 ستارے آسمان کی زینت بھی ہیں اور شیاطین سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہیں، اگر کوئی شیطان چھپ کے سننے کی کوشش کرتا ہے تو ’’شہاب ثاقب‘‘ اس کا پیچھا کر کے اسے راہِ فرار پر مجبور کر دیتا ہے۔ 
انسان کی تخلیق چپکنے والی مٹی سے کی گئی ہے۔ پھر بتایا کہ مرنے کے بعد یہ انسان دوبارہ زندہ ہو گا اور اسے احتساب کے کڑے عمل سے گزرنا پڑے گا اور ہر شخص کو اپنے کئے کا بدلہ مل کر رہے گا۔ مخلصین کو با عزت طریقہ پر کھانے پینے اور لذت کا سامان فراہم کیا جائے گا جبکہ ظالم جہنم کے عذاب اور زقوم کے درخت سے اپنی بھوک مٹانے پر مجبور ہوں گے جس سے نہ سیری ہو گی اور نہ ہی صحت حاصل ہو سکے گی۔
دو دوستوں کا عبرتناک تذکرہ بھی کیا ہے کہ ایک جنتی اپنے ہم مجلس دوستوں سے کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک دوست تھا جو کہ میرے قیامت کے عقیدہ پر استہزاء و تمسخر کیا کرتا تھا وہ آج یہاں نظر نہیں آرہا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اگر تم اسے دیکھنا چاہو تو نیچے جھانک کر دیکھ لو وہ جب جھانکے گا تو اسے جہنم کے عذاب میں مبتلا نظر آئے گا۔ 
جنتی اس سے کہے گا کہ تو تو مجھے گمراہ کرنے پر کمربستہ رہتا تھا یہ تو اللہ کا فضل و کرم ہوا کہ اس نے تمہارے بہکاوے سے مجھے بچا لیا ورنہ میں بھی تمہاری طرح جہنم کی گہرائیوں میں پڑا سڑ رہا ہوتا۔ 
اس کے بعد سلسلہ انبیاء کا بیان شروع ہوتا ہے، سب سے پہلے نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا مختصر تذکرہ، ایمان والوں کی قلت تعداد کے باوجود نجات اور کافروں کی کثرت تعداد کے باوجود غرقابی۔
 پھر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ۔ بتوں کی توڑ پھوڑ اور آگ میں ڈالے جانے کا ذکر، پھر بڑھاپے میں اسماعیل علیہ السلام کی ولادت اور ان کی قربانی کا ایمان افروز بیان، باپ کا ایثار اور بیٹے کا صبر، قربانی کی قبولیت، اسماعیل کے بدلہ میں جنتی مینڈھے کی قربانی اور رہتی دنیا تک اس کی یاد مناتے ہوئے پوری ملت اسلامیہ کو قربانیاں پیش کرنے کا حکم۔ پھر اسحاق اور اس کی صالح اولاد کی بشارت پھر موسیٰ و ہارون اور اللہ کی مدد سے فرعونی مظالم کے مقابلے میں ان کی اور ان کی قوم کی نجات۔ 
ان کے ایمان و اخلاص کی تعریف اور اللہ کی طرف سے انہیں ’’سلامی‘‘ پیش کرنے کا اعلان، 
اس کے بعد الیاس علیہ السلام اور ان کی مشرک قوم کا ذکر اور حضرت الیاس کے بیان توحید کی تعریف، اس کے بعد حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی بے حیا قوم کا عبرتناک انجام، اس کے بعد حضرت یونس علیہ السلام اور ان کے مچھلی کے پیٹ سے نجات کا واقعہ۔ پھر اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے والوں کی مذمت اور اللہ کے رسولوں اور نیک بندوں کی مدد و نصرت کا وعدۂ الٰہی اور آخر میں اللہ کی تسبیح و تحمید اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی کے نزول کے وعدہ کے ساتھ سورت کا اختتام۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کا ثواب بڑی ترازو میں تولا جائے تو وہ مجلس کے اختتام پر (صافات کی آخری تین آیتیں )
 سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمدللہ رب العالمین 
پڑھ لیا کرے۔

               *سورہ ص*

مکی سورت ہے۔ اٹھاسی آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے، قرآن کریم کے ’’کتاب نصیحت‘‘ ہونے کے بیان کے ساتھ ہی منکرین توحید کے لئے عذاب الٰہی کی وعید اور پھر انبیاء علیہم السلام کا ذکر جس میں اختصار اور تفصیل کی دونوں صنعتوں کی جھلک دکھائی گئی ہے۔
 قوم نوح، فرعون، عاد، ثمود کا اپنے انبیاء سے مقابلہ اور ان قوموں کی ہلاکت کا دل آویز اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے بعد داؤد و سلیمان کا تفصیلی ذکر۔ حضرت داؤد کی دستکاری، انابت الی اللہ اور خوش الحانی سے تلاوت زبور جس میں پہاڑ اور پرندے بھی ساتھ چہچہانے لگ جاتے۔
 پھر دو افراد کا تمام سرکاری حفاظتی انتظامات کو نظر انداز کر کے دیوار پھلانگ کر آنا اور مسئلہ پوچھ کر آسمان کی طرف چلے جانا، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ عام انسان نہیں فرشتے تھے جو کہ آزمائش کے لئے اترے تھے۔ اس پر داؤد علیہ السلام کا اپنے انتظامات کی بجائے اللہ پر اعتماد و توکل کا بڑھ جانا اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور اچھے انجام کی نوید مذکور ہے۔
 پھر سلیمان علیہ السلام ان کے بے پناہ وسائل، اصیل گھوڑے، ہواؤں کی تسخیر اور صبح و شام کا ہوائی سفر اس کے باوجود اللہ کے سامنے ان کی عجز و انکساری اور اللہ کی طرف سے مقربین بارگاہ میں شمولیت اور اچھے انجام کی نوید ہے۔
 پھر ایوب علیہ السلام اور بیماری اور تکلیف میں ان کا صبر و استقامت اور اللہ کی طر ف سے ان کے نقصانات کے ازالہ کا تذکرہ اور ان کی رجوع الی اللہ کی صفت کی تعریف کی گئی ہے۔ 
پھر اختصار کے ساتھ ابراہیم، اسحاق، یعقوب، اسماعیل، یسع، ذوالکفل علیہ السلام کا تذکرہ اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے جنت میں اعزاز و اکرام کا ذکر ہے جبکہ نافرمانوں کے عذاب اور سزا کا تذکرہ ہے۔ 
پھر دعوت توحید ہے اور قصۂ آدم و ابلیس کو بیان کرنے کے بعد آخر میں قرآن کریم کے ’’کتاب نصیحت‘‘ ہونے کا اعادہ اور قرآنی تعلیمات کی حقانیت روز قیامت ہر شخص کو کھلی آنکھوں نظر آنے کا اعلان ہے۔

               *سورہ الزمر*

مکی سورت ہے۔ پچھتر آیتوں اور آٹھ رکوع پر مشتمل ہے ’’الزمر‘‘ کے معنی جماعتیں اور گروہ۔ سورت کے آخر میں جنت اور جہنم کے لئے لوگوں کی جماعتوں کی روانگی کا ذکر ہے، اس لئے ’’الزمر‘‘ کے نام سے موسو م ہے۔ 
اس سورت کا مرکزی مضمون توحید ہے۔ قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کے اعلان کے ساتھ سورت کی ابتداء کی گئی ہے۔ اس کے بعد مشرکین پر تابڑ توڑ حملے اور کائناتی شواہد اور واقعاتی دلائل کے ساتھ توحید کا اثبات ہے۔ 
ایک انسان (آدم) سے ’’دنیائے انسانیت‘‘ کی ابتداء اور اسی سے اس کی بیوی (حوّا) کی تخلیق، خوراک کے لئے آٹھ نرو مادہ چوپائے پیدا کئے۔ 
شکم مادر کے اندر تین اندھیروں (پیٹ، رحم، جھلی) کے اندر رکھ کر تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی کیفیت کے ساتھ اس انسان کی تخلیق۔ 
کفر اللہ کا ناپسندیدہ ترین عمل ہے جبکہ پسندیدہ ترین عمل شکر ہے۔
 کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ 
انسانی مزاج کہ تکلیف میں فوراً اللہ کو پکارنے لگتا ہے اور راحت میں منکر اور گمراہ بن جاتا ہے۔ خالص اللہ کی عبادت مسلمانوں میں سرفہرست رہنے اور قیامت کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنے کی تلقین ہے۔
 قرآن کریم کی اتباع کرنے والوں کو ہدایت یافتہ اور عقلمند ہونے کی خوشخبری ہے۔ 
قرآن کریم کی صفات کا تذکرہ کہ بہترین کلام ہے۔ کتابی شکل میں ہے۔ ملتی جلتی آیات ہیں، بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ اسے سن کر خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 
مشرک و مؤمن کا فرق واضح کرنے کی بہترین مثال کہ ایک شخص غلام ہو اور اس کی ملکیت میں بہت سے لوگ شریک ہوں اور دوسرا ایک ہی شخص کا غلام ہو۔ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح مشرک و مؤمن بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ ان تمام باتوں کی حقانیت کا مشاہدہ کرنے کے لئے آپ بھی مریں گے اور یہ لوگ بھی مریں گے، پھر تم اپنے رب کے حضور تمام صورتحال بیان کر کے فیصلہ حاصل کرلو گے۔
 

*پارہ~~~22 ~~~ وَمَنْ یَّقْنُتُ*


ازواج مطہرات کے اعمال صالحہ پر دُہرے اجر اور رزق کریم کی نوید سنائی گئی ہے۔ امہات المؤمنین اور ان کے توسط سے تمام دنیا کی خواتین مؤمنات کو پیغام دیا گیا ہے کہ کسی نامحرم سے گفتگو کی ضرورت پیش آ جائے تو کُھردرے پن کا مظاہرہ کریں۔ نرم گفتاری کا معاملہ نہ کریں ورنہ اخلاقی پستی کے مریض اپنے ناپاک خیالات کو پورا کرنے کی امید قائم کرسکتے ہیں۔ گھروں میں ٹھہری رہا کرو۔
 سابقہ جاہلیت کے طور طریقوں کے مطابق بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ نبی کے اہل بیت سے ناپاکی دور فرما کر انہیں پاکیزہ کرنا چاہتے ہیں۔ 
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں اہل بیت کا مصداق اوّل  ازواج مطہرات ہیں۔ 
پھر ازواج مطہرات کے خصوصی اعزاز کا تذکرہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و حکمت کا نزول ہوتا ہے تمہیں اس کا اعادہ اور تکرار کرتے رہنا چاہئے۔ 
اس کے بعد صفات محمودہ میں مردو زن کی مساوات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام، ایمان، اطاعت شعاری، سچائی، صبر، عجز و انکساری، صدقہ و خیرات کی ادائیگی، روزہ کا اہتمام، عفت و پاکدامنی اور اللہ کے ذکر میں رطبِ لسان رہنے والے تمام مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہوا ہے۔ پھر کسی بھی مؤمن مرد و عورت کے ایمان کے تقاضے کو بیان کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سامنے آ جانے کے بعد اسے رد کرنے کے حوالہ سے کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنّٰی حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد ان کی مطلقہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح کر کے یہ مسئلہ واضح کر دیا کہ متبنّٰی کی بیوی ’’بہو‘ نہیں بن سکتی۔ 
پھر آپ کے خاتم النبیین ہونے اور مسلمان مردوں میں سے کسی کے باپ نہ ہونے کا واضح اعلان ہے*
اس کے بعد اہل ایمان کو تسبیح و تحمید اور ذکر کی کثرت کرنے کی تلقین ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کچھ امتیازی خوبیوں کا تذکرہ کہ آپ مشاہد، بشیر و نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
 پھر رخصتی سے پہلے طلاق پانے والی عورت کے متعلق بتایا کہ اس کی کوئی عدت نہیں ہوتی اور اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو جوڑا کپڑوں کا دے کر اسے فارغ کر دیا جائے۔ 
پھر نبی کے لئے عام مؤمنین کے مقابلہ میں زیادہ بیویاں رکھنے کا جواز اور ’’باری‘‘ مقرر کرنے کے حکم کے ساتھ ہی مزید شادیاں کرنے پر پابندی کا اعلان کیا گیا۔ 
نبی کے گھر میں بے مقصد بیٹھ کر آپ کے لئے پریشانی پیدا کرنے سے بچنے کی تلقین، پردے کے بارے میں دو ٹوک اعلان کہ اگر کوئی ضرورت پیش آ ہی جائے تو نامحرم سے گفتگو پردہ کے پیچھے رہ کر کی جائے۔ نبی کے انتقال کے بعد کسی کو ازواج مطہرات سے کسی بھی حالت میں نکاح کی اجازت نہیں ہے۔ 
اس کے بعد اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف سے نبی پر صلاۃ و سلام کی خوشخبری سنا کر اہل ایمان کو بھی آپ پر صلاۃ و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کی ایذا رسانی کا باعث بننے والے ملعون اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں۔ 
پھر اسلامی معاشرہ کی خواتین کو پردہ کرنے کے لئے ’’گھونگھٹ‘‘ نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
قیامت کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ کافر جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے کسی کے گناہوں کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا ہر ایک کو اپنے جرائم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ 
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ناجائز الزام سے بری قرار دے کر اللہ کی نگاہ میں ان کے معزز و محترم ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پھر اہل ایمان کو تقویٰ اور پختہ بات کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے پر مغفرت اور عظیم کامیابی کی خوشخبری سنائی ہے۔
 اسلام کی عظیم الشان امانت جسے زمین و آسمان اور پہاڑ اٹھانے سے قاصر رہے اس انسان کے حصہ میں آنے کی خبر دے کر بتایا ہے کہ اس سے منافق و مؤمن اور مشرک و موحد کا فرق واضح ہو گا اور ہر ایک کو اپنے کئے کا بدلہ مل سکے گا۔ اللہ بڑے غفور رحیم ہیں۔

        *سورہ سبأ*

قوم سبأ کے تذکرہ کی بناء پر سورت کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ مکی سورت ہے اس میں چوّن آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ ابتداء میں اس بات کا بیان ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرتی ہے۔ اس کا علم بڑا وسیع ہے۔ زمین سے نکلنے یا داخل ہونے اور آسمان سے اترنے یا چڑھنے والی ہر چیز کو وہ جانتا ہے زمین و آسمان کی وسعتوں میں پائی جانے والی کوئی چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔ 
وہ عالم الغیب ہے قیامت قائم ہونے پر ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو مغفرت اور اجر عظیم کی شکل میں بدلہ ملے گا جبکہ اللہ کی آیتوں میں عاجز کرنے کی کوشش کرنے والوں کو دردناک عذاب دیا جائے گا۔ 
کافر لوگ اللہ کے نبی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آؤ تمہیں ایسا آدمی دکھائیں جو کہتا ہے کہ ریزہ ریزہ ہو کر منتشر ہو جانے کے بعد بھی ہمیں نئے سرے سے پیدا کر دیا جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے یہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے یا پاگل ہو چکا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ منکرین آخرت کے لئے کھلی گمراہی اور عذاب مقدر ہو چکا ہے۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے فضل و عنایت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایسی خوش الحانی عطا کی گئی تھی کہ وہ جب زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تلاوت میں مشغول ہو جاتے۔ لوہا ان کے ہاتھوں میں ایسا نرم کر دیا گیا تھا کہ اس سے وہ ’’زرہ بکتر‘‘ بنا لیا کرتے تھے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ سے مزدوری عیب نہیں اعزاز ہے اور وسائل کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ 
سلیمان علیہ السلام کو سفر کی ایسی سہولت عطاء فرما رکھی تھی کہ ہوا کی مدد سے صبح کی منزل میں ایک ماہ کی مسافت طے کر لیتے اور شام کی منزل میں بھی ایک ماہ کی مسافت طے کر لیتے اور برتن وغیرہ بنانے کے لئے یہ آسانی تھی کہ تانبے کا چشمہ بہتا تھا، اس سے جیسے برتن چاہیں ڈھال لیتے تھے اور ان کے لئے جنات بھی مسخر کر دیئے گئے تھے کہ وہ بڑے بڑے تعمیری کام اور وسیع پیمانہ پر کھانا پکانے میں تندہی سے کام کرتے تھے۔
 جب سلیمان علیہ السلام کی موت آئی تو وہ ایک تعمیری کام کی نگرانی کر رہے تھے اور جنات تعمیرات میں مصروف تھے۔ وہ اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑے کھڑے انتقال کر گئے۔ جنات کو ان کی موت کا علم نہ ہو سکا اور وہ نہایت محنت و جانفشانی سے کام میں لگے رہے جب کام مکمل ہو گیا تو ان کی لاٹھی دیمک لگ جانے کے سبب سے ٹوٹ گئی اور سلیمان علیہ السلام گر گئے جس سے جنات کے علم میں یہ بات آ گئی کہ آپ انتقال کر چکے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جنات غیب کا علم نہیں جانتے ورنہ وہ اس طرح تعمیری مشقت میں مبتلا نہ رہتے۔
قوم سباء کی بستی بھی اپنے اندر درس عبرت لئے ہوئے ہے وہ زراعت پیشہ لوگ تھے اس بستی کے دائیں بائیں سرسبز و شاداب باغات تھے۔ 
انہیں چاہئے تھا کہ اللہ کا رزق کھاتے اور اس کا شکر ادا کرتے۔ مگر انہوں نے اعراض کیا اور کفران نعمت میں مبتلا ہو گئے۔ چنانچہ ہم نے ان پر ’’عرم‘‘ کا بند توڑ کر سیلاب مسلط کر دیا اور بہترین باغات کے بدلہ بدمزہ پھل، جھاؤ اور تھوڑے سے بیری کے درختوں پر مشتمل بیکار باغ پیدا کر دئے اور ان کی بابرکت اور پر امن بستیوں کو تباہ کر کے انہیں تتر بتر کر کے رکھ دیا اور ان کی داستانوں کو ’’افسانہ‘‘ بنا دیا۔ 
شیطان نے اپنے نظریات کے پیچھے انہیں چلا لیا حالانکہ اسے کوئی ظاہری اختیار تو حاصل نہیں تھا مگر ہم چاہتے تھے کہ شکوک و شبہات میں مبتلا اور پختہ ایمان والے ظاہر ہو جائیں۔ 
اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت پر دلائل کے ساتھ ساتھ حضور علیہ السلام کی نبوت و رسالت کی تائید کر دی اور بتایا کہ قیامت کے بارے میں بار بار پوچھنے والوں کا جب متعین وقت آ گیا تو انہیں ذرہ برابر بھی مہلت نہیں مل سکے گی۔ پھر میدانِ قیامت میں لیڈروں اور عوام کی گفتگو بتائی کہ اللہ کے سامنے پیشی کے موقع پر یہ آپس میں ایک دوسرے پر اعتراضات کریں گے وہ کہیں گے کہ تمہاری وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنے پڑے اور یہ کہیں گے کہ سارا قصور تمہارا ہے۔ ہم ان کے گلے میں طوق ڈال کر انہیں اپنے اعمال بد کی سزا اٹھانے کے لئے جہنم رسید کر دیں گے۔ 
لوگ مال و دولت کے گھمنڈ میں اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ پیسے کی فراوانی و تنگی کا نظام بھی اللہ ہی کے پاس ہے۔ مال و اولاد لوگوں کو اللہ کے قریب نہیں کرتے بلکہ ایمان و اعمال صالحہ سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

               *سورہ فاطر*

مکی سورت ہے۔ اس میں پینتالیس آیتیں اور پانچ رکوع ہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمان و زمین کو نئے انداز سے بنایا اور دو دو، تین تین، چار چار پر والوں کو اپنا قاصد بنایا ہے اور جیسے چاہے اس سے زیادہ پروں والی مخلوق بھی بنا سکتا ہے۔ 
اگر اللہ کسی کو راحت دینے پر آ جائیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا اور اگر وہ کسی کو محروم کرنا چاہے تو اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور کر کے فیصلہ کرو کہ آسمان و زمین میں اس کے علاوہ کون خالق کہلانے کا مستحق ہے۔
 اے انسانو! اللہ کا وعدہ سچا ہے، عارضی دنیا اور شیطان کے دھوکہ میں نہ پڑو، شیطان تمہارا ازلی دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو۔ 
اگر کسی شخص کے اعمالِ بد اس کے سامنے مزین کر دیئے گئے اور وہ انہیں بہت اچھا سمجھنے لگے تو آپ اس پر حسرت و افسوس کا اظہار نہ کریں اللہ ان کے کرتوتوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ 
پھر ہواؤں کا چل کر بادلوں کو اڑانا اور بنجر زمین کو سیراب کر کے آباد کر دینا مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی بہت بڑی دلیل ہے۔
ساری عزت اللہ ہی کے لئے ثابت ہے، لہٰذا جو عزت چاہتا ہے وہ عزت والے کے دامن سے وابستہ ہو کر ہی اپنا مقصد حاصل کرسکتاہے۔
 پھر انسانی تخلیق کے مراحل کا مختصر تذکرہ اور کارخانۂ قدرت پر کائناتی شواہد پیش کئے جا رہے ہیں۔ میٹھے اور کھارے پانی کے سمندر آپس میں برابر نہیں ہو سکتے، جبکہ دونوں سے زیورات کے لئے موتی، خوراک کے لئے مچھلی کا گوشت حاصل ہوتا ہے اور بار برداری و تجارت کے لئے کشتیاں چلنے پر تمہیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہئے۔
اے انسانو! تم اللہ کے محتاج ہو وہ اگر تمہیں ختم کر کے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اپنا تزکیہ کرنے والا اللہ پر کوئی احسان نہیں کرتا؟
 آنکھوں والا اور اندھا، اندھیرا اور روشنی، دھوپ اور سایہ اور مردہ و زندہ کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ 
اللہ نے آسمان سے پانی برسا کر مختلف ذائقوں اور رنگوں کے پھول اور پھل پیدا کئے اور سفید اور کالے پہاڑ پیدا کئے، چوپائے اور جانور بنائے۔
 صحیح معنی میں اللہ سے ڈرنے والے علماء ہی ہیں۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اقامت صلوٰۃ کرنے والے اور انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اللہ کے ساتھ ایسی تجارت کر رہے ہیں جس میں کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر عطا فرما کر اپنے فضل سے اس میں اضافہ بھی کر دے گا۔ وہ بہت قدردان اور بڑا ہی معاف کرنے والا ہے۔ جنت میں جانے والے نہایت خوشی و انبساط کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کر رہے ہوں گے، جبکہ کافر جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر چلا رہے ہوں گے کہ ہمیں یہاں سے نکال دو۔ ان کے عذاب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تمہیں مناسب مہلت دے دی گئی تھی اور تمہیں ڈرانے والا بھی آ گیا تھا۔ اب تمہیں یہی عذاب چکھنا ہو گا۔ تمہارا کوئی معاون و مددگار بھی نہیں ہو گا۔ 
غیب کا علم اور دلوں کے بھید اللہ ہی جانتا ہے۔ آسمان و زمین کو بھی اللہ نے ہی گرنے سے بچایا ہوا ہے۔ اگر اللہ نے انہیں زائل کر دیا تو کوئی انہیں بچا نہیں سکے گا۔ کفار کی سازشیں اور تکبر ان کے ایمان لانے کے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ لوگ پہلوں کی سنت کے منتظر ہیں۔ یاد رکھو! اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔
 دنیا میں چل پھر کر مجرمین کا عبرتناک انجام دیکھ کر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کو عاجز کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے جرائم پر پکڑ کرنے لگ جاتے تو کوئی جاندار زمین پر باقی نہ بچتا، لیکن اللہ نے ایک مقررہ وقت تک انہیں مؤخر کیا ہوا ہے جب وہ وقت آ جائے گا تو یہ لوگ بچ کر نہیں جا سکیں گے۔ اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہے ہیں۔

             *سورہ یٰس*

مکی سورت ہے۔ تراسی آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کو قرآن کریم کا دل قرار دیا ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ دل انسانی حیات کا ضامن ہے اور عقیدۂ آخرت ایمانی حیات کا ضامن ہے اور اس سورت میں عقیدۂ آخرت کو مختلف پیرائے میں منفرد انداز پر پیش کیا گیا ہے، جس سے بعث بعد الموت اور آخرت کے عقیدہ کو تقویت ملتی ہے۔ اس لئے سورہ یٰسٓ کو قلبِ قرآن کہا گیا ہے۔
ابتداء میں قرآن کریم کی حکمتوں کا بیان ہے، پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اثبات ہے اور کافروں پر ان کے کفر کی بناء پر عذاب کے نازل ہونے کی وعید ہے۔ اس کے بعد منکرین قرآن کی کیفیت کو دو مثالوں میں بیان کیا ہے:

کافروں نے خود ساختہ پابندیوں اور من گھڑت عقائد میں اپنے آپ کو ایسا جکڑا ہوا ہے جیسے کسی شخص کی گردن میں اس کی ٹھوڑی تک طوق ڈال دیا جائے اور وہ نیچے جھانک کر اپنا راستہ دیکھنے کے قابل بھی نہ رہے۔

 جیسے کسی شخص کے آگے اور پیچھے دیواریں کھڑی کر کے اسے نقل و حرکت سے محروم کر کے کسی بھی چیز کو دیکھنے کے قابل نہ چھوڑا جائے یہی حال کافروں کا ہے کہ وہ صراط مستقیم کو دیکھ کر اس پر گامزن ہونے کے قابل نہیں ہیں۔

 
 

 

*پارہ~~~21~~~ اُتْلُ مَا اُوْحِیَ*

 
قرآن کریم کی تلاوت کے حکم کے ساتھ اکیسویں پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے۔ نماز کی پابندی کی تلقین کے ساتھ نظام صلوٰۃ کا سب سے بڑا فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بے حیائی اور ناشائستہ حرکتوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔
 اہل کتاب سے اگر بحث و مباحثہ کی نوبت آ جائے تو اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور توحید باری تعالیٰ اور آسمانی نظام سے اپنی وفاداری برقرار رکھتے ہوئے اہل کتاب کے ظالموں کو دو ٹوک جواب دینے کی اجازت ہے۔ 
اللہ کی آیتوں کے منکر کفر اور ظلم کے علمبردار ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی حقانیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ایک امی ایسا معجزانہ کلام سنارہا ہے۔ اگر آپ اس سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تو باطل پرست شکوک و شبہات پیدا کر دیتے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آسمان سے نشانیاں کیوں نہیں اترتیں ؟
 ان سے پوچھئے: قرآن کریم سے بڑی اور کون سی نشانی ہو سکتی ہے؟ 
پھر قدرت خداوندی کے کائناتی شواہد پیش کر کے دنیا کی حقیقت واضح کر دی کہ دنیا کی زندگی کھیل تماشے کی طرح ختم ہونے والی ہے اور حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔
 یہ لوگ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ سے وفاداری کا دم بھرنے لگتے ہیں اور جب نجات پا کر مطمئن ہو جاتے ہیں تو شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے امن وسکون کے خطے حرم محترم میں سکونت عطاء فرمائی ہے، جہاں ہر قسم کے دشمن کی دستبرد سے یہ محفوظ ہیں جبکہ ان کے اطراف کے بسنے والوں کو ان کے دشمن اچک کر لے جاتے ہیں۔
 کیا یہ پھر اللہ کے انعامات کی ناشکری کرتے ہوئے باطل پر ایمان لاتے ہیں۔ آخر میں حق و صداقت کی جدوجہد کرنے والوں کو خوشخبری سنا کر سورت کا اختتام کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ ہمارے راستہ کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت سے سرفراز فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد یقیناً مخلصین کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔
 
               *سورہ الروم*

ابتدائی آیات کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ رومی باشندے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی وجہ سے آسمانی نظام کے قائل تھے اور مسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ رہتی تھیں اور فارسی باشندے آتش پرست ہونے کی وجہ سے آسمانی نظام کے منکر تھے اور مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ 
روم کے عیسائیوں اور فارس کے مجوسیوں کے درمیان جنگ میں مجوسی غالب آ گئے اور عیسائی مغلوب ہو گئے، اس پر مشرکین مکہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ جس طرح ’’ہمارے والوں ‘‘ نے ’’تمہارے والوں ‘‘ کو شکست دی ہے ایسے ہم بھی تمہیں شکست دیں گے۔
 قرآن کریم اتر آیا کہ تمہاری یہ خوشیاں عارضی ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ رومیوں کو فتحیاب کر کے مسلمانوں کے لئے خوشیاں منانے کی صورت پیدا کر دیں گے۔ اس قرآنی پیشگوئی کے مطابق سات سال کے عرصہ کے اندر اندر مجوسی مغلوب ہوئے اور رومی غالب آ گئے اور اللہ کی قدرت دیکھئے کہ ادھر معرکۂ بدر میں مسلمان بھی مشرکین پر غالب آ گئے اور اس طرح قرآنی پیشگوئی حرف بہ حرف سچی ثابت ہو کر اہل ایمان کی خوشیوں کا باعث بنی۔
 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کا وعدہ برحق اور سچا ہے، لیکن اکثر لوگ حقیقت کو نہیں جانتے۔ ظاہری اسباب کو دیکھ کر فتح و شکست کے فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ آسمانی علوم کے جاننے والے قرآن کی نگاہ میں عالم ہیں جبکہ دنیوی سوجھ بوجھ رکھنے والے بے علم اور غافل ہیں۔ 
پھر کائناتی شواہد میں غور و خوض، توحید باری تعالیٰ کو تسلیم کرنے اور زمین میں گھوم پھر کر مکذبین کے عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔ 
اس کے بعد قیامت میں مجرمین کے حیران و پریشان اور بے یار و مددگار رہ جانے اور عذاب میں مبتلا ہو جانے اور اہل ایمان و اعمال صالحہ کے جنت میں شاداں و فرحاں رہنے کی نوید سنائی ہے۔ آسمان و زمین کے اندر صبح دوپہر شام اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے کی تلقین کی۔
آیت ۱۷،۱۸،۱۹ کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ یومیہ اوراد  وظائف میں اگر کمی رہ جائے تو ان تین آیات کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ پوری کر دیتے ہیں۔ 
اللہ کی قدرت کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ تمہیں مٹی سے انسان بنا کر دنیا میں پھیلا دیا۔ پھر سکون حاصل کرنے کے لئے تمہارا جوڑا پیدا کر کے باہمی الفت و محبت پیدا کر دی۔ 
آسمان و زمیں کی تخلیق، تمہاری رنگت اور زبانوں کا اختلاف دنیا والوں کے لئے بہت بڑی دلیل ہے۔ دن اور رات میں تمہارا سونا اور روزی کمانا بھی قدرت الٰہی پر ایک دلیل ہے۔ 
آسمانی بجلی کی چمک اور گڑگڑاہٹ سے تمہارے اندر امید و بیم کے ملے جلے جذبات کا پیدا ہونا اور آسمان سے پانی برس کر زمین کا لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل ہو جانا بھی عقل والوں کے لئے بہت بڑی آیت اور نشانی ہے۔ آسمان و زمین کا بغیر کسی سہارے کے اللہ کے حکم سے فضاء میں معلق رہنا بھی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ 
اللہ تمہاری ہی ایک مثال پیش کر کے تمہیں سمجھاتے ہیں کہ تمہارا ایک غلام ہو۔ ہم نے جو نعمتیں تمہیں عطاء فرما رکھی ہیں، کیا تم اسے ان نعمتوں میں برابر کا شریک ماننے کے لئے تیار ہو جاؤ گے؟ اگر نہیں تو پھر تم میری مخلوق کو میرا شریک کیوں بناتے ہو؟
 پھر آیت ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۲ میں مشرکوں اور ظالموں کی مذمت کرتے ہوئے جو قرآنی گفتگو کی گئی ہے اس کی روشنی میں ’’فرقہ واریت‘‘ کی تعریف اور اس کے سدباب کے لئے زرین اصول اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
 اپنی خواہشات کو بغیر کسی دلیل کے اپنا مذہب قرار دے لینا ایک ظالمانہ فعل اور گمراہی کی بات ہے۔ ایسا کرنے والوں کو نہ ہدایت ملتی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی حمایتی اور مددگار ہوتا ہے۔ ایسی حرکت کے مرتکب مشرکانہ ذہنیت کے حامل لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دین میں فرقہ واریت کو رواج دے کر دھڑے بندیاں اور گروہ بنا لیتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے نظریات میں مگن رہتا ہے کہ اس سے اس کا تشخص برقرار رہتا ہے۔
 اس کا حل یہ ہے کہ انسانی فطرت کے عین مطابق دین کو یکسوئی کے ساتھ اختیار کر لیا جائے۔ اللہ کا نظام کسی بھی دور میں تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ سیدھا اور مضبوط نظام حیات ہے، جس کے بنیادی عوامل انابت الی اللہ، تقویٰ اور اقامت صلوٰۃ ہیں۔ رزق میں فراخی و تنگی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ عزیز و اقارب، غریب و مسکین اور مسافروں پر خرچ کرنا چاہئے۔ اللہ کی رضا کے طلبگار اور فلاح پانے والوں کا یہی وطیرہ ہے۔ 
واپسی میں زیادہ ملنے کی نیت سے رشتہ داروں یا دوسرے لوگوں پر خرچ کرنا سود خور ذہنیت کا عکاس ہے۔ اس سے مال میں کوئی ترقی نہیں ہوتی البتہ پاکیزہ ذہن کے ساتھ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے جو زکوٰۃ دیتے ہو اس میں اضافہ اور ترقی ضرور ہوتی ہے۔ 
بحر و بر میں فساد کا برپا ہونا انسانی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ کفر کا وبال خود کافر پر ہی ظاہر ہوتا ہے جبکہ اعمال صالحہ کرنے والے اپنے عمل کے پھل سے مستفید ہوتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ نے بچپن کی کمزوری سے تمہاری ابتداء کرنے کے بعد تمہیں جوانی کی قوت سے نوازا اور پھر تمہیں بڑھاپے کی کمزوری سے دوچار کر دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ بڑا علم اور قدرت والا ہے۔
 قیامت کے دن ظالموں کی عذرخواہی ان کے کسی کام نہیں آئے گی اور نہ ہی ان کی مشکلات میں کمی کا باعث بنے گی۔
 لوگوں کو سمجھانے کے لئے قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں دے دی گئی ہیں، لیکن باطل پرست اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ بے علم لوگوں کے دلوں میں مہریں لگی ہوئی ہیں۔ آپ دین پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہیں۔

             *سورہ لقمان*

حکمت و دانائی کے پیکر حضرت لقمان حکیم کے تذکرہ کی بناء پر یہ سورت ’’لقمان‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ ابتداء سورت میں قرآن کریم کے کامل اور حکمت و دانائی سے بھرپور ہونے کے تذکرہ کے ساتھ اس سے استفادہ کرنے والوں کی صفات اور خوبیوں کا تذکرہ ہے۔ ان کے ہدایت و فلاح پانے کی نوید ہے اور قرآنی ہدایت کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے اور روڑے اٹکانے والوں کی مذمت ہے۔
 اس کے بعد جنت و جہنم کے مستحقین کا تذکرہ اور اللہ کی بے پایاں قدرت کے دلائل کا بیان ہے۔ پھر چیلنج کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ تو اللہ کی تخلیق ہے۔ آپ لوگ بتائیں کہ غیر اللہ نے کیا پیدا کیا ہے؟ 
پھر لقمان کی حکمت و دانائی کو عطاء خداوندی قرار دے کر ان کی پند و نصائح کو بیان کیا گیا ہے۔
 انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے شرک سے بچنے کی تعلیم دیتے ہوئے بتایا کہ ماں اپنے بچے کو دو سال تک جب دودھ پلاتی ہے تو کمزوری در کمزوری کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔
 والدین کی اطاعت کی حدود بھی بیان کر دیں کہ شرک اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔ البتہ دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی اور خیر کے معاملات میں تعاون جاری رہے گا، مگر اتباع ایسے افراد کی کی جائے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہوں۔
 انسان کی محنت پر بدلہ ملتا ہے۔ اگر رائی کے دانے کے برابر عمل آسمان و زمین کی وسعتوں میں بکھرا ہوا یا کسی چٹان کی تہہ میں چھپا ہوا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی نکال کر لے آئیں گے اور اس کے مطابق بدلہ مل کر رہے گا۔
 اقامت صلوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے رہو اور مشکلات و مصائب میں صبر سے کام لو۔ یہ بڑے عزم و ہمت کی بات ہے۔ 
تکبر و غرور کی بجائے عجز و انکساری کا پیکر بن کر زندگی گزارو، اللہ تعالیٰ کو مغرور و متکبر لوگ پسند نہیں ہیں۔ زندگی میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرو اور نرم گفتاری کی عادت بناؤ اور گدھے کی طرح بے ہنگم آواز نکالنے سے بچنے کی تلقین کی۔ 
پھر کائنات کے دلائل و شواہد میں غور و خوض کے ساتھ توحید باری تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ کی بے حد و حساب خوبیوں اور صفات کو ایک حسین پیرائے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر دنیا کے تمام درختوں کی قلمیں بنا کر اور ساتوں سمندروں کی سیاہی بنا کر اللہ کی تعریف لکھنی شروع کر دی جائے تو قلم اور سیاہی ختم ہو جائے گی مگر حمد باری تعالیٰ ختم نہیں ہو گی۔ 
اس کے بعد قیامت کے دن کی ہولناکی اور انسانی بے چارگی کو بیان کیا کہ وہاں پر ہر انسان اپنی پریشانیوں میں اس قدر الجھا ہوا ہو گا کہ باپ اولاد کے کام نہیں آئے گا اور اولاد اپنے باپ کے لئے کچھ نہیں کرسکے گی۔ لہٰذا دنیا کی عارضی زندگی اور شیطان کے دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ 
قیامت کب آئے گی؟ بارش کب برسے گی؟ رحمِ مادر میں کیا ہے؟ کوئی شخص کل کو کیا کرے گا؟ اور کون کس سرزمین میں آسودۂ خاک ہو گا؟ اللہ ہی ان باتوں کا علم رکھتے ہیں وہ یقیناً بہت زیادہ علم اور خبر رکھنے والے ہیں۔
 
               *سورہ السجدۃ*

سورت کے شروع میں قرآن کریم کے کلام رب العالمین ہونے اور تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہونے کا بیان ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد اور تخلیق انسانی کے مختلف مراحل سے استدلال کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان بوسیدہ ہو کر زمین کی وسعتوں میں گم ہو جائے گا تب بھی اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ کر لیں گے۔
 پھر مجرمین کی مذمت اور قیامت کے دن ان کی بے کسی اور بے بسی کو ذکر کرتے ہوئے انہیں جہنم کی ذلت و رسوائی کا مستحق قرار دیا ہے جبکہ ایمان والے جن کی زندگیاں عجز و انکساری کا پیکر بن کر رکوع، سجدے اور تسبیح و تحمید میں گزرتی ہیں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور جنت کے باغات میں بہترین مہمانی اور عمدہ ترین جزا کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب ہدایت بنی اسرائیل کے لئے نظام حیات کے طور پر عطاء کی گئی، اس سلسلہ میں کسی قسم کے شکوک و شبہات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
 یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ حق کی فتح کا دن کون سا ہو گا؟ آپ بتا دیجئے کہ فتح کا دن جب آئے گا تو تمہارا ایمان کام نہیں آ سکے گا۔ لہٰذا ان سے چشم پوشی کرتے ہوئے اللہ کے فیصلہ کا آپ بھی انتظار کیجئے۔ وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔

               *سورہ الاحزاب*

الاحزاب سے گروہ اور جماعتیں مراد ہیں۔ مشرکین مکہ نے تمام عرب کے قبائل کو اسلام کے خلاف آمادۂ جنگ کر کے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ حضور علیہ السلام نے مسلمانوں کے مشورہ سے اپنے دفاع کے لئے خندق کھود لی تھی اس لئے اسے غزوہ احزاب یا غزوۂ خندق کہا جاتا ہے۔
 اس سورت میں مدنی سورتوں کی طرح قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کا بھی تذکرہ ہے۔ اس لئے اسے ’’الاحزاب‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ 
سورت کی ابتداء میں ’’تقویٰ‘‘ کے حکم کے ساتھ کافروں اور منافقوں کی عدم اطاعت اور وحی الٰہی کے اتباع اور توکل کی تلقین ہے۔
 اس کے بعد بتایا کہ کسی کے سینہ میں اللہ نے دو دل نہیں رکھے۔ 
ظہار یعنی اپنی بیویوں کی کمر کو اپنی ماؤں کی کمر کے مشابہ قرار دینے کی مذمت کرتے ہوئے ’’منہ بولے‘‘ رشتوں کے احکام بیان کئے ہیں کہ کسی کو بیٹا، بیٹی، بہن یا ماں کہہ دینے سے یہ رشتے ثابت نہیں ہو جاتے۔ لہٰذا متنبی کو اس کے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور اپنے بھائی یا اتحادی قرار دیا جائے۔
 ایمان والوں پر نبی کا حق سب سے زیادہ ہے اور نبی کی زوجات مطہرات ’’امہات المؤمنین‘‘ ہیں۔ 
پھر غزوہ احزاب میں پورے عرب کے کفر کا اجتماع اور ہر طرف سے یلغار کے مقابلہ میں اللہ کی مدد و نصرت کا تذکرہ ہے کہ اللہ نے تیز ہوا چلا کر نصرت فرمائی اور مشرکین کے قدم اکھاڑ دیئے۔ منافقین اور یہودیوں کی مذمت ہے، جنہوں نے اس موقع پر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
 پھر غزوہ بنی قریظہ میں یہود کے مقابلہ میں اللہ کی نصرت اور ان کی جائیدادوں اور زمینوں پر مسلمانوں کے قبضہ کو یاد دلا کر ہر چیز پر اللہ کی قدرت و غلبہ کی تمہید بنائی گئی ہے اور آخر میں ’’آیت تخییر‘‘ ہے، جس میں ازواج مطہرات کے سالانہ نفقہ میں اضافہ کے مطالبہ پر انہیں مطالبہ سے دستبردار ہو کر حرم نبوی میں رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا حکم دیا گیا،
 جس پر تمام امہات المؤمنین نے حرم نبوی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے مالی مطالبہ سے دستبرداری کا اظہار کر دیا، جس پرا للہ نے ان مخلص خواتین کے لئے اجر عظیم کا وعدہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

*پارہ~~~20~~~ آمّنْ خَلَقَ*


توحید باری تعالیٰ پر ’’تقریری اسلوب‘‘ سے دلائل پیش کرتے ہوئے بیسویں پارہ کی ابتداء ہوتی ہے کہ تم جتنی بھی کوشش کر لو، غور و خوض کر لو، اس سوال کا جواب یہی ہو سکتا ہے، قرآن کریم کہتا ہے آسمان و زمین کو پیدا کر کے بارش برسا کر پُر رونق سرسبز و شاداب باغ اور باغیچے کس نے پیدا کئے؟ 
کیا تم ایسے درخت بنا سکتے تھے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے معبودوں کے پیچھے بھٹکنے لگ جاتے ہیں۔
 کس نے زمین کو ہچکولے کھانے سے روک کر جانداروں کے لئے قرار گاہ بنایا۔ اس میں نہریں اور پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کو آپس میں مخلوط ہونے سے بچانے کے لئے درمیان میں حد فاصل بنائی، کیا ایسے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود شریک کار ہو سکتا ہے؟
 لیکن یہ مشرک لوگ علم کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ پریشان حال جب پکارتا ہے تو اس کی تکلیف دور کرنے اور تمہیں زمین پر اختیارات سونپنے والا کون ہے؟ خشکی اور تری کے اندھیروں میں ہدایت دینے والا اور بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلانے والا کون ہے۔ تمہاری پہلی تخلیق کے بعد دوبارہ پیدا کرنے اور آسمان و زمین سے تمہیں روزی بہم پہنچانے والا کون ہے؟ آسمان و زمین کے چھپے ہوئے بھید جاننے والا کون ہے؟ 
ان مشرکین کے پاس شرک کے لئے کوئی دلیل نہیں جس سے اپنی سچائی ثابت کرسکیں۔ یہ بے سوچے سمجھے بہکے چلے جا برہے ہیں۔ دراصل آخرت کے بارے میں ان کا ’’علم‘‘ ان سے کھو گیا ہے بلکہ یہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو کر بینائی کے تقاضوں سے محروم ہو چکے ہیں۔
 پھر مشرکین کے گھسے پٹے اعتراض کی بازگشت سنائی گئی ہے کہ بوسیدہ ہڈیوں اور پیوند زمین ہو جانے کے بعد ہمیں دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے گا ایسے مجرموں کا انجام سب کے سامنے ہے۔ جس عذاب کے لئے جلدی مچا رہے ہیں وہ اگر اچانک آ گیا تو انہیں کون بچا سکے گا؟ 
ہر قسم کے اختلافات کا حل قرآن کریم میں ہے۔ اس میں ہدایت بھی ہے رحمت بھی ہے، کافر سماعت کے تقاضے پورے نہیں کرتے اس لئے انہیں بہرے بلکہ مردے قرار دیا گیا ہے۔
 پھر قرب قیامت کی بڑی نشانی ’’دابۃ الارض‘‘ کے ظہور کا بتایا گیا ہے۔ پھر صور پھونکا جانا، پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑتے پھرنا اور لوگوں کا ٹولیوں کی شکل میں احتساب کے لئے پیش ہونا اور نیکی سر انجام دینے والوں کا گھبراہٹ سے محفوظ رہنا اور ’’بدی‘‘ کے مرتکبین کا قیامت کے دن اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جانا بیان ہوا ہے۔
 مسلمان بن کر رب کعبہ کی عبادت کی تلقین اور قرآن کریم کی تلاوت کا حکم ہے۔ ہدایت یافتہ انسان اپنا فائدہ کرتے ہیں جبکہ گمراہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ اللہ اپنی قدرت کے دلائل کا مشاہدہ کراتے رہیں گے جنہیں تم اچھی طرح پہچان لو گے تمہارے اعمال سے تمہارا رب غافل نہیں۔

               *سورہ القصص*

مکی سورت ہے۔ اٹھائیس آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے۔ پوری سورت ہی قصۂ موسیٰ و فرعون کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کر رہی ہے۔ اس لئے اس کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ ہے۔ 
باطل کا انداز کہ وہ حق کے ماننے والوں کو فرقوں اور دھڑوں میں تقسیم کر کے ان کی طاقت توڑتا ہے اور پھر ان پر بلا روک ٹوک مشقِ ستم کرتا ہے۔ 
فرعون اپنی فسادی ذہنیت کے پیش نظر اپنی ماتحت رعایا کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے ان کے لڑکوں کو قتل کرا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ رکھ کر ان سے خدمت لیتا۔ اللہ نے کمزوروں اور ضعیفوں پر احسان کر کے انہیں دنیا کی قیادت پر فائز کرنے اور فرعون کو اس کی غلطیوں اور مظالم کی سزا دینے کا فیصلہ کر کے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں پیدا کیا۔ فرعون کے گھر میں سرکاری خرچہ پر ان کی پرورش کرائی۔
 پھر موسیٰ علیہ السلام کا ایک فرعونی فوجی پر حملہ اور اسے جان سے مار دینے کا واقعہ شہر مدین میں روپوشی کا زمانہ گزارنے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہونے اور ان کی خدمت کرنے کا تذکرہ پھر ان کی صاحبزادی سے عقد نکاح اور وطن واپسی کے وقت راستے میں نبوت سے سرفرازی اور فرعون کے دربار میں حق و صداقت کا ڈنکا بجانے کی ذمہ داری کو ذکر کرنے کے بعد بتایا ہے کہ فرعون کے مطلوب ترین ملزم کو اس کے دربار میں برملا چیلنج کرنے کا حوصلہ عطاء فرما کر اسے مرعوب کر کے موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کی۔
 فرعون کی بچکانہ حرکت کہ اونچی عمارت کی چھت سے آسمانی معبود پر تیر اندازی کر کے اپنی بڑائی کے جذبہ کی تسکین اور پھر خدائی پکڑ کا عبرتناک منظر کہ جن دریاؤں اور محلات و قصور پر اسے فخر تھا انہیں میں رہتے ہوئے اسے غرق کر کے اس کی جائیداد و حکومت بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کے حوالہ کر کے بتایا کہ اقتدار و دولت آنی جانی ہے۔ 
اور اللہ اس کے ذریعہ بندوں کی آزمائش کیا کرتے ہیں، امم ماضیہ کے واقعات کا ایک نبی امی کی زبان سے تذکرہ یہ اس کے نبی برحق ہونے کی واضح دلیل ہے۔
پھر اہل حق اور اہل باطل کی ذہنیت اور ان کی عملی استعداد کو بیان کر کے واضح کیا کہ قوموں کی ہلاکت و بربادی ان کے آسمانی نظام سے بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ ہدایت کا اختیار اللہ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔ ان کافروں کا کہنا کہ اگر ہم حق پر عمل پیرا ہوئے تو دنیا کی کافر قومیں ہمیں اچک کر لے جائیں گی بالکل بے وزن بات ہے۔ یہ لوگ حرم محترم کے باشندے ہیں جو امن کے لئے مثالی خطہ ہے اور ہر قسم کے پھل اور مصنوعات دنیا کے کونے کونے سے انہیں مہیا کی جاتی ہیں پھر یہ اس قسم کی بے سروپا باتیں یہ کیوں کرتے ہیں ؟
 پھر قیامت کا دن اور معبودان باطل کی بے بسی اور بے رحم محاسبہ کا تذکرہ اور اس حقیقت کا بیان کہ اس دن ایمان اور اعمال صالحہ والے ہی کامیاب و کامران ہو سکیں گے۔ پھر مخلوقات کی تخلیق و تربیت کے تمام اختیارات اللہ کے پاس ہونے اور سینوں میں چھپے اور خفیہ بھیدوں سے واقف ہونے کا اعلان ہے۔ پھر اس کی حکیمانہ تربیت کے مظہر کو واضح کیا گیا کہ رات کا اندھیرا سکون و آرام کے لئے، دن کا اجالا کام کاج اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے۔ اگر اللہ رات لمبی کر کے اجالے کی آمد کو روک دے یا دن لمبا کر کے اندھیرے کا راستہ بند کر دے تو کون ہے جو تمہارے آرام اور نقل و حرکت کی ضروریات کا انتظام کرسکے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دور نبوت میں ہر محاذ پر باطل کے خلاف سرگرم رہے اور منکرین آخرت کے ساتھ ’’چومُکھی‘‘ لڑائی لڑتے رہے۔ ان کا یہ کردار فرعون و ہامان کے مقابلہ اور ’’الملاء‘‘ کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے، سرمایہ داری کے نمائندہ قارون کی سرزنش و فہمائش اور قوم کی بے اعتدالیوں پر صبر و تحمل کی شکل میں سامنے آتا ہے، قارون سے موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کو قرآن کریم نے نہایت حسین پیرائے میں یہاں بیان فرمایا ہے۔ 
قارون، موسیٰ علیہ السلام کا رشتہ دار اور ایک غریب انسان تھا۔ کاروبار میں ایسی برکت اور ترقی ہوئی کہ وہ بے بہا خزانوں کا مالک بن گیا۔ اس کی چابیاں سنبھالنے کے لئے پہلوانوں کی ایک جماعت کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔ اس سے یہ کہا گیا کہ تکبر و اتراہٹ کوئی اچھی صفات نہیں ہیں جس طرح اللہ نے مال و دولت کی فراوانی عطاء فرما کر تم پر احسان کیا ہے تم غریبوں، مسکینوں کے ساتھ تعاون کر کے مخلوق خدا پر احسان کا مظاہرہ کرو اور اپنے مال و دولت کی بنیاد پر فتنہ و فساد پھیلانے سے باز رہو، مگر اس نے اللہ کی عطاء و احسان کو تسلیم کرنے کی بجائے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ سب مال و دولت میرے تجربہ اور کاروباری سوجھ بوجھ کا نتیجہ ہے۔ 
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب اسے فہمائش کی تو اس نے انتقامی کارروائی کے طور پر ایک فاحشہ بدکار عورت کو پیسے دے کر موسیٰ علیہ السلام کی کردار کشی کرنے کے لئے بدکاری کا الزام لگوانے کی کوشش کی، جس پر موسیٰ علیہ السلام نے بد دعا دی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قارون کو سوچنا چاہئے کہ اس سے پہلے کتنے بدکردار افراد اور قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں وہ طاقت و قوت میں اس سے بھی زیادہ تھے۔ 
ایک مرتبہ قارون غرور و نخوت کا پیکر بن کر خوب بن سنور کر نکلا لوگ اس کے وسائل کی فراوانی اور شان شوکت کو دیکھ کر بہت متأثر ہونے لگے۔ اللہ نے اس حالت میں اس پر اپنا عذاب مسلط کر کے زمین کو حکم دیا کہ اس بدبخت کو نگل جائے اور اس طرح اسے اس کے مال و دولت اور محلات سمیت زمین دھنسا دیا گیا۔ اس کے حشم و خدام اور حمایتی اسے اللہ کی پکڑ سے نہ بچا سکے اور دنیا پر یہ واضح ہو گیا کہ مالی وسعت و آسائش بھی اللہ کے حکم سے ملتی ہے اور رزق میں تنگی اور کمی بھی اللہ کے حکم سے آیا کرتی ہے۔
آخرت کی زندگی میں کامیابی کے لئے تکبر اور فساد جیسے رذائل سے پاک ہونا ضروری ہے، کیونکہ بہتر انجام متقیوں کے لئے مخصوص ہے۔
 مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے ہجرت کے وقت آپ اپنے وطن مولوف کے چھوٹ جانے پر رنجیدہ خاطر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی وجہ سے آپ پر یہ پریشانی آ رہی ہے، آپ تسلی رکھیں، ہم آپ کو اپنے وطن میں با عزت واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ قرآن کریم آپ کی تمناؤں اور کوششوں سے آپ کو نہیں ملا بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے یہ نعمت غیر مترقبہ آپ کو عطا فرمائی ہے لہٰذا آپ منکرین کے ساتھی اور مددگار نہ بنیں۔
اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو شریک نہ کیجئے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، ہر چیز فانی ہے، اسی اللہ کے فیصلے کائنات میں نافذ ہوتے ہیں اور تم سب لوٹ کر اسی کے پاس جاؤ گے۔

               *سورہ العنکبوت*

مکی سورت ہے، انہتر آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ عنکبوت مکڑی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں عنکبوت کا تذکرہ ہے۔ ابتداء سورت میں حق کے راستہ میں مشکلات و مصائب جھیلنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
 کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان کا دعویٰ کرنے سے ان پر کسی قسم کی آزمائش نہیں آئے گی۔ پہلی قوموں پر بھی ابتلاء و آزمائش کے دور آتے رہے ہیں۔ سچوں اور جھوٹوں میں فرق کرنے کے لئے ہم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ بدکردار لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے سبقت لے جائیں گے۔ اللہ سے ملاقات کا وقت مقرر ہے۔ اگر کوئی دین کے لئے تکلیف اٹھائے گا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
 والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی فرمانبرداری کی حدود بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کفر و شرک میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ 
کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ایمان کو چھوڑ کر ہمارے طریقہ پر چلنے لگ جاؤ، تمہارے گناہوں کے ہم ذمہ دار ہیں۔ یہ لوگ ان کے گناہ تو کیا اٹھائیں گے اپنے ہی گناہوں کے بوجھ تلے دب کر قیامت کے بے رحم احتساب میں الجھ کر رہ جائیں گے۔ پھر نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سالہ طویل جدوجہد کے نتیجہ میں ان کے ساتھیوں کی طوفان سے کشتی کی مدد سے نجات اور قوم کی ہلاکت کا تذکرہ پھر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی دعوت توحید کا تذکرہ اور قوم کی ہٹ دھرمی اور بے اختیار معبودان باطل کی عبادت پر کاربند رہنے کا بیان اور اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر دور میں مفاد پرست، اللہ کے سچے رسولوں کا انکار کرتے آئے ہیں اور دنیا میں چل پھر کر منکرین کے انجام کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
 پھر لوط علیہ السلام اور ان کی بدکردار ملعون قوم کی ہلاکت کا بیان ہے اور قوم مدین و عاد و ثمود اور فرعون و ہامان کی ہلاکت کو بیان کر کے قوموں کی تباہی کا ضابطہ بیان کیا ہے کہ وسائل سے محرومی انبیاء کی دعوت کا انکار اور گناہوں کی زندگی کو اختیار کرنے پر قوموں کو مختلف انداز میں ہلاکت کیا گیا ہے۔
 کبھی پانی کے سیلاب اور آندھی کے طوفان سے، کبھی زور دھماکہ اور زلزلہ سے، کبھی زمین دھنسا کر یا دریا میں غرق کر کے، حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کا ظلم ہی ان کی ہلاکت کا باعث بنا کرتا ہے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتے۔
اللہ کے علاوہ معبودان باطل کی طاقت و قوت ایک مکڑی اور اس کے جالے کے برابر بھی نہیں ہے۔ یہ تمام مثالیں لوگوں کو سمجھانے کے لئے دی جاتی ہیں اور علم رکھنے والے ہی انہیں سمجھتے ہیں۔ آسمان و زمین کی بہترین تخلیق اہل ایمان کے لئے اللہ کی قدرت کی عظیم الشان دلیل ہے۔

 

*پارہ~~~19~~~وَقَالَ الّذِیْنَ*


مشرکین کے دو مطالبوں کا جواب ہے، 
ایک تو یہ کہ فرشتہ صرف محمد علیہ السلام پر ہی کیوں اترتا ہے ہم پر کیوں نہیں اترتا
 اور اللہ تعالیٰ ہم سے کیوں ملاقات نہیں کرتے؟
 قرآن کریم نے اس کا جواب دیا کہ اس مطالبہ کی وجہ تکبر و سرکشی ہے اور قیامت کا انکار ہے۔ عام انسانوں پر فرشتوں کے اترنے کا مطلب ہوتا ہے کہ ان کا یوم احتساب آ گیا، جس دن بادل پھٹیں گے اور فرشتے اتریں گے اس دن مجرمین کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہو گی، ان کے اعمال فضاء میں تحلیل ہو کر رہ جائیں گے۔ کافروں پر وہ دن بہت بھاری ہو گا۔ ظالم افسوس اور ندامت سے اپنا ہاتھ چبا رہے ہوں گے، اس دن ایک اللہ کے علاوہ کسی کا حکم نہیں چلے گا۔ رسول علیہ السلام شکوہ کریں گے کہ میری قوم نے اس قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا۔
 دوسرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے کیوں نازل ہو رہا ہے؟ ایک دم سارا کیوں نازل نہیں ہو جاتا۔
 اللہ تعالیٰ نے حاکمانہ انداز میں فرمایا: ہم قادر مطلق ہیں، ہم اسی طرح نازل کریں گے پھر حکیمانہ توجیہ بیان کر دی، آپ کے قلبی اطمینان کے لئے اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنے اور ہر موقع کی بہترین تشریح و توضیح کے لئے ہم نے ایسا کیا ہے۔ 
پھر موسیٰ و ہارون کا تذکرہ کر کے بتایا کہ ہم نے منکرین توحید و رسالت فرعونیوں کو ہلاک کر کے رکھ دیا، 
پھر نوح علیہ السلام اور ان کی جھٹلانے والی قوم کے سیلاب میں غرق ہونے کا تذکرہ پھر قوم عاد و ثمود اور ان کے علاوہ بہت سی اقوام کی ہلاکت کا تذکرہ پھر یہ بتایا کہ یہ لوگ ہمارے نبی کا انکار کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس قسم کی حرکتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو خواہشات کو اپنا معبود بنالیں اور عقل و شعور سے کام لینا چھوڑ دیں، یہ لوگ جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں۔ 
یہ لوگ کائناتی شواہد اور واقعاتی دلائل میں غور کر کے دیکھیں کہ سورج کی نقل و حرکت سائے کو کس طرح بڑا چھوٹا کرتی ہے۔ رات انسانوں کو ڈھانپ لیتی ہے اور نیند تھکن کو ختم کر کے سکون کا باعث بنتی ہے اور دن چلنے پھرنے اور روزی کمانے کا ذریعہ ہے۔ بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں پانی برسنے کا پیغام لے کر آتی ہیں اور آسمان سے صاف ستھرا پانی برستا ہے جو مردہ زمین کی زندگی کا باعث بنتا ہے اور بے شمار انسانوں اور جانوروں کو سیراب کر دیتا ہے۔ 
ہم اسی طرح مختلف انداز اور اسالیب سے بات کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ سمجھ کر نصیحت حاصل کرسکیں۔ لیکن پھر بھی اکثر لوگ انکار پر اتر آتے ہیں۔ آپ ان کی اطاعت نہ کریں بلکہ قرآن کریم کی روشنی میں ان کے ساتھ جہاد کرتے رہیں۔ یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ ہے کہ میٹھے اور کھارے پانی کی لہریں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ اسی اللہ نے پانی سے انسانی زندگی کو تخلیق فرما کر اس کے نسبی اور سسرالی رشتہ بنا دیئے اور تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے۔ 
اس کے بعد بے اختیار معبودوں کو قابل عبادت سمجھنے کی مذمت اور رسول کے فرض منصبی ’’نذیر و بشیر‘‘ ہونے کا بیان، کسی بھی قسم کے مفادات سے بالاتر ہو کر قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کا حکم اور دائمی حی و قیوم ذات کی تسبیح و تحمید اور اسی پر توکل کی تلقین ہے اور آیت نمبر ۶۴ سے سورت کے اختتام تک ’’عبادالرحمن‘‘ کی خوبیاں اور صفات بیان کی ہیں 
کہ وہ تواضع اور انکساری کے خوگر اور جاہلوں سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ ان کی راتیں تہجد میں گزرتی ہیں اس کے باوجود جہنم سے پناہ مانگتے ہیں۔ فضول خرچی اور بخل سے دور رہتے ہیں۔ توحید کے علمبردار، شرک سے بالاتر اور بے گناہ معصوموں کے قتل سے باز رہنے والے، اپنے گناہوں پر توبہ کر کے اپنے قصور کا اعتراف کرنے والے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر ان کے گناہوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ بے مقصد زندگی نہیں گزارتے۔ ناجائز کاموں اور جھوٹی گواہی دینے سے بچتے ہیں۔ اپنے رب کی باتوں پر سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں سمیت ایسی زندگی اختیار کرنے کے لئے دعا گو رہتے ہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور متقیوں میں سر فہرست رہنے کے متمنی رہتے ہیں۔ انہی لوگوں کو جنت میں سلامیاں دی جائیں گی اور جنت کے بالا خانے ان کا مقدر ہوں گے۔ 
سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی شان استغناء کا بیان ہے کہ اگر تم مشکلات و مصائب میں اللہ کے سامنے رونے دھونے اور گِڑ گڑانے میں مشغول نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ تمہاری قطعاً کوئی پرواہ نہ کرتے اور دنیا میں ہی تمہیں ہلاک کر کے رکھ دیتے

               *سورہ الشعراء*

سورت کے آخر میں شعراء اور ان کی ذہنیت کا تذکرہ ہے، اس لئے پوری سورت کو شعراء کے نام سے معنون کر دیا گیا ہے۔ یہ مکی سورت ہے اور اس میں دوسو ستائیس آیتیں اور گیارہ رکوع ہیں۔ اس سورت کا مرکزی مضمون اثبات رسالت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے واقعات اور ان کے منکرین کے انجام سے اس مضمون کو تقویت دی گئی ہے۔ 
سورت کی ابتداء میں قرآن کریم کے برحق اور واضح کتاب ہونے کا اعلان اور حضور علیہ السلام کی انسانیت کی ہدایت کے لئے شدت حرص کا بیان ہے۔ اللہ اگر چاہیں تو ان کی مطلوبہ نشانیاں دکھا کر ان کی گردنیں جھکا سکتے ہیں مگر اسلام کے لئے کسی پر زبردستی اور جبر نہیں کیا جاتا۔ ان جھٹلانے اور استہزاء و تمسخر کرنے والوں کے ساتھ سابقہ قوموں والا معاملہ کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ انہیں پہلی قوموں کے حالات میں غور کر کے اس سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے۔ 
پھر قرآن کریم نے اکثریت  اور اقلیت  کے نظریہ کا بطلان واضح کرنے کے لئے آٹھ مرتبہ اسی بات کو دہرایا اور ہر نبی کے تذکرہ کے آخر میں کہا ہے کہ اچھے اور پاکباز کبھی بھی اکثریت میں نہیں رہے اور معرکۂ حق و باطل میں نصرت خداوندی حق کے ساتھ ہوا کرتی ہے، اگرچہ وہ اقلیت میں ہو اور باطل کو تباہ کر دیا جاتا ہے اگرچہ وہ اکثریت میں ہو۔
 اس حقیقت کو قصۂ موسیٰ و فرعون میں آشکارا کیا، پھر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کے ساتھ ان کی باطل شکن اور ایمان افروز گفتگو میں واضح کیا اور بتایا کہ انسانی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے محسن کو فراموش نہ کرے۔
 اللہ نے انسان کو عدم سے وجود بخشا اس کی موت و حیات، بیماری و صحت اور کھانا پینا سب اس کی عنایات کا مظہر ہے۔ قیامت کے دن مال و اولاد کسی کام نہیں آ سکیں گے۔ وہاں تو ’’قلب سلیم‘‘ کے حامل متقی انسان ہی نجات پا سکیں گے۔ ابلیس اور اس کا پورا لشکر قیامت کے دن اپنی ناکامیوں اور نامرادیوں پر نوحہ کناں ہو گا انہیں وہاں پر کوئی سفارشی اور حمایتی میسر نہیں آئے گا۔ 
پھر نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان توحید و شرک کا معرکہ اور اس میں اہل ایمان کی اقلیت کی کشتی میں نجات اور اہل کفر و شرک کی اکثریت کی پانی کے سیلاب میں غرقابی اس نظریہ کو واضح کر دیتی ہے کہ تعداد کی کثرت کامیابی کی ضامن نہیں بلکہ اعمال کی صورت و حسن حقیقی کامیابی کی ضامن ہے۔ 
پھر قوم عاد، ان کی طاقت و قوت، صنعت و حرفت میں ان کی ترقی کے باوجود اپنے نبی ہود علیہ السلام کی دعوت کا انکار اور تکذیب ان کی تباہی کا باعث بنا اور دنیوی وسائل ان کے کسی کام نہ آ سکے اور ہود علیہ السلام ان کے ساتھیوں کی وسائل سے محرومی عذاب خداوندی سے نجات کے راستہ میں رکاوٹ نہ بن سکی۔

پھر قوم ثمود اور ان کے فرستادہ نبی صالح علیہ السلام کے درمیان معرکہ حق و باطل۔ باغات اور کھیتوں کی سرسبزی و شادابی، سنگتراشی کی ٹیکنیک میں ان کی مہارت اور ان کی بستی میں امن و امان کی مثالی حالت بھی نبی کے مقابلہ میں انہیں عذاب الٰہی سے نہ بچا سکی اور مفسدین کی اکثریت کو تباہی سے دوچار کر کے مومنین کی اقلیت کو اللہ نے بچا لیا۔ پھر لوط علیہ السلام اور ان کی فحاشی و عیاشی میں ڈوبی ہوئی قوم کے درمیان شرافت و شیطنت کے معرکہ میں لوط علیہ السلام کی کامیابی اور ان کے مخالفین کی عبرتناک ہلاکت نے شریف اقلیت کو شریر اکثریت پر غلبہ کی نوید سنادی ہے۔
پھر شعیب علیہ السلام کا مقابلہ ایک مستحکم معیشت و تجارت کی حامل قوم کے ساتھ۔ جس میں ایک طرف ناپ تول میں کمی، جھوٹ اور فساد کی گرم بازاری اور دوسری طرف امانت و دیانت اور صدق و صلاح کے ساتھ وسائل سے محروم اقلیت کی کامیابی و کامرانی اہل حق کے لئے نصرت خداوندی اور اہل باطل کے لئے آسمانی پکڑ کا واضح اعلان ہے۔

پھر قرآن کریم کے ’’کلام رب العالمین‘‘ ہونے کا واشگاف اعلان، امانت دار فرشتے جبریل کے ذریعہ اس کا نزول، واضح عربی زبان میں اس کی ترکیب و تنسیق اور پہلی کتابوں میں اس کے کلام برحق ہونے کی بشارتوں کے باوجود مشرکین مکہ کی طرف سے اس کا انکار ان کے تعصب اور مجرمانہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔
 ایک لمبے زمانہ تک بھی اگر یہ لوگ دنیا کی عارضی نعمتوں میں سرشار رہیں تب بھی یہ عذاب خداوندی سے کسی طرح نہیں بچ سکیں گے۔ اصلاح کے عمل کا آغاز اپنے گھر اور خاندان سے کیا جائے۔ 
اللہ پر توکل اور اس کے سامنے ’’جبین نیاز‘‘ جھکا کر رکھنا کامیابی کی دلیل ہے۔
قادر الکلام دانشوروں اور شعراء نے اسلامی نظام کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں نہایت شرمناک مکروہ کردار ادا کیا تھا۔ قرآن کریم ان کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شعراء کی پیروی کرنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں کیونکہ شاعر ہر وادی میں سرگرداں اور ہر کھیت میں منہ مارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ 
البتہ ان میں ایمان و اعمال صالحہ اور اللہ کے ذکر سے سرشار لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے شاعرانہ کلام سے مظلومین کے ساتھ معاون اور ان کا حق دلانے میں مددگار ہوتے ہیں اور آخر میں ظالموں کو ان کے عبرتناک انجام پر متنبہ فرما کر سورت کو ختم کر دیا گیا۔
 
               *سورہ النمل*

مکی سورت ہے، اس میں ترانوے آیتیں اور سات رکوع ہیں۔
 سورت کی ابتداء میں قرآن کریم کے اہل ایمان کے لئے بشارت اور ہدایت کی واضح کتاب ہونے کا اعلان ہے۔ پھر منکرین آخرت کے انجام بد کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس کے بعد قصۂ موسیٰ و فرعون کی شکل میں معرکۂ حق و باطل کو دل آویز اختصار کے ساتھ بیان کر کے بتایا کہ اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتے ہیں اور انہیں خوف اور ہر قسم کی مشکلات سے بچاتے ہیں جبکہ ظالموں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرتے ہیں۔
 پھر داؤد و سلیمان علیہما لسلام کے واقعہ کی شکل میں اقتدار و بادشاہت اور نبوت و رسالت کے حسین امتزاج اور مادی و روحانی ترقی کے بام عروج پر پہنچ کر بھی عبدیت و ایمان کے روح پرور مناظر کو بیان کیا ہے۔

دونوں باپ بیٹوں کو بے پناہ وسائل، جنات پر حکمرانی اور پرندوں کی گفتگو سمجھنے کا سلیقہ بھی عطاء کیا گیا تھا۔ سلیمان علیہ السلام ایک مرتبہ جن و انس اور پرندوں پر مشتمل اپنے لشکر کے ساتھ جا رہے تھے کہ ’’وادی النمل‘‘ چیونٹیوں کے علاقہ سے ان کا گزر ہوا۔ ایک چیونٹی کے متوجہ کرنے پر چیونٹیاں اپنے بچاؤ کے لئے بلوں میں گھسنے لگیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام اس منظر سے بہت محظوظ ہوئے اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس کی رحمت کے طلبگار ہوئے۔ 
پھر ہدہد پرندہ کے ذریعہ موصول ہونے والی خبر پر ملک سباء کے سورج پرست عوام اور ان کی ملکہ بلقیس کے نام حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے تذکرہ کے ساتھ ہی حضرت سلیمان کی جاہ و حشمت اور وسائل کی فراوانی کو بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ قوم سباء کے نخوت و تکبر کے مقابلہ میں سلیمان علیہ السلام کی عجز و انکساری کو فتح نصیب ہوئی۔ 
حضرت سلیمان کے وزیر صاحب علم نے ملکہ سباء کا تخت پلک جھپکتے میں منتقل کر دیا اور ملکہ بلقیس دربار سلیمانی میں حاضر ہو کر آپ کی شان و شوکت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور کلمہ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ پھر قوم ثمود اور ان کے نبی صالح علیہ السلام کے روپ میں اسلام اور کفر کا معرکہ وسائل و انتظامات کے مقابلہ میں ایمان و اعمال صالحہ کی جیت کو بیان کیا گیا ہے۔ 
پھر قوم لوط اور ان کی بدکرداری کے مقابلہ میں اللہ کے نبی لوط علیہ السلام کی فتح اور نا فرمانوں کی تباہی کی منظر کشی کی گئی ہے۔اور پارہ کے آخر میں اللہ کی حمد و ثناء اور منتخب بندگانِ خدا پر سلامتی کی نوید سنائی گئی ہے اور معبود حقیقی اور معبودان باطل میں تقابلی مطالعہ کے ذریعہ حق تک رسائی حاصل کرنے کی راہ سجھائی گئی ہے۔

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں