*پارہ~~~ 12~~~ ومَا مِن دَابَّۃٍ*

وَمَا مِن دَآبَّۃٍ ابتداء میں تمام مخلوقات کی معیشت کا مسئلہ حل کرتے ہوئے اعلان کیا زمین پر چلنے والے تمام جانوروں کی روزی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عارضی اورمستقل قیام گاہ کو جانتا ہے۔ چھ دن میں آسمان و زمین پیدا کر کے انسان کو دنیا میں بھیجا تاکہ بہتر سے بہتر عمل کرنے والے کو منتخب کیا جا سکے۔ اللہ کے یہاں مقدار کی کثرت کی بجائے ’’معیار کا حسن‘‘ مطلوب ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ انسان زندہ کئے جائیں گے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ مردوں کو زندہ کرنا تو جادو کے عمل سے ہی ممکن ہو سکتا ہے اور ہم اگر ان کی نافرمانیوں پر مصلحت کے پیش نظر عذاب نہیں اتارتے تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے عذاب موعود کو کس نے روک لیا ہے وہ آتا کیوں نہیں ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ عذاب کی جلدی نہ مچائیں جس دن ہم نے عذاب اتار دیا تو تم اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھو گے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ اسے خوشحالی کے بعد اگر کچھ تنگی آ جائے تو مایوس ہو جاتا ہے اور اگر تکلیف کے بعد راحت مل جائے تو اپنے گناہوں کو بھول کر اترانے اور تکبر کرنے لگتا ہے۔ اچھے انسان وہ ہیں جو دین پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعمال صالحہ پر کاربند رہیں۔ ان کافروں کے بیجا مطالبات سے آپ پریشان نہ ہوں اور محض اس لئے وحی الٰہی سے دستبردار نہ ہوں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر خزانے کیوں نہیں نازل ہوتے یا اس کی حفاظت کے لئے فرشتے اس کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ ایسے مطالبات کا شریعت کی پابندی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد علیہ السلام نے یہ کلام خود بنایا ہے، اگر یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو یہ بھی چند سورتیں بنا کر دکھا دیں۔ قرآن کریم جیسی سورتیں بنانے سے ان کا عاجز آ جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کا نازل کردہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ انسانوں کا ایسا کلام بنانے سے عاجز آ جانا اس کی حقانیت کا داخلی ثبوت ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مثال دے کر بتایا کہ قرآن کریم کو تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے کر رہا ہے، اس لئے وہ بینا ہے اور نہ تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ نابینا ہے اور قرآن پر ایمان لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے کرتا ہے اس لئے وہ سننے والا ہے اور ایمان نہ لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ بہرا ہے اور یہ لوگ آپس میں کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا سبق آموز واقعہ بیان ہوا ہے۔ نوح علیہ السلام نے قوم کو توحید و رسالت کی بات سمجھائی اور نہ ماننے کی صورت میں انہیں درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قوم میں اونچی سوسائٹی کے لوگ، سردار اور ارباب اقتدار کہنے لگے کہ آپ ہمارے جیسے عام انسان ہیں اور آپ کا ساتھ دینے والے معاشرہ کے نچلے طبقے کے لوگ ہیں، دنیا کے اعتبار سے آپ کے اندر وہ کون سی خوبی ہے جس کی بنیاد پر ہم آپ پر ایمان لائیں۔ ہمیں تو آپ جھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہدایت کے لئے مفادات اور مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دلائل اور رحمت خداوندی درکار ہوتی ہے اور یہ نعمت ہمیں حاصل ہے۔ پھر داعی الی اللہ کے لئے کچھ ضوابط بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین کے نام پر مالی مفادات کا طلبگار نہیں ہوں اور دین میں سب غریب و امیر برابر ہیں، لہٰذا میں غریبوں کو محض غربت کی بنیاد پر اپنے آپ سے جدا نہیں کرسکتا۔ میں نہ تو مال و دولت کے خزانوں کا دعوے دار ہوں نہ ہی غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں نہ ہی فرشتہ ہونے کا مدعی ہوں اور غریب مسلمان جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو صرف تمہیں خوش کرنے کے لئے میں یہ بھی نہیں کہتا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کوئی اجرو ثواب نہیں دیں گے، اللہ کا معاملہ تو نیت اور عمل کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ سردار جو اقتدار اور مال کے نشہ میں بدمست ہو رہے تھے اور اپنی طاقت اور پیسہ کے زور پر انہوں نے پورا معاشرہ یرغمال بنایا ہوا تھا، ہٹ دھرمی اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو بتا دیا کہ چند مخلص ایمان والوں کے علاوہ باقی قوم ضلالت و گمراہی کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہو چکی ہے لہٰذا ان پر عذاب آ کر رہے گا آپ کشتی بنانا شروع کر دیں اور ان لوگوں کی کسی قسم کی سفارش نہ کریں۔ نوح علیہ السلام کشتی بناتے رہے اور قوم کے گمراہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ نافرمانوں کو غرق کرنے کا فیصلہ فرما چکے تھے لہٰذا حکم دیا کہ ہر جانور کا ایک جوڑا اور تمام اہل ایمان کو کشتی میں سوار کر لو۔ آسمان سے پانی برسنے لگا اور زمین سے پانی ابلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے سفینۂ نوح سیلاب کے پانی میں پہاڑ کی مانند تیرتی ہوئی نظر آنے لگی۔ کشتی کے سواروں کے علاوہ باقی سب غرق ہو گئے، نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا بھی نہ بچ سکا۔ ایمان سے محرومی کی وجہ سے باپ کی نبوت بھی اس کے کسی کام نہ آ سکی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ اسلامی معاشرہ کے اجزائے ترکیبی قوم، وطن یا نسبی رشتہ داری نہیں بلکہ ایمان اور اعمال صالحہ ہیں، ایک نبی امی کا اس تاریخی واقعہ کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نبی برحق ہیں لہٰذا ایمان والوں کو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بہتر انجام متقیوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد حضرت ہود علیہ السلام کا واقعہ ہے جنہوں نے اپنے دور کی ’’سپر پاور‘‘ قومِ عاد سے ٹکر لی تھی۔ یہ قوم ڈیل ڈول اور جسمانی طاقت میں بہت زیادہ تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ دنیا میں ہم سے طاقت ور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں سوچنا چاہئے کہ جس اللہ نے انہیں بنایا ہے وہ یقیناً ان سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہود علیہ السلام نے قوم کو توحید کا پیغام سنایا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے معافی مانگنے کی ترغیب دی اور بتایا کہ تم اگر توبہ و استغفار کر لو گے تو اللہ تمہیں معاشی اعتبار سے خود کفیل کر دے گا اور بارش برسا کر تمہاری کھیتیوں کو سیراب کر دے گا اور تمہاری طاقت و قوت میں مزید اضافہ کر دے گا، قوم نے ایمان لانے کی بجائے مذاق اڑانا شروع کر دیا، کہنے لگے، ہم تمہاری باتوں کو مان کر اپنے بتوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے بتوں نے تم پر اثر انداز ہو کر تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے تبھی تم اس قسم کی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کی باتوں پر مشتعل ہونے کی بجائے انہیں بتا دیا کہ وہ بھی اللہ پر ایمان سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اللہ کی طاقت و قوت کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر بھروسہ اور توکل میں اضافہ کر دیں گے اور پھر قوم کو اللہ کے حکم سے یہ وعید بھی سنادی کہ اگر تم باز نہ آئے تو میرا رب تمہیں ہلاک کر کے تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اس سرزمین کا مالک بنا دے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ہماری رحمت کا مظہر تھا کہ ہم نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچا لیا۔ قوم کی ہٹ دھرمی اور آیات خداوندی کا انکار اور اللہ کے فرستادہ رسول کی نافرمانی نے انہیں تباہ و ہلاک کر کے رکھ دیا۔ یہ ضدی اور عناد پرست قومِ عاد تھی جن پر عذاب آیا اور دنیا و آخرت میں لعنت کے مستحق قرار پائے۔ یہ سب قومِ عاد کے کفر کا نتیجہ تھا۔ حضرت ہود کی قوم ’’عاد‘‘ اللہ کی رحمت سے دور قرار دے دی گئی۔ اس کے بعد قوم ثمود کا تذکرہ ہے کہ صالح علیہ السلام نے انہیں پیغامِ توحید دیا اور انہیں غیر اللہ کی عبادت سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ انہیں بتایا کہ تمہیں اللہ نے ہی پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا اس اللہ کے سامنے توبہ و استغفار کر لو مگر وہ لوگ باز نہ آئے۔ بلکہ کہنے لگے کہ صالح! ہمیں تو آپ سے بڑی توقعات تھیں مگر آپ نے تو ہمارے آباء و اجداد کی ہی مخالفت شروع کر دی اور ہمیں تو آپ کی نبوت میں شک ہے۔ ہم آپ کی نبوت کا اقرار صرف اس صورت میں کریں گے جب آپ سامنے والی پہاڑی سے اونٹنی نکالیں جو فوراً ہی بچہ دیدے۔ حضرت صالح نے فرمایا: میری قوم میں تو دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت دے رہا ہوں اور تم بیجا مطالبات کر رہے ہو میں تمہارے کہنے سے اللہ کی رحمت کو نہیں چھوڑوں گا ورنہ میری مدد کون کرے گا۔ تمہارے مطالبہ کے مطابق یہ رہی اونٹنی۔ اب تم اسے اللہ کی نشانی سمجھ کر حق کو تسلیم کر لو اور اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچاؤ ورنہ تم پر عذاب خداوندی بہت جلد آ جائے گا۔ ان لوگوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا جس پر انہیں تین دن کی مہلت دے کر ذلت آمیز عذاب کا نشانہ بنا دیا گیا۔ جبریل علیہ السلام نے زور دار چیخ ماری جس کی دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ اوندھے منہ گر کر ایسے ختم ہوئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا۔ جب ہمارا عذاب آیا تو ہم نے حضرت صالح اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ اس دن کی رسوائی سے بچا لیا۔ اس کے بعد ابراہیم اور لوط علیہما لسلام کا تذکرہ ہے کہ ہمارے فرشتے قاصد بن کر انسانی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مہمانی کے طور پر بچھڑا ذبح کر کے بھونا اور انہیں کھانے کی دعوت دی۔ مگر انہوں نے کھانے میں کسی رغبت کا مظاہرہ نہیں کیا تو ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ لوگ کہیں دشمنی کی وجہ سے کھانے سے گریز نہ کر رہے ہوں، لہٰذا ان سے خوف زدہ ہو گئے تو انہوں نے بتا دیا کہ ہمارے نہ کھانے کی وجہ دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم فرشتے ہیں اس لئے نہیں کھا رہے۔ ہم تو قوم لوط کے لئے عذاب کے احکام لے کر آئے ہیں۔ہم راستہ میں آپ کو اولاد کی خوشخبری دینے آئے ہیں۔ اللہ تمہیں اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی پوتا عطا فرمائیں گے۔ ان کی بیوی قریب ہی کھڑی ہوئی یہ گفتگو سن رہی تھیں۔ عورتوں کے انداز گفتگو میں اپنے چہرہ پر دو ہتڑ مارتی ہوئی کہنے لگیں کہ میں بانجھ اور میرا شوہر بڑھاپے کی آخری عمر میں ہے۔ ہمارے ہاں کیسے اولاد ہو سکتی ہے۔ فرشتوں نے کہا اس میں تعجب اور حیرانی کی کون سی بات ہے۔ اللہ تمہارے گھرانے پر اپنی رحمتیں اور برکتیں اتارنا چاہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل تھے اس خوشخبری کو سن کر لوط علیہ السلام کی قوم کی سفارش کرنے لگے۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کی ہلاکت کا اٹل فیصلہ ہو چکا ہے، آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔ جب فرشتے لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کے روپ میں پہنچے تو وہ لوگ ’’اِغلام بازی‘‘ کے شوق میں جمع ہو کر لوط علیہ السلام سے نووارد مہمانوں کو اپنے حوالہ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے، حضرت لوط نے انہیں بہت سمجھایا کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو مگر وہ اپنے بیجا مطالبہ پر بضد رہے تو مہمانوں نے کہا: اے لوط! آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں اور عذاب کا حکمنامہ لے کر آئے ہیں، اس لئے یہ لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔انہیں صرف ایک رات کی مہلت ہے، آپ فوراً یہاں سے نکلنے کا بندوبست کر کے چلے جائیں۔ آپ کی بیوی چونکہ اس مجرم قوم کے ساتھ شریک ہے لہٰذا وہ بھی نہیں بچ سکے گی۔ جب ہمارا عذاب آیا تو انہیں الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا اور ان پر نشان زدہ پتھروں کی بارش کر کے انہیں تباہ کر دیا گیا۔ پھر قوم مدین کی حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ کٹ حجتی کا تذکرہ کر کے ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد موسیٰ و فرعون کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ، پھر جنت و جہنم کا ذکر اور آخر میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے کچھ سنہری اصول (۱)استقامت کا مظاہرہ۔ (۲)حدود کی پابندی۔ (۳)ظالموں کی حمایت سے دست کشی۔ (۴)صبح و شام عبادت میں مشغولی۔ (۵)صبر کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین۔ اگر قوم میں اصلاح کی جدوجہد کرنے والے افراد پیدا ہو جائیں تو وہ ہلاکت سے بچ سکتی ہے  
سورہ یوسف مکی سورت ہے جو ایک سو گیارہ آیات اور بارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ منفرد سورت ہے جس میں صرف ایک ہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو قرآن کریم نے ’’احسن القصص‘‘ بہترین واقعہ قرار دیا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے اور اپنوں کے مظالم اور ان کے مقابلہ میں اللہ کی مدد کا منظر دکھا کر حضور علیہ السلام کو اپنی قوم کے مظالم کے مقابلہ میں نصرت خداوندی حاصل ہونے کی بشارت ہے۔ سورت کے شروع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے۔ پھر یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر ہے کہ انہوں نے گیارہ ستارے اور چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا جس کی تعبیر واضح تھی کہ ان کے گیارہ بھائی اور والدین ان کے سامنے جھکیں گے اور ان سب کے درمیان یوسف علیہ السلام کو امتیازی مقام حاصل ہو گا۔ اس خواب کے بعد بھائیوں نے حسد کرنا شروع کر دیا اور یوسف علیہ السلام کے قتل کا پروگرام بنا کر اپنے والد کو راضی کر کے جنگل میں لے گئے۔ انہیں کنویں میں پھینک کر کپڑوں کو کسی جانور کے خون سے آلودہ کر کے والد کو بتا دیا کہ ہم جنگل میں کھیلتے رہے اور بھائی کو بھیڑیا کھا گیا۔ یعقوب علیہ السلام ان کی سازش کو سمجھ گئے اور یوسف علیہ السلام کے فراق میں پریشان رہنے لگے اور دن رات روتے رہے۔ ایک تجارتی قافلہ نے کنویں سے یوسف علیہ السلام کو نکال کر مصر کے بازار میں فروخت کر دیا۔ یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کے چرچے پھیل گئے، بادشاہ نے انہیں خرید کر اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے دیا اور اس طرح یوسف کنویں سے نکل کر شاہی محل میں رہنے لگے۔ شاہ مصر کی بیوی حسنِ یوسف پر ریجھ گئی اور انہیں ’’دعوت گناہ‘‘ دینے لگی، یوسف نے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی۔ شوہر کو معلوم ہونے پر اس عورت نے بدکاری کا الزام لگا دیا۔ اللہ نے اسی کے خاندان کے بچے سے حضرت یوسف کی بے گناہی کی شہادت دلوا کر انہیں با عزت بری کروا دیا۔ جب مصر کی عورتوں نے بادشاہ کی بیوی پر ملامت کی تو اس نے حسن یوسف کا مظاہرہ کرنے کے لئے عورتوں کی دعوت کر کے یوسف علیہ السلام کو سامنے بلوایا۔ تمام عورتیں حسن یوسف کو دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گئیں اور پھلوں کو کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ بھی کاٹ بیٹھیں اور ان کے حسن کی تعریف کر کے انہیں دعوت گناہ دینے لگیں۔ یوسف علیہ السلام نے گناہ پر قید کو ترجیح دی اور بادشاہِ وقت نے اپنی عزت بچانے کی خاطر انہیں قید کر دیا۔ یوسف علیہ السلام جیل میں بھی تبلیغ و تعلیم کے فریضہ سے غافل نہ رہے۔ دو قیدیوں نے خواب دیکھا یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی۔ ایک قیدی قتل ہوا دوسرا رہا ہو کر بادشاہ کا خادم بنا بادشاہ نے خواب دیکھا، اس خادم نے یوسف علیہ السلام سے تعبیر پوچھی انہوں نے بتایا کہ سات موٹی تگڑی گایوں کو دبلی پتلی گایوں کا کھانا اور سات خشک بالیوں کا تر و تازہ بالیوں کو، مستقبل میں سات سالہ قحط کا اشارہ ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی بیان کر دیا۔ بادشاہ نے تعبیر سے متاثر ہو کر رہائی کا فیصلہ کیا مگر یوسف علیہ السلام نبوت کے دامن کو داغدار ہونے سے بچانے کے لئے تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر انہیں بے گناہ قرار دے کر رہائی ملی اور شاہ مصر نے اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔



کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں