*پارہ ~~~ 4 ~~~لن تنالوا*

 اعلیٰ ترین نیکی اپنی محبوب چیز کو اللہ کے نام پر خرچ کرنا ہے۔
اللہ کے بارے میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لینا بدترین ظلم ہے، اللہ سچے ہیں۔ کفر و شرک اور تمام ادیان باطلہ سے بیزار ہو کر ایک اللہ کے بن جانے والے ابراہیم علیہ السلام کا طرز زندگی اپنانے کا حکم دیتے ہیں۔بیت اللہ تک پہنچنے کی گنجائش رکھنے والوں پر حج فرض ہونے کا حکم بیان کر کے بتایا کہ انسانیت کے لئے سب سے پہلا گھر کعبۃ اللہ تعمیر ہوا ہے جس سے زمین کو پھیلایا گیا ہے اور یہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ بہت بابرکت اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس میں اللہ کی واضح نشانیاں موجود ہیں جن میں سے مقام ابراہیم بھی ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو خود بخود اوپر نیچے ہوتا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کعبہ کا عمل سر انجام دیا تھا۔ اللہ کا گھر امن کی علامت ہے اس میں جو بھی داخل ہو گیا اسے امن دے دیا جاتا ہے۔
 اہل کتاب کی کچھ خرابیاں ذکر کرنے کے بعد ان کی گندی ذہنیت کو بیان کیا کہ اگر مسلمان ان کی بات ماننے لگ گئے تو وہ انہیں ایمان سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیں گے! پھر تقویٰ کی تعلیم دے کر مرتے دم تک اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی۔
 فرقہ واریت کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کے لئے اللہ کی رسی (قرآن کریم) کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔ ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا جو خیر کی داعی ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والی ہو۔ ایسے ہی لوگ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
 قیامت کے دن کافروں کے چہرے کالے سیاہ ہوں گے جبکہ اہل ایمان کے چہرے روشن اور چمکدار ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
 امت مسلمہ بہترین امت ہے کیونکہ یہ اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نفع رسانی کا کام کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں، یہود و نصاریٰ بھی اگر یہ صفات اپنے اندر پیدا کر لیں تو وہ بھی خیر کے حامل قرار دیئے جائیں گے، زبانی کلامی تمہاری دل آزاری کے علاوہ یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، ان پر ذلت و رسوائی کی چھاپ لگائی جا چکی ہے۔ اللہ کا ان پر غضب نازل ہوا ہے کیونکہ یہ لوگ انبیاء علیہم السلام کے ناجائز قتل کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ گناہوں کے عادی اور انتہا پسند ہیں۔
 تمام اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں بعض ان میں معتدل مزاج بھی ہیں جو راتوں میں اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے ہیں۔ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتے ہیں۔ 
کافروں کے مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آ سکیں گے، وہ دائمی طور پر جہنم میں رہیں گے، یہ اگر کسی نیک راہ میں مال خرچ بھی کرتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ظالم شخص کی لہلہاتی کھیتی کو سردی اور پالا لگ جائے اور سوکھ کر تباہ ہو جائے، درحقیقت ایمان سے انکار کر کے انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔
 پھر مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی ازلی دشمنی اور بغض بیان کر کے بتایا ہے کہ تمہیں فائدہ ہو تو انہیں تکلیف پہنچتی ہے اور تمہیں نقصان ہو تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دوستی لگانے کے قطعاً قابل نہیں ہیں، تم نے اگر صبر و تقویٰ اختیار کئے رکھا تو یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
 بدر میں قلیل تعداد ہونے کے باوجود اللہ کی مدد و نصرت سے کامیابی ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، 
سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۲۱ سے ۱۸۰ تک ۵۹ آیتوں میں غزوہ احد کا تذکرہ نہایت شرح و بسط کے ساتھ کیا ہے۔ 
مدد تو اللہ تعالی ہی کرتے ہیں مگر فرشتوں کا نزول مؤمنین کی تسلی اور دل جمعی کے لئے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تین ہزار فرشتے بھیج رہے ہیں اگر کفار نے اچانک حملہ کر دیا تو ہم پانچ ہزار فرشتے بھیجیں گے، 
جب کفار کے حملہ میں آپ کے دندان مبارک شہید ہو گئے تو آپ نے کفار قریش کے لئے بددعاء کی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ آپ کا اختیار نہیں بلکہ میری مرضی پر منحصر ہے میں چاہوں تو انہیں عذاب دوں اور چاہوں تو معاف کر دوں ! اللہ بہت غفور رحیم ہے۔
 سود خوری سے بچنے کے حکم کے ساتھ ہی تقویٰ اختیار کرنے اور جہنم سے بچنے کی تلقین ہے اور اللہ کی رحمت سے محظوظ ہونے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تاکید ہے۔ 
جنت کے مستحقین متقی ہوتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کے نام پر خرچ کرتے ہوں۔ غصہ کو پینے والے، لوگوں کو معاف کرنے والے اور اپنے گناہوں پر اصرار کی بجائے ندامت کے ساتھ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اقوام عالم کے جرائم پر ان کی گرفت کا نظام جاری و ساری ہے دنیا میں چل پھر کر اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
 یہ قرآن کریم انسانوں کے لئے بیان، ہدایت اور متقین کے لئے نصیحت ہے۔ میدان جہاد میں پیش آنے والی ناپسندیدہ صورتحال پر دل گرفتہ ہو کر کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ایمان کامل کے تقاضے پورے کرنا ہی اہل ایمان کے غلبہ کی ضمانت ہے۔ جہاد میں جانی و مالی نقصان اس عمل کا حصہ ہے اور ہر فریق کے ساتھ یہ صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ 
میدان احد میں مسلمانوں کو پیش آنے والے مصائب کے تین بڑے مقاصد تھے، مسلمانوں کی ایمانی قوت کا امتحان، مسلمانوں اور کافروں (منافقوں ) میں امتیاز اور بعض خوش نصیبوں کو شہادت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنا۔ جہاد پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والے جنت کے مستحق ہیں۔ 
غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلانے والوں کا مقصد اگرچہ منفی تھا اور وہ مسلمانوں میں بددلی پھیلا کر انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے مگر قرآن کریم نے اس سے مثبت مقاصد حاصل کرتے ہوئے اسے تربیت کا حصہ قرار دے کر مستقبل میں آپ کے وصال کی صورت میں پیدا ہونے والے ممکنہ انتشار کے سد باب کے طور پر استعمال کیا اور بتایا کہ محمد علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں، خدا نہیں ہیں۔ان کے وصال کی خبر سے دل برداشتہ ہو کر اسلام سے روگردانی کرنے والے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وہ اپنا ہی نقصان کریں گے۔ ایسے موقع پر کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں حصہ لینا چاہئے اور اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر مغفرت مانگتے ہوئے، اللہ سے ثابت قدمی اور کافروں کے مقابلہ میں نصرت کی دعاء مانگنی چاہئے۔
 غزوہ احد میں پیش آمدہ بعض مناظر کی قلبی تصویر کشی کرتے ہوئے، کافروں پر مسلمانوں کا رعب ڈال کر اہل ایمان کو مستقبل میں کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ جن اہل ایمان سے میدان احد میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمزوری کا مظاہرہ ہوا تھا انہیں معاف کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور جن منافقین نے جہاد پر اعتراضات کر کے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ان کی سخت گرفت کی گئی ہے۔
 منافقوں کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد اور اسلحہ میں کمی اور کافروں کی تعداد اور اسلحہ میں برتری کے پیش نظر میدان قتال میں اترنا کوئی دانشمندی نہیں ہے بلکہ یہ جہاد ہی نہیں ہے اگر یہ لوگ ہماری طرح گھروں میں بیٹھے رہتے تو قتل ہونے اور زخمی ہونے سے بچ جاتے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ تم پر جب گھروں میں موت کا فرشتہ مسلط ہو کر تمہیں موت کے منہ میں دھکیلے گا تو اس وقت موت سے تم کیسے بچو گے؟
حضور علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم نہ کرنے پر یہودی یہ جواز پیش کرتے تھے کہ ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ کسی بھی نبی پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ اپنی نبوت کے ثبوت کے طور پر خاص نشانی نہ دکھا دے اور وہ نشانی یہ ہے کہ قربانی کر کے کسی پہاڑ پر رکھے اور آسمانی آگ اسے جلا دے تو ہم اس کی صداقت کو تسلیم کریں گے ورنہ نہیں۔ درحقیقت یہ ان کی بہانہ بازی تھی۔
 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کا بھی تم انکار کرتے رہے ہو لہٰذا تمہاری بات قابل اعتماد نہیں ہے۔ ہر انسان پر موت کا آنا برحق ہے۔ روز قیامت تمہارے اعمال کا محاسبہ ہو گا اور جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والے ہی کامیاب قرار پائیں گے! اہل کتاب سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کے مضامین کو وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان کریں گے۔ کسی بات کو نہیں چھپائیں گے، مگر انہوں نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی اور اپنے مفادات کی خاطر اللہ کی آیات میں رد و بدل کرنے کی بدترین حرکت میں مبتلا ہو گئے۔
 یہ لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہو رہے ہیں اور نا کردہ اعمال کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنی تعریف کرانا چاہتے ہیں۔ یہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ ان کے لئے دردناک عذاب تیار کر لیا گیا ہے۔ آسمان و زمین پر اللہ کی حکمرانی اور کوئی چیز اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ اہل دانش و بینش کو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات آسمان و زمین اور دن رات میں غور و خوض کی دعوت دی گئی ہے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کی پانچ دعاؤں کا تذکرہ ہے، جنہیں شرف قبولیت حاصل ہے۔ 
مرد و عورت کی تخلیق اور ان کی ذمہ داریوں میں اختلاف کے باوجود انہیں اجر و ثواب میں برابری اور مساوات کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور بتایا ہے کہ ہجرت اور جہاد جیسے عظیم الشان اعمال جو بھی کرے گا اس کے لئے گناہوں کی معافی، اللہ کے ہاں بہترین اجر و ثواب اور جنت کا وعدہ ہے۔ 
کافروں کے پاس مالی وسائل کی فراوانی اور عیش و عشرت کو دیکھ کر دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ عارضی اور معمولی فوائد ہیں۔ آخرت میں ان کا بدترین ٹھکانہ جہنم ہے۔ متقین کے لئے نہریں اور باغات اور اللہ کے ہاں بہترین مہمانی ہے۔
 اہل کتاب میں بعض انصاف پسند بھی ہیں، جو قرآن اور نبی اسلام پر ایمان لانے کی نعمت سے سرفراز ہیں۔
 سورہ کی آخری آیت میں دین پر ثابت قدمی اور میدان جہاد میں مورچوں میں کفر کے مقابلہ میں ڈٹ جانے والوں کو دائمی فلاح و کامرانی کی نوید سنائی گئی ہے۔
 حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور علیہ السلام تہجد کے وقت جب بیدار ہوتے تو سورہ آل عمران کی آخری گیارہ آیتیں آسمان کی طرف رخ کر کے تلاوت فرمایا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو ان آیتوں کی تلاوت کے باوجود کائنات کے اندر اللہ کی نشانیوں میں غور و خوض نہ کرے۔              
    *سورہ النساء* 
یہ مدنی سورہ ہے۔ ایک سو چھہتر آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ 
امرأۃ عورت کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع نساء ہے، جس کے معنی ’’عورتیں ‘‘ یا ’’خواتین‘‘ ہے۔ 
اس سورہ میں منجملہ دوسرے مسائل کے عورتوں کے انتہائی اہم اور حساس مسائل زیر بحث آئے ہیں، اس لئے اس کا نام سورہ النساء رکھا گیا ہے۔
 سورہ بقرہ کے بعد متنوع اور بھرپور طریقہ پر مسائل کا بیان اس سورہ کے اندر ہے۔ معاشرتی اور قومی مسائل کے ساتھ تشریعی مسائل اور ہجرت اور جہاد پر سیر حاصل گفتگو، غیر مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، میراث کے احکام، کلالہ کا مسئلہ، عقائد پر بحث، منافقین کا تذکرہ اور یہود و نصاریٰ کے مکروہ چہرہ کی نقاب کشائی جیسے اہم موضوعات پر مفصل بات کی گئی ہے۔ 
تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کے ساتھ سورہ کی ابتداء کی گئی ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ آدم و  حوا علیہما السلام کی معجزانہ تخلیق کے بعد بے شمار انسانوں کو اس جوڑے کی صلب سے پیدا کر کے اس سرزمین پر پھیلا دیا۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے تمام انسانوں کو ایک گھرانے کے افراد کی طرح باہمی اتفاق و اتحاد سے زندگی بسر کرنی چاہئے۔ 
پھر یتیموں کی کفالت اور ان کے اموال کی دیانتداری کے ساتھ حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت اور ان میں عدل و انصاف قائم رکھنے کا بیان ہے۔ 
مہر کی ادائیگی بطیبِ خاطر کی جائے اور خواتین چاہیں تو اپنا مہر معاف بھی کرسکتی ہیں۔ معاشرہ میں ناسمجھ افراد کی نگہداشت اور ان کی مالی سرپرستی کا حکم دیا گیا ہے، پھر وراثت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو اور تمام وارثوں کے حصے متعین کر کے بتایا گیا ہے کہ وارثوں کے استحقاق کو اللہ تم سے بہتر جانتے ہیں۔ وراثت کی تقسیم سے پہلے میت کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل درآمد کی تلقین ہے۔
 زنا اور لواطت کے لئے ابتدائی قانون سازی کی گئی ہے۔ 
عورتوں کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی کسی کے نکاح میں دینے اور ان کے مہر میں خورد برد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ والد کے انتقال کے بعد اس کی منکوحہ سے نکاح پر پابندی لگائی گئی ہے اور محرمات کی فہرست ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ ان خواتین سے نکاح حرام ہے۔ ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی، رضاعی ماں، رضاعی بہن، ساس، بہو، جس منکوحہ کا شوہر موجود ہے۔ ان خواتین سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں