*پارہ~~~18~~~قَدْ اَفْلَحَ*


               *سورہ المؤمنون*
یہ مکی سورت ہے۔ ایک سو اٹھارہ آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔ 
ابتداء میں مؤمنین کی اعلیٰ صفات کا تذکرہ ہے، اس لئے سورت کو المؤمنون کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ 
ایسے مؤمن کامیابی کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوں گے جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کا مظاہرہ کرتے ہیں، بے مقصد باتوں سے گریز کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ قابل ملامت ہیں اور نہ ہی حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ جو اپنے عہد و پیمان کے محافظ اور امانتدار ہیں۔ پنج وقتہ نمازوں کے پابند ہیں، یہی لوگ جنت الفردوس کے دائمی وارث ہیں۔ 
اس کے بعد تخلیق انسانی کے مختلف مراحل کو ایسے معجزانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ تعصب اور ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر مطالعہ کیا جائے تو بے اختیار قدرت خداوندی اور حقانیت قرآنی کا اعتراف زبان پر جاری ہو جاتا ہے۔ مٹی کے جوہر سے انسان کی تخلیق کی ابتداء ہوئی پھر نطفہ، علقہ، مضغہ کے مراحل پھر ہڈیاں اور گوشت بننے کا مرحلہ (اس کے بعد شکم مادر سے باہر آنے کا کراماتی مرحلہ پھر دنیا کی عارضی زندگی پھر موت کے بعد قبر میں دفن ہونے کا مرحلہ) ان تمام مراحل کے بعد قیامت کے دن کے احتساب کے لئے بوسیدہ ہڈیوں اور گوشت کے بکھرے ہوئے ذرات کو جمع کر کے پھر سے زندہ کرنے کا آخری مرحلہ۔ آپ غور تو کریں کہ اس مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ انسانی تخلیق کا کارنامہ سر انجام دینے والا کس قدر برکتوں والا ہے۔ 
اللہ نے ساتوں آسمان بنائے، پانی برسایا، زمین کے اندر جذب کرنے کی صفت کے پیش نظر اس پانی کے جذب ہو کر غائب ہو جانے کا یقینی امکان تھا مگر اللہ نے مخصوص فاصلہ پر اس پانی کو جمع فرما کر انسانی ضروریات کے لئے زمین کے اندر روک کر محفوظ کر لیا۔ پھر اس پانی سے باغات پھل پھول اور پودے پیدا فرمائے۔ بلندیوں پر پیدا ہونے والا زیتون کا درخت اگایا جس سے چکنائی والا تیل حاصل ہوتا ہے اور کھانے والوں کا لقمہ اس سے تر کیا جاتا ہے۔
 جانوروں میں بھی سبق آموز نشانیاں موجود ہیں۔ ان کے پیٹ سے تمہیں دودھ کی شکل میں بہترین مشروب اور دوسرے فوائد بھی عطاء کئے جاتے ہیں۔ تمہاری خوراک کی ضروریات ان سے پوری ہوتی ہیں ان جانوروں اور کشتیوں سے تمہاری سواری اور بار برداری کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔ 
اس کے بعد سلسلۂ نبوت کا تذکرہ شروع ہو گیا۔ ابو البشر ثانی حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت توحید دی تو وہ بھونڈے اعتراض کرنے لگے۔ آپ کی ایک انسان سے زیادہ حیثیت ہی کیا ہے؟ 
آپ دین کے نام سے ہم پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اللہ نے رسول بنانا ہی تھا تو کسی فرشتے کو رسول بنا دیتے۔ نوح علیہ السلام نے قوم کے جھٹلانے کی شکایت اللہ کے دربار میں پیش کی، اللہ نے کشتی بنانے کا حکم دیا۔ آسمان سے پانی برسا کر سیلاب کا عذاب بھیجا۔ نوح علیہ السلام اور ایمان والوں کو کشتی میں بحفاظت تمام بچا لیا اور کافروں کو غرق کر کے آنے والوں کے لئے عبرت کا سامان بنا دیا۔ 
پھر دوسری قومیں اللہ نے پیدا کیں۔ ان میں توحید کا پیغام دے کر رسول بھیجے۔ انہوں نے جھٹلایا اور اعتراضات کئے، ان پر بھی عبرتناک عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا گیا اور ان کے سبق آموز تذکرے بعد میں آنے والوں کے لئے چھوڑ دیئے۔ 
موسیٰ و ہارون علیہمالسلام کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ اس نے تکبر اور بڑائی کی وجہ سے ان کی بات ماننے سے انکار کیا۔ ہر قسم کے وسائل اور مضبوط حکومتی نظام کے باوجود وہ ہلاک ہو کر رہے۔
 عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو بھی ہم نے اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر بھیجا۔ انہیں بہترین ٹھکانہ عطاء کیا۔ انبیاء و رسل کو پاکیزہ خوراک کے استعمال اور نیک اعمال سرانجام دیتے رہنے کی تلقین کے ساتھ بتایا کہ ہماری نعمتیں استعمال کرنے کے باوجود منکرین اپنی سرکشی اور طغیانی سے باز نہیں آتے۔ مگر جب ہم عیش و عشرت میں رہ کر گناہ کرنے والوں کی گرفت کرتے ہیں تو پھر یہ ہماری پناہ حاصل کرنے کے لئے دوڑتے ہیں۔ ایسے وقت میں ان کی کوئی مدد نہیں کی جاتی۔
 حق کو اگر ان کی خواہشات کا تابع بنا دیا جائے تو کائنات میں فساد برپا ہو جائے۔ پھر قدرت خداوندی اور توحید کے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ اللہ ہی نے آنکھ کان اور دل عطاء فرما کر انسان کو اس سرزمین میں پیدا کیا۔ زندگی اور موت اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ دن اور رات کو وہی لاتا ہے مگر یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے یہ کہتے ہیں کہ مر کر ہم پیوند زمین اور بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے کیا پھر بھی ہمیں دوبارہ پیدا کر لیا جائے گا۔ ایسے وعدے ہمارے آباء و اجداد سے بھی کئے جاتے رہے۔ یہ سب افسانہ تراشیاں ہیں۔ آپ ان سے پوچھئے آسمان و زمین اور اس پر بسنے والوں کا مالک کون ہے۔ یہ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے مگر نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ 
ان سے پوچھئے! ساتوں آسمان اور عرش عظیم کس کا ہے یہ کہیں گے اللہ ہی کا ہے پھر بھی یہ تقویٰ اختیار نہیں کرتے۔ ان سے کہئے کہ ہر چیز پر کس کی حکمرانی ہے جو پناہ دے سکتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ یہ کہیں گے کہ اللہ ہی ہے مگر پھر بھی سحر زدہ افراد کی طرح کہاں بہکے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود شریک ہے۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں اللہ ان سے پاک ہے 
دین کے داعیوں کے لئے کچھ رہنما اصول بیان کرتے ہوے فرمایا تواضع اور انکساری کے ساتھ اللہ سے مانگو کہ تمہیں ظالموں کا ساتھی نہ بنائے۔ کافروں کے ساتھ بھی خوش گفتاری اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرو اور شیطانی وساوس سے اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔
 اس کے بعد قیامت اور اللہ کے دربار میں پیشی کا منظر دکھایا کہ اعمال اور ایمان کی بنیاد پر جن کے نامۂ اعمال کا وزن بھاری ہو جائے گا وہ کامیاب ہوں گے جبکہ ہلکے نامۂ اعمال والے ناکام و نامراد ہوں گے۔ انہیں ذلت و رسوائی کا سانا کرنا پڑے گا۔ 
قیامت کے دن ایسا محسوس ہو گا کہ دنیا کی زندگی ایک آدھ دن سے زیادہ نہیں تھی۔ اللہ نے انسانوں کو بے مقصد اور بے کار پیدا نہیں کیا ہے جو اللہ کے ساتھ بلا دلیل معبودانِ باطل کو شریک کرے گا اس کا سخت محاسبہ ہو گا ایسے کافر بھی فلاح نہیں پا سکیں گے۔ آپ اللہ سے اس کی رحمت و مغفرت طلب کرتے رہیں وہ بہترین رحم کرنے والا ہے۔

              *سورہ النور*
یہ مدنی سورت ہے۔ چونسٹھ آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے،
 اس سورت میں پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے کے زرین اصول بیان 
کئے گئے ہیں اور بھرپور انداز میں قانون سازی کا عمل سر انجام دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی توحید کے موضوع پر بھی دلائل و شواہد پیش کئے گئے ہیں۔ 
زنا کار مردوں عورتوں کو بے رحم قانون کے شکنجہ میں کسنے کا حکم دیا ہے اور سزا کو مؤثر بنانے کے لئے عوام کے مجمع کے سامنے سزا نافذ کرنے کی تلقین ہے تاکہ زانی کو زیادہ سے زیادہ تکالیف اور ذلت و رسوائی ہو اور سزا کا مشاہدہ کرنے والوں کے لئے بھی عبرت و موعظت کی صورت پیدا ہو۔ 
غیر شادی شدہ مرد و عورت ارتکاب زنا کی صورت میں سو کوڑوں کے مستحق قرار دیئے گئے ہیں اور زانی اور مشرک کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا گیا ہے۔ زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی شرط عائد کی گئی ہے اور زنا کی جھوٹی تہمت لگانے پر اسی کوڑوں کی سزا کا اعلان کیا گیا ہے اور مستقبل میں ایسے شخص کو مردود الشہادۃ قرار دیا گیا ہے۔ 
میاں بیوی میں اگر اعتماد کا فقدان ہو جائے اور شوہر کو بیوی پر زناکاری کے حوالہ سے اعتراض ہو مگر اس کے پاس گواہ موجود نہ ہوں اور بیوی اعتراف نہ کرتی ہو تو اس بے اعتمادی کی حالت میں خاندانی زندگی مشکلات کا شکار ہو جائے گی، اس لئے ایسی شادی کو ختم کرنے کے لئے ’’لعان‘‘ کے نام سے قانون وضع کیا گیا ہے۔ 
جس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر عدالت کے اندر اپنے الزام کو حلفیہ طور پر چار مرتبہ دہرائے اور اپنی صداقت کا اعتراف کرے اور پانچویں مرتبہ یوں کہے کہ میرے جھوٹا ہونے کی صورت میں مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔
 جبکہ بیوی چار مرتبہ حلفیہ طور پر شوہر کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹا قرار دے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر شوہر اپنی بات میں سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس کے بعد عدالت ان میں علیحدگی کا فیصلہ کر دے اور آئندہ انہیں میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے کے حق سے محروم کر دے۔
 اس کے بعد واقعہ افک اور اس کے متعلق احکام کا بیان ہے۔ جہاد کے ایک سفر میں حضرت عائشہ حضور علیہ السلام کے ہمراہ تھیں، ایک جگہ پڑاؤ کے موقع پر وہ قضاء حاجت کے لئے گئی ہوئی تھیں کہ لشکر کو روانگی کا حکم دے دیا گیا اور وہ لشکر سے پیچھے رہ گئیں۔ پیچھے رہ جانے والے سامان کی دیکھ بھال کے لئے مقرر شخص صفوان بن معطل بعد میں حضرت عائشہ کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو منافقین نے یہودیوں کے ساتھ مل کر افواہوں اور جھوٹے الزامات کا ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی پاکبازی اور برأت کا اعلان کیا اور ایسی صورتحال کے لئے رہنما اصول بیان فرمائے۔
 قرآن کریم نے فرمایا کہ زنا کے الزام کی صورت میں اگر چار گواہ پیش نہ کئے جا سکیں تو الزام لگانے والے کو جھوٹا شمار کر کے ’’حد قذف‘‘ کا مستحق قرار دے کر کوڑوں کی سرعام سزا جاری کی جائے تاکہ آئندہ کے لئے ایسی افواہوں اور الزامات کے پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور دوسروں کی کردار کشی کی ناجائز حرکتوں کا سد باب ہو سکے۔
 دوسروں پر الزام لگانے کو معمولی نہ سمجھا جائے، اس سے معاشرہ میں بے حیائی کا حجاب اٹھتا ہے اور اسلامی معاشرہ کے ایک معزز شخص کی عزت کی پامالی اور کردار کشی ہوتی ہے، لہٰذا اگر بلا ثبوت ایسا کوئی الزام سامنے آئے تو یہ سوچ لو کہ ایسی کوئی بات اگر تمہارے بارے میں کہی جائے تو تمہارا رویہ کیا ہو گا اور اس جھوٹے الزام کو اپنے بارے میں تم کس حد تک تسلیم کرو گے۔ اگر اپنے بارے میں تسلیم نہیں کرتے تو دوسرے کے باروں میں اس طرح تسلیم کر لینے کا کیا جواز ہے۔ تمہیں تو اس قسم کی باتوں کا تذکرہ بھی زبان پر لانے سے گریز کرنا چاہئے۔
 فحاشی اور عریانی کی باتیں پھیلانے والوں کے لئے دنیا میں کوڑوں کی شکل میں آخرت میں جہنم کی آگ کی شکل میں دردناک عذاب ہے۔
 اس واقعہ میں حضرت ابوبکر کی زیر کفالت ان کا ایک رشتہ دار مسطح بن اثاثہ بھی ملوث تھا جب ان کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت عائشہ کی برأت کے لئے آیات قرآنیہ نازل ہو گئیں تو صدیق اکبر نے ان کی کفالت سے دستکشی اختیار کر لی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مالی وسعت رکھنے والوں کو زیب نہیں دیتا کہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر کسی کی روزی کو بند کرنے کی کوشش کریں۔ عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ بھی تم سے عفو و درگزر کا معاملہ فرمائیں۔ اس ارشاد قرآنی کے بعد صدیق اکبر نے فوراً ہی ان کا وظیفہ بحال کر دیا۔
 اس کے بعد قرآن کریم نے بتایا کہ بے حیا اور بدکار مرد و عورتیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے لئے ہیں۔ جبکہ پاکیزہ اور صالح مرد و عورتیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے لئے ہیں۔ لہٰذا عائشہ صدیقہ جب حضور علیہ السلام جیسے پاکیزہ اور نیک لوگوں کے سردار کی بیوی ہیں تو ان کی پاکبازی میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔
 گھروں میں داخلہ کے وقت سلام کرنے اور اجازت لے کر اندر جانے کی تلقین اور عورتوں کو اپنی زیب و زینت ظاہر کرنے سے منع کرنے اور پردہ کا اہتمام کرنے کی ترغیب اور مردوں عورتوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ 
پھر آسمان و زمین کی نشانیوں میں غور کر کے اللہ کی قدرت کا اعتراف کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا۔ کافروں کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دے کر بتایا ہے کہ جس طرح سخت گرمی میں صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر پانی کا گمان ہونے لگتا ہے جبکہ اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی اسی طرح کافروں کے اعمال قیامت کے دن بے حقیقت قرار پائیں گے۔
 پھر اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ کرنے والوں کو زمین میں اقتدار دینے کا وعدہ کیا ہے۔
 ایسے مخصوص اوقات جن میں گھر کے اندر زوجین عام طور پر شب خوابی کے لباس میں ہوتے ہیں ایسے وقت میں گھر کے افراد کو بھی بغیر اجازت کے کمرے میں جانے کی ممانعت کی گئی ہے۔
 گھر کی استعمال کی اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں دوسرے کی اجازت کے بغیر استعمال کرنے کے لئے ضابطہ بیان کر دیا کہ معذور حاجتمند ہو یا قریبی رشتہ داری اور تعلق ہو جس کے پیشِ نظر اس بات کا یقین ہو کہ مالک برا نہیں منائے گا تو اس کی چیز کو بلا اجازت استعمال کی اجازت ہے۔

              *سورہ الفرقان*
یہ مکی سورت ہے، ستتر آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔
 قرآن کریم حق و باطل میں امتیاز کی تعلیم دیتا ہے اور دنیا کو اللہ کی طاقت سے ڈرانے کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ اللہ کی نہ بیوی ہے نہ اولاد وہ تمام کائنات کا بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ معبودان باطل نہ زندگی اور موت کا اختیار رکھتے ہیں نہ ہی نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی عبادت بے سود ہے۔
 پھر کافروں کے قرآن کریم پر بے جا اعتراضات اور نبی سے بے جا مطالبات کا تذکرہ کر کے بتایا گیا ہے کہ ان کے مطالبے پورے کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے لیکن یہ ہٹ دھرم ماننے والے نہیں ہیں اس لئے ان کی مطلوبہ باتیں پوری کر دینا ان کے کفر میں اضافہ کا باعث بنے گا اور اس سے ان پر ہلاکت اور عذاب اترنے کی راہ ہموار ہو گی اس لئے انہیں اپنے حال پر رہنے دیں۔
 قیامت کے دن ان کے معبود ان سے برأت کا اظہار کرنے لگیں گے اور یہ اپنے معبودوں سے برأت کا اظہار کریں گے۔قیامت کے دن انہیں نجات کا کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ نہ مالی رشوت سے کام چلے گا اور نہ ہی کوئی معاون و مددگار وہاں پر ہو گا۔ وہاں پر ہم ظالموں کو دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
 آپ سے پہلے انبیاء و رسل بھی بازاروں میں جاتے اور کھانا کھاتے تھے ان کی قوم ان پر بھی اعتراضات کرتی تھی۔ ہم نے لوگوں کو ایک دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے ان سے کہئے۔ کچھ صبر کریں اور ہمارے عذاب کا انتظار کریں آپ کا رب سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں